جریدہ مغرب اور اسلام شمارہ نمبر 35 خاص شمارہ مشرق وسطیٰ

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے علمی مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ کا تازہ شمارہ(مشرقِ وسطیٰ نمبر) شائع ہوگیا ہے۔ سال ۲۰۱۱ء کے اس پہلے شمارے میں ’’آج کا مشرقِ وسطیٰ: عالمی سیاست اور علاقائی مسائل‘‘ کے عنوان کے تحت پانچ مقالات اور پانچ انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں، جو موضوع کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ۱۴۰ صفحات کے اس شمارہ میں جن اہلِ دانش کے مقالات/ خیالات شامل کیے گئے ہیں، ان میںمجلہ کے مدیر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد کے علاوہ پروفیسر خورشید احمد، پروفیسر سٹیون جے روز نتھل، ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈاکٹر سید رفعت حسین، مراد ولفرائڈ ہوف مین، تنویر احمد خان، خالد رحمن، ثروت جمال اصمعی، سلیم ظفر اور حرا محمود شامل ہیں۔

مغرب اور اسلام کے اس خصوصی شمارے میں عظیم تر مشرقِ وسطیٰ کی ہمہ وقت تبدیل ہوتی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے جن سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اُن میں یہ پہلو نمایاں طور پر شامل ہیں:
امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی مفاد ات و مقاصد کیاہیں؟
انہیں حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے کیا پالیسیاں اختیار کیں اوران پالیسیوں کے خطے میں اورعالمی سطح پرکیا نتائج مرتب ہوئے؟
کیا اوباما انتظامیہ کے دورِ حکومت میں امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں کوئی تبدیلی آنے کے امکانات ہیں؟
یورپی ممالک مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے کیا نقطۂ نظررکھتے ہیں اوران کا خطے کے مسائل میں کیا کردار ہے؟
اوراسرائیلی رہنمائوں کی ہمہ وقت جنگ کے لیے تیاری کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کی خارجہ اوردفاعی پالیسیوں میں جنگ کی کیا اہمیت ہے؟
 

موجو

لائبریرین
o0751z.jpg


29lflp4.jpg
 

موجو

لائبریرین
فہرست
مشرق وسطیٰ اور تعلیمی سامراجیت (ابتدائیہ) ( پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)
تعارف (مدیران خصوصی)
مشرق وسطیٰ چند اہم عوامل
- عالمی سرمایہ داری، توانائی کی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ (خورشید احمد)
- امریکی خارجہ پالیسی اور مشرقِ وسطیٰ (سٹیون جے روز نتھل)
- فلسطین میں گروہ بندی اور گولڈ سٹون رپورٹ (ممتاز احمد)
- عراق میں موجودہ پیش رفت اور مستقبل کے امکانات (سید رفعت حسین)
- ایران کے معاملات پر ایک نظر (تنویر احمد خان)
مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیاں اور اس کے مضمرات ( خالد رحمٰن)
صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی - ایک تقابلی جائزہ (حرا محمود)
صدر اوباما کے وعدے - عمل کی کسوٹی پر ( ثروت جمال اصمعی)
مشرق وسطیٰ یورپی تناظر میں (مرادولفرائڈ ہوف مین)
جنگ - سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ: اسرائیل کی عسکری نفسیات (سلیم ظفر)
 

موجو

لائبریرین
<h2> مشرقِ وسطیٰ اورتعلیمی سامراجیت </h2>
<h4> پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد </h4>

قرآن کریم نے اپنی عالمی اخلاقی انقلاب کی دعوت کا آغاز جس کلمہ سے کیا تھا وہ ایک اُمی قوم کے لیے جانا پہچانا لفظ تھا لیکن وہ صدیوں کے دور زوال کی بنا پر اس کے مفہوم اور مضمرات کو اپنی یادداشت میں گم کر چکی تھی۔ ’’پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کی ایک پھٹکی سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو، تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا‘‘ (العلق۹۶:۱تا ۵)۔ علم، معرفت، تحقیق اورتفقّہ کی روایت نے نو تعمیر کردہ اسلامی معاشرہ کو دیگر معاصر تہذیبوں پر فوقیت اورامتیاز بخشااورمدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اورمعاشرہ کے قیام کے اولین سو برسوںمیں مسلمان مختلف شعبۂ ہائے علم میں قیادت کے مقام تک پہنچ گئے۔ ان کی قرآن و سنت سے وابستگی کے نتیجہ میں جو علوم پروان چڑھے ان کی بنیاد قرآن و سنت کے فراہم کردہ عالمی اخلاقی اصولوں پر تھی لیکن ان علوم نے عصری مسائل کے علمی حل پیش کیے جس کی بنا پر غیر مسلم دنیا میں بھی ان کے اثرات تیزی سے پھیلے۔


وہ قوم جو اپنے اُمی ہونے پر فخر کرتی تھی اس دعوتِ علم و عمل کے نتیجے میں علم کے ہر شعبے میں قیادت و سربراہی کے مقام پر فائز ہوگئی اورپانچ صدیوں تک علم و ثقافت کے اتار چڑھائو کے باوجود تخلیق علم کے ذریعہ انسانیت کے مسائل کا حل کرتی رہی۔ جوں جوںاس کا تعلق قرآن کریم سے کم ہوتا گیا اس کی علمی جدت اور ولولہ میں کمی آتی گئی اور وہی امت مسلمہ جو علم ومعرفت میں قائدانہ کردار ادا کر رہی تھی غلامی اور تقلید کا شکار ہوگئی۔امت کے سیاسی زوال کے باوجود معاشرتی اور علمی میدانوں میں وقتاً فوقتاًایسے مجددین آتے رہے جن کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں تاریکی میں قندیلیں روشن ہوتی رہیں۔ ایک جانب خاندانی نظام اور دوسری جانب درس گاہ کا نظام کسی نہ کسی طرح اپنی مستقل بالذات شکل میں زندہ رہا۔مغربی سامراج نے اٹھارھویں صدی میلادی سے اپنی بر تر عسکری قوت اور معاشی ترقی کے سہارے روایتی مسلمان خطوں پر تسلط حاصل کیا تو معیشت کے دروازے صرف ان افراد کے لیے کھولے جو مغربی سامراج کی زبان و ثقافت سے آگاہی رکھتے ہوں۔ چنانچہ انگریزی ،فرانسیسی اور اطالوی سامراج نے برصغیر پاک و ہند ہو یا جنوب مشرقی ایشیایا افریقہ اور مشرق وسطیٰ انگریزی، فرانسیسی، اطالوی اور پرتگالی زبانوں کی ترویج کے ساتھ وہ نظام تعلیم بھی رائج کیا جو اسے انتظامی کارندے فراہم کر سکے۔ مشرق وسطیٰ میں مصر میں انگریزی، شام، لبنان اور الجزائر میں فرانسیسی اور لیبیامیں اطالوی اثرات کے نتیجے میں سرکاری تعلیمی اداروں اور جامعات میں تعلیم پانے والی نئی نسل پر مغربی فکر کے اثرات ایک فطری عمل کی شکل اختیار کر گئے۔
مشرق وسطیٰ میں مغرب کی تعلیمی سامراجیت کی ایک نمائندہ مثال بیروت میں ۱۸۶۶ء میں Syrian Protestant College کا وجود میں آناہے،جسیامریکی مشنریوں نے قائم کیا۔شام اوردیگر مقامات پر Jesuitعیسائی فرقے کے مشنری پہلے ہی سے تعلیمی میدان میں سرگرم تھے۔امریکی مشنریوں کے قائم کردہ کالج اور بعد میں امریکی یونیورسٹی بیروت کا قیام مستقبل میں مشرق وسطیٰ کے علمی اور سیاسی حلقوںپر گہرے اثرات کا باعث بنا ۔ان اداروں سے جن عیسائی اور مسلمان طلبہ نے تعلیم حاصل کی وہ غیر محسوس طور پر مغربی فکر سے متاثر ذہن لے کر سیاست ،تعلیم اور معیشت کے میدانوں میں اترے۔ ان میں عرب قومیت جس کی بنیاد عربی زبان کا اشتراک تھانمایاں تھی۔جو عرب قوم پرست یہاں سے نکلے وہ دیگر ممالک ،مصر اور عراق ،پر بھی اثر انداز ہوئے اور اس طرح یورپی تعلیمی سامراجیت نے مشرق وسطیٰ میں جڑیں پکڑیں۔


یورپی تعلیمی سامراجیت نے مشرق وسطیٰ میں سیکولر ازم ،مادیت اور قوم پرستی کے تصورات کو پھیلانے میں اپنے تمام وسائل کو انتہائی ذہانت کے ساتھ استعمال کیا۔اس سلسلہ میں ۱۸۲۲ء میں مصر میںپرنٹنگ پریس کے قیام نے عربی زبان میں ایسے مواد کی اشاعت کو بہت آسان بنا دیا جو لادینیت، عرب قوم پرستی اور ’’روشن خیالی‘‘کو تقویت دے سکے۔عرب قوم پرستی کا ایک تقاضا ترکوں کے اثرات سے نکلنا تھا۔جس طرح یورپ میں نیشن اسٹیٹ کے تصور نے فروغ حاصل کیا تھا بالکل اسی طرز پر مشرق وسطیٰ میں ترکوں کے اثرات کو زائل کرنے اورامت مسلمہ کو شعوب و قبائل میں بانٹنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے مغربی استعمار نے قومی عصبیتوں کو ابھارنے میں سر گرمی سے حصہ لیا۔


اس سلسلہ میں مغربی تعلیمی استعماریت تین جہتوں سے سرگرم عمل ہوئی اولاًایسے تعلیمی اداروں کا قیام جن کا مقصد مشنری جذبہ کے ساتھ عیسائیت کی اشاعت تھا۔اگرچہ یہ ادارے مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں بالکل کامیاب نہیں ہوسکے لیکن اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں ان کا بڑا دخل رہا۔ دوسری جانب مغربی تعلیمی استعماریت نے مشرق وسطیٰ میںمستعمل نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کیںاور معاشرتی علوم میںمغربی مفکرین کی تالیفات کے عربی تراجم کو متعارف کرایا۔چنانچہ علم سیاست،معاشیات، عمرانیات،تاریخ،فلسفہ غرض تمام معاشرتی علوم کی تدریس میں مغربی مصادر پر انحصار سے جو ذہنی کیفیت پیداہوئی اسے معروف الجزائر ی مفکر مالک بن نبی Colonizibilityسے تعبیرکرتے ہیںاور اسے سیاسی غلامی سے زیادہ مہلک قرار دیتے ہیں۔ نتیجتاًجو نئی نسل عرب قوم پرستی اورمغربی لادینیت کے زیراثر اورخود اختیاری طور پرغلامانہ ذہنی مرعوبیت کے ساتھ پیدا ہوئی وہ چاہے اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہو یا تجارت پیشہ طبقہ سے اُس نے مغربیت کو بطور معیار مطلوب اختیار کر لیا اور اب ہر وہ فکر اور ہر وہ چیز جس پر مغرب کی چھاپ تھی پسندیدہ قرار پائی۔


تعلیمی سامراجیت نے سیاست کاروں اور نوکر شاہی کے ایک ایسے طبقہ کو پیدا کیا جو مغربی سامراج سے دوستی اور نمک خوارا نہ تعلق کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا اور اپنے ماضی کی تاریخ اور روایات کوباعث شرمندگی تصور کرتاتھا-مسلم تاریخ کے ان پہلوئوں کو جن میں شدت پسندی یا حصول اقتدار کے لیے خون خرابے کا تذکرہ تھانمایاںکر کے پیش کیا گیا ۔مسلم دانش وروں کے ایک اچھے خاصے طبقے نے اس فکری یلغار کا جواب معذرت خواہانہ انداز میں دینا چاہا ۔جن موضوعات پر خاص توجہ دی گئی ان میں خاتم النبیّن ﷺکی ذاتی زندگی،اسلام میں خواتین کا مقام و کردار ،تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمان فرمانروائوں کاحق حکمرانی (Legitimacy)،اسلام کی اشاعت میںتلوار کا کردار اور اسلامی تعلیمات کا یہودی و عیسائی روایات سے ماخوذہونا،قابل ذکر ہیں۔
تعلیمی سامراجیت کے نتیجے میں نوکر شاہی ،فو ج اور سیاست کاروں میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی پیدا ہوئی جس نے اپنی ذاتی اور سیاسی زندگی میں اپنا قبلہ اوّل مغرب کو قرار دیا۔ چنانچہ فیصلہ کن مقامات پر پائے جانے والے ان افراد نے ہر معاملہ میں Look Westکی پالیسی کو اختیار کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کا سیاسی نقشہ ہو یا اس کی معاشی حکمت عملی یا تعلیمی نظام ہر شعبہ میں مغرب کی پیروی کرنے کو ترقی کی علامت سمجھاگیا۔تعلیمی سامراجیت نے جو زاویہ نگاہ پیدا کیا اس کے حامل سیاست کار،معاشی ماہرین اوردانشور مشرقِ وسطیٰ میں مغربی سامراجی مفادات کے پشتی بان اورمحافظ قرارپائے چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر ہوں یا ان ممالک کی دفاعی حکمت عملی اوربین الاقوامی سیاسی پالیسی،ہر شعبہ میں فیصلہ کن عنصر مغرب کے مفاد کا تحفظ رہا۔مغرب زدہ محکومانہ ذہنیت رکھنے والے سیاست کاروں اورعرب قوم پرست دانشوروں کے اس ہجوم میں ہمیں ایسے افراد بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے مغربی تعلیمی سامراجیت کے خلاف علم بلند کیا۔ان میں الجزائر کے معروف مفکر مالک بن نبی ،مصر میں حسن البنا شہید اورترکی میں علامہ سعید نورسی نمایاں مقام کے حامل ہیں۔


ان حضرات کی کوششوں کے نتیجہ میں مغرب میں نوجوان اہلِ علم و فن کا ایک ایسا طبقہ وجو دمیں آیا جس نے اپنی فکر کی بنیاد قرآن و سنت پر رکھی اورمغربی علوم سے آگاہی کے ساتھ ان پر علمی محاکمہ اور تنقیدی رویہ اختیار کیا۔ان مسلمان مفکرین میں فلسطینی نژاد امریکہ میں مقیم علومِ اسلامی کے استاد ڈاکٹر اسمٰعیل راجی الفاروقی نے نوجوان مسلمان محققین پر گہرے اثرات چھوڑے اورامریکہ میں قائم ہونے والی تنظیم ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹس سے وابستہ پاکستانی، مصری، شامی، سوڈانی، ملیشین اور عراقی نژادمسلم مفکرین نے تعلیمی سامراجیت کے خلاف اپنے قلم کا استعمال کیا۔


مسلم دنیا میں خود انحصاری کا قیام صرف اسی وقت ممکن ہے جب مشرق وسطیٰ کے پالیسی ساز اپنے تعلیم یافتہ افراد کو مغربی تعلیمی سامراجیت سے گلوخلاصی کا موقع فراہم کریں۔ عالمگیریت کے نام پر ترقی پذیر ممالک میں جدید نو آبادیاتی نظام قائم کرنے کا عزم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ عالمگیریت معاشی بھی ہے اورسیاسی بھی اورتعلیمی و ابلاغی بھی،اس کا مقابلہ صرف اسی وقت کیا جاسکتاہے جب مشرق وسطیٰ اوردیگر مسلم ممالک تعلیمی سامراجیت سے ذہنی اورعملی طورپر آزاد ہوں اوراپنے مستقبل کا نقشہ اپنی ترجیحات کی روشنی میں مرتب کریں۔ دوسروں کی نقالی اوراخذ کردہ تعلیمی نظام اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

ماخذ: مغرب اور اسلام، شمارہ 35، 2011 کا پہلا شمارہ، خصوصی اشاعت، مشرقِ وسطیٰ

نوعیت: جریدہ کا ابتدائیہ
 

موجو

لائبریرین
تعارف
دورِ حاضر میں مشرقِ وسطیٰ کے داخلی اورخارجی امور میں امریکہ کا اثرو رسوخ اورکردار خاص اہمیت کا حامل ہے جسے خطے میںہونے والی امن کی کوششوں اورجنگ کے محرکات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خطے سے متعلق امریکہ کے تزویراتی مقاصد کو یوں ترتیب دیا جاسکتاہے: خطے میں موجود توانائی کے ذخائر اورتیل اورگیس کی ترسیل کی گزرگاہوں پر حقیقی یا معنو ی دسترس ؛ اسرائیل کی ایک یہودی ریاست کی حیثیت سے حفاظت اورتوسیع؛اورامریکی مفادات اورمقاصد کے لیے خطرہ بننے والی قوتوں کی راہ میں مزاحمت اوررکاوٹ پیدا کرنا۔فلسطین کے قضیہ میں تو امریکہ براہِ راست کردار اداکرتاہے لیکن دوسرے امور میں بھی امریکی اثرورسوخ ،جابجا مداخلت،براہِ راست عسکری امداد اورعلاقائی جھگڑوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ عمل دخل ایسے عوامل ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے نہایت اہم ہیں۔

