جیو اور جنگ کی نرالی صحافت

سویدا

محفلین
گذشتہ تین یا چار مہینے سے میں اس سوچ میں‌غلطاں‌وپیچاں‌ہوں‌کہ جنگ اور جیو کیوں‌اتنے زیادہ پیپلز پارٹی اور زرداری

کے خلاف ہوگئے ہیں ‌، پیپلز پارٹی یا زرداری سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں‌ہے

کیا پاکستان کی تاریخ‌میں‌پہلی بار صرف زرداری یا پیپلز پارٹی ہی کرپٹ ہیں اس سے پہلے کبھی جنگ نے ایسا طرز اختیار

نہیں‌کیا نہ کسی سیاست دان کے ساتھ نہ کسی پارٹی کے ساتھ ، این آر او کے بارے میں‌بھی جنگ کا نشانہ سارا کا سارا

زرداری اور پیپلز پارٹی پر ہی ہے

اور حد تو یہ ہوگئی کہ یوم عرفہ کو مفتی شیخ‌حرم نے جو خطبہ دیا جنگ نے سرخی یہ جمائی کہ نیک اور امین قیادت سے

ہی حالات بدلیں‌گے ، سوچنا چاہیے کہ یہ خطبہ سعودی عرب میں‌دیا جارہا ہے کیا وہاں‌کا سرکاری مفتی اپنی حکومت کے

بارے میں‌اس قسم کی بات کرسکتا ہے ؟؟؟ کبھی نہیں‌

سعودی عرب کے حالات کے تناظر میں‌تو یہ بیان شاہ کی بغاوت کے مترادف ہے

جنگ کی سرخی سے لگا جیسے یہ خطبہ عرفات میں‌نہیں‌پاکستان میں‌دیا گیا ہے اگر اس خطبے کو سنا جائے تو اس میں

ایسی کوئی بات نہیں‌کہی گئی ہے ، اب ظاہر سی بات ہے کہ اردو پڑھنے والے تصدیق کے لیے عربی خطبہ تو سننے

سے رہیں‌

اور پھر اگر زرداری یا پیپلز پارٹی چلی بھی جائے تو اس کے بعد کون سے جنید بغدادی یا حسن بصری کی حکومت آجانی

ہے ، ہماری بے چاری سادہ لوح‌عوام جنگ اور جیو کے گیت گارہی ہے

بلکہ کل یا پرسوں‌جنگ کے کسی کالم نگار نے تو یہاں‌تک لکھا کہ پاکستان کے حکم ران زانی اور شرابی رہے ہیں‌

غالبا انصار عباسی نے لکھی تھی یہ بات ، اس بات کی حقیقت سے مجھے انکار نہیں‌ہے لیکن جنگ نے کب یہ پالیسی

اپنائی کہ وہ اس طرح‌کے سے انداز میں‌حکم رانوں‌کی مخالفت کرے

معاملہ زرداری کی مخالفت کا نہیں‌بلکہ درون خانہ کہانی کچھ اور ہے
 

سویدا

محفلین
اور یہ سب کچھ جنگ گروپ کے چار یا پانچ آدمی کررہے ہیں‌جن میں‌شاہد مسعود ، حامد میر ، شاہین صہبائی ، انصار عباسی اور صالح‌ظافر سرفہرست ہیں‌

ان پانچ آدمیوں‌نے ہی یہ سارا پروپیگنڈا شروع کیا ہوا ہے
 

مدرس

محفلین
بلکہ کل یا پرسوں‌جنگ کے کسی کالم نگار نے تو یہاں‌تک لکھا کہ پاکستان کے حکم ران زانی اور شرابی رہے ہیں‌
اگر یہی زبان ہمارے قلم کار استعمال کریں تو کیا یہ مہذب قوم کی نشانی ہے جن کو ہم دانشوران ملت کہتے ہیں
فیا للعجب
 
پاکستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، اے این پی، ایم کیو ایم اور جمیعت علماء کے علاوہ جنگ گروپ بھی ایک نئی سیاسی پارٹی کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ملک کی سیاست کا کوئی سر پیر تو ہے نہیں۔ سبھی تھالی کے بینگن ہیں، سیاسی ہوا کا رُخ دیکھ کر بدلتے رہتے ہیں۔
 
کاروباری لوگوں کے رویئےبھی کاروباری مفادات کی طرح بدلتے رہتے ہیں ۔ جنگ کب سے صحافت کا علمدار تھا ۔ یہ تو شروع سے ہی کاروباری ادارہ تھا جس نے خبریں پیدا کرنے اور بیچنے کا کاروبار کیا ہے ۔ اور جیو ۔۔۔؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ گندم کے بیج میں سے چنے اگیں گے ۔۔؟ تو جیو کب میڈیا کا خدمتگار ہونے لگا ۔۔۔؟
 

سویدا

محفلین
عوام کو میڈیا کی ہاں‌میں‌ہاں نہیں‌ملانی چاہیے بلکہ اپنی آنکھیں اور شعور بیدار رکھنا چاہیے

خصوصا جنگ اور جیو جب بھی کسی مہم کو چلائیں‌تو اس نظریے کے ہر پہلو کو اچھی طرح‌سوچنا چاہیے

آج ہم میڈیا کی آنکھ سے دیکھ رہے اور میڈیا کے کانوں‌سے سن رہے ہیں‌ ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن لوگ صرف جنگ ہی نہیں پڑھتے اور نہ ہی صرف جیو کو دیکھتے / سنتے ہیں۔

اور بھی تو اخبارات ہیں، اور بھی ٹی وی چینل ہیں۔
 

فخرنوید

محفلین
محترم سویدا!

تنقید صرف اس پر ہوتی ہے جس میں عیب ہو۔ بے عیب شخص کی پگڑی اچھالی نہیں جا سکتی ہے۔

جیو یا جنگ والے ہوں۔ انہوں نے مشرف دور میں اس کو اور اس کے حا میوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیونکہ وہ لوگ ہی حکومت میں تھے۔ اور وہی صاحب اختیار تھے۔

اب پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو ان میں جو عیب ہیں اس پر ہی انگلی اٹھے گی نا۔۔۔
 
جنگ/جیو آزادی پسند روایات ( سیکیولر ) کے حامل ہیں یا کاروباری بہر حال اسے تسلیم کرناپڑے گاکہ جنگ / جیو متضاد نقطہ ہائے نظر اپنے سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس ضمن میں اپنے قارئین / سامعین کو غور فکر کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔
اورزیربحث عنوان کے حوالے سے جنگ کو اٹھاکر دیکھیں،کچھ لکھاری پیپلزپارٹی پرتنقید کرتے ہیں اورکچھ اپوزیشن کی جماعتوں پر۔
اگرچہ مجموعی لحاظ سے مجھے جنگ / جیو کی پالیسی سے شدید اختلاف ہے لیکن یہی ایک پہلو ایسا ہے جس کے لیے یہ قابل تقلید قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نہ جانے پپلز پارٹی اور اس کے حواری کیوں جنگ اور جیو کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ جبکہ آج اور اے آر وائی نیوز والے بھی تقریباً یہی باتیں کر رہے ہیں۔ بس جیو کی طرح مرچ مصالحہ نہیں‌ ہوتا لیکن حکومت کے حوالے سے اُن کے پروگرامز اور خبریں بھی جنگ اور جیو سے مختلف نہیں ہوتیں۔

