کلیم عاجز جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا۔

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا

ترے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا
تری زلف ہو دوگونہ ترا حسن ہو دوبالا

یہ سماں اسے دکھاؤں صبا جا اسے بلا لا
نہ بہار ہے نہ ساقی نہ شراب ہے نہ پیالا

مرے درد کی حقیقت کوئی میرے دل سے پوچھے
یہ چراغ وہ ہے جس سے مرے گھر میں ہے اجالا

اسے انجمن مبارک مجھے فکر و فن مبارک
یہی میرا تخت زریں یہیں میری مرگ چھالا
کلیم عاجز
 
Top