حامیانِ اُردو کی خدمت میں دَعوتِ فِکر وعَملْ

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: جریدہ ماہنامہ دارالعلوم، جولائی 2008



اُردو ہندوستانی زبانوں میں سے ایک اہم زندہ وجاوید، دلکش وشیریں، خیرسگالی، اِتحادپسندی، رواداری، آشتی اور انسانیت سے عبارت بھائی چارہ کی زبان تو ہے ہی زبانوں کی تاجدار بھی ہے، بقول ماہر تعلیم ولسانیات اور عظیم اردو داں پروفیسر گوپی چند نارنگ ”اردو زبانوں کا تاج محل ہے“ یہ کشادہ دل اور وسعت نظر زبان ہے، جس کا اعتراف سبھی لوگ کرتے ہیں، اس کا سب سے پہلا اخبار ”جام جہاں نما“ ۱۳/ مارچ ۱۸۲۲/ میں کلکتہ سے شائع ہوا تھا، اردو کی پہلی یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ آندھرا پردیش کی راجدھانی حیدرآباد میں ۱۹/۱۸/۱۸۱۷/ سالوں میں سے کسی بھی سال میں قائم ہوئی، آزادی سے قبل اردو ہر شعبہٴ زندگی میں رائج تھی اور جنگ آزادی میں اس کا سب سے اہم اور نمایاں رول رہا ہے، آزادیٴ ہند کے ضمن میں اردو اور اردو شاعری نے جو خدمت کی ہے اس کی نظیر کوئی دوسری زبان پیش نہیں کرسکتی ”اِنقلاب زندہ باد“ جیسے تاریخ ساز جوش و ولولہ پیداکرنے والے نعرے نغمے اور مثالی حب الوطنی کے ترانے ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ جو ذہنوں میں گونجتے اور دلوں میں ہلچل پیداکرتے تھے، اردو کی ہی دین ہے، سیاسی اور تہذیبی طور پر اردو پورے ملک کے رابطے اوراتحاد ویکجہتی کی زبان ہے، یہ یہیں پیداہوئی، یہیں پلی بڑھی اور جوان ہوئی؛ لیکن اب حال اس بے چاری کا یہ ہے کہ۔

اَپنے گھر میں اَجنبی اردو ہے آج

اہلِ اُردو کاش رکھ لیں اِس کی لاج



کی صحیح مصداق ہے، باہمی میل ملاپ کی مستحکم زنجیر وعلامت ہے، یہ ہماری قومی ملکی مشترکہ گنگاجمنی تہذیب وتمدن کی ضامن ہے، اس کی جڑیں معاشرہ میں تہذیبی اخلاقیات اور ہندوستان کی عظیم جمہوری تاریخ میں پیوست ہیں، اردو کی معیاری اور ٹھوس تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سماج اورمعاشرہ میں آج بھی اپنا ایک مقام ووقار بنارہے ہیں اردو کا دائرہ کار ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، عالمی زبانوں میں اس کا نمبر تیسرا ہے، شاید ہی دنیاکا کوئی ملک ایساہو جہاں اردو لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے والے افراد موجود نہ ہوں؛ لیکن افسوس اس پر ہے کہ آج اردو کے بڑے بڑے محقق، اُدباء، شعراء، نقاد ومبصرین کے بچے اردو سے نہ صرف نا آشنا ہی نہیں بلکہ انہیں اردو سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے، یہ لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم اِسکولوں میں پڑھنا تو دور کی بات اردو سکھاتے تک نہیں، عام طور پر نئی نسل کا اردو سے بتدریج لگاؤ کم تو ہوہی رہا ہے، بیگانہ بھی ہوتی جارہی ہے اور نابلد طبقہ برابر بڑھ رہا ہے، اردو کے تئیں عدم دلچسپی، بے حسی، بے توجہی کی انتہا ہورہی ہے، اگر ہم نے اپنے بچوں تک اردو کی وِراثت نہ پہنچائی تو ہم موردِ الزام ٹھہریں گے، اہل اردو کو اردو سے والہانہ تعلق ہونا چاہئے، اردو کے مایہ ناز پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ مغلیہ حکومت نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں:



