فہد اشرف

محفلین
جواہر لال نہرو

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے
سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

وہ جو ہر دین سے منکر تھا، ہر اک دھرم سے دور
پھر بھی ہر دین، ہر اک دھرم کا غمخوار رہا
ساری قوموں کے گناہوں کا کڑا بوجھ لئے
عمر بھر صورتِ عیسیٰ جو سرِ دار رہا
جس نے انسانوں کی تقسیم کے صدمے جھیلے
پھر بھی انساں کی اخوت کا پرستار رہا
جس کی نظروں میں تھا اک عالمی تہذیب کا خواب
جس کا ہر سانس نئے عہد کا معمار رہا
جس نے زر دار معیشت کو گوارا نہ کیا
جس کو آئینِ مساوات پہ اصرار رہا
اس کے فرمانوں کی، اعلانوں کی تعظیم کرو
راکھ تقسیم کی، ارمان بھی تقسیم کرو

موت اور زیست کے سنگم پہ پریشاں کیوں ہو
اس کا بخشا ہوا سہ رنگ علم لے کے چلو
جو تمہیں جادۂ منزل کا پتہ دیتا ہے
اپنی پیشانی پہ وہ نقشِ قدم لے کے چلو
دامنِ وقت پہ اب خون کے چھینٹے نہ پڑیں
ایک مرکز کی طرف دیر و حرم لے کے چلو
ہم مٹا ڈالیں گے سرمایہ و محنت کا تضاد
یہ عقیدہ، یہ ارادہ، یہ قسم لے کے چلو
وہ جو ہمراز رہا، حاضر و مستقبل کا
اس کے خوابوں کی خوشی، روح کا غم لے کے چلو

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے
سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

(ساحر لدھیانوی)
 
Top