حجابِ شعر۔ عبیدہ انجم

الف عین

لائبریرین
حجابِ شعر

عبیدہ انجمؔ​

حجابِ شعر میں اس طرح پوشیدہ ہوں میں انجم
کہ جیسے پ میں خوشبو ، جو بس محسوس ہ
 

الف عین

لائبریرین
ابتدائی اشعار (شادی کے بعد)

میرے تخیلات کی دنیا صد آفریں
اپنے مکاں میں رہتی ہوں اپنے مکاں سے دور
پردیس میں نصیب مرا لے کے آ گیا
ہوں آج بی* سے، بھائیوں سے، اور میاں* سے دور


۔۔۔۔
* بی اور میاں والدین کو کہا جاتا تھا
 

الف عین

لائبریرین
اٹھا اے مطربہ اپنا رباب آہست آہستہ
ابھرنے دے یمِ دل میں حباب آہستہ آہستہ

مرا دل جو کبھی رنگیں تمنّاؤں کا مسکن تھا
ہوا جاتا ہے اب خانہ خراب آہستہ آہستہ

محبت در حقیقت ایک ایسی موجِ دریا ہے
جو بڑھتی ہے بشکلِ اضطراب آہستہ آہستہ

خزاں آنے سے یہ اہلِ چمن اندوہگیں کیوں ہیں
عروسِ گل بھی ہو گی بے نقاب آہستہ آہستہ

کرے میری بلا ساقی کی منت جب کہ وہ خود ہی
چلا آتا ہے لے کر جامِ ناب آہستہ آہستہ

مجھے اس طرح یاد آتی ہیں وہ گزری ہوئی باتیں
کہ جیسے آتے ہوں رنگین خواب آہستہ آہستہ

نہ ہو کیوں رونق انجمؔ محفلِ گردوں میں آتا ہے
ضیائیں اپنی لے کر ماہتاب آہستہ آہستہ

کرم آمادہ ہے چشمِ عتاب آلودہ آج ان کی
دعائیں ہو رہی ہیں مستجاب آہستہ آہستہ
۔۔۲/ اپریل ۱۹۴۳، شائع شدہ زیب النساء، لاہو ر
***
 

الف عین

لائبریرین
دنیا کو اپنا تابعِ فرماں بناؤں گی
پھر آج چشمِ دوست کو حیراں بناؤں گی

دنیا کی موج موج کو طوفاں بناؤں گی
اس طرح مشکلات کو آساں بناؤں گی

جلوہ نما اسے کسی عنواں بناؤں گی
دنیائے رنگ و نور کو حیراں بناؤں گی

قائم رہی اگر یہ مری وسعتِ نگاہ
ذرّے کو آفتابِ درخشاں بناؤں گی

شبنم صفت بہا کے ہر اشکِ لطیف کو
دریائے بے بہا کو میں ارزاں بناؤں گی

سمجھے نہ سمجھے کوئی اسے لیکن اے بدیم
ہر شکلِ آرزو کو نمایاں بناؤں گی

انجمؔ ہر ایک کارِ بیاباں کو ایک دن
آسودۂ بہارِ گلستاں بناؤں گی
۔۔ مئی ۱۹۴۵ء
******
 

الف عین

لائبریرین
وفا میں ڈوب جانا چاہتی ہوں
الم میں مسکرانا چاہتی ہوں

حریمِ دل سجانا چاہتی ہوں
انہیں مہماں بلانا چاہتی ہوں

میسر ہو جہاں تسکینِ خاطر
وہیں دنیا بسانا چاہتی ہوں

جبیں اپنی کسی کے در پہ رکھ کے
مقدر آزمانا چاہتی ہوں

کہاں تک دوریِ منزل کا خطرہ
ترے نزدیک آنا چاہتی ہوں

تمنا، آرزو کچے ہے تو یہ ہے
کہ میں تجھ میں سمانا چاہتی ہوں

خوشا میرا صعودِ عشق انجم
فلک پر جگمگانا چاہتی ہوں

۔۔مارچ ۱۹۴۹ء
***
 

الف عین

لائبریرین
***

احساسِ محبت کی ادنیٰ یہ نشانی ہے
آہوں میں تلاطم ہے،اشکوں میں روانی ہے

برداشتہ خاطر ہوں دنیا کے جھمیلوں سے
دنیا سے الگ مجھ کو اک دنیا بسانی ہے

ہنگامِ سحر جس کو ہم سنتے ہیں گلشن میں
شبنم کی کہانی ہے،پھولوں کی زبانی ہے

ہونتوں پہ جو رہتا ہے، وہ ہے ترا افسانہ
جو دل پہ ہے مستولی، وہ تیری کہانی ہے

غم حاصلِ عشرت ہے،پھولوں پہ نظر ڈالو
کلیوں کا تبسم بھی مٹنے کی نشانی ہے

ہر لفظ ہو گلدستی رنگینی و نکہت کا
اشعار کے پھولوں سے اک بزم سجانی ہے

مجبوری و ناکامی ہے نام محبت کا
ہر ذرے کو اے انکم، یہ بات بتانی ہے
۔۔ اپریل ۱۹۴۹ء
***
 