(۱) اُردو (۲) غالب (۳) اور تاج محل



حال ہی میں جموں کے نامور اردو کے صاحب طرز ادیب و پروفیسر آنند لہر صاحب نے وکلاء کے ایک خاص مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو دفتروں میں ہو نہ ہو لوگوں کے دلوں میں ضرور ہے،اردو اُن تمام لوگوں کی زبان ہے، جو اسے بولتے، سمجھتے اور جانتے ہیں، اس لیے نئی نسل میں اردو پڑھنے پڑھانے کا رُجحان پیدا کریں، تاکہ وہ اپنی ادبی وِراثت سے واقف ہوسکیں، حقیقت تو یہ ہے کہ زبانوں میں اردو نہ صرف سب سے زیادہ چاشنی والی زبان ہے، بلکہ سیکھنے میں بھی سب سے آسان ہے اردو میں جو کشش جاذبیت، جامعیت اور اختصاریت پائی جاتی ہے وہ دوسری زبانوں میں ناپید ہے، آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم اردو لکھتے پڑھتے بولتے تھے، ان کی مادری زبان اردو تھی موصوف کی تقریب شادی خانہ آبادی کا دعوت نامہ اردو میں مختصر اور انتہائی جامع شائع ہوا تھا، مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج اپنے ہی وطن میں اردو بے یارومددگار ہے، یہ تو اپنی اندرونی طاقت اور حسن و کشش کے باعث ہنوز زندہ وتابندہ ہے، حال میں بھی عوام و خواص کے ایک بڑے طبقہ کی زبان ہے، بقول عزیز برنی (ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو) آج وہی اردو جو ۱۹۴۷/ تک پورے ملک کی قومی اور رابطہ کی زبان رہی ہے، محض ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے قومی زبان بننے سے رہ گئی تھی گویا اب۔



ظلمات کی صلیب پہ عیسیٰ بنی ہوئی

زخموں سے چور میر کی اُردو زباں ہے آج



اِس لیے اردو کی اہمیت واِفادیت نیز ضرورت کے پیش نظر اس کے فروغ و بقا ترویج واشاعت کی ذمہ داری آئینی اور اخلاقی نیز ملی اور سیاسی طور پر ہم سب اہل اردو پر عائد ہوتی ہے، ہمیں یہ ذمہ داری اپنا فرض جان کر بڑی مستعدی، تندہی اور دلچسپی سے نبھانی چاہئے اردو کی ہمہ جہت ترقی اور بقا کے لیے تن من دھن سے کوشاں رہیں چونکہ آگے آنے والی نسلوں کی اردو تعلیم و ترویج کا انحصار ہماری حال کی کوششوں پر ہے، مدارس عربیہ اردو کی فلاح و بہبود کے لیے بہت منظم اور موٴثر طرز و طریق پر کام کررہے ہیں، ہمارے یہ مدارس پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، سب ہی محب وطن اور اردو دوست ہیں اس کی ترقی اور بقا کے لیے شب و روز کوشاں اور خواہاں ہیں، اب نہ صرف اردو والے کم ہورہے ہیں؛ بلکہ اردو کا شوق اردو کا چلن اور اردو کا تحفظ و تلفظ بھی کھوتے جارہے ہیں، اسکولوں میں جو بحیثیت اردو ٹیچرس لگے ہوئے ہیں وہ بھی ناقص اردو جاننے کے سبب غالب کو گالب، ذوق کو جوق، غلطی کو گلتی، ضرورت کو جرورت، حالات حاضرہ کو ہالات ہاجرہ، عارف انصاری کوآرف انساری لکھتے، پڑھتے، بولتے ہیں، گل اور غل نبات اور بنات کے تلفظ ومعنی اور موقع محل میں کوئی فرق نہیں جانتے، اس لیے صحیح اردو کی ترویج و تعلیم کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لیے ٹھوس اور گہری کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ اوراس کا دائرہ عمل زیادہ سے زیادہ وسیع ہو، اس لیے حامیان اردو سے گزارش ہے کہ اردو کی بہرنوع تنظیم و ترقی نیز اصلاحات و اصطلاحات کے لیے حسب ذیل اُمور پر کمربستہ ہوکر عمل پیرا ہوں:



(۱) تجربہ ہے کہ بچوں کی علمی صلاحیتیں مادری زبان میں بسہولت اُبھرتی ہیں چونکہ ہماری اور ہمارے بچوں کی مادری زبان اردو ہے، اس لیے اپنے بچوں کو بالخصوص ابتدائی تعلیم مادری زبان اردو میں دیں اور دلائیں۔



(۲) بچے اپنے گرد وپیش اور گھریلو ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، نئی نسل کو اردو سے رُوشناس کرانے کے لیے اپنے گھروں میں اردو کی تعلیم کا بہترین بندوبست کریں، گفتگو بھی صاف و شستہ ردو میں کی جائے اس طرح اردو کو گھروں کے اندر بھی جاری اور ساری رکھیں۔



(۳) اُردو اخبارات و رسائل خرید کر پڑھیں، اردو کی کتابیں خرید کر ناشرین کتب کی حوصلہ افزائی کریں، گھر کے تمام افراد میں اردو اخبارات، دینی رسائل و جرائد کے مطالعہ کا رُجحان پیدا کریں۔



(۴) کاروباری اِداروں، کارخانوں، فیکٹریوں، ساریوں، رہائش گاہوں، دکانوں، مکانوں، بنگلوں، دفتروں نیز مارکیٹ اگر ذاتی ہوتو اس پر بھی نام وغیرہ کے سائن بورڈ و اشتہارات اور تختیاں وغیرہ اردو رسم الخط میں لکھواکر لگائیں۔



