حدیث قدسی یا حدیث قدسیہ

حدیث قدسی یا حدیث قدسیہ

حدیث قدسی وہ کلام ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کوکبھی جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ سے اور کبھی وحی، الہام یا خواب کے ذریعے بتایا پھر آپ ﷺ اسے بیان فرمایا۔

احادیث قدسیہ کے الفاظ و معانی کے بارے میں علماء کرام کی دو رائے ہیں:

(الف) الفاظ و معانی دونوں اﷲ رب العزت کی طرف سے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ ا ﷲ رب العزت کی طرف منسوب کر کے نقل کئے جاتے ہیں۔ ان کے نام میں ’’قدسیہ‘‘، ’’الٰہیہ‘‘ یا ’’ربانیہ‘‘ کا اضافہ اور متکلم کا صیغہ بھی اسی کی طرف مشیر ہے۔

(ب) معنی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر الفاظ اور تعبیر رسول اکرم ﷺ کی ہے۔اسی وجہ سے احادیث قدسیہ کے الفاظ سے اعجاز متعلق نہیں ہیں اور ان کی روایت میں بھی اختلاف کی گنجائش ہے۔اس میں روایت بالمعنٰی بھی جائز ہے۔​

عام حدیث نبوی کی سند رسول اﷲ ﷺ پر ختم ہو جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی سند اﷲ جل شانہ تک پہنچتی ہے ۔لیکن اس سے عام حدیث نبوی کے منجانب اﷲ ہونے کی نفی لازم نہیں آتی کیونکہ آپ ﷺ کا ہر کلام اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾سورة النجم
’’وہ (نبی ) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ جو کچھ بھی کہتے ہیں اﷲ کی طرف سے وحی کیا ہوا ہوتا ہے۔ ‘‘

احادیث قدسیہ پر روایت حدیث کے تمام قواعد و ضوابط کا اجراء ہوتا ہے اور انہیں صحیح، حسن، ضعیف بلکہ موضوع تک قرار دیا جا سکتا ہےجبکہ قرآن کریم پر یہ اصطلاحات چسپاں نہیں کی جا سکتیں۔

قرآن کریم روح الامین کے واسطہ کے بغیر نازل نہیں ہوتا اور انہی متعین الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے جو لوح محفوظ سے نازل کئے گئے اور ہر طبقہ اور زمانہ میں متواتر منقول ہوتا ہے۔ قرآن کریم کو آیتوں اور سورتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کی روایت بالمعنیٰ جائز نہیں ہے۔ اس کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قرات قرآن کریم کے بغیر نماز ادا نہیں ہوسکتی۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی بھی قسم کے تغیر و تبدل سے حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ کے لئے ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ کی بات یہ ہے کہ حدیث قدسی کے الفاظ کو تواتر کا مقام حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے الفاظ میں اعجاز ہے اور نہ ہی اس کے تغیر و تبدل سے حفاظت کی ربانی ذمہ داری ہے۔

احادیث قدسیہ کے مضامین:

عام احادیث نبویہ کے مقابلہ میں احادیث قدسیہ کی تعداد بہت کم ہے۔ اسی وجہ سے ان میں بیان شدہ مضامین بھی کم ہیں۔ البتہ ’’قول ربانی‘‘ ہونے کی بناء پر ان احادیث کا مخصوص دائرہ کار اور منفرد چھاپ ہے۔ احادیث قدسیہ میں غور و خوض سے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت ان میں بیان شدہ مضامین کا خلاصہ نکالا جا سکتا ہے:

1۔ عقیدۂ توحید کی پختگی : ایک مخصوص انداز میں عقیدۂ توحید کی اصلاح اور ا س میں پختگی کادرس دیا جاتا ہے۔ کفر و شرک سے علیحدگی اور دوری کی تعلیم ہوتی ہے۔شکوک و شبہات سے پاک کیا جاتا ہے۔ خالق کائنات کی عظمت و جلال اور صفات الٰہیہ کی انفرادیت اور کمال کا بیان ہوتا ہے اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ یکسو ہو کر متوجہ الی اﷲ ہونے پر برانگیختہ کیا جاتا ہے۔
2۔ عبادات میں حسن و خوبصورتی پیدا کرنا : فرض اور نفل عبادات۔ نماز،روزہ،حج، زکوة ، ذکرو نوافل کو پورے اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ ثواب کی نیت سے ادائیگی کی ترغیب دی جاتی ہے۔
3۔ اخلاق و کردار کی بلندی :اچھی صفات، نیکی کا جذبہ،صلہ رحمی، خدمت خلق،صالحین کی محبت،امر بالمعروفاورنہی عن المنکر کی خوبیاں بیان کر کے ان اعمال کا شوق و جذبہ ابھارا جاتا ہے۔
4۔ فنا فی اﷲ : رضاء بالقضاء، دربار خداوندی میں حاضری کا شوق،اپنے خالق و مالک کی رضامندی کے حصول اور اطاعت شعاری میں جان و مال لٹا دینے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔
5۔ آخرت کی تیاری :قیامت کے دن کی جزاوسزا کے استحضار کے ساتھ توبہ واستغفار کے اہتمام، خوف و رجاء کی کیفیت،اعمال صالحہ کے ذریعے قرب خداوندی اور حصول شفاعت کی کوشش اور رحیم و کریم ذات کی وسیع و لامتناہی رحمتوں پر کامل اعتماد کے ساتھ آخرت کی تیاری اور اس کا شوق و جذبہ بیدار کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کی بات یہ ہے کہ احادیث قدسیہ الوہیت و عبودیت کے معنی میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔اچھی اقدار کی گہرائی و گیرائی کو واضح کرتی ہیں۔ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے دائرہ کار سے نکل کر فقہی مسائل و احکام اور معاملات میں دخل انداز نہیں ہوتیں۔