الف عین

لائبریرین
خیال اپنا ہٹا کر کہکشاں اور ماہِ تاباں سے
ملانا چاہتی ہوں اب نگاہیں حسنِ جاناں سے

بہت کی جستجو میں نے حرم اور دیر میں تیری
مگر پایا تجھے نزدیک اپنی ہی رگِ جاں سے

چمن میں صرف بلبل ہی نہیں آشفتہ سر ہمدم
پتہ تو یہ ہی چلتا ہے گلوں کے چاک داماں سے

ما کر اپنی ہپستی کو حقیقت آشنا ہو جا
اسے پہچان لے دامن بچا کر کفر و عصیاں سے

نشیمن کی بنا پڑتے ہی بجلی نے جلا ڈالا
ابھی مانوس نھی ہونے نہ پائے تھے گلستاں سے

مری کمزور کشتی آ رہی ہے موج کی زد میں
الٰہی خیر ہو، پھر کشمکش ہے زورِ طوفاں سے

زمانہ جھوم جائے اور ہر اک پر وجد طاری ہو
وہ نغمہ چھیڑ اے انجمسلاسل ہائے زنداں سے

۔۔ اپریل ۱۹۴۹ء
***
 

الف عین

لائبریرین
جو فریبِ رہگزر ہیں وہی نقشِ پا متائیں
نئے راستے نکالیں۔ نئی نزلیں بنائیں

نہیں مستقل چمن میں ابھی موسمِ بہاراں
کبھی مسکرائیں غنچے تو سنبھل کے مسکرائیں

ہو نوید زندگی کو ہے قریب کامرانی
جو بڑھے ہوئے ہوں آگے، وہ قدم نہ ڈگمگائیں

ہیں اسیرِ طرزِ کہنہ یہ نظامِ نو کے داعی
جو سکوتِ دل ہو ایسا کوئی انقلاب لائیں

کسی غمزدہ کی آںکھیں سوئے آسماں اٹھی ہیں
یہ فلک یہ ماہ و انجم کہیں گر کے رہ نہ جائیں

مرا عزم مستقل ہے کوئی حادثوں سے کہہ دو
رہیں ہوشیار مجھ سے، مرے راستے میں نہ آئیں

ہے یقیں ملے گا ساحل اسی موجِ مضطرب میں
جنھیں ہو ملالِ طوفاں، وہ یہں پہ ڈوب جائیں

ہو امیں پہ امن قائم، یہ دلیلِ ارتقاء ہے
نہیں ارتقائے انساں، جو ہیں زیر پا خلائیں

نئی منزلیں ملیں گی رہِ زندگی میں انجم
اسی ذوقِ جستجو کو چلو راہبر بنائیں

۔۔ اپریل ۱۹۵۶ء
 

الف عین

لائبریرین
میں بہاروں کے گیت گاتی ہوں
چاند تاروں کے گیت گاتی ہوں

آنشاروں کے گیت گاتی ہوں
کوہساروں کے گیت گاتی ہوں

بڑھ کے جو پھونک دیں نظامِ کہن
اُن شراروں کے گیت گاتی ہوں

گھر کے چاروں طرف سے طوفاں میں
میں کناروں کے گیت گاتی ہوں

میرا دامن جو تھام لیتے ہیں
ان ہی خاروں کے گیت گاتی ہوں

کام جو لغزشوں میں آ جائیں
اُن سہاروں کے گیت گاتی ہوں

چھیڑ کر سازِ مفلسی انجم
غم کے ماروں کے گیت گاتی ہوں

۔۔جون ۱۹۵۶ء
شائع شدہ شاعر ممبئی
***
 

الف عین

لائبریرین
جو زندگی کی کشاکش سے تنگ آئے ہیں
وہ آدمی تو نہیں، آدمی کے سائے ہیں

زمانہ لاکھ مٹائے، مٹا نہیں سکتا
ہم ایسے نقش بھی راہوں میں چھوڑ آئے ہیں

یہ سادہ لوحی ہماری کہ آزما کر بھی
وفا کے نام پہ اکثر فریب کھائے ہیں

نہ مل سکا جنیہں دامن خلوص کا اب تک
کچھ ایسے اشک بھی پلکوں پہ تھرتھرائے ہیں

یہ انتشار، یہ بد نظمیِ چمن انجم
بہار پر بھی مسلّط خزاں کے سائے ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
الجھنوں سے جو پیار کرتے ہیں
زندگی استوار کرتے ہیں

