الف نظامی

لائبریرین
پچھلے تین دنوں سے مسلم لیگ ن کے حامی اور ہمدردایک منظم مہم کے تحت دو باتیں زور شور سے کہہ رہے ہیں۔ایک یہ کہ جسٹس باقر نجفی رپورٹ مبہم اور غیر واضح ہے ، دوسرا یہ کہ اس میں ایسا کچھ نہیں، جومسلم لیگ ن کے خلاف جائے۔ باقاعدہ لائن لے کر ہر جگہ یہ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا .... ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے۔ مقصد غالباً یہ ہے کہ اس کمیشن رپورٹ کی اس قدر بھد اڑائی جائے کہ اسے کوئی سنجیدہ بحث کا موضوع ہی نہ بنا سکے اور یوں ن لیگ کو پہنچنے والے سیاسی نقصان میں کچھ کمی ہوسکے۔

اس اخبارنویس نے ایک زمانے میں قانون کی ڈگری حاصل کی تھی، جس پر اب کچھ زیادہ فخر محسوس اس لئے نہیں ہوتا کہ پچھلے دو عشروں میں ان قانونی کتب کی دھندلی سی یاد ہی ذہن میں محفوظ ہے۔صحافت کی تیز اور بے ڈھنگی چال نے وہ سب بھلا دیا۔ اس بات کا مگر میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاون پر جسٹس باقر نجفی کی ٹریبونل رپورٹ کو سمجھنے کے لئے قانون میں مہارت رکھنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ سب کچھ اتنا صاف اور واضح ہے کہ فکری دیانت رکھنے والا ہر شخص اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ جائے گا۔ روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز نے رپورٹ کے ترجمے کا اہتمام کیا تھااور دو دن پہلے یعنی بدھ کی اشاعت میں ڈیڑھ صفحات پر یہ رپورٹ شائع کی گئی، دلچسپی رکھنے والے صاحبان نیٹ پر اسے پڑھ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق پنجاب حکومت اور خاص طور سے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنااللہ کے موقف کے پرخچے اڑا دیتی ہیں۔ درحقیقت یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نجفی ٹریبونل رپورٹ نے انہیں واضح الفاظ میں جھوٹا قرار دیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاون کے بارے میں پنجاب حکومت کا موقف تین چار نکات پر مشتمل تھا۔
  1. اس واقعے میں حکومت کی بدنیتی شامل نہیں ، اسی لئے وزیراعلیٰ نے فوری طور پرایک جج پر مشتمل ٹریبونل تشکیل دیا ، تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔
  2. وزیراعلیٰ نے آپریشن کا حکم صادر نہیں کیا تھا، انہیں ٹی وی کی خبروں سے اس کا پتہ چلا اور انہوں نے فوری طور پرپولیس آپریشن روکنے کے احکامات جاری کر دئیے تھے۔
  3. انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان کا ارادہ صرف تجاوزات ہٹانا تھا، ان پرالمنہاج سیکرٹریٹ کے گارڈز نے فائرنگ کی اور بعض پولیس اہلکاروں نے انفرادی طور پر اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی ۔ کسی پولیس افسر نے پولیس کو فائرنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

آئیے اب جسٹس باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ پر نظر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے ان نکات کے حوالے سے کیا نتائج اخذ کئے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ پنجاب حکومت نے(اپنے بلند بانگ دعووں کے برعکس) دانستہ طور پر اس ٹریبونل کو نہایت محدود مینڈیٹ دیا تاکہ وہ اصل ذمہ داروں کا تعین نہ کر سکے ۔

جسٹس علی باقر نجفی نے رپورٹ میں لکھا ہے:

” ٹریبونل کے کام کی شرائط درج ذیل ہیں۔ ان حقائق اور حالات کا پتہ لگانا اور انکوائری کرنا جو کہ ماڈل ٹاون میں منہاج القرآن اکیڈمی اور سیکریٹریٹ کے واقعہ کی وجہ بنے۔“


یہ نکتہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ یہ ٹریبونل صرف ان حقائق اور حالات کی طرف اشارہ کر سکتا تھا جن کی وجہ سے سانحہ ماڈل رونما ہوا۔ ٹریبونل یا فاضل جج صاحب اگر چاہتے ، تب بھی وہ اپنی رپورٹ میں باقاعدہ نام لے کر یہ نہیں لکھ سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص اس سانحے کا ذمہ دار ہے ۔
یہ اور بات کہ جناب جسٹس باقرنجی نے کمال جرات اور دلیری سے اس قدر محدود مینڈیٹ کے باوجود وہ تمام حقائق اکٹھے کر لئے ، جو حکومت چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ہمارا دعویٰ ہے کہ میٹرک کی سطح کے کسی شخص کے لئے بھی اس رپورٹ (اس کا ترجمہ) دیکھ کر نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا کہ رپورٹ کو پبلک نہ کیا جائے۔ اگر ہائیکورٹ حکم نہ دیتی تو شائد وہ کبھی رپورٹ عام نہ کرتے۔

