کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
جو برا تھا بھلا ہوگیا
جو بھلا تھا برا ہو گیا

زہر کیا گھل گیا خاک میں
ہر ثمر بے مزا ہو گیا

کیوں منائیں اسے بار بار
ہونے دو جو خفا ہو گیا

دل ہوئے مبتلائے نفاق
یہ مرض لا دوا ہو گیا

میں ہوں ڈوبا ہوا شرم سے
ہر کوئی بےحیا ہو گیا

ڈھک لیا ارض نے اس طرح
کہ قمر بے ضیا ہو گیا

یوں غموں کا چلا سلسلہ
عشق کا غم ہوا ہو گیا

اس قدر فرق جاوید کیوں

کیا تھا تو اور کیا ہو گیا
 
Top