جگر مراد آبادی ۔ دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد ۔ بیگم اختر

فاتح

لائبریرین
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
(جگر مراد آبادی)

نوٹ: اس غزل کے چند اشعار 'پیاسا صحرا' صاحب (معذرت خواہ ہوں کہ ان کے اصل نام سے واقف نہیں) کچھ عرصہ قبل پسندیدہ کلام کے زمرے میں ارسال فرما چکے ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
جگر مراد آبادی کی آواز میں غزل
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
 

فاتح

لائبریرین
جگر مراد آبادی کی آواز میں غزل
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
جینے کی ادا یاد نہ مرنے کی ادا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
ہائے ہائے ہائے
کیا ہیرا تلاش کر کے لائے ہیں
 

طارق شاہ

محفلین

غزل

جِگر مُراد آبادی

دُنیا کے سِتم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مُجھ کو نہیں کُچھ بھی محبّت کے سوا یاد

میں شکِوہ بَلَب تھا، مُجھے یہ بھی نہ رہا یاد !
شاید کہ مِرے بُھولنے والے نے کیا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے، وہ اِک نغمۂ بے ساز و صدا یاد

جب کوئی حَسِیں ہوتا ہے سرگرمِ نَوازِش
اُس وقت، وہ کُچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانیے ،کیا ہو گیا اربابِ جنوُں کو
مرنے کی ادا یاد، نہ جینے کی ادا یاد

مُدّت ہُوئی اِک حادثۂ عِشق کو، لیکن
اب تک ہے تِرے دِل کے دھڑکنے کی صدا یاد

ہاں ہاں، تُجھے کیا کام مِری شِدّتِ غم سے
ہاں ہاں، نہیں مُجھ کو تِرے دامن کی ہَوا یاد

میں ترکِ رہ و رسمِ جنُوں کر ہی چُکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تِری لغزِشِ پا یاد

کیا لُطف، کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بُھولی ہُوئی خاص اپنی ادا یاد

جِگر مُراد آبادی
 
Top