گیارہ ستمبر کے واقعہ نے بلا شک و شبہ دنیا کی ارضی اورتزویراتی سیاست کی حقیقتوںکویکسر تبدیل کردیاہے۔ جس کے نتیجے میں امریکی عسکری طاقت کا کوڑا پہلے افغانستان اوراس کے بعد عراق پر برسا اورعلاقائی تنازعات کی انفرادیت کے نظریہ کو زمین بو س کردیا۔اس نئے عالمی نظام (یابدنظمی)کا مفہوم یہ ٹھہرا کہ فلسطین میں پیدا ہونے والے حالات،صومالیہ میں اٹھنے والی اسلامی عدالتی تحریک (اسلامی کورٹس موومنٹ)، ایران میں انقلاب پسندوں کی حکومت،وسط ایشیائی ریاستوں میں نظریاتی بنیاد پراٹھنے والی تحریکات اورپاک -افغان یا سعودی -یمن بارڈر پر عسکریت پسندوں کا دوبارہ سراٹھانا نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ ان سب کا تعلق کسی نہ کسی درجہ میں’عالمی دہشت گردی‘اورنہ ختم ہونے والی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘سے بھی ٹھہرا۔عالمگیریت کے اس نئے نظریہ نے پالیسی سازوں اورتجزیہ نگاروں سے لے کر رائے عامہ تخلیق کرنے والوں اورعوام الناس تک کے لیے داخلی ،مقامی یا علاقائی سطح پر پیدا ہونے والی صورت حال کو ان کی بظاہر نظر آنے والی حدود سے باہر نکل کردیکھنے ،تجزیہ کرنے اورسمجھنے کو ناگزیر بنادیاہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا میدان اصلاً مسلم دنیا میں چنا گیااوراس میںعظیم ترمشرقِ وسطیٰ کو مرکز بناتے ہوئے وسطی ایشیا ،جنوبی ایشیا اورشمالی افریقہ کو جنگ کی بربادیوںاورہولناک تباہیوںکی لپیٹ میں لیاگیاہے،ایسے میں مشرقِ وسطیٰ کے حالات و واقعات کو گہرائی میں سمجھنا شاید کبھی اتنا ضروری محسوس نہیں ہوتا تھاجتنا کہ آج اس کی اہمیت ہے۔اس منظرنامے میں ’آزادی‘ کے نام پراقدامی حملوں(Preemptive Strike) کے حق کا دعویٰ’انصاف‘قائم کرنے کے نام پر صرف شبہ کی بنیاد پر ماورائے عدالت اغوا،قید،تشدداور قتل جیسے اقدامات؛اورجمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے* ’دہشت گرد تنظیموں‘ کے رہنمائوں اورکارکنوں کو’جمہوریت ‘پھیلانے کے لیے ’غیر جمہوری طریقوں‘ سے روکنا گویا کہ دعوت دیتاہے کہ الفاظ کی دوہری معنویت کوخالصتاً تزویراتی ،سیاسی،اقتصادی و معاشی اورسامراجی نظام کی روشنی میں سمجھا جائے۔

درحقیقت دنیا میں پیش آنے والے مختلف واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر عالمی سیاست کا خاکہ بنانا اس لیے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے اپنائے جانے والے اصول مختلف علاقائی طاقتیں بھی اپنے اپنے دشمنوں کے خلاف خطے میں برجستہ استعمال کررہی ہیں۔ ۱۱ستمبر کے بعد خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں کئی مواقع پر اسرائیلی فوج نے فلسطین اورلبنان کے شہریوں کے خلاف طاقت کا اندھا استعمال اسی انداز اورشدت کے ساتھ کیا جیسے امریکہ نے اپنے تین ہزارکے لگ بھگ شہریوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان اورعراق میںکیا۔دہشت گردی کے سدِّ باب کے نام پر کی جانے والی ان کارروائیوں میں ۱۰لاکھ سے زائد معصوم اور بے گناہ بچے،عورتیں اورمرد افغانستان اورعراق میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں جبکہ اول الذکر میں ابھی تک خونریز جنگ جاری ہے۔

صدر اوباما کے انتخاب کے بعد کسی حد تک یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے بارک حسین اوباما امریکہ کی طرف سے اپنائی جانے والی تشدد اورجنگ و جدل کی حکمت ِ عملی کو روکنے اورامن کے قیام میں موثر کردار ادا کریں گے۔بعض عالمی تجزیہ نگاروں کاخیال تھا کہ امریکہ اورمسلم دنیاکے تعلقات صدر اوباما کے فلسفۂ عملیت و معقولیت کے باعث نہ صرف بہترہوں گے بلکہ مشرق ِ وسطیٰ کے معاملے میں اعتماد اورتعاون کارشتہ قائم ہوگا جو قضیۂ فلسطین کے حل ، عراق میں قیامِ امن ،ایران کے ساتھ صلح جوئیانہ مذاکرات کے آغاز اورملکوں کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے خاتمے کا باعث بنے گا۔تاہم اوباما کے صدر منتخب ہونے کے فوراً بعد العربیہ ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو اورقاہرہ میں مسلم دنیا سے خطاب سے اب تک دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجودنہ صرف بہت سے مسائل جوں کے توں رہے بلکہ بعض تومزید گھمبیر نوعیت اختیار کرچکے ہیں۔

ایسے میں افغانستان سے لے کر فلسطین تک،عظیم ترمشرقِ وسطیٰ کی صورت حال سے چند نہایت اہم سوال جنم لیتے ہیں مثلاًیہ کہ:امریکہ کے مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی مفاد ات و مقاصد کیاہیں؟انہیں حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے کیا پالیسیاں اختیار کیں اوران پالیسیوں کے خطے میں اورعالمی سطح پرکیا نتائج مرتب ہوئے؟کیا اوباما انتظامیہ کے دورِ حکومت میں امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں کوئی تبدیلی آنے کے امکانات ہیں؟کیا چین اوررو س مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ ہیں؟یورپی ممالک مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے کیا نقطۂ نظررکھتے ہیں اوران کا خطے کے مسائل میں کیا کردار ہے؟مسلم دنیا کے ساتھ معاملات کے نتیجے میں یورپی معاشروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟اسرائیلی رہنمائوں کی ہمہ وقت جنگ کے لیے تیاری کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کی خارجہ اوردفاعی پالیسیوں میں جنگ کی کیا اہمیت ہے؟ اور بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی پر کیسے اثرانداز ہوگی؟ مغرب اوراسلام کے اس خصوصی شمارہ ’مشرقِ وسطیٰ ‘میں اسی نوعیت کے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ شمارہ جن موضوعات کاخصوصی طورپر احاطہ کرتاہے ان میں: امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی؛مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے یورپی نقطۂ نظر ؛یورپ اورمسلمانوں کے باہمی تعلقات اوراسرائیلی پالیسیوں میںجنگ کا کردارشامل ہیں۔

اس شمارہ کا پہلا حصہ(مشرقِ وسطیٰ-چند اہم عوامل) خارجہ امور اورعالمی سیاست کے ماہرین سے کیے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے جن کا مقصد مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اہم اورحالیہ پیدا ہونے والے حالات کا جائزہ لینا ہے۔اس کے بعدتین مضامین میں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں کا مختلف پہلوئوں سے تاریخی جائزہ لیا گیا ہے نیز موجودہ امریکی انتظامیہ کے اعلانات اورعملی اقدامات کے تضادات کا جائزہ پیش کیا گیاہے۔ڈاکٹر ولفرائڈ ہوف مین نے تاریخی اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کو یورپ کے تناظر میں دکھانے کی کوشش کی ہے اورآخری مضمون میں اسرائیل کی جنگی نفسیات اورجنگی حکمتِ عملی کے ارتقاء کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے معاملات بلاشبہ پیچیدہ اورگھمبیر ہیں اوریہ شمارہ یقینا تمام مسائل کا احاطہ نہیںکرتا۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم مشرقِ وسطیٰ پر پیش کیے گئے تجزیات کی روشنی میں بحث کومستقبل میں بھی جاری رکھنے کاعزم رکھتے ہیں اورمزید کام کے لیے کمر بستہ ہیں۔

شمارہ میں شامل اکثرمضامین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے انگریزی جریدے پالیسی پرسپیکٹیوز (جنوری -جون۲۰۱۰مئ)سے اخذ کیے گئے ہیں،چند نئی تحریریں بھی شامل ہیں۔اس موضوع پر زیادہ گہری تحقیقی نظر ڈالنے کے خواہش مند قارئین کتابیات اورمکمل حوالہ جات کے لیے اصل ماخذ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

اس شمارہ میں شامل تمام مضامین کے مصنفین یا اظہارخیال کرنے والے کرم فرمائوں کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔نیز انگریزی کی تحریروں کو ترجمہ یا تلخیص کے ذریعے اُردو کے قالب میں ڈھالنے،ان کی تسوید و تدوین کرنے ،کمپوزنگ اورپروف خوانی وغیرہ کے مراحل سے گزار کر موجودہ شکل میں آپ تک پہنچانے کے لیے مختلف ساتھیوں نے اپنی بھرپور صلاحیت کااظہار کیا۔ان سب کے لیے بھی ہمارے دل میں احترام، احسان اورتشکر کے جذبات ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ مغرب اوراسلام کا یہ خصوصی شمارہ دورِ حاضر کے مشرق وسطیٰ کو درپیش مسائل کے حل کی تلاش کے حوالے سے اہل حل و عقداوراہلِ علم کو مدد فراہم کرے گااورخطے کے معاملات پر جاری بحث میں مفید اضافہ ثابت ہوگا۔
(مدیران)
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابھی تک تو اس کا کوئی بھی مکمل شمارہ آن لائن دستیاب نہیں ہے۔ لیکن اب آغاز ہوا چاہتا ہے آپ انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔
یہاں ملاحظہ فرمائیے
 

موجو

لائبریرین
ایک اور اہم بات کہ انسٹی ٹیوٹ کا ایک جریدہ شائع ہی آن لائن کیا جاتا ہے اگر کہیں وہ کام آسکے تو اسکے شماروں کا مواد مل سکے گا
جریدہ ہے مباحث
جس کے بارے انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہے۔
پاکستان کا وہ مذہبی طبقہ جو سیاسی عمل میں تو شریک نہیں ہوتا لیکن اپنے دینی میلان اور مذہبی رجحان کی مناسبت سے علمی و فکری دائرے میں سرگرم ہے۔ اس سرگرمی کی ایک نمایاں علامت مختلف دینی جرائد ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی صورتِ حال اور ان میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالہ سے ان جرائد میں شائع شدہ تحریریں پاکستان کے دینی طبقات کی سوچ کی عکاس ہی نہیں بلکہ انہیں متاثر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت سے افراد اور ادارے ایسے ہیں جو دینی جرائد کی آراء جاننے کےخواہش مند ہوتے ہیں۔ یہ مختصر جریدہ انہیں وہ سہولت فراہم کر سکتا ہے جس کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی حالات اور آنے والی تبدیلیوں پر دینی طبقات کا ردعمل اور فکر سامنے آسکے۔
 

موجو

لائبریرین
عالمی سرمایہ داری،توانائی کی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ
سوال: موجودہ عالمی معاشی بحران مشرقِ وسطیٰ میںتوانائی کی سیاست اوروہاں کے معاشی وسیاسی حالات پر کس طرح سے اثر انداز ہوسکتا ہے؟ موجودہ صورتِ حال میںاوپیک ممالک کا متوقع کردار یا اُن کے ممکنہ مطالبات کیا ہوسکتے ہیں؟

حالیہ معاشی اور مالیاتی بحران پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طورپر عالمیسرمایہ داری نظام کے اندرونی عوامل کی پیداوار ہے۔ اس کی تہہ میں اخلاقی مسائل، دولت کی فراوانی، حرص، استحصال اور سرمایہ کاروں، سٹے بازوں اور بنکاروں کے مٹھی بھر مگر مضبوط ٹولے کی گرفت میں رہنے اور اس سے متاثر ہونے والی معیشت جیسے عوامل کار فرما ہیں۔

عالمی کھلاڑیوں کے غلبے اور جدید سرمایہ دارانہ نظام میں حکومتوں کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس غبارے میں سے ہوا نکلنا شروع ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو حکومتوں کے کم از کم کردار پر بات کی جارہی ہے اور دوسری جانب سرمایہ داری نظام کو چلانے، اس کی ناکامیوںپرپردہ ڈالنے اور بد انتظامی کا شکار اس کے اہم اداروں کے نقصانات کی تلافی کے لیے حکومت ہی اصل مہرہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مسلم ممالک جو کہ تیسری دُنیا کا۴۰فیصدحصّہ ہیں، اس نظام سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ جہاں تک بالعموم مسلم دُنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کا تعلق ہے تو وہ کم از کم تین پہلوئوں سے آزمائش میں مبتلا ہیں۔

اوّلاً: گزشتہ کئی برسوں سے مسلم ممالک اور خاص طور پر تیل کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھاری سرمائے کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی نے مشرقِ وسطیٰ کے سرمایہ کاروں اور بچت کاروں کو اُن کی بچتوں اور سرمائے کے تقریباً ۴۰فیصدحصّے سے محروم کر دیا ہے۔ جب اسٹاک ایکسچینج میں ارزانی ہوتی ہے تو اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو مفروضوں کی بنیاد پر لین دین کرتے ہیں۔کچھ اندازوں کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً ۳سے ۴ٹریلین (کھرب) ڈالر یورپی منڈیوں میں ہیں۔حالیہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ۱۸ماہ میں کل نقصان۹کھرب ڈالر سے تجاوز کر چُکا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بیش قیمت اثاثوں کا ایک بڑا حصّہ بھی ضائع ہو چُکا ہے۔ مغربی طاقتیں، مشرقِ وسطیٰ کی قیادت اور طاقتور طبقہ اشرافیہ کو آلۂ کار بنا کر سیاسی حربے استعمال کرتی ہیں۔

نقصان کا دوسرا پہلو عالمی منڈیوں کے حجم میں کمی واقع ہونا ہے۔ اس سے تیسری دُنیا کے ممالک کی برآمدات میں کمی واقع ہورہی ہے۔ امریکہ دُنیا کی سب سے بڑی اور یورپ دُنیا کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ اگر مارکیٹ کے حجم میں کمی واقع ہو تو اس کے اثرات یقینا منفی ہوں گے کیونکہ اس کی اصل بنیاد برآمدی سامان پر ہوتی ہے چنانچہ ایک عام آدمی ہی ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

تیسراپہلو، رئیل اسٹیٹ او راسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے متعلق ہے، دبئی کا حالیہ بحران اسی کا ذیلی نتیجہ ہے اور یہ تمام دُنیا کی معیشتوں، معاشی کھلاڑیوں، کاروباری حضرات، بینکاروں اور کھاتہ داروں کو براہِ راست متاثر کررہا ہے۔

اب ہم عالمی معاشی بحران اور انرجی کے ساتھ اس کے تعلق کی طرف آتے ہیں۔ دُنیا میں توانائی یعنی تیل اور گیس کے۷۰فیصدذخائر مُسلم دنیا میں ہیں اور مسلم دنیا میں بھی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ اس معاملے کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ عراق، افغانستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور حتیٰ کہ پاکستان پر سیاسی تسلط کا ارادہ رکھتا ہے اور ان علاقوں سے اس کے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں اس مقصد کے لیے امریکہ اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ تیل کی پیداوار،تیل نکالنے کی مقدار اور تیل کی مصنوعات کو قابل استعمال بنانے کے کام پر اس کی مضبوط گرفت رہے۔مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دُنیا کا امریکہ، یورپ اور ان کی کثیر القومی کمپنیوں پر انحصار عالمی سرمایہ داری نظام کا جزوِ لانیفک ہے۔ اس کے علاوہ یہ سیاسی جنگوں، دبائو، حکومتوں کی تبدیلی، اپنی پسند کی گروہ بندی اوران کی شکست و ریخت-جو کہ مغرب کی انرجی پالیٹکس کا ایک بہت اہم حصّہ ہے-سے بھی عبارت ہے۔ بد قسمتی سے اس پرمستز ادیہ کہ اصل مفادات اور استحصال و بد نیتی پر مبنی مفادات باہم مربوط ہیں۔ جیسا کہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ تیل کو پیا نہیں جاسکتا اس کو لازماً بیچنا ہی پڑتا ہے مگر اس ضمن میں بھی یہ سو الات جو اب طلب ہیںکہ اگر بیچنا ہے تو کن شرائط پر ؟ کتنی مقدار میں؟ کس شکل میں اور کس قیمت پر؟

۱۹۷۳ء میں عرب دنیا نے تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور یہ بہت کار گر ثابت ہو ا مگر اس کے بعد مغرب نے اپنی دفاعی حکمت عملی کچھ اس طرح سے ترتیب دی کہ طاقت حاصل کرنے کا یہ ذریعہ غیر اہم ہو کر رہ گیا ہے اگرچہ مکمل طور پر غیر موثر نہیں ہوا۔ آج بڑی بدقسمتی مسلمان قیادت میں بصیرت اورہمت کی کمی اور تیل کے اس کار گر ہتھیار سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی دُنیا میں تیل اور توانائی سے متعلق لابی،فوجی، صنعتی اور کاروباری ادارے اپنادائوپیچ لگارہے ہیںان کے بینکار اور سرمایہ کار اس کھیل کے اصل کھلاڑی ہیں۔ موجودہ تناظر میں اسلامی دُنیا کی آزادی محض سطحی اورفریب نظر ہے۔ انہوں نے انتہائی عاجزی کے ساتھ خود کو عالمی سامراجی طاقتوں کا آلۂ کار بننے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اگرچہ صرف تیل کا مسئلہ ہی توجہ کا متقاضی نہیں ہے۔ سیاسی عوامل خاص طور پر اسرائیل کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن توانائی کا عامل، پھر بھی، اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے خواہ یہ۱۹۹۰ء کے ادائل میں بُش سینئر کی جنگ ہو یا۱۱/۹کے بعد بُش جونیئر کی__جس جلد بازی سے انہوں نے عراق پر حملہ کیا جو کہ ان کے اپنے دفاعی تجزیہ کا روں کے الفاظ میں ’’نہایت نا مناسب سرعت‘‘ تھی اور جس کے لیے انہوں نے ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ (wmd) کی گھنائونی اصطلاح استعمال کی،اور جس جنگ نے افغان جنگ سے توجہ ہٹا دی، یقینا توانائی کا پہلو ہی اس جنگ کا اہم ترین سبب تھا۔ اب وہا ں سے نام نہاد انخلا کی حکمت عملی بھی مستقبل میں انرجی کنٹرول کے انتظامات کے ساتھ ہی تشکیل پا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں عراق میں جو بولیاں ہوچکی ہیں یا جو بولیاں ہورہی ہیں، اسی کھیل کا ایک حصّہ ہیں۔ توانائی،نہ صرف معاشی بلکہ ایک اہم سیاسی ایشو بن چکا ہے۔ جب تک ایک سیاسی حکمتِ عملی مرتب نہیں کی جاتی، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیاکے ممالک اپنے اثاثوں کی صیحح قیمت وصول نہیں کرسکتے۔

