علی سردار جعفری جشنِ دلداری - علی سردار جعفری

حسان خان

لائبریرین
وقت ہے فرمانِ عشق و عاشقی جاری کریں
حسن والوں سے کہو سامانِ دلداری کریں
موجِ مے آنکھوں میں لہرائے، بدن میں موجِ نور
عارضوں سے چاند سورج پر ضیا باری کریں
کھول کر بندِ قبا، بکھرا کے زلفِ عنبریں
عشقِ رسوا کی پذیرائی کی تیاری کریں
رہگذاروں میں جلائیں عشق و مستی کے چراغ
روح کے یخ بستہ گوشوں میں شرر باری کریں
آبنوسی، صندلی، سیمیں تنوں کے رقص سے
ساری دنیا پر جنوں کی کیفیت طاری کریں
جشنِ بیزاری منائیں ظلم و نخوت کے خلاف
قریہ قریہ شہر شہر آوارہ رفتاری کریں
لذتِ شہد و شکر ہو خوش بیانی میں مگر
اہلکارانِ ستم سے تلخ گفتاری کریں
تاجدارانِ جہاں کے سامنے سر خم نہ ہوں
نازنینانِ جہاں کی ناز برداری کریں
کج کلاہانِ جنوں کو دیں خراجِ تہنیت
بوسہ ہائے لب سے روح و دل پہ گلکاری کریں
دوسرا عقل و خرد ہے جب ریاکاری کا نام
کیوں نہ اس کو غرقِ سرمستی و سرشاری کریں
ساری دنیا جل رہی ہے نفرتوں کی آگ میں
عشق والے آئیں اب دنیا کی سرداری کریں
مشرق و مغرب میں جا کر خونِ انساں کیوں بہائیں
اس سے بہتر ہے کہ میخانوں میں مے خواری کریں
فخر سے پہنیں گلے میں تمغۂ آوارگی
اور یوں انسانیت کا جشنِ بیداری کریں
(علی سردار جعفری)
۱۹۷۱ء
 
Top