مصطفیٰ زیدی جہاں میں ہوں،،،،،،،،مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
نَفس کو فِکرِ جو ہر ہے جہاں میں ہوں
سمندر ہی سمندر ہے جہاں میں ہوں

بجھی جاتی ہیں قندیلیں توّھُم کی
طلوعِ عقلِ خاور ہے جہاں میں ہوں

نظر آتی ہے اپنی ماہیت جس میں
وہ آئینہ میسر ہے جہاں میں ہوں

اَزل کی بے نقابی او ر اَ جل کی بھی
سبھی امکاں کے اندر ہے جہاں میں ہوں

نہ کوہِ کاف کی پریوں کے جھرمٹ ہیں
نہ غولِ دیو اژدر ہے جہاں میں ہوں

نہ سفاکی ، نہ دلداری کی رسمیں ہیں
نہ مرہم ہے نہ خنجر ہے جہاں میں ہوں

خد ا ہے اپنے نیلے آسمانوں میں
زمیں ہے ، خیر ہے ،شَر ہے جہاں میں ہوں

قدم اُٹھتے ہیں نامعلوم سمتوں کو
ہر اِک شے بے مقدر ہے جہاں میں ہوں

نَفس ہے تَشنگی کا دشتِ بے منزل
نَفس ہی موجِ کوثر ہے جہاں میں ہوں

بدن کیا چیز ہے خود میرا سایہ بھی
مِرے ساے سے باہر ہے جہاں میں ہوں
 
Top