جہاں تک اوپیک ممالک کے متوقع کردار کا تعلق ہے تو غالباً اوپیک ممالک اپنا اثرو نفوذ کھو چکے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی تک یہ ایک قوت تھے۔تیل کی اس تجارت میں غیر عرب اور غیر مسلم خاص طور پر لاطینی امریکہ، افریقہ اور نائیجریا کی شمولیت کے بعد سے اوپیک ممالک کا کردار کم ہونا شروع ہوا۔ ان کے پاس ایک مربوط حکمت عملی کی بھی کمی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ میں زیر زمین پایا جانے والا ایک بیرل تیل، پائپ لائن میں موجود ایک بیرل تیل سے زیادہ قابلِ قدر گردانا جاتا ہے لیکن وہاں کی قیادت اس بنیادی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ انہیں عالمی، معاشی و سیاسی ٹھیکیداروں نے مختلف حیلوں بہانوںکے ذریعے اور ڈرا دھمکا کر مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ انکی مرضی کے مطابق تیل کی پیداوار جاری رکھیں۔ اس بات کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ مغرب نے اپنی حکمت عملی معاشی اور سیاسی پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ بہتر فہم و فراست کے ساتھ ترتیب دی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے تیل کی درآمد کو کئی جہتوں میں منقسم کر دیا ہے اور اس طرح مشرقِ وسطیٰ پر اس کا انحصار ۲۰فیصد کی حد تک کم ہو کر رہ گیا ہے جو کہ کبھی۶۰فیصدتھا۔ امریکہ کے تیل کے محفوظ ذخائر پہلے ۱۵دن کی مدت کے لیے کارآمد تھے پھر یہ مدت ۳۰دن ہوگئی بعد میں اس میں تین ماہ تک کا اضافہ ہوا اور اب کہا جاتاہے کہ توانائی کی محفوظ مقدار۱۲۰ دنوں یعنی۴ماہ کے لیے موجود ہے۔

چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی ملک تیل کا ہتھیار استعمال کرنا بھی چاہے تو یہ ان کے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے بہت کار گر نہ ہوگا۔

کیونکہ پیداوار میں اضافہ سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نہ صرف مغرب کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ ان کے تیل کے محفوظ ذخائر میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اس امر نے اوپیک کے کردار اور اس کی قوت میں کمی کر دی ہے۔ پھر اوپیک ممالک کے مابین پیداوار کے معاملے میں تقسیم در تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں چند ممالک نے پیداوار میںکمی کا فیصلہ کیا جبکہ ایک بڑے مُلک کا فیصلہ اس کے برعکس رہا۔ یہ کھیل اسی طرح چلتا رہا اور اب اوپیک ممالک فیصلہ کُن کردار سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور مجھے نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ مسلمان اور عرب قیادتیں یا تو اس امر سے بے خبر ہیں یا اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے مغرب کے معاشی اور سیاسی رہنمائوں کے ساتھ باہم شیر و شکر ہیں اور اس طرح برضاو رغبت اپنا استحصال کروا رہی ہیں۔ تاہم اس بحران سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آخر کار یہ صورتحال عرب اور اسلامی دُنیا کے عوام اور قائدین کی آنکھیںکھول دے گی اور انہیں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا کہ بقاکابا وفارراستہ خود انحصاری کی جانب جاتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دنیا میں پیداواری، صنعتی بنیاد کے بغیر اور مطلوبہ ماہر افرادی قوت کو تیار کیے بغیر ہر جگہ صارف کی معیشت ہے۔ یہ وہ خامیاں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم قدم یہ ہے کہ معیشت کو رفتہ رفتہ اور جزوی طور پر عالمی نظام سے غیر منسلک کیا جائے۔ یہ انقطاع جزوی طور پر ہونا چاہیے کیونکہ اس نظام سے بہر حال مکمل طور پر غیر منسلک نہیں رہا جاسکتا۔ برآمدات، سرمایہ کاری، پیسے کی گردش، افراد، سامان اور سرمایہ کاری کے بہائو جیسی اہم سرگرمیوں کو بلاتعطّل جاری رہنا چاہیے۔ جس چیز کو موثر طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے وہ دوسروں پر انحصار کی بنیاد پر معاملات ہیں۔ اس کی بجائے ایسے خود مختار تعلقات قائم کرنے چاہیں جہاں مسلم دُنیا اپنی ترجیحات کا ازسرِ نو تعیّن کرے اور اپنے مفادات کومدسِّ ن۔ظر رکھتے ہوئے اپنے وسائل کو دوبارہ منظم کرے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ موقع کا برمحل استعمال کیا جائے نیز یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ گزشتہ برسوں میں اس کو تباہی کی کتنی قیمت چُکانا پڑی ہے۔

جہاں تک عالمی معیشت سے جزوی طور پر غیر منسلک ہونے کا تعلق ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور مُسلم دنیا کو مندرجہ ذیل اہم اُمورپر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تعلیم،ٹیکنالوجی کا حصول اورغذائی تحفظ کی بڑھوتری کی حکمتِ عملی اورصنعت و ٹیکنالوجی کی پیداواری بنیاد میں بتدریج اضافہ جو خود انحصاری کا باعث ہو۔

اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنی پالیسیاں اور اپنے فیصلے خود ترتیب دے سکیں ۔ مزید برآ ں خود انحصاری اور خود مکتفیت کو دو الگ الگ پہلوئوں کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ خود کفالت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جو چیز قابل حصول ہے وہ ہے خود انحصاری ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی خطے کا کوئی مُلک دوسروں پر اس حد تک منحصر نہ ہو کہ ان کی معاشی اور سیاسی ترجیحات ان پر مسلط کی جاسکیں اور وہ اپنی ترجیحات کا تحفظ کرنے اور انہیں بُروئے کار لانے سے معذور ہوجائے۔ یہ وہ چیز ہے جسے حقیقی مقصد ہونا چاہیے اور یہی وہ طریقہ کار ہے جو یورپ اور چین نے امریکہ کے بالمقابل اختیار کیا ہے۔ مُسلم دُنیا، مجموعی طور پر ، اس سے کہیں زیادہ وسائل سے مالا مال ہے۔جس چیز کی کمی ہے وہ قوت ارادی اور باہم مربوط حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ تاہم جب جزوی طور پر غیر منسلک ہونے کی بات کی جاتی ہے تو مذکورہ بالا تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، یعنی:

(۱) اندرون مُلک معاشی، صنعتی اور پیداواری بنیاد میں ترقی
(۲) غذا میں خود کفالت __غذائی تحفظ جس کا اہم ترین عنصر ہے
(۳) مقامی پیداوار کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مقامی منڈیوں کو فروغ دینا

مندرجہ بالاحکمتِ عملی یقینی طور پر بارآور ہوگی جس کے نتیجے کے طور پر مغرب پر اسلامی دُنیا کا انحصار تیزی سے کم ہوگا۔ رُوس کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے دیوار برلن گرنے کے بعد کے عرصے میں سرمایہ داری کی مداخلت کے مقابلہ میںاندھا دھند اور زبردست کیپٹلائزیشن کے ذریعے بند باندھے رکھا۔ ایک پہلو جس نے بھرپور معاشی یورش کے مقابلے میں رُوس کو باقی رہنے میں مدد دی ، وہ غیر رسمی معیشت کے وسیع اور محفوظ اثاثہ جات تھے جو کہ عالمی تجارت پر منحصر نہیں تھے۔ آج ہمارے سامنے اُبھرتی ہوئی طاقت چین کی تابناک مثال موجود ہے اس نے بھی ایک وسیع اور اندرونی منڈی کی وجہ سے بھر پور ترقی کی۔ پھر دُنیا بھر اور امریکہ کی منڈیوں تک براہ راست رسائی کے لیے ملک میں صنعت کاری اور ٹیکنالوجی کی درآمد کا سلسلہ شروع کیا۔ مُسلم دنیا کو بھی ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ راتوں رات ہونے والا کام نہیں ہے اس کے لیے وقت درکار ہے اس مقصد کے لیے انتہائی احتیاط سے کام لینا اور تبدیلی کی اس سمت قدم اُٹھانا ہوگا۔

اس امر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ۱۹۷۳ء کے بعد سے اسلامی دُنیا نے کس طرح قوت و اقتدار حاصل کرنے کے ذریعے سے ہاتھ دھوئے۔ ہنری کسنجر، جو کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور صدر نکس کا دفاعی مشیر تھا اس نے ایک غیر معمولی حکمت عملی __جسے ری سائیکلنگ کا نام دیا گیا __ کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ کسنجر کا فلسفہ مغربی ذہنیت کا عکاس تھا جس نے مغرب کو یہ باور کرایا کہ وہ اسلامی دُنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ کو تیل کی مد میں ایک بڑی قیمت کی صورت میں ادائیگی کر رہا ہے اور اگر وہ ان ڈالروں کو دوبارہ حاصل کرسکے تو یہی مغرب در حقیقت فائدہ اُٹھا سکے گا۔ اس عمل کو ری سائیکلنگ کا نام دیا گیا۔ اس طرح اسلامی دُنیا کی برتر حیثیت ختم ہو کر رہ گئی اور اس سے مغرب پر انحصار کا نیا راستہ کُھل گیا۔ کیونکہ مُسلم دنیا نے توانائی کے لامحدود ذرائع کو اپنی پیداواری بنیاد کو ترقی دینے کی بجائے حقیقتاً امریکہ اور مغرب کے حوالے کر دیا اور اس ذریعے سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مغرب نے سرمایہ کاری، تحدید نقصان اور رقم مہیا کرنے کی صورت میں سٹے بازی اور سرمایہ کاری کے اداروں کی شکل میں استعمال کیا جو کہ سب کے سب مغرب کے زیر انتظام اور اس کے مکمل اختیار میں تھے، اس طرح عرب اور اسلامی دُنیا نے طاقت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ کھودیا۔

مسلم ممالک عموماً اور عرب دُنیا خصوصاً اس امر کا ادراک کرنے سے قاصر رہی کہ دولت کے اِس بہائو کو اسراف، ضیاع اور کھوکھلے دکھاوے پر مبنی طرزِ زندگی کو فروغ دینے کی بجائے اپنی معیشت کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ ایسا طرزِ زندگی صرف ان لوگوں کے لیے موزوں تھا جو مغرب پر انحصار کیے رکھیں اور ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں۔ عرب دُنیا تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رسیا ہوگئی۔ اس آمدنی کو اقتصادی شعبے اور مستقبل کے مواقع کی فوری منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے عرب لوگ پُر آسائش اور تصنع سے بھرپُور طرزِ زندگی کے عادی ہوگئے اور یہ غلط اور انتہائی تباہ کن حکمتِ عملی تھی۔

تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک بابصیرت اور حوصلہ مند قیادت پر منحصر ہوتا ہے، ایک ایسی قیادت جو کہ خود غرضانہ ذاتی مفادات کی بجائے، لوگوں کے مفادات میں دلچسپی رکھتی ہو۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ شاہ فیصل مرحوم کے بعد عرب دُنیا کو دوبارہ ویسا مد بر اور حوصلہ مند قائد میسّر نہیں آیا۔ قذافی نے ابتدا میں مزاحمت کی کچھ کوشش کی لیکن پھر امریکی دبائو کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ہتھیار ڈالنے کا یہ عمل عرب دُنیا کے لیے کسی عظیم المیے سے کم نہ تھا اور آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی ساری کی ساری قیادت مغرب اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں انکی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ مغربی کارندے اسلحہ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کا کام تھپکی دیتے رہنا اور پھر اپنی شرائط تسلیم کروا کے ہتھیار ڈالوانا ہے۔ یہ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ اسلامی دُنیا خود انحصاری کی باعزت حکمتِ عملی کی بجائے، مغرب پر انحصار اور ان کے مفادات کی بجا آوری کے تباہ کن رویے پر گامزن ہوگئی۔ جب تک ایک بنیادی سیاسی تبدیلی نہیں آتی، عرب اور اسلامی دُنیااپنی طاقت استعمال نہیں کرسکتی،خواہ یہ سیاسی ہو یا توانائی کے ذریعے سے حاصل شُدہ۔

سوال: مغرب میں مسلمان دشمن اقدامات، اسلامی دُنیا اور مغرب کے تعلقات کو کس طرح تشکیل دیں گے؟ اور مستقبل میں سیاسی اور دفاعی تناظر میں، علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

مغربی ممالک کے عوام اور اسلامی دُنیا کے عوام کے مابین بنیادی اور مستقل نوعیت کے مفادات کا ٹکرائو نہیں ہے۔یہ مغرب کے حکمران اور طبقہ خواص ہیں جو اپنے چند مخصوص مفادات کے لیے تصادم چاہتے ہیں۔امریکہ میں آج بھی۱۴فیصدسے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیلی فورنیا جو کہ امریکہ کی سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست اور دُنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہے، وہاں غربت کی شرح۳۰فیصدسے زائد ہے۔ آبادی کا تقریباً ۲۵فیصد حصّہ صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔ اگر کہیں مفادات کا ٹکرائو ہے بھی تو وہ دونوں طرف اسلامی دُنیا اور مغرب کے حکمران اور طبقہ خواص کی وجہ سے ہے۔

تاریخی اعتبار سے بھی اہلِ مغرب اسلام سے نفسیاتی خوف یااسلام فوبیا کا شکار رہے ہیں اگرچہ صلیبی جنگوں نے اپنا رنگ ڈھنگ اور شدّت تبدیل کرلی ہے لیکن درحقیقت یہ ابھی جاری ہیں اور یہ ماضی قریب کی دو اہم پیش رفتوں سے واضح ہوتا ہے۔

اول،۱۹۷۹ء میں ایران میں بپاہونیوالا اسلامی انقلاب- اور
دوم، افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف اسلامی مزاحمت-

اگرچہ افغانستان میں کچھ عرصے کے لیے مفادات مشترکہ تھے لیکن یہ اشتراک عارضی اور انتہائی سطحی تھا۔ جس وقت امریکہ افغان جہاد کی سرپرستی کر رہا تھا اس وقت وہ ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے نئی سیاسی گروہ بندی کی منصوبہ سازی بھی کر رہا تھا۔۸۴/۱۹۸۳ء میںجبکہ افغان جنگ اپنے پورے عروج پر تھی، صدر نکسن کے ایک اہم مضمون (جوکہ فارن افیئرزمیں شائع ہوا) میں اس خیال کو پیش کیا گیا کہ روس اور امریکہ کے مابین اختلافات کی نسبت اقدارِ مشترک زیادہ ہیں۔

تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میںظاہر ہوا۔ برنارڈلیوس وہ پہلا شخص تھا جس نے اس کے متعلق لکھا اور بعد میں ہنٹنگٹن نے اس نظریے کو تقویت دی۔ مزید برآں جب رُوسی افواج افغانستان سے چلی گئیں تو نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے برملا یہ کہا کہ سُرخ خطرہ (کمیونزم) جاچُکا ہے لیکن سبز خطرہ (اسلام) اُبھر آیا ہے۔ لہذا یہ محض ۱۱/۹کا واقعہ نہیں ہے بات تو بہت دُور تک جاتی ہے۔ اس نقطئہ نظر کے لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسلامی دُنیا اور مغرب، دونوں کا طبقہ خواص ہے جنہوں نے اپنے چند مخصوص اور بے رحمانہ خود غرض مفادات کے حصول کے لیے اپنا اپنا کھیل کھیلا ہے اور عرب اور مسلمان آبادی اس کا شکار ہوئی ہے۔

یہ وہ تہذیبی اور نظریاتی شورش اور امریکہ اور مغرب کی سیاسی تغلّب کی ذہنیت ہے جس نے اسلامی دنیا میں انتہا پسندی اور پُر تشدد رویّے کے کینسرکو جنم دیا۔محبت کا جواب محبت سے اور نفرت کا نفرت ہی سے دیا جاتا ہے۔مسلم دنیا کے کچھ حصوں میں نام نہاد دہشت گردی -امریکہ ،اسکے اتحادیوں اوراسکی ناجائز اولاد اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی اوردہشت گردی کے خلاد جنگ کے ایک ردِّعمل کے سواکچھ نہیں۔مسلمانوں کو،موجودہ تناظر کو گہرائی سے پرکھنا ہوگا۔ ان کی حکمتِ علمی محض ردِّ عمل پر مبنی نہیں ہونی چاہیے؟ اورانہیں محض محاذ آرائی سے بھی گریز کرناچاہیے۔انہیں پیش قدمی پر مبنی ایسی جوابی حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس سے مغر ب کے اسلام فوبیا پر قابو پایا جاسکے۔ ایک ایسی حکمتِ عملی جو اہل مغر ب کو اسلام کی صحیح قدروقیمت سکھائے اورانہیں یہ بتائے کہ مسلمان بطور قوم عظیم اقدار کے امین ہیں اورقرآن کی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی خدمت کے لیے پُر عزم ہیں۔

یہ جوابی حکمتِ عملی ان کے جال میں پھنسنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ سماجی، ثقافتی ،سیاسی اورمعاشی بنیادوں پر مستقبل کے حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کو مرتب کرناچاہیے۔مزید یہ کہ عرب اوراسلامی دُنیا کے اپنے تصورات ،ترجیحات اورمقاصد ہونے چاہئیں۔اپنے گھر کا قبلہ درست کیے بغیر وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔

