آتش حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا
اسیر اے دوست تیرے عاشق و معشوق دونوں ہیں
گرفتار آہنی زنجیر کا یہ، وہ طلائی کا
تعلق روح سے مجھ کو جسد کا ناگوارا ہے
زمانے میں چلن ہے چار دن کی آشنائی کا
فراقِ یار میں مر مر کے آخر زندگانی کی
رہا صدمہ ہمیشہ روح و قالب کی جدائی کا
ہوئی منظور محتاجی نہ تجھ کو اپنے سائل کی
بنایا کاسۂ سر واژگوں کاسہ گدائی کا
نظر آتی ہے ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا
نکل اے جان تن سے تا وصالِ یار حاصل ہو
چمن کی سیر ہے انجام بلبل کو رہائی کا
وصالِ یار کا وعدہ ہے فردائے قیامت پر
یقیں مجھ کو نہیں ہے گور تک اپنی رسائی کا
بھروسا آہ پر ہرگز نہیں اے یار عاشق کو
شکار اب تک کہیں دیکھا نہیں تیرِ ہوائی کا
دکھایا حُسن سے اعجازِ موسیٰ کلکِ قدرت نے
یدِ بیضا بنایا چور انگشتِ حنائی کا
نہیں مٹتی ہے پتھر کی لکیر احباب کہتے ہیں
رہے گا پائے بت پر نقش اپنی جبہہ سائی کا
شکستِ خاطرِ احباب ہوتی ہے درست اس سے
توجہ میں تری اے یار اثر ہے مومیائی کا
دل اپنا آئینے سے صاف عشقِ پاک رکھتا ہے
تماشا دیکھتا ہے حُسن اس میں خودنمائی کا
کفِ افسوس ملواتی ہے تیری پاک دامانی
پنھا کر شاہدِ عصمت کو جامہ پارسائی کا
نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتش نے
بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا
(خواجہ حیدر علی آتش)
 

اوشو

لائبریرین

تعلق روح سے مجھ کو جسد کا ناگوارا ہے
زمانے میں چلن ہے چار دن کی آشنائی کا

نظر آتی ہے ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا


دل اپنا آئینے سے صاف عشقِ پاک رکھتا ہے
تماشا دیکھتا ہے حُسن اس میں خودنمائی کا

نہیں دیکھا ہے لیکن تجھ کو پہچانا ہے آتش نے
بجا ہے اے صنم جو تجھ کو دعویٰ ہے خدائی کا
(خواجہ حیدر علی آتش)

واہ بہت خوب
اعلی انتخاب ہے حسان جی
 
Top