جگر جگرمُرادآبادی "اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے"

طارق شاہ

محفلین
غزل
جگرمُرادآبادی
اک لفظِ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
یہ کِس کا تصوّر ہے، یہ کِس کا فسانہ ہے؟
جو اشک ہے آنکھوں میں، تسبیح کا دانہ ہے
دل سنگِ ملامت کا ہرچند نشانہ ہے
دل پھر بھی مرا دل ہے، دل ہی تو زمانہ ہے
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی، ہنسنے کو زمانہ ہے
وہ اور وفا دشمن، مانیں گے نہ مانا ہے
سب دل کی شرارت ہے، آنکھوں کا بہانہ ہے
شاعرہوں میں شاعر ہوں، میرا ہی زمانہ ہے
فطرت مرا آئینہ، قدرت مرا شانہ ہے
جو اُن پہ گزرتی ہے، کس نے اُسے جانا ہے؟
اپنی ہی مصیبت ہے، اپنا ہی فسانہ ہے
آغازِ محبت ہے، آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے، آہوں کا زمانہ ہے
آنکھوں میں نمی سی ہے چُپ چُپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے
ہم درد بدل نالاں، وہ دست بدل حیراں
اے عشق تو کیا ظالم، تیرا ہی زمانہ ہے
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا اُن سے
کل اُن کا زمانہ تھا، آج اپنا زمانہ ہے
اے عشق جنوں پیشہ! ہاں عشق جنوں پیشہ
آج ایک ستمگر کو ہنس ہنس کے رُلانا ہے
تھوڑی سی اجازت بھی، اے بزم گہہ ہستی
آ نکلے ہیں، دم بھ کو رونا ہے، رُلانا ہے
یہ عشق نہیں آساں، اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
خود حسن وشباب ان کا کیا کم ہے رقیب اپنا
جب دیکھئے، تب وہ ہیں، آئینہ ہے، شانا ہے
ہم عشقِ مجسّم ہیں، لب تشنہ ومستسقی
دریا سے طلب کیسی، دریا کو رُلانا ہے
تصویر کے دو رُخ ہیں جاں اور غمِ جاناں
اک نقش چھپانا ہے، اک نقش دِکھانا ہے
یہ حُسن وجمال اُن کا، یہ عشق وشباب اپنا
جینے کی تمنّا ہے، مرنے کا زمانہ ہے
مجھ کو اسی دُھن میں ہے ہر لحظہ بسر کرنا
اب آئے، وہ اب آئے، لازم اُنہیں آنا ہے
خوداری و محرومی، محرومی و خوداری
اب دل کو خدا رکھے، اب دل کا زمانہ ہے
اشکوں کے تبسّم میں، آہوں کے ترنّم میں
معصوم محبت کا معصوم فسانہ ہے
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے، رہ جائے سو دانا ہے
جگرمرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین
واہ واہ واہ کیا ہی لاجواب غزل ہے۔

بہت شکریہ جناب ارسال فرمانے کیلیے۔
جناب وارث صاحب
جگر صاحب کی غزل کے انتخاب پر، اس پذیرائی کا ممنون ہوں
صحیح کہا آپ نے جگر صاحب کے لازوال کلام سے ہی ہے یہ ، جب بھی سنیں یا پڑھیں لطف دیتا ہے
اظہار خیال کے لئے تشکّر
ہمیشہ شاداں رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
واہ بھئی واہ۔ عمدہ بہت ہی خوب۔
شکریہ ہم سے شیئر کرنے کے لیئے۔۔۔ خوش رہیئے۔۔
کاشفی صاحب شیئر کرنا باعثِ خوشنودی ہوا جو انتخاب آپ کو پسند آیا ۔
اظہارِ خیال اور ستائشِ انتخاب کے لئے تشکّر
بہت خوش اور شاداں رہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جگرؔ کی مشہور غزل ! بہت اچھا انتخاب ہے طارق شاہ صاحب!
آج یہ غزل یوں یاد آئی کہ ایک دوست نے اس کا مقطع غلط پڑھ دیا ۔ میں نے ٹوکا تو کہنے لگے کہ سارے لوگ ایسے ہی پڑھتے ہیں ۔
آنسو تو بہت سے ہیں آنکھوں میں جگر لیکن
بندھ جائے سو موتی ہے، رہ جائے سو دانا ہے
وہ یہاں بَندھ جائے پڑھ رہے تھے ۔ لیکن یہ لفظ بِندھ ہے یعنی بکسرِ اول ۔ بِندھنا کے معنی پرونا یا سوراخ کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے کان یا ناک بِندھنا وغیرہ ۔ اور اس میں دانا نہیں بلکہ دانہ ہے ۔
ویسے اس غزل میں اس کےعلاوہ بھی متعدد ٹائپو نظر آرہے ہیں اور مزا کرکرا کئے دے رہے ہیں ۔
 

عدنان عمر

محفلین
جناب ظہیر احمد ظہیر صاحب! اردو زبان کے ایک متروک لیکن خوب صورت فعل 'بِندھنا' سے روشناس کروانے پر میں آپ کا ممنون ہوں۔ یہ دلکش لفظ اس سے پہلے سنا یا پڑھا نہ تھا۔
 
Top