تشدّد کاجواب تشدّد سے ،دھمکی کادھمکی سے اورگالی کاجواب گالی سے دینا مسئلے کاحل نہیں ہے۔مسلمانوں کو ایک طویل المعیادمنصوبۂ عمل کی ضرورت ہوگی جو کہ مستقبل کے حوالے سے حقیقی اورواضح تصورات پر مبنی ہو۔ایسی جوابی حکمتِ عملی بنانا جو کہ مغرب کے عوام کو اپنا دشمن سمجھے، خلافِ منشا ہوگا۔ہمیں خوب سوچ بچار کرکے ایسی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے جو مغرب کے عوام کے ساتھ دوستی کا آغاز کرے اورانہیں یہ دوستانہ پیغام بھی پہنچائے ۔تاہم ہمیں ان گروہوں سے جن کے مفادات مغرب سے وابستہ ہیں اورمُسلم دُنیا کے غداروں سے فاصلہ رکھنا ہوگا۔عرب اوراسلامی دُنیا کو ان لوگوں سے چھٹکارا حاصل کرناہوگا جو کہ یاتو بزعم خود خلوص کے ساتھ یا مسلمان دشمن قوتوں کے آلۂ کارکے طور پر اسلام کو غلط طورپر استعمال کررہے ہیں۔اسلامی دُنیا اورمغرب کے مابین کشمکش ،تصادم اورجنگی فضا کو ہی واحد راستہ متصور کرنا مناسب نہ ہوگا۔مسلمانوں کو کہیں زیادہ سنجیدگی سے سوچنے، تحقیق،تجزیے،بات چیت اورایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ مغرب کی کٹھ پُتلی نہ ہوبلکہ اپنے لوگوں پر اعتماد کرے۔ایسی قیادت جو اسلامی طرزِ عمل کوفروغ دے اوراسے پروان چڑھائے۔ پھر وہ (مسلم دنیا) یقینا وقار،مساوات اورعزت اورایک ایسے نقطۂ نظر کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیںگے جہاں اشتراک اورمشترکہ مفادات کو تصادم اورکشمکش پر فوقیت حاصل ہوگی۔
 

موجو

لائبریرین
امریکی خارجہ پالیسی اور مشرقِ وسطیٰ
سوال: امریکہ کے قومی مفادات، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں، کیا ہیں اور انہیں درپیش متوقع یا حقیقی خطرات کون سے ہیں؟

مشرق ِ وسطیٰ میں امریکی مفادات، حقیقتاً ’قومی مفادات‘ نہیں ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کی ایک مختصر تعداد، وال اسٹریٹ بینکوں، سیاسی انتظامیہ اور بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے ان کے کارندوں کے مفادات اور مُلک کی بیشتر آبادی پر مشتمل تمام نسلوں، رنگوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے ملازمت پیشہ طبقے کے مفادات یکساں نہیں ہیں۔ کم و بیش دنیا کے تمام ممالک دو طبقوں پر مشتمل ہوتے ہیں ایک بالائی طبقہ یا اشرافیہ جو زیادہ تر دولت اور سیاسی اثرونفوذ رکھتا ہے اور دوسرا زیریں طبقہ جو ان میں سے کسی کا بھی مالک نہیں ہوتا۔ کسی مُلک کے ’قومی مفادات‘ نہیں ہوتے۔ دراصل حکمران طبقہ اپنے مخصوص مفادات کو قومی مفادات کے رُوپ میں پیش کرتا ہے۔

امریکی حکمران طبقے کے مشرقِ وسطیٰ میں واضح مفادات ہیں جن کے حصول کے لیے وہ تقریباً ایک صدی سے مسلسل کوشاں ہیں۔ ان مفادات کو ’سامراجی مفادات‘ کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے ہمیشہ اس خطے کے توانائی کے ذرائع یعنی تیل، گیس، پائپ لائن اور عالمی منڈیوں سے ملانے والے سمندری راستوں پر کنٹرول کے لیے جغرافیائی تذویراتی مفادات کے حصول کی کوششوں پر زور دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، مشرقِ وسطیٰ میں، امریکہ نے ایک غالب سامراجی طاقت کے طور پر برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اسکے مفادات تین باہم مربوط مقاصد پر مشتمل ہیں۔

(۱). اس خطے کے تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ حاصل کرنا۔
(۲). جہاں تک ممکن ہوسکے خطے کی حکومتوں خاص طور پر اسرائیل، سعودی عرب، عراق، ایران، مصر اور پاکستان کی حکومتوں کو قابو میں رکھنا۔
(۳). ایسی تمام تحریکوں کے احیاء کا راستہ روکنا__خواہ وہ اشتراکیت پسند ہوں، سوشلسٹ ہوں، قومیت پرست ہوں یا مذہبی __جو کہ خطے میں توانائی کے ذخائر پر قبضے اور اسکی طفیلی حکومتوں کے استحکام میں امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہوں۔

جب یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ منافقت پر مبنی بلند و بالا دعوے عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہیں تو اس امر کو جاننا بھی مشکل نہیں رہے گا کہ۲۰ویں صدی کے پہلے نصف میں جس چیز نے دو خوفناک جنگوں کو جنم دیا وہ سرمایہ داری مفادات کے حصول کے لیے ذرائع، سستی مزدوری، منڈیوں تک رسائی اور جغرافیائی بر تری حاصل کرنے کا سخت مقابلہ تھا۔

امریکہ اپنے تیزی سے وقوع پذیر ہوتے ہوئے زوال کو روکنے کے لیے کوشاں ہے جبکہ نئی اُبھرتی ہوئی طاقتیں خاص طور پر چین امریکہ کو للکار رہا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران برازیلین صحافی Pepe Escober __جو کہ ’ ایشیاٹائمز آن لائن‘ میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں__نے تیل کے معاملے پر عالمگیر جنگوں سے متعلق انتہائی معلوماتی مضامین اور کتب شائع کی ہیں اور اس کے لیے انہوں نے انتہائی علمیت اور حسِ مزاح کا ثبوت دیتے ہوئے ’’پائپ لائنستان‘‘ (Pipelinestan)کی اصطلاع استعمال کی ہے اور اِسے مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا پر قبضے کی دوڑ کہا ہے۔بڑی طاقتوں کے مابین اس مقابلے میں اچھے لوگ نہیں ہیں۔ یہ سب اپنے مادی مفادات کے لیے لڑتے ہیں اور اس مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے سے نہیں ہچکچاتے۔

۱۹۷۹ء کے اوائل میں امریکہ نے سعودی، پاکستانی اور اپنے دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی بین الاقوامی ذاتی فوج تیار کی تاکہ وہ افغانستان میں مداخلت کرے اور اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دے۔ دراصل یہ وسطی اور جنوبی ایشیا میں توانائی کے ذرائع اور تیل کی ترسیل کے اہم اور اصل راستوں پر قبضہ کرنے کی جنگی حکمتِ عملی تھی۔ تقریباً دو عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد۱۱/۹کے دہشت گرد حملے امریکہ کی اس دفاعی حکمت عملی کے منہ پر طمانچہ تھے جس کے تحت اس نے روس کی حمایت یافتہ ترقی پسندافغان حکومت کے خلاف سیاسی اسلام کی انتہائی شکل کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اُسے کھلا چھوڑے رکھا۔

امریکہ جس کا فوجی اسلحے کا ذخیرہ دُنیا کے دیگر تمام ممالک کے مشترکہ اسلحے سے زیادہ ہے اور جو اسلحہ جات پر سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور دُنیا کی دوسری تمام اقوام کی مشترک مقدار سے زیادہ اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کررہا ہے اور اس کا سب سے بڑاسرپرست ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری نہیں رکھ سکتا جب تک یہ خود اپنے خلاف جنگ شروع نہ کرے۔ تاہم ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ امریکی اثر سے بالکل آزاد ہے اور بعض اوقات امریکہ کے خلاف بھی استعمال ہوتی ہے۔

دہشت گردی ایک ایسا ہتھیار ہے جو سامراجی طاقتیں ایک عرصے سے ابتداً نو آبادیات میں مقبوضہ اور محکوم عوام کے خلاف اور پھر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہی ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کا دور اپنے ساتھ ان چیلنجز کا خاتمہ بھی لایا جو امریکہ کے سامراجی مفادات کو سوویت بلاک اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے حمایت یافتہ اشتراکی اور قومیت پسند تحریکوں سے وابستہ تھے۔ پُورے مشرقِ وسطیٰ میں بائیں بازو کی لادین طاقتیں اپنی طاقت اور اثرو نفوذ کھو بیٹھیں۔ اس چیز نے امریکہ کو تھوڑا سا موقع فراہم کیا کہ وہ روس کی کسی مخالفت کے بغیر عراق کے خلاف پہلی خلیجی جنگ شروع کردے۔ تاہم جلد ہی مشرقِ وسطیٰ پر امریکی غلبے کے خلاف نئی طاقتیں اُبھر آئیں۔ جونہی امریکہ نے اِس خطے میں تیل کے ذخائر اور حکومتوں کو زیادہ بہتر طور پر اپنے زیر اثر لانے کے لیے یہاں اپنی فوجی موجودگی کو وسعت دینا چاہی تو یورپی یونین کی ریاستوں، روس اور چین نے امریکہ کو دُنیا کی اُبھرتی ہوئی واحد عالمی طاقت کے طور پر دیکھنا شروع کیا جو کہ ان کے اپنے مفادات کے خلاف تھا چنانچہ انہوں نے اس خطے میں امریکی پالیسیوں کو چیلنج کیا ۔ مثال کے طور پر چین اور روس کی مدد نے ایران کو اس قابل بنایا کہ وہ اُس راستے پر چل نکلے جو امریکی مفادات کے خلاف ہے اور ایران نے لبنان میں حزب اﷲ اور فلسطین میں حماس جیسے گروہوں کی معاونت کی جنہوںنے امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیلی حکومت اور لبنان میں اسکے اتحادیوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔

سوال: قومی، علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کیا کردار ہے اور امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کو فروغ دینے کے لیے اس پر کیوں خرچ کررہا ہے؟

امریکہ میں تمام ذرائع ابلاغ متفقہ طور پر، پورے اخلاص کے ساتھ، حکومتی پالیسیوں کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں اور مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ امریکی عوام کا ایک بڑا حصّہ درست معلومات تک رسائی اور اُن کی حکومت جو کچھ مشرقِ وسطیٰ اور باقی دُنیا میں کر رہی ہے اسکی صیحح نوعیت جاننے سے محروم رہے۔ اگرچہ میڈیا کے ایک بڑے حصّے نے ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق بعد ازاں اس امر کا اعتراف کیا کہ۲۰۰۳ء میں عراق میں امریکی مداخلت کے وقت انہوں نے جارج بش کی جھوٹ بولنے میں مدد کی۔ یہی میڈیا امریکی حکومت کو مسلسل یہی خدمات فراہم کر رہا ہے وہ خود کا رپوریٹ انتظامیہ کا حصّہ ہے اور اپنی پالیسیاں نہیں بدلے گا۔

مثال کے طور پر انہوں نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کی ناکہ بندی کے مجرمانہ فعل اور حالیہ دنوں میں مصر کی طرف سے مصر اور غزہ کی سرحد پر لوہے کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے امریکی امداد پر اس کی حمایت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ جنگ سے متعلق خبریں دیتے وقت وہ انرجی مقاصد کے حصول سے متعلق معلومات تک کبھی رسائی فراہم نہیں کرتے جو کہ افغانستان میں امریکی جنگ کا اصل محرک ہے۔

ہیٹی میں آنیوالے خوفناک زلزلے تک ذرائع ابلاغ نے تقریباً ایک صدی پر محیط امریکی سامراجی غلبے اور استحصال کو عام لوگوں سے مخفی رکھا۔ وہ حال ہی میں بنائے جانے والے معاشی بحالی کے منصوبوں اور ہیٹی کے دو منتخب حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے کی سازش کا ذکر نہیں کرتے وہ لوگوں کو یہ بات باور نہیں کراتے کہ ۱۱/۹سے پہلے امریکہ نے ہزاروں ہیٹی مہاجرین کا راستہ روک کر انہیں کئی سالوں تک گوانتا نامو میں قید رکھا۔ وہ غلط طور پر ہیٹی باشندوں کو انتہائی پر تشدد بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ جان بچانے والی امداد پر ملٹری سیکورٹی کو مقدم رکھنے کی توجیہہ پیش کی جاسکے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جو کچھ مشرقِ وسطیٰ میں کررہا ہے وہی کچھ اپنے بالکل قریب واقع چھوٹے جزائر پر مشتمل قوموں کے ساتھ بھی کر رہا ہے۔

سوال: کیا اوباما عرصہ دراز پر محیط اسرائیل فلسطین تنازعے پر کسی اہم پیش رفت کے قابل ہوسکے گا اور کیا وہ اپنے تعلقات عامہ اور اپنے نام کے درمیانی حصّے (حسین)کا برمحل استعمال کرکے امریکہ مخالف جذبات کو ٹھنڈا کر سکتا ہے؟

صدر اوباما نے اسرائیل فلسطین تنازعے سے متعلق انتہائی واضح اور فیصلہ کن انداز میں طویل عرصے سے جاری امریکی پالیسیوں کی حمایت کی ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کی گولڈ سٹون رپورٹ کی کُھل کر مذمت کی جس نے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگی جرائم کے ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کیے تھے۔ اس نے اسرائیل کی بڑے پیمانے پر فوجی امداد کو جاری رکھا ہوا ہے اور فلسطینیوں کو تقسیم کرنے کے لیے اسرائیل کے اتحادی الفتح کے کچھ حصوں کو مسلح کرنے کا کام بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ کوشش اتنی خفیہ بھی نہیں کہ مصر، اردن اور سعودی عرب کی حکومتوں کی شراکت اور مدد کے بغیر جاری ہوں۔ واقعات کا ممکنہ تسلسل اس طرح سے ہوسکتا ہے کہ مغربی کنارے اور پروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کا کام جاری رہے۔ اور ناکہ بندی کا شکار غزہ کے لوگ بدترین آزمائشوں سے دوچار رہیں۔ امریکہ اسرائیل کو ایسا طاقتور پہریدار بنانا چاہتا ہے جسے علاقے کی کسی دوسری طاقت سے سنگین خطرات لاحق نہ ہوں اور اس ضمن میں ایران کی طرف سے حزب اﷲ اور حماس کی حمایت اہم مسئلہ بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو مسلسل فوجی حملے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ اس فارمولے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں اسرائیل جوہری ہتھیاروں کا تن تنہا مالک رہے۔ قرین قیاس اہم پیش رفت جو اوباما کرسکتا ہے وہ تابعدار فلسطینی قیادت کو ایسی نیم خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے آمادہ کرنا ہے جو حقیقی اقتدارِ اعلیٰ اور آزادی سے محروم ہو لیکن کسی حد تک اس قابل ہوکہ ایسے دھوکے کے خلاف فلسطینیوں کے غصّے کو دبائے اور ٹھنڈا کرسکے۔ بالفاظ دیگر امریکہ اور اسرائیل __اسرائیل اور نیم خود مختار فلسطین کے درمیان علیحدگی پر مبنی تصفیہ کرانا چاہیں گے۔اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ اس حل کو فلسطینیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں لاکھوں لوگوں پر مسلط کیا جاسکے جو فلسطینیوں کے مستقبل کے متعلق فکر مند ہیں اور اسرائیل اور فلسطین کے مابین منصفانہ معاہدہ چاہتے ہیں۔ امریکہ میں اسرائیلی لابی کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یقینی طور پر یہ لوگ امریکی حکومت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں تاہم زیادہ بنیادی سطح پر، امریکی حکومت طبقہ خواص کے مفادات کی حفاظت کے لیے کام کرتی ہے۔ تقریباً ایک صدی سے زائد عرصے سے ایک سلطنت کے قیام کی کوشش امریکی حکمت عملی کامسلسل حصّہ رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کون سی پارٹی اکثریت میں ہے اور کونسی لابی زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔امریکی سلطنت کے قیام اور اس کے دفاع کے لیے امریکی حکمرانوں میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔

فلسطینی امریکن جوزف مساد جو کہ نیویارک سٹی میں واقع کولمبیا یونیورسٹی میں عرب سیاسیات کے معروف پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس نکتے کو ۲۰۰۶ء میں لکھے گئے اپنے مضمون ’’اسرائیلی لابی کو موردِالزام ٹھہراتے ہوئے:یہ امریکی پالیسی ہی ہے جو عرب دُنیا کو اشتعال دلاتی ہے‘‘ میں انتہائی موثر انداز میں بیان کیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی اور باقی تمام دُنیا میں اسکی پالیسیوں میںکوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے اور نہ ہی یہ صیہونیت کے آغاز اور اسرائیل کی ریاست کے قیام سے کئی عشرے قبل کی امریکی پالیسیوں سے مختلف ہے۔ ترغیب کار حکمتِ عملی اور مختلف تدابیر اختیار کرنے میں تو اختلاف کرسکتے ہیں لیکن امریکہ کے حکمران طبقہ میں سلطنت مخالف کوئی دھڑے بندی موجود نہیں ہے۔صدر اوباما نے اپنے پیش رو کی نسبت مختلف لہجہ تو اختیار کیا ہے لیکن اس نے انتہائی سرعت کے ساتھ ایسے عملی مظاہر دکھا دیے ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ وہ امریکی سلطنت کا ایک وفادار خادم ہے۔ افغانستان میں اس کا جوش وجذبہ ، پاکستان میں ڈرون حملے، عراق میں امریکی افواج کا قیام، یمن میں بمباری، صومالیہ میں آپریشن کا تسلسل اور افریقہ کے لیے پینٹاگون کی نئی کمان کے زیر سایہ افریقہ کے Sub Sahara کے طول و عرض میں عسکر سازی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے جارحانہ عزائم کسی مثبت تبدیلی کے لیے نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر اوباما نے وال اسٹریٹ بینک، انشورنس کمپنیز اور دوسرے بڑے مالیاتی اداروں اور کارپوریٹ مفادات کے یقینی تحفظ کے لیے واضح اشارے دیئے ہیں۔

