جہاں بجھ گئے تھے چراغ سب وہاں داغ دل کے جلے تھے پھر - سعداللہ شاہ

محمداحمد

لائبریرین
غزل

جہاں بجھ گئے تھے چراغ سب وہاں داغ دل کے جلے تھے پھر
جہاں آکے پاؤں کٹے مرے، وہاں نقشِ پا بھی چلے تھے پھر

مرے رہنما کا تھا فیصلہ، مرا جسم جاں سے جُدا ہُوا
یہی خوب تھا کہ اسی نے ہی سرِ دار ہاتھ ملے تھے پھر

مجھے آسمان پہ سُکون تھا، یہ زمین میرا جنون تھا
یہی کیا کہ پھر مجھے خوف تھا، سبھی آسماں کے تلے تھے پھر

جو ملا مجھے وہ خفا ہوا، یہ تھا معجزہ ترے پیار کا
جو تھے خوش ہوئے مجھے دیکھ کر، ترے پاس جا کے جلے تھے پھر

مرے پاس میرا خیال تھا، مرا سوچنا بھی کمال تھا
مری آنکھ نے مرے اشک بھی کفِ آستیں پہ ملے تھے پھر

مرے دل کی بات ہی اور تھی، مری کائنات ہی اور تھی
وہ جو جگنوؤں کی طرح تھے سب شبِ تیرگی میں پلے تھے پھر

وہ عجیب سا کوئی کھیل تھا، جہاں دھوپ چھاؤں کا میل تھا
تھے جو مہر و ماہ وہ بچ گئے، گو وہ روز و شب میں ڈھلے تھے پھر

سعداللہ شاہ
 

محمداحمد

لائبریرین
سارہ صاحبہ اور وارث صاحب انتخاب آپ کو اچھا لگا یہی میری خوشی ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے (آمین)
 
Top