خشک شاخوں کو دے کے اپنا لہو
انتظارِ بہارکرتے ہیں

رکھ کے ماضی کے تجربوں پہ اساس
حال کو سازگار کرتے ہیں

صاف گوئی پہ جب ہو پابندی
خامشی اختیار کرتے ہیں

***
 

الف عین

لائبریرین
جھولا

آؤ سکھیو جھولا جھولیں آئی ہے برسات

بجلی چمکے بادل گرجے مست پون لہرائے
رم جھم رم جھم مینہا برسے جھولا ہلوریں کھائے
آؤ ری سکھیو۔۔۔۔۔۔۔

پاپی پپیہا جنگل جنگل پی کی تان لگائے
کویل بولے ڈالی ڈالی سنگ ہمارے گائے
آؤ ری سکھیو۔۔۔۔۔۔۔

لمبی لمبی پینگ بڑھائیں آم کی پتی لائیں
یہ رنگ رلیاں بالے پن کی جانے کہاں کھو جائیں
آؤ ری سکھیو۔۔۔۔۔۔۔

***
 

الف عین

لائبریرین
برکھا رت

رنگیں فضائیں
بھیگی ہوائیں
دلکش مناظر
کالی گھٹائیں
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

سر سبز گلشن
سرشار صحرا
نکھرا ہوا ہے
پھولوں کا چہرہ
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

شاداب پتّے
مسرور غنچے
بربط بجا کر
گاتے ہیں نغمے
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

پھولوں کے رخ پر
رعنائیاں ہیں
رعنائیاں ہیں
رنگینیاں ہیں
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

فرشِ زمیں پر
گلپوش وادی
اوجِ فلک پر
قوسِ قزح بھی
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

پانی کی پریاں
آئیں فلک پر
موتی لٹائے
الفیں جھٹک کر
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

فرطِ طرب سے
طائر چہکتے
کلیاں چٹکتیں
گلشن مہکتے
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

گل اور بلبل
شاداں و فرحاں
ہیں تتلیاں بھی
رقصاں و لرزاں
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی



بگلوں کا اڑنا
کالی گھٹا میں
کوئل کی کوکو
بھینی فضا میں
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

قالین دھانی
ہر سو بچھا ہے
صحنِ گلستاں
کیا دلربا ہے
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

انجم یہ رُت بھی
کتنی حسیں ہے
فرشِ زمیں کیا
عرشِ بریں ہے
برکھا کی رت ہے
کیسی سہانی

۔۔ اگست ۱۹۴۲ء
شائع شدہ زیب النساء لاہور
***
 

الف عین

لائبریرین
شکایت

ایک خاص واقعے سے متاثر ہو کر​

آرام و سکوں ہوئے روانہ
دل درد کا ہو گیا ٹھکانہ
افراظ، الم اسی سے پوچھو
جس کا کہ جلا ہو آشیانہ
کیا بدلی نگاہِ مہر آگیں
گویا کہ بدل گیا زمانہ
دنیا سے وفا کی ہیں امیدیں
تیرا یہ خیال جاہلانہ
قرآن ہو اندگی کا مقصد
انجم ہو روش بھی سوفیانہ
۔۔ ستمبر ۱۹۴۵ء

***
 

الف عین

لائبریرین
کیا یاد بھی ہیں تم کو وہ تین ملاقاتیں
ایک سہیلی کو خط[/CENTER]

وہ پان مرا لانا
تمیارا وہ گھبرانا
’کیا ہرج ہے، کھا بھی لو‘
میرا یہی دہرانا
بھولی تو نہ جائیں گی
پیہم وہ ملاقاتیں

تکرار وہ چائے پر
وہ پیالیاں بھر بھر کر
تمہارا یہی کہنا
’ایک اور دو‘ ہنس ہنس کر
بھولی تو نہ جائیں گی
پیہم وہ ملاقاتیں

کم بخت وہ کیٹل تھی
یا کوئی تماشہ تھی
سینے میں لئے اپنے
اک چائے کا دریا تھی
بھولی تو نہ جائیں گی
پیہم وہ ملاقاتیں

اے گردشِ دوراں پھر
وہ دن ہمیں مل جائیں
امید کہ یہ غنچے
اے کاش کہ کھل جائیں
بھولی تو نہ جائیں گی
پیہم وہ ملاقاتیں

یہ زیست بھی اے انجم
ہے مثلِ حبابِ یم
اس طرح گزر جائے
جو پاس نہ آئے غم
بھولی تو نہ جائیں گی
پیہم وہ ملاقاتیں