۲۰۰۸ء کے الیکشن میں ری پبلکن کو جتنی رقم ملی تھی، ڈیموکریٹک پارٹی کو امریکی معاشرے کے امیر ترین طبقے سے اس سے زیادہ رقم وصول ہوئی ہے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ڈیموکریٹک پارٹی، امریکہ کی خارجہ یا مُلکی سیاست کا رُخ بدلے گی۔ ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ ایک عوامی تحریک، جو کہ ان دونوں پارٹیوں کے اثر سے بالکل آزاد ہو، امریکی معاشرے کے حکمران طبقے کو للکارنے کی ہمت کرے۔
 

موجو

لائبریرین
فلسطین میں گروہ بندی اور گولڈ سٹون رپورٹ
سوال: حماس اور الفتح میں اختلاف کی بنیاد کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن عمل پر اس اختلاف کے کیا دُور رَس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

حماس اور الفتح مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے دو مختلف نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد الفتح نے نام نہاد امن عمل کو شروع کرنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کی عائد کردہ شرائط کو تو تسلیم کرہی لیا ہے۔ یعنی اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کرنا اور مسلح جدوجہد سے دست برداری۔ تب سے الفتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے نائب کے طور پر مغربی کنارے میں امن و امان قائم رکھنے اور اسرائیل کے اندر ہونیو الے حملوں کو روکنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کررہی ہے۔ اس امر سے اسرائیل کو اپنی افواج مغربی کنارے کی بجائے غزہ میں دوبارہ تعینات کرنے میں مدد ملی ہے، تاکہ وہ مزاحمت کرنے والے حماس جیسے اسلامی گروپوں کی کمر توڑ سکے۔

الفتح امریکہ اور اس کے یورپی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ بھی خصوصی قربت رکھتی ہے جوکہ اس خطے میں بڑھتی ہوئی اسلامی طاقتوں کے متعلق فکر مند ہیں۔ اس کے برعکس حماس اپنے اصل میثاق پر قائم ہے جوکہ اس تصور کو رد کرتا ہے کہ اسرئیل ایک جائز ریاست اور صرف یہودیوں کے لیے مخصوص وطن ہے۔ حماس یہ سمجھتی ہے کہ اپنے وطن کو آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد مقبوضہ لوگوں کا فطری حق (اسلامی فریضہ) ہے، جسے اقوامِ متحدہ کے دستور العمل میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ حماس تاریخی طور پر تسلیم شدہ پورے فلسطین پر فلسطینی لوگوں کے اقتدار کی بحالی چاہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتی ہے کہ فلسطینی پناہ گزین اپنے گھر بار اور املاک میں واپس آجائیں جنہیں اسرائیل کے قیام کے بعد یہودی آبادکاروں نے زبردستی ہتھیا لیا تھا۔ قضیۂ فلسطین کے تصفیے کے لیے حماس نے گفت و شنید کے راستے کو کبھی یکسر مسترد نہیں کیا۔ لیکن گزشتہ امن مذاکرات میں اسرائیلی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے حماس اسے امن عمل میں حصہ دار بنانے کی روادار نہیں ہے کیونکہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں ناجائز آبادکاری اور فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم حماس کی قیادت نے عمومی طور پر اس کا اشارہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس شرط پر طویل المیعاد جنگ بندی (ہُدنہ) کے لیے تیار ہے اگر وہ اُن علاقوں کو خالی کردے جن پر اس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں قبضہ کرلیا تھا۔

حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین نے اس مؤقف کا برملا اظہار کیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں دمشق میں مقیم حماس کی قیادت نے کئی مواقع پر اسی مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔ اگرچہ حماس اور الفتح کے مابین فلسطینیوں کو ان کے سیاسی حقوق دلانے کے مسئلے پر بنیادی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ حقیقت بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئے کہ حماس نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین نتیجہ خیز امن مذاکرات کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی۔ اس کے برعکس ۱۹۹۰ء کی دہائی میں صدر کلنٹن کی ثالثی کے ذریعے صدر یاسر عرفات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے نہایت اہم امن مذاکرات میں انہوں نے یاسر عرفات کی مکمل اخلاقی و سیاسی حمات کی۔ حماس نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ تب تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک امن معاہدہ ایک آزاد، حقیقتاً خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام، مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلیوں کے مکمل انخلائ، مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرنے پر منتج نہ ہوں۔

چنانچہ فلسطینی معاشرے کی یہ اندرونی تقسیم نام نہاد امن عمل کو صرف ایسی صورت میں بری طرح متأثر کرے گی کہ اگر الفتح کی قیادت ایسے معاہدے کے سامنے ہتھیار ڈال دے جو فلسطینی عوام کی مجموعی رائے کے خلاف ہو۔ جہاں تک اسرائیل سے امن مذاکرات کا تعلق ہے تو حماس اور الفتح کے مابین اختلافات بہت شدید نوعیت کے نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ حماس اور الفتح کی باہمی کشمکش نے نہ صرف اسرائیل کو غیر معینہ مدت کے لیے امن مذاکرات ملتوی کرنے کا معقول عذر تراشنے کا موقع دیا ہے بلکہ فلسطینی عوام اور ان کے خیر خواہوں کو بھی بد دل کیا ہے۔

سوال: امریکہ کی طرف سے گولڈ سٹون رپورٹ کو مسترد کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ مشرق وسطیٰ میں لوگوں کے’’ دل و دماغ‘‘ جیتنے کی کوشش، اوباما کے پُرخلوص عندیات اور اقدامات کو کوئی نقصان پہنچائے گی؟

گولڈ سٹون رپورٹ اگرچہ انتہائی ناکافی اور محتاط انداز میں مرتب کی گئی ہے لیکن یہ کسی طور پر بھی کسی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ نہیں ہے جس میں اس شک کا اظہار کیا گیا ہو کہ اسرائیل جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ تاہم جب بین الاقوامی اکھاڑے میں قوت یا رسوخ کے بل پر سیاست کرنے والوں کے مفادات کی بات آتی ہے تو بدقسمتی سے اخلاقی اور قانونی پہلو شاذ و نادر ہی زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ امریکہ-اسرائیل تعلقات کی تاریخ اور واشنگٹن میں اسرائیلی لابی (حلقۂ اثر) کے زبردست اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات حاشیۂ خیال میں لانا بھی ناممکن تھا کہ امریکہ اس رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کے اداروںمیں زیر بحث لانے کی اجازت بھی دے گا۔ اس کی قبولت اور اس پر عمل درآمد تو درکنار، عرب-اسرائیل تنازعے میں تمام عملی مقاصد کے حصول کے لیے امریکی پالیسی، اندرونی امریکی سیاست ہی کی ایک توسیع ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امریکی کانگریس کی غالب اکثریت نے گولڈ سٹون رپورٹ پڑھے بغیر اس کی مخالفت کی یاد داشت پر دستخط کردیے۔ ان کے لیے اس یادداشت پر دستخط کرنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ امریکن-اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (aipac)، جوکہ واشنگٹن میں اسرائیل دوست حلقۂ اثر کا ایک گروہ ہے، نے انہیں ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ لہٰذا یہ ایک یقینی امر تھا کہ واشنگٹن اِس رپورٹ کو زیر بحث لانے کی اجازت نہیں دے گا۔

گولڈ سٹون کے معاملے میں جو چیز زیادہ باعثِ شرم تھی وہ یہ کہ امریکہ نے اس مقصد کے لیے اپنے عرب مسلمان اتحادیوں (جن میں قوتِ ارادی سے عاری فلسطینی صدر محمود عباس بھی شامل ہیں) کو اس رپورٹ پر بحث و تمحیص سے روکنے کے لیے استعمال کیا۔

تقریباً ایک سال پہلے کیے گئے قاہرہ میں اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ عرب اور مسلمان لوگ مجھے میرے کارناموں کی بنا پر جانچیں گے نہ کہ الفاظ کی بناپر ۔اس کے ان الفاظ نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں اُمید کی کرن پیدا کردی تھی۔ لیکن اس کے اعمال (اور بے عملی) ابھی تک مایوسی کے سوا کسی چیز کا پیغام نہیں لائے۔
 

موجو

لائبریرین
عراق میں موجودہ پیش رفت اور مستقبل کے امکانات
سوال: کیا عراق میں امریکی ایجنڈا کامیاب ہورہا ہے؟

نئے قدامت پرستوں(نیوکانز) نے تین نکاتی لائحۂ عمل پیش کیا جس نے جارج ڈبلیو بش کو صدام حسین کے خلاف حملے کی بنیاد فراہم کی۔

(۱) امریکہ عراق کی ایک جمہوری ملک کے طور پر تعمیر نو کرے گا، جوکہ باقی مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ اس طرح امریکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی شمع روشن کرسکے گا۔ یہ مقصد فی نفسہٖ بُرا نہیں تھا لیکن عراق پر حملے کے مابعد اثرات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مقصد کبھی بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اِس سے اس امر کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت سازی کے اس منصوبہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی حتیٰ کہ اوباما انتظامیہ بھی عراق کا ذکر تک کیوں نہیں کررہے۔ اگرچہ اس منصوبے میں عراق کو بنیادی نکتے کے طور پر استعمال کرنے کا وسیع تر مقصد تو حاصل نہیں ہوا، مگر حکومت کی تبدیلی کا عمل واقع ہوچکا ہے۔ رائج الوقت حکومت جمہوری طور پر منتخب شدہ ، امریکہ کی ہمدرد حکومت ہے جو غالباً اس خطے میں امریکہ کے بنیادی مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ مالکی حکومت نے درحقیقت امریکہ کو کھلی مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے اور اسے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور بالوسطہ موجودگی کی اجازت بھی دے دی ہے جو غالباً قابلِ قیاس مستقبل تک جاری رہے گی۔

(۲) دوسرا مقصد یہ تھا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تیار کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ اب یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ عراق کے پاس کبھی یہ صلاحیت تھی ہی نہیں اور عراق پر حملے کے لیے یہ ہتھیار محض ایک بہانہ تھے۔ حال ہی میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے یہ بیان دیاہے کہ اگر عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ بھی ہوتے تو بھی وہ عراق پر حملہ ضرور کرتے کیونکہ ان کے خیال میں صدام کی آمرانہ حکومت اس بات کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی تھی کہ مغربی ممالک طاقت استعمال کریں اور وہاں کی حکومت کو تبدیل کردیں۔

(۳) تیسرا مقصد جوکہ بہت سے لوگوں کے خیال میں عراق پر امریکی حملے اور وہاں اس کی مستقل فوجی موجودگی کی تہہ میں کارِ فرما اصل مقصد ہے، وہ عراق کے تیل کے ذخائر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ عراق کے تیل میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عراقی تیل کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ چنانچہ اس سے یہ مقصد کسی حد تک پورا ہوگیا۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ جنگ جمہوریت سازی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جڑ سے اکھاڑنے یا عراق کے تیل اور توانائی کے ذخائر پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مسلط کی گئی۔ اس حقیقت سے آنکھیں چُرانا ناممکن ہے کہ امریکہ کو اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چُکانا پڑرہی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق امریکہ اس جنگ میں تین کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان اُٹھاچکا ہے۔ امریکہ کے بہت سے پالیسی ساز اس قدر زیادہ مالی نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ جنگ لڑی ہی نہیں جانی چاہیے تھی۔ لہٰذا عراق میں حقیقی امریکی مقاصد سے قطع نظر اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے امریکی پالیسی سازوں کے پاس بڑی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

سوال: عراق کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا امریکہ کے لیے اپنے انخلاء کی پالیسی کو بروئے کار لانا ممکن ہوگا؟

اولاً، اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے بنیادی امر امریکہ میں اس حقیقت کا ادراک ہونا ہے کہ یہ ایک غلط جنگ تھی اور اس نے امریکی قوم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف ہزاروں عراقی شہریوں کا خون بہایا ہے بلکہ اپنے خزانے اور خون سے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ لہٰذا اوباما اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔

ثانیاً، اس جنگ کی معاشی قیمت امریکی توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پہلے پہل امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے اخراجات عراقی تیل کی آمدن سے پورے کیے جاسکیں گے، لہٰذا یہ جنگ واشنگٹن کے لیے قابلِ برداشت ہوگی۔ لیکن یہ توقع اس لیے پوری نہیں ہوئی کہ تیل کی قیمتیں۱۸۰ ڈالر فی بیرل تک متجاوز ہوکر۷۷ ڈالر فی بیرل کی نچلی سطح تک آگئیں۔تیزی سے انحظاط پذیر ہوتی تیل کی آمدنی نے امریکہ کمپنیوں کو مجبور کردیا کہ وہ زیادہ مقدار میں تیل نکالیں۔ اس بات نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔ کیونکہ عراقی حکومت بھی اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور اپنے ملک کی معاشی بحالی کے کٹھن کام کا آغاز کرنے کے لیے تیل کی آمدن کے اِسی ذریعے سے رقم چاہتی ہے۔

ثالثاً، افغانستان میں جنگ جیتنا ناگزیر ہے۔ صدر اوباما نے جارحانہ حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے مزید۳۰ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ دستے عراق سے نکال کر افغانستان بھیجے جائیں گے۔ اس تناظر میں عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلائ، افغانستان میں جارحانہ حکمت عملی سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔

رابعاً، اگر اوباما اقتدار میں رہتا ہے، جیساکہ بہت سے لوگ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف بقیہ دو سال پورے کرے گا بلکہ دوسری مدت کے لیے بھی منتخب ہوگا، تو انخلاء کی پالیسی پر عمل ہوتا رہے گا۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس قابل ہوسکے گا کہ وہ عراق میں برسرِ پیکار تمام فوجی دستے نکال لے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما عراق سے زمینی افواج کی واپسی کا وعدہ تو پورا کرے گا لیکن فضائی اڈے اور خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بنائے گئے اپنے نظام کو ملک کے مختلف حصوں میں قائم رکھے گا۔ چنانچہ بہت سے عوامل اور دباؤ کے زیر اثر اوباما کو اپنی صدارت کی پہلی مدت کے اختتام تک عراق سے تمام فوجی دستوں کی واپسی کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر زمینی حالات اس قدر خراب ہوجاتے ہیں کہ امریکی پالیسی ساز یہ محسوس کرنے لگیں کہ فوجوں کی واپسی سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ انخلاء کے طریقہ کار کو مزید طول دیں۔ یہ ناممکن ہے کہ امریکی عوام، اس کے معاشی حتیٰ کہ سیاسی سربراہ اس دلیل پر متفق ہوسکیں کہ عراق میں لمبے عرصے تک فوجوں کی موجودگی ان کے وسیع تر فوجی یا دفاعی مفاد میں ہوگی۔

سوال: ایران نے عراق میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کیا ہے؟

امریکی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عراق کی نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ملک کو عدم استحکام کا شکار کردے گی اور وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانے سے گریز کریں گے جو اس تناؤ میں مزید اضافہ کرے اور نتیجتاً شیعہ اکثریتی آبادی اور سُنی اقلیتی آباد ی کے درمیان تعلقات کو خراب کرے۔ بالآخر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ عراق کی شیعہ آبادی پر ایران کا اچھا خاصا اثر و رُسوخ ہے اور رہے گا۔ اور انہوں نے اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس موقع پر تہران نے اپنے پتے نہایت عقلمندی سے استعمال کیے ہیں اور اس معاملے کا اہم ترین فریق بننے کے لیے عراق میں اپنا اثر و رُسوخ استعمال کیا ہے۔ مزید برآں ایران، عراق کے کسی علاقے پر قبضے کا ارادہ نہیں رکھتا، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ:

ا یہ اس کے ہمسایوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
ب یہ ایران کی طرف سے قوت کا بے جا استعمال سمجھا جائے گا۔
ج یہ عراقی عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابل قبول ہوگا، حتیٰ کہ اس کی شیعہ آبادی کے لیے بھی جو ایران کے ساتھ ہمدردی اور نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔

ابھی تک ایرانی اثر و رُسوخ نے عراق میں حالات کی بہتری میں مدد دی ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ عراق سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کے لیے نیا میدانِ جنگ بن جائے ۔ تاہم ایران سے متعلق امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس کے ذریعے اس خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رُسوخ کو کم کیا جاسکے اور بغداد اور تہران میں بڑھتے ہوئے فوجی و سیاسی تعلقات کی بحالی کو روکا جاسکے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے ایران، عراق دونوں ممالک کی مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے عراق میں جنگ اور امریکہ نواز حکومت مسلط کرکے عراق دشمنی کا ثبوت دے دیا ہے، تاہم اس کی ایران مخالف پالیسی ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوئی۔اس سلسلے میں ایران اگر عراق کے ساتھ مل کر ایک دفاعی / فوجی اتحاد بنالیتا ہے یا سیاسی و معاشی وجوہات کی بناء پر عراق کے ساتھ مصالحت کرلیتا ہے تو امریکہ اور سعودی عرب اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔

تاہم اپنی اندرونی کمزوریوں اور مسائل کی بناء پر ایک ریاست اور علاقائی طاقت دونوں کے طور پر عراق اس خطے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایران اس خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے اپنی بڑھتی ہوئی فوجی اورمیزائل صلاحیت کے بل بوتے پر عراق میں اپنے اثرات ثبت کرنا پسند کرے، لیکن امریکہ جس چیز سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہے وہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں سماجی، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم اس قدر شدت اختیار کرلے کہ وہ عراقی ریاست کی سا لمیت اور حکومت کے لیے خطرہ بن جائے۔ متحدہ عراق، جہاں کُرد، شیعہ اور سنی اتفاق سے رہتے ہوں، کی نسبت ایسی (تقسیم شدہ) صورتحال ایران کے لیے زیادہ سود مند ہوگی۔ اس تناظر میں امریکی انتظامیہ، خاص طور پر امریکی زمینی افواج کے انخلاء کے بعد، ایسی عراقی حکومت چاہے گی جو ان اختلافات سے اور عراق کے حالات سے اپنے طور پر نبرد آزما ہوسکے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ عراق سے امریکی فوجوں کے چلے جانے کے بعد عراق اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوسکے، کچھ اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ چنانچہ جب تک عراق کی مرکزی حکومت مضبوط رہتی ہے، عراق کی سا لمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

