رئیس امروہوی جو زندگی سے تہی ہو وہ عاشقی کیا ہے -رئیس امروہوی

جو زندگی سے تہی ہو وہ عاشقی کیا ہے
مگر سوال تو یہ ہے کہ زندگی کیا ہے

شبِ فراق کے تارے مجھے بتا نہ سکے
اُفق کے پار یہ دھندلی سی روشنی کیا ہے

جبینِ غبچہ و گل سے ٹپک رہا ہے لہو
کسے خبر کہ مآلِ شگفتگی کیا ہے

ترے خضور حیاتِ فراق کا کیا ذکر
ترے بغیر جو گزری وہ زندگی کیا ہے

حرم میں معرفتِ کردگار پر تھی نزاع!
صدا یہ دیر سے آئی کہ آدمی کیا ہے

ابھی سے شکوہِ پست و بلند ہم سفرو!
ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے

حیاتِ وہم و گماں ہے مجھے قبول مگر
حیاتِ وہم و گماں ہے تو واقعی کیا ہے

چمن چمن جو خزاں کا ہے غلغلہ تو بھلا
روش روش یہ نمودِ بہار سی کیا ہے

تم اپنے سوزِ نہاں کا مجھے ثبوت نہ دو
کہ جس سے آگ نہ بھرکے وہ آگ ہی کیا ہے

مہہ و ستارہ سے عالم کو دے رکھا ہے فریب
تری تجّلیِ عالم فریب بھی کیا ہے

وہ عشق کفر ہے یہ راز جو بتا نہ سکے
حیات کیا ہے؟ جنوں کیا ہے ؟ آگہی کیا ہے

نگارِ خانہِ کن کو سنوارنے والے!
مجھے بتا کے ترا نقشِ آخری کیا ہے

رئیسؔ شیوہِ رندانہ اس زمانے میں
خلافِ وضع سہی ! پر کبھی کبھی کیا ہے
رئیسؔ امروہوی
 
Top