جشن آزادی

اظفر

محفلین
دانش کی طرف سے

دعا

ہر شاخ رہے تازہ میرے گلشنِ جاں کی
اللہ کرے رُت نہ یہاں آئے خزاں کی
گُل بوٹوں کو مستانہ ہوا جھولے جھلائے
سہلا کے بڑے پیار سے کلیوں کو ہنسائے
پیغام ہو خوش بختی کا ہر صبح یہاں کی
اللہ کرے رُت نہ ٓیہاں آئے خزاں کی
صیاد کے ہاتھوں سے نہ تاراج ہوں غنچے
بے فکری سے پھوٹیں یہاں ہر آن شگوفے
اور دیدنی ہو شان ہر اک نخلِ جاں کی
اللہ کرے رُت نہ یہاں آئے خزاں کی
اللہ بچائے اسے ہر اک خطر سے
ہر دوست نما دشمنِ بد خُو کی نظر سے
سُن پائیں نہ اغیار کوئی بات یہاں کی
ہر شاخ رہے تازہ میرے گلشنِ جاں کی
اللہ کرے رُت نہ یہاں آئے خزاں کی
 

اظفر

محفلین
علی عمران کی طرف سے


وعدہ
اے وطن پیارے وطن
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ
ہم نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے
مگر ہم ہار گئے
جو ہم نے وعدے کیے تھے وہ سب بے کار گئے
ہم اپنی جھوٹی انا جھوٹی آن بان کی خاطر
توڑتے تیری عظمت کے سب مینار گئے
ہم بھول گئے ہم ہیں ایک پھول کی مانند
کہ جس کی ایک پتی بھی ٹوٹ جائے تو
پھول بدنما سا لگتا ہے
لیکن ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا
اگر ہم آج بھی مل کر
اب ایک وعدہ کریں
صرف ایک آخری وعدہ
کہ ہم اپنے حصے کا قرض
وہ قرض کہ جو تیرا ہماری جان پہ ہے
تجھے لوٹائیں گے
اے میری پاک سر زمیں
تجھے دلہن بنائیں گے
بس ایک آخری وعدہ
کبھی نہ بھولنے والا
کبھی نہ ٹوٹنے والا
کہ اب نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے!
کبھی نہ ہاریں گے!!
امیر وعدہ
اے وطن پیارے وطن
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ
ہم نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے
مگر ہم ہار گئے
جو ہم نے وعدے کیے تھے وہ سب بے کار گئے
ہم اپنی جھوٹی انا جھوٹی آن بان کی خاطر
توڑتے تیری عظمت کے سب مینار گئے
ہم بھول گئے ہم ہیں ایک پھول کی مانند
کہ جس کی ایک پتی بھی ٹوٹ جائے تو
پھول بدنما سا لگتا ہے
لیکن ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا
اگر ہم آج بھی مل کر
اب ایک وعدہ کریں
صرف ایک آخری وعدہ
کہ ہم اپنے حصے کا قرض
وہ قرض کہ جو تیرا ہماری جان پہ ہے
تجھے لوٹائیں گے
اے میری پاک سر زمیں
تجھے دلہن بنائیں گے
بس ایک آخری وعدہ
کبھی نہ بھولنے والا
کبھی نہ ٹوٹنے والا
کہ اب نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے!
کبھی نہ ہاریں گے!![/
center]​
 

اظفر

محفلین
اظفر کی طرف سے

یاد
سنواردولنک! گر کسی کا ارض پاک جانا ہو
میری طرف سے بھی اس زمیں کو اک بوسہ دینا