سوال: کیا عراق کی معاشرتی، نسلی، سیاسی، مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور خاص طور پر کُرد شورش عراق کا شیرازہ بکھیرنے پر منتج ہوگی؟

ایک مرحلے پر بیرونی سازشوں کی وجہ سے عراق کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوجانے کا خطرہ واقعی موجود تھا۔ بعد ازاں امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ ایک کمزور عراق خطے میں عدم استحکام پیدا کرے گا۔ اور نہ تو وہ امریکیوں کو اور نہ ہی کسی اور طاقت کو کوئی فائدہ پہنچاسکے گا۔ اس حقیقت نے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی خواہش کو ٹھنڈا کردیا۔ تین حصے: یعنی جنوب میں شیعہ اکثریت، مرکز میں سنی اور شمال میں کُردوں پر مشتمل منقسم عراق۔

اگرچہ عراقی معاشرہ بنیادی طور پر نسل پرستی کے جذبات سے معمور رہا ہے لیکن جب کبھی بیرونی طاقتوں سے جنگ کا موقع آیا تو عراقی قوم پرستی کے جذبات ہمیشہ غالب آگئے۔ یہ قوم پرستی کے فطری جذبات ہی تھے جو ۱۹۳۰ء میں برطانیہ کے خلاف جنگ میں حرکت میں آگئے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور یکے بعد دیگرے دو امریکی انتظامیہ -- بش اور اوباما -- مجبور ہوگئیں کہ وہ عراقی بغاوت کو بیرونی طاقتوں کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کی شکل میں دیکھیں۔ تقسیمِ عراق کے سرگرم حامیوں پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ملک کو تین چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ایک غیر معمولی اور پُرخطر کوشش ہے۔

عراق کو تقسیم کرنے کی منطق نے اپنے ملک پر امریکی قبضے کے خلاف عراقی قوم پرستی کے فطری جذبات کو اُبھارنے کے لیے تُرپ کے پتے کا کام دیا۔ چنانچہ عراق ایک متحدہ وحدت کی صورت میں اس وجہ باقی نہیں ہے کہ واشنگٹن ایسا چاہتا تھا بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عراقی عوام نے’’ نیوکانز‘‘ کی تقسیم کی سازش کا شکارہونے سے انکار کردیا۔

کُرد علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینا شام، ترکی اور ایران سمیت خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ان تینوں ممالک میں کُرد ایک بڑی تعداد میں آبادہیںترکی کو کُرد بغاوت اور رجوعیت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ان علاقائی طاقتوں کا مفاد اسی سے وابستہ ہے کہ وہ کُرد اقلیتوں کو اپنی اپنی سرحد کے اندر آباد دیکھیں۔ آزاد کُردستان کی تحریک ان تینوں ممالک کو غیر مستحکم کرسکتی ہے اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کی حامی مرکز گریز قوتیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے اس بات پر اس علاقے میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے کہ عراقی کرد، عراق کی حد میں ہی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان طاقتوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ متحدہ عراقی ریاست کے نظام میں کردوں کو وسیع تر شمولیت کا احساس دلایا جانا چاہیے۔ اگرچہ بظاہر تو یہ ایران کے لیے بہت خوش کن دکھائی دیتا ہے کہ وہ عراق میں علیحدگی پسندوں کو ہوا دے لیکن اس کا منفی اثر عظیم کردستان کی تحریک کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جوکہ اس ترغیب کے اثر کو بالکل زائل کردے گا۔

سوال: عراق میں جمہوریت اور عراقی فوج کے تعلق کا کیا مستقبل ہے؟

عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات میں بہت شدت پائی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہلاکتوں اور امریکی مداخلت کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں یہ جذبات ایک طویل عرصے تک ایسے ہی رہیں گے۔ عراقی عوام کے خلاف امریکی فوج کے مظالم کی تمام داستانیں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ عراقی عوام، جنہوں نے امریکیوں کے بے پناہ مظالم برداشت کیے ہیں، اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی لشکر کشی کا کیا مطلب ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ انتہائی حد تک امریکہ کے خلاف ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مستقبل میں بننے والی کسی بھی عراقی حکومت کے لیے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت ان امریکہ مخالف جذبات سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگر حقیقی طور پر منتخب شدہ کسی بھی عراقی حکومت کو امریکی مفادات کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا گیا تو وہ بہت لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ عراق سے تیل اور اس کے توانائی کے ذخائر تک بآسانی رسائی کی صورت میں تو کچھ فوائد حاصل کرسکے لیکن امریکہ کے لیے عراق میں عراقی عوام کی خواہشات کے برعکس ایسی حکومت بنانا جو امریکہ کے گلے کا ہار ہو، بہت مشکل نظر آتا ہے۔

یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ امریکی حکمران جمہوریت کو وسعت دینے اور اسے مضبوط کرنے کے تو دعویدار ہیں لیکن اگر کسی ملک میں جمہوریت کی وجہ سے ایسے قائدین سامنے آئیں جو اُن کی خواہشات کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک سکیں تو وہ ایسی ممکنہ جمہوریت کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ ایک ایسی جمہوریت چاہتا ہے جو امریکہ کے لیے قابل قبول حکمران پیدا کرے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ مسئلہ امریکی رویے میں سرایت کرچکا ہے۔

چونکہ جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کا ااپنا لائحۂ عمل، رجحانات اور عوامی اعتماد ہوتا ہے، چنانچہ امریکہ آمروں کی سرپرستی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عراق کے معاملے میں ایرانی انقلاب کے بعد ۱۹۷۹ء سے ۱۹۹۱ء تک صدام حسین اسی امریکی شعبدہ بازی کے سحر میں گرفتار رہا۔ ان گیارہ سالوں کے دوران امریکہ صدام حسین کا سب سے بڑاحامی تھا اور اس کو خطے کے استحکام کے لیے ایک اہم طاقت کے طور پر پیش کرتا رہا، جیساکہ رمز فیلڈ اور صدام حسین کی چند انتہائی اہمیت کی حامل ملاقاتوں سے یہ تأثر دیا گیا۔ چونکہ ایران اس وقت ایک بڑا خطرہ محسوس ہوتا تھا چنانچہ سعودی عرب اور کویت کو ایران کے خلاف اس جنگ میں عراق کی مدد کے لیے گھسیٹ لیا گیا۔

امریکہ اپنے مفادات اور سیاسی ضروریات کے تحت انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کی سرپرستی کرتا رہا ۔دنیا بھر میں حکومتوں کی سرپرستی کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنابعید از قیاس نہیں کہ امریکہ کی عنایت سے عراق میں ایک مضبوط امریکہ نواز حکمران کی حکومت بنادی جائے۔ تاہم امریکہ نے آمرانہ نظامِ حکومت کو ختم کرکے عراقیوں کو ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اگر عراق امریکہ کی دفاعی اور سیاسی مفادات کی باجگزار جمہوریت کی بجائے ایک خودمختار جمہوریت بننا چاہتا ہے تو عراقی رہنماؤں کو خصوصاً اور عراقی عوام کو عموماً اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افواج امریکی ایجنڈے پر ہی عمل پیرا رہیں۔ عراقی قیادت خاص طور پر فوجی سربراہان امریکہ کے ممنونِ احسان ہیں کیونکہ امریکیوں ہی نے ان کو تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا، فوجی سازو سامان سے آراستہ کیا اور انہیں اقتدار میں لائے۔ آخری مر تبہ جب میں واشنگٹن گیا تو ایک عراقی جنرل (اس کا نام ظاہر نہیں کروں گا) سے ملا، اس سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ عام امریکیوں سے بڑھ کر امریکی حکمرانوں کا وفادار تھا۔ اس وقت مجھے حیرت کا شدید دھچکا لگا کہ یہ جنرل امریکی حمایت پر مبنی اپنے صریح مؤقف کے ساتھ کس طرح اس ملک (عراق) پر حکومت کرے گا!اگر یہ آغاز ہے تو مستقبل کی قیادت کے سلسلے میں عراق ایک حقیقی مشکل سے دوچار ہے۔

فوج کو ایک ایسے امریکی حمایت یافتہ اور پروردہ ادارے کے طور پر دیکھا جائے گا جوکہ غیر معمولی امریکی اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ اور امریکہ مخالف جمہوریت کو امریکی تربیت یافتہ عراقی فوج کے ذریعے دبائے جانے کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔

سوال: عراق سے امریکہ کے چلے جانے کے بعد علاقائی اور عالمی اداکاروں کا کردار کیا ہوگا؟

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عراق سے امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد بھی یہ مکمل انخلاء کی صورتحال نہیں ہوگی۔ عراقی حکومت کا اپنا مقام ہے لیکن بہت کچھ اس پرمنحصر ہوگا کہ یہ خود کو کن ممالک کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی عراقی حکومت اپنے ہمسایوں مثلاً ایران، اُردن، سعودی عرب، شام اورترکی وغیرہ سے لاتعلق ہوکر نہیں رہ سکتی۔ امریکی کوشش یہ ہوگی کہ ان میں سے کچھ طاقتیں عراق پر کسی حد تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھیں۔ اگرچہ ان ممالک کے اپنے ایجنڈے ہیں لیکن اس معاملے کیلئے وہ اُردن اور سعودی عرب پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ علاوہ بریں عراق اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ وہ علاقائی طاقتوں کے لیے اس طرح سے میدان جنگ بن جائے جس طرح افغانستان سے رُوس کے چلے جانے کے بعد افغانستان بن گیا تھا۔

عراق ایک باوقار قوم ہے اور یہ اپنے وسائل، اپنے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے، مضبوط ہوتے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے جوکہ اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور کوئی بھی ملک جو فیصلہ کن انداز سے بغداد پر اثر انداز ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ عراق میں امریکی فوجی موجودگی کی جگہ لینے کے لیے اس خطے میں کوئی بھی سخت مقابلہ نہ ہو۔ مزید برآں تیل کی بدولت چین بھی یہاں داخل ہوچکا ہے، روس کے بھی عراق میں طویل المدت مفادات ہیں۔ صدام حسین کے ساتھ اس کا بیس سالہ دوستانہ معاہدہ ہے۔ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۳ء کے علاوہ روسی تکنیکی ماہرین یہاں موجود رہے ہیں۔اگرچہ اب روس کے اثرات ختم ہوچکے ہیں تاہم عراق میں یہ اپنے اثرو رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔نظر آتا ہے کہ روس اور چین عراق کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کررہے ہیں لیکن یہ تعلقات محض منطقی اور معاشی بنیادوں پر استوار ہیں نہ کہ کسی قسم کی جغرافیائی اور سیاسی بنیادوں پر۔ بصورتِ دیگر انہیں عراق میں امریکی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ پر یا ان کی بالواسطہ موجودگی کی وجہ سے آنے والی ایک طویل مدت تک خاصا مقابلہ کرناہوگا۔

عراق میں قوم پرستی کے جذبات بہت شدت رکھتے ہیں اور یہ امریکہ موافق صورتحال کے ساتھ لمبے عرصے تک میل نہیں کھاسکتے۔ رسہ کشی کی اس صورتحال میں عراق کی حکومت کے لیے اس میں توازن قائم رکھنا ایک نازک مرحلہ ہوگا۔

سوال: امریکی اور عراقی حکومتوں کی حکمتِ عملی کے اہداف کیا ہونے چاہئیں؟
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے:

امریکہ کو چاہئے کہ وہ عراق سے اپنی افواج نکال لے اور اگر اسے رکھنا پڑتی ہی ہیں تو ان کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے اور عراقی قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا چاہئیے۔ اس کے علاوہ یہ کہ اس حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے کہ عراق اپنا مستقبل خود ترتیب دینے کی صلاحیت اور قابلیت نہیں رکھتا۔ عراقی معاشرہ ایک تعلیم یافتہ، انتہائی مہذب اور ادب و ثقافت کے میدانوں میں دنیاکے جدید ترین معاشروں میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے اور اسے معمولی ریاست نہیں سمجھنا چاہئیے۔ لہٰذا اگر عراق کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو عراق کے عوام اپنا مستقبل بخوبی ترتیب دے سکتے ہیں جوکہ اپنی اساس کے اعتبار سے جمہوری ہوگا۔ کیونکہ ایک طویل عرصے تک ان پر آمر مسلط رہے ہیں۔ اِن آمروں نے ہمسایہ ممالک پر حملے کیے اور تباہی پھیلائی۔ اپنے لیے آمرانہ حکومت کے بھیانک نتائج دیکھنے کے بعد وہ مستقبل قریب میں صدام حسین جیسے کسی آمر کو خود پر مسلط ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی، خاص طور پر اس کے ذرائع ابلاغ، اب بہت مضبوط ہوچکے ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے ثمرات چکھ لیے ہیں۔ انہیں ایک آزاد معاشرے کی قدر و قیمت کا احساس ہوچکا ہے۔ یہ وہ مثبت پہلو ہیں جنہیں مزید مضبوطی اور تقویت دی جانی چاہیے۔ اس مرحلے پر امریکہ کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے جنگ کی ابتداء کی جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی۔ اب اسے آگے بڑھ کر تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ عراقی عوام کا اس پر قرض ہے۔ جمہوری تبدیلی کے عمل کے آغاز کے لیے عراقیوں کو مغربی مہارت، ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوگی۔ اس کٹھن صورتحال میں مغرب کو خاص طور پر اور بین الاقوامی برادری کو عموماً عراقیوں کی مدد سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس خطے کے قالب میں عراق ایک ایسا ملک نہیں ہے جو علاقائی طاقتوں میں سے کسی کے بھی بہت زیادہ زیر اثر آجائے۔ بہرکیف اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ روایتی طور پر عراق ایران کے جتنا قریب رہا ہے اب اس سے مزید قربت اختیار کرلے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکہ کو عراق کی جانب شتر بے مہار کی مانند طرزِ عمل کو چھوڑ کر ایک مناسب رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ عراقیوں کے ساتھ باعزت سلوک روا رکھے اور انہیں اپنے معاملات خود سلجھانے کی آزادی دے۔
عراقی حکومت کے لیے:

عراقی حکومت کو فی الوقت تعمیر نواورامن کی بحالی جیسے عظیم مراحل درپیش ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انتہائی یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اسے جگہ جگہ جنم لیتی شورشوں، دہشت گردی کے خطرے اور لاقانونیت سے بھی نمٹنا ہے۔ عراق میں بہت سے منظم اور شدت پسند گروہ وجود میں آچکے ہیں۔ ان گروہوں سے معاملہ کرنا، انہیں معاملات سے بے دخل کرنا، غیر مسلح ہونے کی مہم چلانا، لوگوں میں یہ احساس اُجاگر کرنا کہ ان کے مسائل کا حل پُرامن کوششوں میں مضمر ہے۔ یہ اُن معاملات میں سے ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ عراقیوں کو اپنے آپ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی سے ان کی نجات وابستہ ہے۔ انہیں چاہئیے کہ وہ اپنی معیشت کو دوبارہ اسی ڈگر پر ڈال دیں جس پر وہ امریکی حملے سے قبل تھی-- ایک مستحکم اور اُبھرتی ہوئی معیشت --حکومت کے پاس ابھی بھی اتنے معاشی اور قدرتی وسائل موجود ہیں جو ملک کے استحکام اور معاشی بحالی کے لیے کافی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اتفاقِ رائے کی فضا بنائی جائے، عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، لوگوں کی فوری ضروریات پر توجہ مرکوز ہو اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں رہا جائے۔

عراق کوچاہیے کہ وہ اپنی اُسی غیر جانبداری کی پالیسی کا احیاء کرے جس پر وہ صدام حسین کے دور میں عمل پیرا تھا اور اپنے ہمسایوں کو یہ پیغام دے کہ اگر وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرلیتا ہے تو وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنے گا۔ شط العرب کے معاملے پر اسے ایران کے ساتھ گفت و شنید کرکے کسی تصفیے پر پہنچنے اور چھوٹے ہمسایوں کے ساتھ مملوکہ علاقوں کے تنازعات کوپُرامن طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے وسیع تر اسلامی برادری سے منسلک ہونا اور وہاں اپنا باوقار مقام حاصل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے زیادہ تر ہمسائے غیر جانبداری کی اس کی پالیسی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔تاہم اگر عراق کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہتا ہے اور وہ دوسرے ہمسایوں کے بالمقابل اس کا آلۂ کار بن جاتا ہے تو یہ عراق کے حق میں مفید نہ ہوگا۔اگر یہ امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور اس کی کٹھ پتلی بن کر رہا تو ہوسکتا ہے کہ عراق- ایران تناؤ کا پھر سے آغاز ہوجائے۔ لہٰذا عراق کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ عراق کو کسی بھی صورت امریکہ کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ اس کے ہمسایوں کے خلاف عراقی سرزمین استعمال کرے۔ ساتھ ہی ساتھ عراق کو اسرائیل کے بالمقابل نہیں آنا چاہئیے۔ چونکہ تکنیکی لحاظ سے عراق اسرائیل کے ساتھ ابھی تک حالتِ جنگ میں ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات ایک حساس معاملہ ہوگا۔
 

موجو

لائبریرین
عراق میں موجودہ پیش رفت اور مستقبل کے امکانات
سوال: کیا عراق میں امریکی ایجنڈا کامیاب ہورہا ہے؟

نئے قدامت پرستوں(نیوکانز) نے تین نکاتی لائحۂ عمل پیش کیا جس نے جارج ڈبلیو بش کو صدام حسین کے خلاف حملے کی بنیاد فراہم کی۔