ٹریبونل نے پہلے نکتے کے حوالے سے مختلف مثالوں کے ساتھ یہ بتادیا کہ اس المناک واقعے کے حقائق چھپانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی ۔ پولیس افسروں اور اہلکاروں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:

”ٹریبونل اس امر سے بخوبی آگاہ تھا کہ پولیس افسروں اور اہلکاروں کی طرف سے دانستہ خفیہ رکھا جا رہا ہے یا خاموشی اختیار کی جا رہی ہے ، جس پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پولیس کو احکامات ملے ، خواہ کھلے عام میں یا خفیہ طور پر ، اسے بہرطور اپنا ہدف حاصل کرنا ہے ، اس کے لئے خواہ پاکستان کے غیرمسلح شہریوںکی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔چناچہ ٹریبونل یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پولیس کی جانب سے اس قانون شکنی کا مقصد صرف حقائق کو دفن کرنا ہے ، جس سے اس کی غنڈہ گردی کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے۔“


آگے جا کر رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ٹریبونل کوتحقیق اور تفتیش کا حق ہوتا تو اصل راز زیادہ کھل کر سامنے آ جاتا۔
رپورٹ کے مطابق:

”ٹریبونل یہ کہنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ حکومت کا یہ عمل بھی بدنیتی کا مظہر ہے کہ اس نے پنجاب ٹریبونل آرڈی ننس 1959کے تحت اس ٹریبونل کو یہ اختیارنہیں دیا گیا کہ وہ اپنے سامنے آنے والے کسی معاملے کی تحقیق کر سکے، جسے یہ ٹریبونل حقائق جاننے کی کوشش میں ایک رکاوٹ سمجھتا ہے۔ تمام تر حقائق وحالات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت کی حقیقی نتائج تک پہنچنے کی کوئی نیت بھی نہیں ہے۔“


ایک اور جگہ لکھا ہے :

”17-6-14 اور صبح ساڑھے دس سے بارہ بجے تک کا وقت نہایت اہم ہیں، کیونکہ اس وقت آئی جی پنجاب نے پنجاب پولیس کی کمان نہیں سنبھالی تھی اور اس دوران ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے حلف لینا تھا۔ اگر اس ٹریبونل کو تفتیش کرنے کا بھی اختیار دیا جاتا تو وہ مزید چھپے ہوئے حقائق کو منظرعام پر لا سکتا تھا۔“

وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحے کے بعد دعویٰ کیا کہ وہ اس سے لاعلم تھے اور علم ہونے پر انہوں نے پولیس آپریشن روکنے کا حکم دیا تھا۔ ٹریبونل کو اپنی تحقیق میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ رپورٹ کے مطابق:

”تمام حقائق اور حالات کو ساتھ رکھ کر دیکھنے سے یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ کارروائی میں ملوث نہ ہونے کا آرڈر جاری نہیں کیا گیا تھا بلکہ وزیراعلیٰ کا موقف بعد میں سوچا گیا دفاعی موقف تھا جو (واقعے کے بعدہونے والی)پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ “


مسلم لیگ ن کے حامی ممکن ہے اس فائنڈنگ کو بھی کافی نہ سمجھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹربیونل نے میاں شہباز شریف کے دعوے کو اڑا کر رکھ دیا ہے۔

پنجاب حکومت کے تیسرے دعوے کے حوالے سے ٹریبونل نے صاف لکھ دیاکہ:

”اس وقت کے وزیرقانون کی چیئرمین شپ میں دہشت انگیز ہلاکتوں پر منتج ہونے والے آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا ، جس سے باآسانی بچا جا سکتا تھا۔ “


آگے جا کر لکھا:

”خونی غسل کے واقعات اور واقعات سے واضح طور پر عیاں ہے کہ پولیس افسروں نے قتل عام میں فعال کردار ادا کیا۔“


ٹریبونل نے رپورٹ میں مزید کھل کر لکھا:

”موقعہ واردات پر موجود لوگوں پر پولیس نے جس طرح گولیاں چلائیں اور انہیں مارا پیٹا، اس سے ناقابل تردید طور پر عیاں ہوتا ہے کہ پولیس نے ٹھیک وہی کچھ کیا، جس کے لئے اسے وہاں بھیجا گیا تھا۔ پولیس اور تمام متعلقین نے کسی استثنا کے بغیر ، ہر خوف سے آزاد ہو کر شیطانی افعال انجام دئیے ۔ جن کے نتیجے میں ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ مذکورہ بالا حقائق اور حالات کو مد نظر رکھ کر یہ رپورٹ پڑھنے والا باآسانی منہاج القرآن والے افسوسناک واقعے کی ذمہ داری کا تعین کر سکتا ہے۔“