ہرے بھرے ان درختوں سے لپٹ کر رونا
کہ ان کے سایہ میں میرا حسیں بچپن گزرا

ملیں جب پاک ہوائیں تو کہنا ان سے
دور انجانی فضاوں میں ہے اک اپنا

تمہاری بانہوں میں آنے کو ترستا ہے
سنو!وہاں کی گلیوں کو میرا سلام کہنا

انہی رستوں، گلیوں کو میرا پیام کہنا
دیس کی دوری ہے کہ اب اور کیا کہنا

سبز پرچم سے کہنا تیرے رنگ کی قسم
بڑا مشکل ہے تجھ سے دور پھرتے رہنا

میں دور رہ کے بھی تجھ سے ہوا نہ دور کبھی
ہے مرا کام تیری فرقت میں بس مرتے رہنا

میری تو دعا ہے تو یہ ہے،کہ نفرتیں ہوں ختم
اردولنک دعاوں میں بس یہی مانگتے رہنا

گھڑی بہار کی ہو، یا خزاں کا موسم ہو
ہر ایک رُت میں میں تیرا ہی ذکر کرتے رہنا

ہر اک پیار مین اُلفت میں تیری مرتا ہوں
اے ارضِ پاک! میں تجھے یاد کرتا ہوں​
 

اظفر

محفلین
14 اگست کے نام

کون جانے اس دن کو ؟
کون بتائے اس دنیاکو ؟
مشرق و مغرب میں
کہ ہم آزاد ہوے تھے
اس ارضِ پاک میں
آج کے دن میں
بہت سے خواب لیکر کر
ہمتوں کا شمار لے کر
تھا اقبال کا خواب
تو کوشش میں تھا قاید
دنیا کے سیلابوں سے
مقابلہ بھی رہا شاید
مگر
آج ایک اور ہی سماں ہے دنیا میں
ارزاں ہےبہت مسلماں کا خون دنیا میں
یوں تو یہ بات ہے آج عام
بہہ رہا ہے مسلم کا لہو صبح و شام
مگر ہم آج کے دن یہ وعدہ کرتے ہیں
اسی سچےجذبے کو لیے آگے جائیں گے
اور بڑھتے ہی جائیں گے
آج کے دن یہی وعدہ رہا
 

اظفر

محفلین
ایک گمنام سپاہی (مجھے اس یوزر کا نام معلوم نہیں‌ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا)

میں آزادی سے لے کر
آج تک کی گزری اس آدھی صدی پر
غور جب کرتا ہوں
یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے یہ کوئی سنسان رستہ ہے
جہاں ہر ایک منزل پر پہنچنا چاہتا ہے
اس پر طرہ یہ کہ
سارے ایک ہی منزل کے طالب ہیں
مگر سارے الگ ہیں
دوسروں سے دور ہیں
مجبور ہیں
ہاں یوں تو منزل ایک ہے سب کی
مگر سارے جدا ہیں
اس لیے رستہ بھٹک کر
اتنا چل کر بھی وہیں موجود ہیں اب
جس جگہ سے ہم چلے تھے کہ
وہی ویران راہیں ہیں
وہی سنسان رستہ ہے
ذرا سوچو تو
کیا یہ سودا سستا ہے؟
 

اظفر

محفلین
گمنام سپاہی کو پیغام (اظفر)

ہاں۔۔۔۔۔۔
یہ سودا مہنگا ہے، پر
آنکھوں میں آج بھی سپنے ہیں
رستے آج بھی جانے ہیں
منزل آج اپنی ہے
رستہ آج بھی منتظر ہے
ہاں ۔۔۔۔۔۔
آدھی صدی گزر گئی
مگر،اے میرے گمنام سپاہی!
ہم پہ لازم ہے کہ
نہ گزری ہوئی ریت دہرائیں
منزل کی جانب قدم بڑھائیں
سامنے دیکھیں اور چلتے جائیں
اوروں کو بھی رستہ دکھلائیں
انہیں ویران رستوں میں
ملکر ہم تم دیپ جلائیں گے
یک دل اور یکجاں ہو جائیں
پھر دیکھو ہم کہاں ہوں گے
ہاں ۔۔۔۔۔
ہم آج ایک ہیں
اپنے اس نشیمن (پاکستان)میں
ہم میں اب پھوٹ نہیں ہے
منزل بس اب دور نہیں ہے
ہاں ۔۔۔۔۔۔
ہاں یہ سودا سستا ہے
 