۔۔جنوری ۱۹۴۸ء
***​
 

الف عین

لائبریرین
تبریک الم آمیز

عزیزہ بختیار فاطمہ (سہیلی اورمحترم کوثر چاندپوری کی بھتیجی) کی شادی اور ان کی والدہ مرحومہ کی موت کی خبر پا کر

مبارک ہو تمہیں یہ ساعتِ خوش بختیار اپنی
ہوئی ہیں بعد مدت کے دعائیں کامگار اپنی
مبارک آج امی جان کے ارماں ہوئے پورے
تھا جن کا انتظار اب تک وہ سب ساماں ہوئے پورے
نہایت چاؤ سے ارمان سے دلہن بنایا ہے
سہاگن رشتہ داروں نے تمہیں مل کر سجایا ہے
بہن بھائی پدر ماں اور بھاوج صدقے ہوتے ہیں
بزرگوں کی محبت کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں
بپا ہے غلغلہ ہر سو مبارک کا سلامت کا
دکھائی دے رہا ہے ایک نقشہ عیشِ عشرت کا
بصد عشرت تمیہں ماں باپ رخصت آج کرتے ہیں
دلوں میں موجزن خوشیاں ہیں لیکن اشک بھرتے ہیں

امانت جان کر تم کو بڑے نازوں سے پالا تھا
وضاحتؔ کے حوالے وہ امانت آج کرتے ہیں
تمیارا آج سے ہم سب انیہں سرتاج کرتے ہیں
تمیہں حق نے عطا کی ہے ذکا و فہم کی دولت
نئے ماحول کو تم خود بنا سکتی ہو اک جنت
تمیہں اپنے نئے ماحول کی عزّت مبارک ہو
شگفتہ طلعتیں، ہنستی ہوئی صورت مبارک ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑی عشرت پہ اوس اک اطلاع غم مآب آئی
ابھی دو دن نہ گزرے تھے کہ برقِ انقلاب آئی
یکایک محفلِ عشرت پہ کوہِ رنج و غم ٹوٹا
دلِ نغمہ نوا کے ساز کا ہر زیر و بم ٹوٹا
یکایک پیاری امی جان پر سکتہ ہوا طاری
وہ سانس اکھڑی، وہ ڈوبی نبض، سر پر موت آ پہنچی
ہمارے سر سے سایہ اٹھ گیا پیار اور شفقت کا
عنایت کا، مودّت کا، مروّت کا، محبّت کا
کسے معلوم تھا عشرت بدل جائے گی یوں غم سے
مبدّل نغمۂ شادی بھی ہوگا شورِ ماتم سے
اٹل قانونِ قدرست ہے یہاں میں لب کشا ہو کر
بنوں مطعون کیوں انجم مگر شکوہ سرا ہو کر
خدا دیتا ہے جن کو عیش، ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقّارے، وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں‘ (داغ)
۔۔ ستمبر ۱۹۵۰ء
***
 

الف عین

لائبریرین
تضاد

ہم نفس سوچتی رہتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے

آج بھی دیس میں بد نظمی کا عالم ہے وہی
مفلسی ہے وہی فاقے ہیں وہی زرداری
اک طرف ریشم و کم خواب کے زریں ملبوس
اک طرف ننگے بدن چیتھڑوں کو بھی محتاج
اک طرف میز پہ شیشیوں میں ہے دہقان کا خوں
اک طرف بھوک سے فاقوں سے ہے ھالت ابتر
برقی فانوسوں سے ہوتا ہے اُدھر دن کا گماں
اور اِدھر ٹوٹی ہوئی کٹیا کا بجھتا سا چراغ
ریشمی پردے ہیں، قالین ہیں ایرانی اِدھر
اور اُدھر بوریا بھی اُس کے مقدر میں نہیں
اِس طرف ساغرمل رقص و سرود و مستی
اُس طرف یاس و الم مفلسی و ناداری
اِس طرف کتّوں کی بیماری پہ آئے سرجن
اُس طرف مفلس و بیمار دوا کو ترسے
ہر طرف عیش کے سامان میسر اِن کو
اور ازل ہی سے مقدر میں ہے اُس کے تکلیف
جس کی محنت سے انہیں رزق ملے راج کریں
ہائے افسوس صد افسوس وہی بھوکا مرے
رفعت و پستیِ انساں کو اگر دیکھنا ہو
دیکھئے دیکھئے وہ سامنے چوراہے پر
ایک بیٹھے ہیں بڑا پیٹ لئے رکشا پر
ایک مدقوق سا نزدور جسے کھینچتا ہے
ہو کے آزاد بھی پایا نہ کوئی امن و سکوں
چین نایاب ہے یوں کہنے کو ہے جنتا راج

آج بھی دیس میں بد نظمی کا عالم ہے وہی
ہم نفس سوچتی رہتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے
۔۔ ماررچ ۱۹۵۲ء

***
 
Top