(۱) امریکہ عراق کی ایک جمہوری ملک کے طور پر تعمیر نو کرے گا، جوکہ باقی مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ اس طرح امریکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کی شمع روشن کرسکے گا۔ یہ مقصد فی نفسہٖ بُرا نہیں تھا لیکن عراق پر حملے کے مابعد اثرات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مقصد کبھی بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اِس سے اس امر کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ جمہوریت سازی کے اس منصوبہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی حتیٰ کہ اوباما انتظامیہ بھی عراق کا ذکر تک کیوں نہیں کررہے۔ اگرچہ اس منصوبے میں عراق کو بنیادی نکتے کے طور پر استعمال کرنے کا وسیع تر مقصد تو حاصل نہیں ہوا، مگر حکومت کی تبدیلی کا عمل واقع ہوچکا ہے۔ رائج الوقت حکومت جمہوری طور پر منتخب شدہ ، امریکہ کی ہمدرد حکومت ہے جو غالباً اس خطے میں امریکہ کے بنیادی مفادات کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ مالکی حکومت نے درحقیقت امریکہ کو کھلی مداخلت کا موقع فراہم کیا ہے اور اسے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے اور بالوسطہ موجودگی کی اجازت بھی دے دی ہے جو غالباً قابلِ قیاس مستقبل تک جاری رہے گی۔

(۲) دوسرا مقصد یہ تھا کہ عراق کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تیار کرنے کی صلاحیت سے محروم کردیا جائے۔ اب یہ بات ہم سب کے علم میں ہے کہ عراق کے پاس کبھی یہ صلاحیت تھی ہی نہیں اور عراق پر حملے کے لیے یہ ہتھیار محض ایک بہانہ تھے۔ حال ہی میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے یہ بیان دیاہے کہ اگر عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہ بھی ہوتے تو بھی وہ عراق پر حملہ ضرور کرتے کیونکہ ان کے خیال میں صدام کی آمرانہ حکومت اس بات کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے کافی تھی کہ مغربی ممالک طاقت استعمال کریں اور وہاں کی حکومت کو تبدیل کردیں۔

(۳) تیسرا مقصد جوکہ بہت سے لوگوں کے خیال میں عراق پر امریکی حملے اور وہاں اس کی مستقل فوجی موجودگی کی تہہ میں کارِ فرما اصل مقصد ہے، وہ عراق کے تیل کے ذخائر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ عراق کے تیل میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عراقی تیل کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی کمپنیوں کو ترجیحی بنیادوں پر مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ چنانچہ اس سے یہ مقصد کسی حد تک پورا ہوگیا۔

اس بات سے قطع نظر کہ یہ جنگ جمہوریت سازی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جڑ سے اکھاڑنے یا عراق کے تیل اور توانائی کے ذخائر پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مسلط کی گئی۔ اس حقیقت سے آنکھیں چُرانا ناممکن ہے کہ امریکہ کو اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چُکانا پڑرہی ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق امریکہ اس جنگ میں تین کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان اُٹھاچکا ہے۔ امریکہ کے بہت سے پالیسی ساز اس قدر زیادہ مالی نقصانات کو دیکھتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ جنگ لڑی ہی نہیں جانی چاہیے تھی۔ لہٰذا عراق میں حقیقی امریکی مقاصد سے قطع نظر اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے امریکی پالیسی سازوں کے پاس بڑی ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔

سوال: عراق کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کیا امریکہ کے لیے اپنے انخلاء کی پالیسی کو بروئے کار لانا ممکن ہوگا؟

اولاً، اس جنگ سے ہاتھ کھینچ لینے کے لیے بنیادی امر امریکہ میں اس حقیقت کا ادراک ہونا ہے کہ یہ ایک غلط جنگ تھی اور اس نے امریکی قوم کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف ہزاروں عراقی شہریوں کا خون بہایا ہے بلکہ اپنے خزانے اور خون سے بھی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ لہٰذا اوباما اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔

ثانیاً، اس جنگ کی معاشی قیمت امریکی توقعات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پہلے پہل امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اس جنگ کے اخراجات عراقی تیل کی آمدن سے پورے کیے جاسکیں گے، لہٰذا یہ جنگ واشنگٹن کے لیے قابلِ برداشت ہوگی۔ لیکن یہ توقع اس لیے پوری نہیں ہوئی کہ تیل کی قیمتیں۱۸۰ ڈالر فی بیرل تک متجاوز ہوکر۷۷ ڈالر فی بیرل کی نچلی سطح تک آگئیں۔تیزی سے انحظاط پذیر ہوتی تیل کی آمدنی نے امریکہ کمپنیوں کو مجبور کردیا کہ وہ زیادہ مقدار میں تیل نکالیں۔ اس بات نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔ کیونکہ عراقی حکومت بھی اپنے آپ کو مستحکم کرنے اور اپنے ملک کی معاشی بحالی کے کٹھن کام کا آغاز کرنے کے لیے تیل کی آمدن کے اِسی ذریعے سے رقم چاہتی ہے۔

ثالثاً، افغانستان میں جنگ جیتنا ناگزیر ہے۔ صدر اوباما نے جارحانہ حکمتِ عملی کے ایک حصے کے طور پر افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے مزید۳۰ہزار فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے کچھ دستے عراق سے نکال کر افغانستان بھیجے جائیں گے۔ اس تناظر میں عراق سے امریکی فوجیوں کا انخلائ، افغانستان میں جارحانہ حکمت عملی سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔

رابعاً، اگر اوباما اقتدار میں رہتا ہے، جیساکہ بہت سے لوگ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف بقیہ دو سال پورے کرے گا بلکہ دوسری مدت کے لیے بھی منتخب ہوگا، تو انخلاء کی پالیسی پر عمل ہوتا رہے گا۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس قابل ہوسکے گا کہ وہ عراق میں برسرِ پیکار تمام فوجی دستے نکال لے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوباما عراق سے زمینی افواج کی واپسی کا وعدہ تو پورا کرے گا لیکن فضائی اڈے اور خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بنائے گئے اپنے نظام کو ملک کے مختلف حصوں میں قائم رکھے گا۔ چنانچہ بہت سے عوامل اور دباؤ کے زیر اثر اوباما کو اپنی صدارت کی پہلی مدت کے اختتام تک عراق سے تمام فوجی دستوں کی واپسی کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ لیکن اگر زمینی حالات اس قدر خراب ہوجاتے ہیں کہ امریکی پالیسی ساز یہ محسوس کرنے لگیں کہ فوجوں کی واپسی سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا تو ممکن ہے کہ وہ انخلاء کے طریقہ کار کو مزید طول دیں۔ یہ ناممکن ہے کہ امریکی عوام، اس کے معاشی حتیٰ کہ سیاسی سربراہ اس دلیل پر متفق ہوسکیں کہ عراق میں لمبے عرصے تک فوجوں کی موجودگی ان کے وسیع تر فوجی یا دفاعی مفاد میں ہوگی۔

سوال: ایران نے عراق میں کس طرح سے اپنا کردار ادا کیا ہے؟

امریکی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عراق کی نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ملک کو عدم استحکام کا شکار کردے گی اور وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانے سے گریز کریں گے جو اس تناؤ میں مزید اضافہ کرے اور نتیجتاً شیعہ اکثریتی آبادی اور سُنی اقلیتی آباد ی کے درمیان تعلقات کو خراب کرے۔ بالآخر وہ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ عراق کی شیعہ آبادی پر ایران کا اچھا خاصا اثر و رُسوخ ہے اور رہے گا۔ اور انہوں نے اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ اس موقع پر تہران نے اپنے پتے نہایت عقلمندی سے استعمال کیے ہیں اور اس معاملے کا اہم ترین فریق بننے کے لیے عراق میں اپنا اثر و رُسوخ استعمال کیا ہے۔ مزید برآں ایران، عراق کے کسی علاقے پر قبضے کا ارادہ نہیں رکھتا، کیونکہ اس کا خیال ہے کہ:

ا یہ اس کے ہمسایوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
ب یہ ایران کی طرف سے قوت کا بے جا استعمال سمجھا جائے گا۔
ج یہ عراقی عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے ناقابل قبول ہوگا، حتیٰ کہ اس کی شیعہ آبادی کے لیے بھی جو ایران کے ساتھ ہمدردی اور نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔

ابھی تک ایرانی اثر و رُسوخ نے عراق میں حالات کی بہتری میں مدد دی ہے اور ایران یہ نہیں چاہتا کہ عراق سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کے لیے نیا میدانِ جنگ بن جائے ۔ تاہم ایران سے متعلق امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس کے ذریعے اس خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رُسوخ کو کم کیا جاسکے اور بغداد اور تہران میں بڑھتے ہوئے فوجی و سیاسی تعلقات کی بحالی کو روکا جاسکے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے ایران، عراق دونوں ممالک کی مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے عراق میں جنگ اور امریکہ نواز حکومت مسلط کرکے عراق دشمنی کا ثبوت دے دیا ہے، تاہم اس کی ایران مخالف پالیسی ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوئی۔اس سلسلے میں ایران اگر عراق کے ساتھ مل کر ایک دفاعی / فوجی اتحاد بنالیتا ہے یا سیاسی و معاشی وجوہات کی بناء پر عراق کے ساتھ مصالحت کرلیتا ہے تو امریکہ اور سعودی عرب اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔

تاہم اپنی اندرونی کمزوریوں اور مسائل کی بناء پر ایک ریاست اور علاقائی طاقت دونوں کے طور پر عراق اس خطے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایران اس خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے اپنی بڑھتی ہوئی فوجی اورمیزائل صلاحیت کے بل بوتے پر عراق میں اپنے اثرات ثبت کرنا پسند کرے، لیکن امریکہ جس چیز سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہے وہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں سماجی، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم اس قدر شدت اختیار کرلے کہ وہ عراقی ریاست کی سا لمیت اور حکومت کے لیے خطرہ بن جائے۔ متحدہ عراق، جہاں کُرد، شیعہ اور سنی اتفاق سے رہتے ہوں، کی نسبت ایسی (تقسیم شدہ) صورتحال ایران کے لیے زیادہ سود مند ہوگی۔ اس تناظر میں امریکی انتظامیہ، خاص طور پر امریکی زمینی افواج کے انخلاء کے بعد، ایسی عراقی حکومت چاہے گی جو ان اختلافات سے اور عراق کے حالات سے اپنے طور پر نبرد آزما ہوسکے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ عراق سے امریکی فوجوں کے چلے جانے کے بعد عراق اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہوسکے، کچھ اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ چنانچہ جب تک عراق کی مرکزی حکومت مضبوط رہتی ہے، عراق کی سا لمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

سوال: کیا عراق کی معاشرتی، نسلی، سیاسی، مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور خاص طور پر کُرد شورش عراق کا شیرازہ بکھیرنے پر منتج ہوگی؟

ایک مرحلے پر بیرونی سازشوں کی وجہ سے عراق کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوجانے کا خطرہ واقعی موجود تھا۔ بعد ازاں امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ ایک کمزور عراق خطے میں عدم استحکام پیدا کرے گا۔ اور نہ تو وہ امریکیوں کو اور نہ ہی کسی اور طاقت کو کوئی فائدہ پہنچاسکے گا۔ اس حقیقت نے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی خواہش کو ٹھنڈا کردیا۔ تین حصے: یعنی جنوب میں شیعہ اکثریت، مرکز میں سنی اور شمال میں کُردوں پر مشتمل منقسم عراق۔

اگرچہ عراقی معاشرہ بنیادی طور پر نسل پرستی کے جذبات سے معمور رہا ہے لیکن جب کبھی بیرونی طاقتوں سے جنگ کا موقع آیا تو عراقی قوم پرستی کے جذبات ہمیشہ غالب آگئے۔ یہ قوم پرستی کے فطری جذبات ہی تھے جو ۱۹۳۰ء میں برطانیہ کے خلاف جنگ میں حرکت میں آگئے تھے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور یکے بعد دیگرے دو امریکی انتظامیہ -- بش اور اوباما -- مجبور ہوگئیں کہ وہ عراقی بغاوت کو بیرونی طاقتوں کے خلاف ایک ملک گیر تحریک کی شکل میں دیکھیں۔ تقسیمِ عراق کے سرگرم حامیوں پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ملک کو تین چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ایک غیر معمولی اور پُرخطر کوشش ہے۔

عراق کو تقسیم کرنے کی منطق نے اپنے ملک پر امریکی قبضے کے خلاف عراقی قوم پرستی کے فطری جذبات کو اُبھارنے کے لیے تُرپ کے پتے کا کام دیا۔ چنانچہ عراق ایک متحدہ وحدت کی صورت میں اس وجہ باقی نہیں ہے کہ واشنگٹن ایسا چاہتا تھا بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عراقی عوام نے’’ نیوکانز‘‘ کی تقسیم کی سازش کا شکارہونے سے انکار کردیا۔

کُرد علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینا شام، ترکی اور ایران سمیت خطے کے کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ان تینوں ممالک میں کُرد ایک بڑی تعداد میں آبادہیںترکی کو کُرد بغاوت اور رجوعیت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ ان علاقائی طاقتوں کا مفاد اسی سے وابستہ ہے کہ وہ کُرد اقلیتوں کو اپنی اپنی سرحد کے اندر آباد دیکھیں۔ آزاد کُردستان کی تحریک ان تینوں ممالک کو غیر مستحکم کرسکتی ہے اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کی حامی مرکز گریز قوتیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔ ان خطرات کی وجہ سے اس بات پر اس علاقے میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے کہ عراقی کرد، عراق کی حد میں ہی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان طاقتوں کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ متحدہ عراقی ریاست کے نظام میں کردوں کو وسیع تر شمولیت کا احساس دلایا جانا چاہیے۔ اگرچہ بظاہر تو یہ ایران کے لیے بہت خوش کن دکھائی دیتا ہے کہ وہ عراق میں علیحدگی پسندوں کو ہوا دے لیکن اس کا منفی اثر عظیم کردستان کی تحریک کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جوکہ اس ترغیب کے اثر کو بالکل زائل کردے گا۔

سوال: عراق میں جمہوریت اور عراقی فوج کے تعلق کا کیا مستقبل ہے؟

عوامی سطح پر امریکہ مخالف جذبات میں بہت شدت پائی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہلاکتوں اور امریکی مداخلت کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے نتیجے میں یہ جذبات ایک طویل عرصے تک ایسے ہی رہیں گے۔ عراقی عوام کے خلاف امریکی فوج کے مظالم کی تمام داستانیں ابھی تک منظر عام پر نہیں آئیں۔ عراقی عوام، جنہوں نے امریکیوں کے بے پناہ مظالم برداشت کیے ہیں، اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امریکی لشکر کشی کا کیا مطلب ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ انتہائی حد تک امریکہ کے خلاف ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں مستقبل میں بننے والی کسی بھی عراقی حکومت کے لیے اپنی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت ان امریکہ مخالف جذبات سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اگر حقیقی طور پر منتخب شدہ کسی بھی عراقی حکومت کو امریکی مفادات کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا گیا تو وہ بہت لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ عراق سے تیل اور اس کے توانائی کے ذخائر تک بآسانی رسائی کی صورت میں تو کچھ فوائد حاصل کرسکے لیکن امریکہ کے لیے عراق میں عراقی عوام کی خواہشات کے برعکس ایسی حکومت بنانا جو امریکہ کے گلے کا ہار ہو، بہت مشکل نظر آتا ہے۔

یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم ہے کہ امریکی حکمران جمہوریت کو وسعت دینے اور اسے مضبوط کرنے کے تو دعویدار ہیں لیکن اگر کسی ملک میں جمہوریت کی وجہ سے ایسے قائدین سامنے آئیں جو اُن کی خواہشات کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک سکیں تو وہ ایسی ممکنہ جمہوریت کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ ایک ایسی جمہوریت چاہتا ہے جو امریکہ کے لیے قابل قبول حکمران پیدا کرے۔ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کے لیے یہ مسئلہ امریکی رویے میں سرایت کرچکا ہے۔

چونکہ جمہوری طور پر منتخب رہنماؤں کا ااپنا لائحۂ عمل، رجحانات اور عوامی اعتماد ہوتا ہے، چنانچہ امریکہ آمروں کی سرپرستی کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عراق کے معاملے میں ایرانی انقلاب کے بعد ۱۹۷۹ء سے ۱۹۹۱ء تک صدام حسین اسی امریکی شعبدہ بازی کے سحر میں گرفتار رہا۔ ان گیارہ سالوں کے دوران امریکہ صدام حسین کا سب سے بڑاحامی تھا اور اس کو خطے کے استحکام کے لیے ایک اہم طاقت کے طور پر پیش کرتا رہا، جیساکہ رمز فیلڈ اور صدام حسین کی چند انتہائی اہمیت کی حامل ملاقاتوں سے یہ تأثر دیا گیا۔ چونکہ ایران اس وقت ایک بڑا خطرہ محسوس ہوتا تھا چنانچہ سعودی عرب اور کویت کو ایران کے خلاف اس جنگ میں عراق کی مدد کے لیے گھسیٹ لیا گیا۔