یہ ہے جسٹس علی باقر نجفی ٹریبونل رپورٹ۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری کن پر عائد ہونی چاہیے؟

افسوس تو یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون جیسے خونی واقعے کے تین سال بعد تک وہی صوبائی حکومت موجود ہے
وہی صوبائی وزیرمونچھوں کو تاو دیتا ہوامسندپر براجمان ہے
انہی پولیس افسروں کو نوازا گیا اور اس اہم ترین ٹریبونل رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے روکا گیا۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اس لہو رنگ سانحہ کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے؟ حقیقی احتساب
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب حکومت عوامی تحریک کی انتظامیہ اور کارکنان کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے اہم پیغامات

باقر نجفی رپورٹ کو لفظ بہ لفظ پڑھ کر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کس نتیجہ پر پہنچے؟

باقر نجفی رپورٹ کس طرح منصوبہ ساز شہباز شریف اور رانا ثنا کو مجرم ثابت کرتی ہے؟

رپورٹ کے مطابق 16 جون 2014 کی حکومتی میٹینگ میں کیا ڈسکس ہوا تھا؟

رپورٹ نے کس طرح شہباز شریف کو مصدقہ جھوٹا شخص قرار دیا؟ وزراء کیوں جھوٹ بولتے ہیں؟

جسٹس نجفی کو رپورٹ مرتب کرنے پر مبارکباد اور ماڈل ٹاون سے بیریرز ہٹانے کی غلط سٹوری کی حقیقت

ماڈل ٹاون میں گولی چلانے کا آرڈر کس نے دیا؟ اس پر پولیس آفیسر کا کمیشن میں کیا جواب تھا؟

کمیشن کو تحقیقات کے لیے مطلوبہ اختیارات نہ دے کر حکومت نے کیا ثابت کیا؟ نواز شریف کیسے ملوث؟

انسانیت دشمن اور بے ضمیر حکومتی لوگ کس طرح یہ کہتے ہیں کہ رپورٹ میں ذمہ داری فکس نہیں کی گئی؟

کمیشن کو اگر تحقیقات کے سلسلہ میں مزید اختیار ملتا تو کمیشن کس چھپے ہوئے سچ کو ظاہر کر سکتا تھا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
شہباز شریف کے بیان حلفی میں کیا موقف اختیار کیا گیا؟ اور اس بارے میں کمیشن کی رپورٹ میں حقیقت کیا ہے؟

 

الف نظامی

لائبریرین
25299458_1578183535592494_2453345103754532109_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد نے سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی اور چار سال کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پر چیف جسٹس کو درخواست پیش کی اور ان سے جلد انصاف کیلئے سووموٹو ایکشن لینے کی اپیل کی۔ چیف جسٹس نے انصاف میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور تاخیر کی وجوہات جاننے کیلئے مفصل رپورٹ طلب کرلی۔ نعیم الدین چوہدری اور نور اللہ صدیقی بھی بسمہ امجد کے ہمراہ چیف جسٹس سے ملاقات میں شامل تھے۔

مؤرخہ 08 اپریل 2018 کو شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء صبح 8 بجے سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر ’’چیف جسٹس انصاف دو۔ ۔ ۔ چیف جسٹس نوٹس لو‘‘ کے کتبے اٹھا کر کھڑے تھے، جب چیف جسٹس کا قافلہ شہداء کے ورثاء کے قریب سے گزرا تو انہوں نے اپنی گاڑی آہستہ کر لی اور تمام کتبوں پر نگاہ دوڑائی اور پھر اپنے چیمبر میں پہنچ کر تین نمائندوں کو آنے کا کہا جس پر تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد، مرکزی ترجمان نور اللہ صدیقی اور نعیم الدین چوہدری چیف جسٹس کے چیمبر میں ملاقات کیلئے گئے۔ ملاقات کے بعد نعیم الدین چوہدری، نور اللہ صدیقی اور بسمہ امجد نے میڈیا سے گفتگو کی۔

بسمہ امجد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس نے انتہائی شفقت سے بات سنی اور انہوں نے یقین دلایا کہ انصاف ہو گا، کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے، انہوں نے انصاف میں تاخیر کا نوٹس لیا ہے اس پر انکی شکر گزار ہوں۔