(۵) وزیٹنگ کارڈ، لیٹرپیڈ پر اپنا نام و مکمل پتہ اَوّل اُردو میں لکھوائیں، خط و کتابت ہمیشہ اردو میں کریں، خطوط پر پتے پہلے اردو میں لکھیں، دستخط ہرجگہ اردو میں کریں۔



(۶) شادی بیاہ کی تقریبات، جلسہ وجلوس کے اِشتہارات واِعلانات کے فولڈر و پوسٹر اور دعوت نامے اردو میں چھپوائیں۔



(۷) گھر اور دُکان کے سامان کی فہرست آمد و خرچ کاحساب اردو میں لکھیں۔



(۸) حامیانِ اُردو جذبہٴ ایثار سے بستی بستی، محلہ محلہ اردو کے تعلیمی سینٹر قائم کرکے رضاکارانہ طور پر اردو پڑھائیں، اردو پڑھاؤ تحریک پُرامن طور پر چلائیں۔



(۹) اِنگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین و سرپرستان اردو کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھنے کا مطالبہ ذمہ دارانِ اسکول و کالج سے کریں اِن اسکولوں میں پڑھنے والے بچے خود بھی ذوق و شوق سے اردو پڑھیں لکھیں سمجھیں اور فخر سے بولیں۔



(۱۰) مردم شماری کے زمانہ میں مادری زبان کے خانے میں لفظ اردو اپنے سامنے پُر کرواکر بعدہ جانچ بھی کرلیں۔



(۱۱) اپنے بچوں کا داخلہ ایسے اسکول میں کرائیں جہاں اُردو کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہو۔



(۱۲) مرکزی اور ریاستی سرکاروں سے اُردو کے آئینی حقوق کے دائرہ میں رہتے ہوئے محکمہ تعلیمات کے وزیر وزراء، افسران وذمہ داران سے مل کر اردو کی تعلیم و ترقی کے لیے اردو میڈیم اسکول کھولنے کی مانگ کریں اور قدیم اسکولوں میں مزید ماہر اردو اساتذہ پڑھانے پر بھی زور دیں جہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی وہاں شعبہ اردو منظور و رائج کرائیں اردو کے اصحاب فکر و نظر کو اس بارے میں سعی بلیغ کرنی چاہئے تاکہ اردو کو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہو اردو کی تنظیم و ترقی اور بقا میں حائل تمام تر دشواریوں کو دُور کرنے کرانے کی جدوجہد کریں تاکہ اردو کا چلن عام ہو کر اس کی عظمتِ رَفتہ کی بازیابی ہو۔



(۱۳) ہر اردو داں اپنے حلقہ اثر میں ہر جاننے والے کو اُردو پڑھنے کی طرف راغب کرے، نیز اپنے اندر بے لوث خدمات وجذبات کے ساتھ اردو کے لیے کام کرنے کی خواہش و تڑپ پیدا کرے سبھی طبقات کے افراد کو اردو پڑھنے کی ترغیب دیں۔



(۱۴) ان تمام محکموں کے دفاتر میں جہاں اردو کے مترجم موجود ہیں درخواستیں اردو میں ہی دیں، اقلیتی فلاح و بہود کے دفاتر، اردو تنظیموں، اردو انجمنوں، اردو اکاڈمیوں، اردو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی، غالب اکیڈمی جیسے اِداروں میں اردو زبان و اردو رسم الخط میں ہی لکھ کر اپنی عرضیاں پیش کریں۔



(۱۵) اردو کو روزی روٹی سے زیادہ جذبات سے جوڑنا ضروری تو ہے ہی مفید سے مفید تر بھی ہے، اِس لیے حامیانِ اردو، اردو کے فروغ کی خاطر کوشش تن من دھن سے کریں، توقع ہے کہ اردو کا ماضی جیسا شاندار و تابناک رہا ہے، اِنشاء اللہ مستقبل بھی ایسا ہی روشن ہوکر رہے گا۔



(۱۶) ہمارا بیشتر مذہبی اور ثقافتی تہذیبی اور تمدنی تاریخی اور تدریسی سرمایہ اردو زبان میں ہے، اِس لیے اردو کی نئی نسل تیار کرنا ہم سب کا ملی اور اَخلاقی فریضہ بنتا ہے، آنے والی نسل اگر اردو سے ناواقف رہی تو چونکہ ہمارا تمام تر تہذیبی ثقافتی اور دینی سرمایہ ہماری تاریخ ہمارا تشخص و تمدن اردو زبان میں ہے گویا اردو ہمارا ملی، قومی اور مذہبی اَثاثہ ہے، یہ سارے کا سارا اثاثہ ختم ہوکر رہ جائے گا، چنانچہ اردو ہمارے دین کی پہچان ہے، تہذیب و تمدن کی کان ہے، صلح وشرافت کی جان ہے، کتنی لذیذ وشیریں یہ اردو زبان ہے،اس لیے ہم اپنے بچوں کو اُردو سے آراستہ کرنالازم جانیں۔
 
Top