تبصرہ کتب جنت کے پتے

’اللہ جنت کے پتے تھامنے والوں کو رسوا نہیں کرتا‘
یہ ناول نمرہ احمد نے لکھا جس کا تھیم قرآن اور اسکی پہیلیوں کو سمجھنے کے متعلق ہے۔ جی ہاں ’مصحف‘ کی طرح۔
اگر اس کی رائٹر ایک نا ہوتی تو میں کہتا کہ یا تو مصحف کو یا جنت کے پتے کے سٹائل کو کاپی کیا گیا۔مگر ایسا نہیں ہے، دونوں ناولوں کی چونکہ لکھاریہ ایک ھی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کے لکھنے کا مقصدکچھ اور ہے نا کہ ریپیٹیشن۔
جہان سکندر
عبدالرحمان پاشا
میجر احمد
ایک شخص، تین نام اورتین ہی کردار۔مگر ہر کردار اپنے اندر ایک مکمل جہان لیے ہوئے۔
بھئی پیر کامل ﷺ کے سالار کے بعد جہان سکندر واحد کیریکٹر ہے جس نے مجھے فیسی نیٹ کیا۔ اس ناول کی سیٹنگ پاکستان اور ترکی ہے۔دو پاکستانی لڑکیوں کی سبانجی یونیورسٹی کی سکالرشپ پہ سلیکشن ہو جاتی ہے۔
آہ اس یونیورسٹی میں جہاں میں بھی اپلائی کیامگر ۔۔۔۔۔۔۔
خیر چھوڑیے۔
اس ناول کی اچھی چیز یہ ہے کہ اس میں ’طلعت حسین‘ کے ’فریڈم فلوٹیلا‘ کا بھی زکر ملتا ہے اور بھی کئی چیزوں کا تزکرہ ہے۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول حالات حاظرہ کو مد نظر رکھ کر لکھا گیا۔ اس میں بیوک ادا (پرنسز آئی لینڈ)کا ذکر بھی ہے جو میں اس سے پہلے مستنصرحسین تاڑر کے ایک سفر نامے بھی پڑھ چکا ہوں۔
ایک جگہ پہ تو لگا کہ نمرہ احمد میں طارق اسماعیل ساگر کی روح حلول کر گئی ہے۔ ویسے مجموعی طور پہ یہ ناول پڑھنے بلکہ بار بار پڑھنے کی چیز ہے۔
اسے یونیورسٹی آف سرگودھا کی لائبریری سے مستعار لے کر پڑھا گیا۔
 
Top