نعیم الدین چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے پوری بات سنی اور واضح الفاظ میں کہا کہ کوئی انصاف کے عمل پراثر انداز نہیں ہو سکتا، میرے ہوتے ہوئے تو بالکل ایسا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف ملے گا، ڈرنے کی ضرورت نہیں کوئی ہراساں نہیں کر سکتا، تاخیر کی وجوہات کیا ہیں یہ جاننے کیلئے نوٹس جاری کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ نعیم الدین چوہدری نے کہا کہ ہم نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے پیچھے سابق وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب اور انکے حواری ہیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اور انصاف کون نہیں ہونے دے رہے یہ ریکارڈ کی بات ہے۔ حکمران انصاف کے عمل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17 جون 2014 کے دن قانونی بیرئیر ہٹانے کیلئے پنجاب حکومت نے غیر قانونی آپریشن کیا، 100 لوگوں کو گولیاں ماریں جن میں 14 شہید ہو گئے، جوڈیشل کمشن کی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ پولیس نے وہی کیا جسکا انہیں حکم دیا گیا تھا۔

دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان نور اللہ صدیقی نے بتایا کہ ملاقات کے دوران چیف جسٹس کے علم میں لائے کہ پنجاب حکومت نے تفتیش سے لے کر ہر مرحلہ پرانصاف کا خون کیا، کیونکہ وہ اس سانحہ میں براہ راست ملوث ہیں۔ جو جے آئی ٹی بنائی تھی اس میں دو اہم ایجنسیز نے اختلافی نوٹ لکھے تھے جسے پنجاب حکومت نے غائب کر دیا اور ہر اس ثبوت کو غائب کر دیا جس سے انصاف کی فراہمی کے عمل کو تقویت ملتی ہو، ترجمان نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ تا حال فرد جرم بھی عائد نہیں ہو سکی، با اثر ملزمان روایتی درخواست بازی کر کے فرد جرم کے عمل کو بھی التوا کا شکار بنا رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی فراہمی اے ٹی سی کی ذمہ داری ہے ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ قانون کے بر عکس کچھ نہ ہو اور اسکی نگرانی کریں گے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ سب سے بڑے منصف ہیں ہماری ساری امیدیں آپ سے ہیں، آپ ہمیں انصاف دلائیں، ہم بہن بھائی اپنی ماں کے بغیر کیسے رہ رہے ہیں یہ صرف ہم جانتے ہیں، سر! مجھے بتایا جائے میری ماں اور میری پھوپھو کا قصور کیا تھا؟ انہیں ناحق کیوں مارا گیا؟ بسمہ کے مکالمہ پر چیف جسٹس نے بسمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا آپ تعلیم کے حصول کیلئے اپنی ماں کا خواب پورا کریں، ساری توجہ تعلیم پر دیں انصاف ہماری ذمہ داری ہے اور ان شا اللہ قانون کے مطابق انصاف ہو گا۔

عدالت کے باہر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ہمراہ امیر تحریک منہاج القرآن حافظ غلام فرید، میاں صدیق، آصف محمود، اصغر ساجد، میاں حنیف، عمر اعوان، عبدالحفیظ چوہدری، ریحان چوہدری تھے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وکلاء نے سپریم کورٹ رجسٹری میں حاضری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپیڈی جسٹس کیلئے چیف جسٹس نے جو ہدایات دی ہیں اس سے فوری انصاف کی فراہمی کے قانونی تقاضے پورے ہونگے۔ بالخصوص لاہور ہائیکورٹ میں عرصہ سے التوا کا شکار رٹ پٹیشنز کے جلد فیصلوں سے انصاف کا عمل آگے بڑھے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اے ٹی سی کی طرف سے طلب کئے گئے افسران اور اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹایا جائے، وہ ملزمان اپنی سرکاری پوزیشنز کی وجہ سے کیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں جو فیئر ٹرائل کے آئینی تقاضوں کے خلاف ہے۔

مستغیث جوادحامد، نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ، شکیل ممکا ایڈووکیٹ نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے ہمراہ سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے حوالے سے 4 رٹ پٹیشن دائر ہیں جن کے فیصلے نہیں ہوئے، ان میں سے ایک رٹ پٹیشن نواز شریف، شہباز شریف سمیت 14 ملزمان کی طلبی کی ہے جنہیں انسداد دہشتگردی کی عدالت کی طرف سے طلب نہیں کیا گیا، ایک رٹ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سے متعلق ہے۔ سابق آئی جی نے اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے اور سٹے آرڈر لے رکھا ہے، تیسری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ سے منسلک دستاویزات کی عدم فراہمی سے ہے۔ چوتھی رٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹانے سے متعلق ہے۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہداء کے ورثا نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ طلب کی ہے، پہلی باریہ رپورٹ اعلیٰ عدلیہ کے ریکارڈ پر آرہی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہاہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن قومی و بین الاقوامی سطح پر توجہ کا حامل کیس ہے، ہماری قانونی جدوجہد جاری ہے، سانحہ کے ماسٹر مائنڈز کی طلبی چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ اور استغاثہ کیس کی روزانہ کی سماعت سے جلد انصاف کی امید پیدا ہوئی ہے۔
 
Top