شہزاد احمد جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو - شہزاد احمد

ظفری

لائبریرین
ایک مشہورِ زمانہ غزل ۔۔۔۔

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جدا کیسے ہو

جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو

عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہاں مگر دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو

جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو

کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزاد
مجھ کو معلوم نہیں اس کو پتا کیسے ہو
 
بہت خوب ۔ ۔

لیکن اگر میں غلط نہیں تو پہلے شعر میں کہیں کچھ کم ہے
جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو
 

محمد وارث

لائبریرین
شہزاد احمد کی ایک اور خوبصورت غزل پوسٹ کرنے کیلیے بہت شکریہ ظفری بھائی، لاجواب۔

----------
مطلع بالکل صحیح ہے، مطلق فکر نہ کریں :)
 

ظفری

لائبریرین
شہزاد احمد کی ایک اور خوبصورت غزل پوسٹ کرنے کیلیے بہت شکریہ ظفری بھائی، لاجواب۔

----------
مطلع بالکل صحیح ہے، مطلق فکر نہ کریں :)

شکریہ وارث بھائی ۔۔ ورنہ میں تو ڈر گیا تھا کہ کتاب سے براہِ راست دیکھ کر بھی لکھنے میں غلطی ۔۔۔۔۔۔ :praying:
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب ۔ ۔

لیکن اگر میں غلط نہیں تو پہلے شعر میں کہیں کچھ کم ہے
جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو

آپ کا خیال بجا ہے اُمیدِ محبت ۔۔۔۔ دراصل یہاں بارش کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے ۔ ;)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک مشہورِ زمانہ غزل ۔۔۔ ۔
جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں میرا کہا کیسے ہو
دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جدا کیسے ہو
جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہاں مگر دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو
جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو
کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزاد
مجھ کو معلوم نہیں اس کو پتا کیسے ہو

My favorite
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لیکن غزل مکمل نہیں ہے، چار اشعار کم ہیں۔
مکمل غزل کچھ یوں ہے:

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو​
مَیں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو​
دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی​
نور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جدا کیسے ہو​
جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں​
اور جسے جان چکے ہیں، وہ خدا کیسے ہو​
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی​
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو​
جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی​
مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو​
دُور سے دیکھ کے مَیں نے اسے پہچان لیا​
اس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا، "کیسے ہو؟"​
وہ بھی اِک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا​
دل کا دروازہ ہے۔۔۔ہر وقت کھلا کیسے ہو​
جب کوئی دادِ وفا چاہنے والا نہ رہا​
کون انصاف کرے، حشر بپا کیسے ہو​
آئینے میں بھی نظر آتی ہے صورت تیری​
کوئی مقصودِ نظر تیرے سوا کیسے ہو​
کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزادؔ​
مجھ کو معلوم نہیں، اس کو پتا کیسے ہو​
(کتاب: جلتی بجھتی آنکھیں)
 

طارق شاہ

محفلین
ایک مشہورِ زمانہ غزل ۔۔۔ ۔
جو شجر سُوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو
دل کے ہر ذرّے پہ ہے نقش محبت اُس کی
نور آنکھوں کا ہے آنکھوں سے جُدا کیسے ہو
جس کو جانا ہی نہیں اُس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں وہ خدا کیسے ہو
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی
ہاں مگر دل نہ جلائیں، تو ضیا کیسے ہو
جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد مِلے بھی تو گِلہ کیسے ہو
کن نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا ہوں شہزاد
مجھ کو معلوم نہیں، اُس کو پتا کیسے ہو
ظفری صاحب !
بہت خوب صورت ، بہت عمدہ شیئرنگ
تشکّر بہت خوش رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال میاں !
مکمل غزل کے لئے آپ کا بھی ممنون ہوں تشکّر
 
Top