احادیث قدسیہ کا اپنا منفرد اسلوب ہے جو ان کے موضوع و مضمون کے ساتھ انتہائی مناسبت رکھتا ہے۔ براہ راست گفتگو کا انداز اپنایا گیا ہے۔ جس میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک’’ مقدس پکار‘‘ ہوتی ہے یا آقا اور غلام کے درمیان سرگوشی کا پیار بھرا انداز ہوتا ہے۔غرضیکہ ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جس سے خالق و مخلوق، عابد و معبود اور بندے اور آقا کے درمیان رابطہ میں پختگی اور گہرائی پیدا ہو جائے۔

بہرحال احادیث قدسیہ کا اسلوب اپنی تمام صورتوں میں تاثیر میں ڈوبا ہوا اپنے اندر’’ روحانی چھاپ‘‘ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترغیب و ترہیب کی کتابوں میں مصنفین نے احادیث قدسیہ سے زیادہ استفادہ اوراستدلال کیا ہے۔

حدیث شریف کی نشر و اشاعت اور تعلیم و تعلم میں مشغولیت ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور خوش قسمت ہیں وہ انسان جن کے شب و روز حدیثِ نبوی کے پڑھنے پڑھانے اور تشریح و توضیح میں گزرتے ہیں ؎

(محدثین کرام وہ خوش نصیب لوگ ہیں کہ انہیں اگرچہ آپ ﷺ کی صحبت تو حاصل نہیں ہوئی، مگر آپ کے ارشادات کی صحبت ضرور حاصل ہے )۔

ترمذی: (2658) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’ اﷲ تعالیٰ اس شخص کو پر رونق اور تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے کچھ سنا اورجیسے سناتھا ویسے ہی آگے پہنچادیا کیونکہ بسا اوقات براہِ راست سننے والے سے بالواسطہ سننے والا زیادہ سمجھدار اور محفوظ کرنے والا ہوتا ہے ‘‘۔۔۔ البانی نے اسے "صحیح الجامع"(2309) میں صحیح قرار دیا ہے۔

نیز بزار: (3416) میں محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سن کر یاد کرے اور پھر اسے دوسروں تک ایسے ہی پہنچائے جیسے اس نے سنا تھا‘‘۔

یہ نبی کریم ﷺ کی ایسی دعا ہے کہ اس سے ہر مسلمان ہر دور میں فیضیاب ہوسکتا ہے اوراسی سعادت کے حصول کی نیت سے یہ چند سطور قلمبند کی گئی ہیں۔

حدیث شریف کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مطالعۂ حدیث کا منشاء محض علمی سیر یا وقت گزاری نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایمان کی تازگی، محبتِ رسول میں ترقی، حصول ہدایت اور عمل کرنے کی نیت سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اور حدیث کی کتاب پڑھتے وقت رسول اﷲ ﷺ کی عظمت و محبت کے جذبات سے دل سرشار ہونا چاہئے اورایسے ادب اور توجہ سے پڑھا جائے یاسنا جائے کہ گویا حضور ﷺ کی مجلس اقدس میں حاضر ہیں اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں اور ہم سن رہے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے نبی ﷺ کے کلام کا ادب و احترام نصیب فرمائے (آمین)۔

آئندہ ہم چنداحادیث قدسی شیئر کریں گے‘ ان شاء اللہ

حوالہ : اس مضمون کو لکھنے میں مفتی عتیق الرحمٰن شہیدنور اللہ مرقدہ کی کتاب ’’ حدیث قدسی‘‘ سے استفادہ حاصل کیا گیاہے۔
 
Top