داغ جس وقت آئے ہوش میں کُچھ بے خودی سے ہم ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
جس وقت آئے ہوش میں کُچھ بے خودی سے ہم
کرتے رہے خیال میں باتیں اُسی سے ہم

ناچار تم ہو دِل سے تو مجبُور جی سے ہم
رکھتے ہو تم کسی سے محبّت، کسی سے ہم

پُوچھے نہ کوئی ہم کو، نہ بولیں کسی سے ہم
کنُجِ لحد میں جاتے ہیں کِس بے کسی سے ہم

نقشِ قدم پہ آنکھیں مَلیں مَل کے چل دیے
کیا اور خاک لے گئے تیری گلی سے ہم

یوسف کہا جو اُن کو، تو ناراض ہو گئے
تشبیہ اب نہ دیں گے، کسی کو کسی سے ہم

ہوتا ہے پر ضرور خوشی کا مآل رنج
رونے لگے اخیر زیادہ ہنسی سے ہم

کہتے ہیں آنسوؤں سے بُجھائیں گے ہم تجھے
یہ دِل لگی بھی کرتے ہیں، دِل کی لگی سے ہم

کئی دن ہوئے ہیں ہاتھ میں ساغر لئے ہُوئے
کس طرح توبہ کرلیں الٰہی ابھی سے ہم

ہم سے چُھپے گا عشق یہ کہنے کی بات ہے
کیا کچُھ بُری بَھلی نہ کہیں گے کسی سے ہم

معشُوق کی خطا نہیں، عاشِق کا ہے قصُور
جب غور کر کے دیکھتے ہیں مُنصَفِی سے ہم

دُشمن کی دوستی سے کیا قتل دوست نے
دعوٰی کریں گے خون کا اب مُدّعی سے ہم

واعظ ! خطا معاف کہ انسان ہم تو ہیں
بن جائیں گے فرشتہ نہ کچُھ آدمی سے ہم

جس کو نہیں نصیب، بڑا بد نصیب ہے !
کھاتے ہیں تیرے عِشق کا غم کِس خوشی سے ہم

خَلوَت گزیں رہے ہیں تصوّر میں اِس قدر
معلوُم ہوں گے حشر میں بھی اجنبی سے ہم

اِس کا گواہ کون ہے یا رب تِرے سِوا
مرتے ہیں ہجرِ یار میں کِس بے کسی سے ہم

غیروں سے اِلتفات پہ ٹوکا، تو یہ کہا
دُنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم

مانُوس ہو نِشاط و سرُور و خوشی سے تم
حسرت سے ہم، ملال سے ہم، بے کسی سے ہم

کرتے ہیں ایسی بات، کہ کہہ دو دِل کی بات
یُوں مُدّعا نِکالتے ہیں مُدّعی سے ہم

دِل کچُھ اُچاٹ سا ہے تِرے طَور دیکھ کر
وہ بات کر، کہ پیار کریں تجھ کو جی سے ہم

عادت بُری بَلا ہے چُھٹتی نہیں کبھی
دُنیا کے غم اُٹھاتے ہیں کِس کِس خوشی سے ہم

وعدہ کیا ہے اُس نے قیامت میں وصل کا
اپنا وصال، چاہتے ہیں لو ابھی سے ہم

کرتے ہیں اِک غرض کے لئے اُس کی بندگی
بن جائیں گے غلام نہ کچُھ بندگی سے ہم

اَن بن ہُوئی ہو غیر سے اُس کی خُدا کرے
سُنتے ہیں لاگ ڈانٹ کسی کی کسی سے ہم

دِلگیر اِس قدر ہے کہ جا جا کے باغ میں
دل کو مِلا کے دیکھتے ہیں ہر کلی سے ہم

کہتے ہیں وہ سِتم میں ہمارے ہے خاص لُطف
یہ دُشمنی بھی، کرتے ہیں اِک دوستی سے ہم

واقِف رمُوزِ عِشق و محبّت سے، داغ ہے
مِلتا اگرتو پُوچھتے کچھ ، اُس وَلی سے ہم

کم بخت دِل نے داغ ! کِیا ہے ہَمَیں تباہ
عاشِق مِزاج ہوگئے آخر اِسی سے ہم

(داغ دہلوی)
 
Top