اظفر

محفلین
janon.jpg


aaman1.jpg
 

اظفر

محفلین
اظفر کی جانب سے اردو محفل کے تمام اراکین کو جشن آزادی مبارک ہو ۔

جو نام وہی پہچان پاکستان پاکستان
 

عزیزامین

محفلین
علی عمران خود کیوں نھیں آتے


وعدہ
اے وطن پیارے وطن
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ
ہم نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے
مگر ہم ہار گئے
جو ہم نے وعدے کیے تھے وہ سب بے کار گئے
ہم اپنی جھوٹی انا جھوٹی آن بان کی خاطر
توڑتے تیری عظمت کے سب مینار گئے
ہم بھول گئے ہم ہیں ایک پھول کی مانند
کہ جس کی ایک پتی بھی ٹوٹ جائے تو
پھول بدنما سا لگتا ہے
لیکن ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا
اگر ہم آج بھی مل کر
اب ایک وعدہ کریں
صرف ایک آخری وعدہ
کہ ہم اپنے حصے کا قرض
وہ قرض کہ جو تیرا ہماری جان پہ ہے
تجھے لوٹائیں گے
اے میری پاک سر زمیں
تجھے دلہن بنائیں گے
بس ایک آخری وعدہ
کبھی نہ بھولنے والا
کبھی نہ ٹوٹنے والا
کہ اب نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے!
کبھی نہ ہاریں گے!!
امیر وعدہ
اے وطن پیارے وطن
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ
ہم نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے
مگر ہم ہار گئے
جو ہم نے وعدے کیے تھے وہ سب بے کار گئے
ہم اپنی جھوٹی انا جھوٹی آن بان کی خاطر
توڑتے تیری عظمت کے سب مینار گئے
ہم بھول گئے ہم ہیں ایک پھول کی مانند
کہ جس کی ایک پتی بھی ٹوٹ جائے تو
پھول بدنما سا لگتا ہے
لیکن ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا
اگر ہم آج بھی مل کر
اب ایک وعدہ کریں
صرف ایک آخری وعدہ
کہ ہم اپنے حصے کا قرض
وہ قرض کہ جو تیرا ہماری جان پہ ہے
تجھے لوٹائیں گے
اے میری پاک سر زمیں
تجھے دلہن بنائیں گے
بس ایک آخری وعدہ
کبھی نہ بھولنے والا
کبھی نہ ٹوٹنے والا
کہ اب نہ ہاریں گے
رخِ گلاب کو تیرے ہمیں نکھاریں گے
کبھی نہ ہاریں گے!
کبھی نہ ہاریں گے!![/
center]​
علی عمران خود کیوں نھیں آتے​
 
ایک گمنام سپاہی (مجھے اس یوزر کا نام معلوم نہیں‌ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا)

میں آزادی سے لے کر
آج تک کی گزری اس آدھی صدی پر
غور جب کرتا ہوں
یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے یہ کوئی سنسان رستہ ہے
جہاں ہر ایک منزل پر پہنچنا چاہتا ہے
اس پر طرہ یہ کہ
سارے ایک ہی منزل کے طالب ہیں
مگر سارے الگ ہیں
دوسروں سے دور ہیں
مجبور ہیں
ہاں یوں تو منزل ایک ہے سب کی
مگر سارے جدا ہیں
اس لیے رستہ بھٹک کر
اتنا چل کر بھی وہیں موجود ہیں اب
جس جگہ سے ہم چلے تھے کہ
وہی ویران راہیں ہیں
وہی سنسان رستہ ہے
ذرا سوچو تو
کیا یہ سودا سستا ہے؟

:eek:
میری نظم۔۔۔۔۔۔ :eek: :mad:
میرے بلاگ پر دیکھیں
 
Top