یقیناً دھواں وہیں‌سے اُٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے جبکہ یہاں تو سب کچھ ہی سلگ رہا ہے اور سب کو پتہ ہے ۔ جیو بلا شبہ کاروباری ادارہ ہے اور اس میں کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے نہ یہ یہ کوئی نئی خبر ہے۔ کیا یہ بات بتانے کے لئے جیو کی ضرورت ہے کہ حکومت کے وزراء آئی ایم ایف سے قرضے لے کر عیاشیاں‌کر رہے ہیں اور بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے پر اضافہ عوام کی کمر توڑ رہا ہے۔ صرف آئی ایم ایف کا قرض چکانے کے لئے ۔ یہ بات تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔جیو والے یہی بات کرتے ہیں تو کیوں برا لگتا ہے۔

ہاں اگر پپلز پارٹی والے سمجھتے ہیں‌کہ اُن کے خلاف لگنے والے الزامات بے بنیاد ہیں‌تو کیوں قانونی چارہ جوئی نہیں کرتے۔ اگر بات صرف اربابِ اختیار کے کچا چٹھا کھولنے کی ہے تو آج ٹی وی پر بیٹھے طلعت حسین اور اے آر وائی پر موجود کاشف عباسی یہ کام جیو سے بہتر انداز میں کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ کے دل میں چور ہو تو قانونی چارہ جوئی کیسے ہوسکتی ہے۔ ہاں جوابی پروپیگنڈا رہ جاتا ہے اور حکومت کی حکمتِ عملی اب یہی ہے۔
 

ساجد

محفلین
کسی بھی خبر رساں ادارے کو اپنی بقا اور کارکنان کی تنخواہ ادا کرنے کے لئیے پیسہ درکار ہوتا ہے لہذا یہ بات تو خارج از بحث رکھیں کہ صحافتی ادارے کاروبار کرتے ہیں۔ آج کے مقابلے کے دور میں جدید ترین آلات ، مشینیں ، گاڑیاں اور سٹوڈیوز کی تعمیر ، اپنے قارئین و ناظرین کو بہتر خدمات فراہم کرنے کے لئیے ناگزیر ہیں۔ یہ سب کچھ پیسے کا متقاضی ہے اور ان اداروں کو چلانے والے کاروباری نقطہ نظر نہیں اپنائیں گے تو اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتے جبکہ حکومت ان کی کسی قسم کی مالی اعانت بھی نہیں کرتی۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ زرداری کو یا پیپلز پارٹی کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں خود کو ایک سوال کا جواب دینا ہو گا کہ جو کچھ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ درست ہے بھی کہ نہیں۔ اگر درست ہے تو اس کی حمایت کریں اور اگر ان پہ الزام تراشی ہے تو فیڈ بیک کے ذریعے اس نشریاتی ادارے اور گروپ کا قبلہ درست کرنے میں مدد دیں۔
میری ذاتی رائے میں جنگ گروپ اور جیو دونوں اطراف کے نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں۔ ہاں ہماری اپنی پسند و ناپسند اور سیاسی و معاشرتی نظریات ان کے کچھ پروگراموں سے ہمیں شاکی کر دیتے ہیں۔ جیسے مجھے جیو کے ایک پروگرام "عالیہ نے پاکستان چھوڑ دیا" پہ کچھ اعتراض ہوا تو میں نے جیو کی انتظامیہ سے میل کے ذریعے تبادلہ خیال کیا تو انہوں نے اپنے پروگرام پہ کی جانے والی میری تنقید کو خوش آمدید کہا اور چند باتوں کی وضاحت بھی کی۔
آپ لوگ بھی ان صحافیوں سے رابطہ کر کے ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ آخر زرداری نے ان کا کیا بگاڑا ہے ۔ چند روز قبل حسن نثار صاحب نے چوراہا میں کہا تھا کہ ان نسل در نسل پاکستانی سیاست پر قابض لوگوں کا لونڈا لپاٹا بھی اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے جب کہ ایک با صلاحیت آدمی ساری زندگی کوشش کے باوجود اس مقام پہ نہیں پہنچ پاتا۔ یہ اس بات کی ایک مثال ہے کہ جیو صرف زرداری یا پیپلز پارٹی ہی کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ سب سیاستدانوں کی خبر لیتا ہے۔
 
Top