یاس جلوہء قاتل سے کچھ ایسا میں حیراں رہ گیا - یاس لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا واجد حسین یاس لکھنوی)

جلوہء قاتل سے کچھ ایسا میں حیراں رہ گیا
اک تڑپنے کا تھا ارماں وہ بھی ارماں رہ گیا

شکر ہے لاشہ مرا مقتل میں عریاں رہ گیا
مرحبا اے عشق تیرے ہاتھ میداں رہ گیا

رازِ اُلفت داغ بن کر دل میں پنہاں رہ گیا
آہ تک میں نے نہ کی گھٹ گھٹ کے ارماں رہ گیا

تجھ سے اے اشکِ ندامت کیا یہی اُمید تھی
دامنِ دل پر جو اپنے داغِ عصیاں رہ گیا

انتظار یار میں آنکھیں کھلیں ہیں رات دن
یہ وہی در ہیں کہ جن کو شوقِ مہماں رہ گیا

اہلِ محفل دید کے قابل ہے ناز اُس شوخ کا
دل میں آبیٹھا مگر آنکھو‌ں سے پنہاں رہ گیا

زندگی بھر تک تو شرمندہ نہ تھے یاروں سے ہم
لاش اُٹھانے کا مگر آخر اک احساں رہ گیا

چل رہی تھی سانس اپنی خود چُھری کی طرح سے
تیغِ قاتل کا عبث گردن پہ احساں رہ گیا

مرنے والے جذب دل کی نارسائی دیکھ لیں
آنکھ اُٹھا کر وہ سوئے گورِ غریباں رہ گیا

خاک چھانی عمر بھر کوئے بتاں میں یاس نے
وائے ناکامی کہ اس پر بھی مسلماں رہ گیا
 
Top