امریکہ اپنے مفادات اور سیاسی ضروریات کے تحت انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کبھی آمریت اور کبھی جمہوریت کی سرپرستی کرتا رہا ۔دنیا بھر میں حکومتوں کی سرپرستی کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے یہ کہنابعید از قیاس نہیں کہ امریکہ کی عنایت سے عراق میں ایک مضبوط امریکہ نواز حکمران کی حکومت بنادی جائے۔ تاہم امریکہ نے آمرانہ نظامِ حکومت کو ختم کرکے عراقیوں کو ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اگر عراق امریکہ کی دفاعی اور سیاسی مفادات کی باجگزار جمہوریت کی بجائے ایک خودمختار جمہوریت بننا چاہتا ہے تو عراقی رہنماؤں کو خصوصاً اور عراقی عوام کو عموماً اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افواج امریکی ایجنڈے پر ہی عمل پیرا رہیں۔ عراقی قیادت خاص طور پر فوجی سربراہان امریکہ کے ممنونِ احسان ہیں کیونکہ امریکیوں ہی نے ان کو تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا، فوجی سازو سامان سے آراستہ کیا اور انہیں اقتدار میں لائے۔ آخری مر تبہ جب میں واشنگٹن گیا تو ایک عراقی جنرل (اس کا نام ظاہر نہیں کروں گا) سے ملا، اس سے گفتگو کرتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ عام امریکیوں سے بڑھ کر امریکی حکمرانوں کا وفادار تھا۔ اس وقت مجھے حیرت کا شدید دھچکا لگا کہ یہ جنرل امریکی حمایت پر مبنی اپنے صریح مؤقف کے ساتھ کس طرح اس ملک (عراق) پر حکومت کرے گا!اگر یہ آغاز ہے تو مستقبل کی قیادت کے سلسلے میں عراق ایک حقیقی مشکل سے دوچار ہے۔

فوج کو ایک ایسے امریکی حمایت یافتہ اور پروردہ ادارے کے طور پر دیکھا جائے گا جوکہ غیر معمولی امریکی اثر و نفوذ رکھتا ہے۔ اور امریکہ مخالف جمہوریت کو امریکی تربیت یافتہ عراقی فوج کے ذریعے دبائے جانے کو خارج از امکان نہیں کہا جاسکتا۔

سوال: عراق سے امریکہ کے چلے جانے کے بعد علاقائی اور عالمی اداکاروں کا کردار کیا ہوگا؟

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عراق سے امریکی افواج کے چلے جانے کے بعد بھی یہ مکمل انخلاء کی صورتحال نہیں ہوگی۔ عراقی حکومت کا اپنا مقام ہے لیکن بہت کچھ اس پرمنحصر ہوگا کہ یہ خود کو کن ممالک کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی عراقی حکومت اپنے ہمسایوں مثلاً ایران، اُردن، سعودی عرب، شام اورترکی وغیرہ سے لاتعلق ہوکر نہیں رہ سکتی۔ امریکی کوشش یہ ہوگی کہ ان میں سے کچھ طاقتیں عراق پر کسی حد تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھیں۔ اگرچہ ان ممالک کے اپنے ایجنڈے ہیں لیکن اس معاملے کیلئے وہ اُردن اور سعودی عرب پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ علاوہ بریں عراق اتنا کمزور بھی نہیں ہے کہ وہ علاقائی طاقتوں کے لیے اس طرح سے میدان جنگ بن جائے جس طرح افغانستان سے رُوس کے چلے جانے کے بعد افغانستان بن گیا تھا۔

عراق ایک باوقار قوم ہے اور یہ اپنے وسائل، اپنے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے، مضبوط ہوتے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے جوکہ اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور کوئی بھی ملک جو فیصلہ کن انداز سے بغداد پر اثر انداز ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ عراق میں امریکی فوجی موجودگی کی جگہ لینے کے لیے اس خطے میں کوئی بھی سخت مقابلہ نہ ہو۔ مزید برآں تیل کی بدولت چین بھی یہاں داخل ہوچکا ہے، روس کے بھی عراق میں طویل المدت مفادات ہیں۔ صدام حسین کے ساتھ اس کا بیس سالہ دوستانہ معاہدہ ہے۔ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۳ء کے علاوہ روسی تکنیکی ماہرین یہاں موجود رہے ہیں۔اگرچہ اب روس کے اثرات ختم ہوچکے ہیں تاہم عراق میں یہ اپنے اثرو رسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔نظر آتا ہے کہ روس اور چین عراق کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کررہے ہیں لیکن یہ تعلقات محض منطقی اور معاشی بنیادوں پر استوار ہیں نہ کہ کسی قسم کی جغرافیائی اور سیاسی بنیادوں پر۔ بصورتِ دیگر انہیں عراق میں امریکی موجودگی اور اس کے اثر و رسوخ پر یا ان کی بالواسطہ موجودگی کی وجہ سے آنے والی ایک طویل مدت تک خاصا مقابلہ کرناہوگا۔

عراق میں قوم پرستی کے جذبات بہت شدت رکھتے ہیں اور یہ امریکہ موافق صورتحال کے ساتھ لمبے عرصے تک میل نہیں کھاسکتے۔ رسہ کشی کی اس صورتحال میں عراق کی حکومت کے لیے اس میں توازن قائم رکھنا ایک نازک مرحلہ ہوگا۔

سوال: امریکی اور عراقی حکومتوں کی حکمتِ عملی کے اہداف کیا ہونے چاہئیں؟
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے:

امریکہ کو چاہئے کہ وہ عراق سے اپنی افواج نکال لے اور اگر اسے رکھنا پڑتی ہی ہیں تو ان کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے اور عراقی قوم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا چاہئیے۔ اس کے علاوہ یہ کہ اس حوالے سے کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے کہ عراق اپنا مستقبل خود ترتیب دینے کی صلاحیت اور قابلیت نہیں رکھتا۔ عراقی معاشرہ ایک تعلیم یافتہ، انتہائی مہذب اور ادب و ثقافت کے میدانوں میں دنیاکے جدید ترین معاشروں میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے اور اسے معمولی ریاست نہیں سمجھنا چاہئیے۔ لہٰذا اگر عراق کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو عراق کے عوام اپنا مستقبل بخوبی ترتیب دے سکتے ہیں جوکہ اپنی اساس کے اعتبار سے جمہوری ہوگا۔ کیونکہ ایک طویل عرصے تک ان پر آمر مسلط رہے ہیں۔ اِن آمروں نے ہمسایہ ممالک پر حملے کیے اور تباہی پھیلائی۔ اپنے لیے آمرانہ حکومت کے بھیانک نتائج دیکھنے کے بعد وہ مستقبل قریب میں صدام حسین جیسے کسی آمر کو خود پر مسلط ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی، خاص طور پر اس کے ذرائع ابلاغ، اب بہت مضبوط ہوچکے ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے ثمرات چکھ لیے ہیں۔ انہیں ایک آزاد معاشرے کی قدر و قیمت کا احساس ہوچکا ہے۔ یہ وہ مثبت پہلو ہیں جنہیں مزید مضبوطی اور تقویت دی جانی چاہیے۔ اس مرحلے پر امریکہ کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے جنگ کی ابتداء کی جس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی۔ اب اسے آگے بڑھ کر تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ عراقی عوام کا اس پر قرض ہے۔ جمہوری تبدیلی کے عمل کے آغاز کے لیے عراقیوں کو مغربی مہارت، ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہوگی۔ اس کٹھن صورتحال میں مغرب کو خاص طور پر اور بین الاقوامی برادری کو عموماً عراقیوں کی مدد سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے۔ اس خطے کے قالب میں عراق ایک ایسا ملک نہیں ہے جو علاقائی طاقتوں میں سے کسی کے بھی بہت زیادہ زیر اثر آجائے۔ بہرکیف اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ روایتی طور پر عراق ایران کے جتنا قریب رہا ہے اب اس سے مزید قربت اختیار کرلے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکہ کو عراق کی جانب شتر بے مہار کی مانند طرزِ عمل کو چھوڑ کر ایک مناسب رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ عراقیوں کے ساتھ باعزت سلوک روا رکھے اور انہیں اپنے معاملات خود سلجھانے کی آزادی دے۔
عراقی حکومت کے لیے:

عراقی حکومت کو فی الوقت تعمیر نواورامن کی بحالی جیسے عظیم مراحل درپیش ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انتہائی یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اسے جگہ جگہ جنم لیتی شورشوں، دہشت گردی کے خطرے اور لاقانونیت سے بھی نمٹنا ہے۔ عراق میں بہت سے منظم اور شدت پسند گروہ وجود میں آچکے ہیں۔ ان گروہوں سے معاملہ کرنا، انہیں معاملات سے بے دخل کرنا، غیر مسلح ہونے کی مہم چلانا، لوگوں میں یہ احساس اُجاگر کرنا کہ ان کے مسائل کا حل پُرامن کوششوں میں مضمر ہے۔ یہ اُن معاملات میں سے ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ عراقیوں کو اپنے آپ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اسی سے ان کی نجات وابستہ ہے۔ انہیں چاہئیے کہ وہ اپنی معیشت کو دوبارہ اسی ڈگر پر ڈال دیں جس پر وہ امریکی حملے سے قبل تھی-- ایک مستحکم اور اُبھرتی ہوئی معیشت --حکومت کے پاس ابھی بھی اتنے معاشی اور قدرتی وسائل موجود ہیں جو ملک کے استحکام اور معاشی بحالی کے لیے کافی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اتفاقِ رائے کی فضا بنائی جائے، عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے، لوگوں کی فوری ضروریات پر توجہ مرکوز ہو اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں رہا جائے۔

عراق کوچاہیے کہ وہ اپنی اُسی غیر جانبداری کی پالیسی کا احیاء کرے جس پر وہ صدام حسین کے دور میں عمل پیرا تھا اور اپنے ہمسایوں کو یہ پیغام دے کہ اگر وہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرلیتا ہے تو وہ ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں بنے گا۔ شط العرب کے معاملے پر اسے ایران کے ساتھ گفت و شنید کرکے کسی تصفیے پر پہنچنے اور چھوٹے ہمسایوں کے ساتھ مملوکہ علاقوں کے تنازعات کوپُرامن طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے وسیع تر اسلامی برادری سے منسلک ہونا اور وہاں اپنا باوقار مقام حاصل کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کے زیادہ تر ہمسائے غیر جانبداری کی اس کی پالیسی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔تاہم اگر عراق کا جھکاؤ امریکہ کی طرف رہتا ہے اور وہ دوسرے ہمسایوں کے بالمقابل اس کا آلۂ کار بن جاتا ہے تو یہ عراق کے حق میں مفید نہ ہوگا۔اگر یہ امریکہ کا ساتھ دیتا رہا اور اس کی کٹھ پتلی بن کر رہا تو ہوسکتا ہے کہ عراق- ایران تناؤ کا پھر سے آغاز ہوجائے۔ لہٰذا عراق کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ عراق کو کسی بھی صورت امریکہ کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ اس کے ہمسایوں کے خلاف عراقی سرزمین استعمال کرے۔ ساتھ ہی ساتھ عراق کو اسرائیل کے بالمقابل نہیں آنا چاہئیے۔ چونکہ تکنیکی لحاظ سے عراق اسرائیل کے ساتھ ابھی تک حالتِ جنگ میں ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات ایک حساس معاملہ ہوگا۔
 

موجو

لائبریرین
ایران کے معاملات پر ایک نظر
سوال: صدر ابامہ کی ایران سے متعلق پالیسی کیا ہے؟ایران پر مغربی ممالک کے دبائو کے کیا ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں؟

انتخابی مہم کے دوران صدر اوباما نے افغانستان کی صورت حال، پاک بھارت تعلقات ، امریکہ ایران تعلقات اور مشرق وسطیٰ کے عمومی مسائل پر بڑے بیانات دیے ۔ چنانچہ یہ تو قعات باندھ لی گئی تھیں کہ ان کے دور صدارت میں ان تمام امور سے متعلق پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ تاہم یہ حقیقت ہمیشہ سامنے رہے کہ انتخابی مہم کبھی بھی سنجیدہ عمل نہیں ہوتا ہے۔ جب وہی امیدوار حکومت کا حصہ بنتا ہے تو اس کے سامنے حقائق تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جب وہ صرف امیدوار ہوتا ہے تو پریشر گروپوں کی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگا سکتا خصوصاً مشرق وسطیٰ کے معاملے میں اسرائیلی لابی کی طاقت کا۔


لگتا ہے کہ صدر اوباما ابھی بھی ان مسائل کا حل ڈھونڈ نے میں سنجیدہ ہیں۔ خصوصاً ایران سے متعلق تو جو کچھ انھوں نے الیکشن مہم میں کہا تھا وہ اس پر قائم نظر آتے ہیں۔ ایران کے ساتھ ہر محاذ پر مذاکرات کے آغاز کا عندیہ دے کر صدر اوباما نے اپنے پیشرو صدر بش کی نسبت بڑا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا ان میں ایٹمی معاملہ پر مذاکرات بھی شامل تھے۔ تاہم اس وقت صورت حال الجھ کر رہ گئی ہے۔ اوباما انتظامیہ ایران کے ایٹمی معاملہ پر سخت موقف جاری رکھے ہوئے ہے اور ایران کو سخت پابندیوں کی دھمکیاں دیئے رکھتی ہے۔ پھر اسی دور صدارت میںایران اورامریکہ کے درمیان تازہ مذاکرات کا آغاز کرنے کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں کھلے رابطے تو سب کو نظر آرہے ہیں لیکن یہ بات بھی عقل تسلیم کرتی ہے کہ کچھ نہ کچھ چھپے رابطے بھی کام کر رہے ہیں۔ صدر اوباما ایک حقیقت پسند انسان ہیں چنانچہ وہ جانتے ہیں کہ خطے کے مسائل کا حل ایران کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ خلیج میں واقع سب سے اہم نوعیت کا ملک ہے۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ایران حزب اللہ اور حماس کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث خطے کے معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید براں اس کی افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد ہے جس کے باعث ایران کے اس علاقے میں ثقافتی تعلقات کی اپنی ہی نوعیت ہے جو کہ زمانہ قدیم سے قائم ہیں اور ایران نے ان کی بڑی احتیاط کے ساتھ آبیاری کی ہے۔
اسی طرح ایران نے عراق کے بحران کو بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ کیونکہ ایران نے صدام حسین کی جارحیت کا آٹھ سال تک سامنا کیا تھا اس لیے عراق میں بعث پارٹی سے ایک منتخب حکومت کے ہاتھوں اقتدار کی منتقلی ایران کے لیے روشنی کی کرن تھی خصوصاًاس لیے بھی کہ نئی حکومت ایرانی نقطہ نظر سے شیعہ مسلک سے بھی وابستہ تھی۔ ایران نے اپنے ثقافتی اور مذہبی روابط استوار کرکے عراق کے اندر موجودجنگجووئوں کے ساتھ فکر ی ہم آہنگی بھی بنالی ہے۔ ان روابط کے بہترین استعمال سے خطے میں ایک مضبوط قوت بن جانے کے بعد ایران کو اس علاقے کے معاملات سے بے دخل کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اوباما بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ایران کی یہاں کے معاملات سے واقفیت اس خطے کے مستقبل اور یہاں ہونے والے مذاکرات اور ان میں پیش رفت کے لیے انتہائی اہم اور نتیجہ خیز عنصر ہو سکتا ہے۔


اس پیش منظر میں ایران امریکہ تعلقات ایک دلچسپ دور سے گذر رہے ہیں جس میں امریکہ اس حقیقت کو باور کرتا چلا جا رہا ہے کہ ایران اس خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور یہ کہ ایران میں اتنا دم خم ہے کہ وہ ارد گرد کی دنیا پر اپنے اثرات مرتب کر سکے۔ دونوں فریق اس موقع پر ایک دوسرے کو پرکھنے کے مرحلے میں ہیں ۔اوباما کے لیے ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر مسئلے کا عسکری حل سوچنے والی اسرائیلی لابی کے مقتدرلوگ روشن خیال نہیں ہیں ان کی تو شدید خواہش رہی ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بموں سے اڑا دیاجائے۔ صدر اوباما نے اسی مخصوص طبقے کے دبائو کا سامنا کیا ہے اور عموماً اسرائیل کو جارحانہ قدم سے روکے رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ایران کے خلاف امریکہ یا اقوام متحدہ کے کسی بھی جارحانہ قدم کا مطلب بڑی تباہی ہو سکتا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ کوئی بھی ایسا قدم معاملات کو اتنا پیچیدہ بنا دے گا کہ اس غیر دانشمندانہ اور عاقبت نا اندیش فیصلے کے نتائج کو سمیٹنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ جب ایران میں انتخابات ہوئے اور وہاں احتجاج کا ایک دور چلا تو امریکی میڈیا  جسے زیادہ تر امریکی حکومت لقمے دے رہی ہوتی ہے- اور امریکی خفیہ ایجنسیوں نے احمدی نژاد کے خلاف ایک مضبوط موقف پر مبنی تحریک چلائی۔ ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بات نوٹ کی کہ ان احتجاجی مظاہروں کو خوب ہوا دی گئی تھی اور ایران میں ایک نرم رو انقلاب برپا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔


مغرب نے کوشش کی ہے کہ ایران کے اندر سے اٹھنے والی آواز کو انقلابِ ایران کے بعدپیدا ہونے والی سوچ اور قیادت کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ کئی دہا ئیوں سے ایران پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی شدت پسند تحریکوں کا بہت بڑا حمایتی ہے ۔ بظاہر لگتا ہے کہ ایران حزب اللہ اور حماس کو فعال مدد ، ہتھیار ،تربیت اور رضا کار فراہم کرتا رہتا ہے جو کہ مغرب کے نزدیک دہشت گرد تحریکیں ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں مغرب ایران کو ہمیشہ دہشت گرد ریاست کے طور پر دیکھتارہا ہے حتیٰ کہ جب ایران نے اپنے اقتصادی مسائل بالخصوص اپنے خلاف لگنے والی پابندیوں کو غیر موثر کرنے کے لیے لاطینی امریکہ تک رسائی حاصل کرنا چاہی تو اسے بھی امریکہ کے عقب میں حالات خراب کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔


اس سب کے باوجود دونوں ممالک نے رابطے جاری رکھے تاکہ کسی طرح ایسے مشترکہ مقام کو تلاش کیا جا سکے جہاں دونوں کے مفادات اگر کسی طور یکجا نہیں بھی ہو سکتے تو کم از کم اپنی اپنی حیثیت میں ہی پورے ہوتے رہیں۔ اور اس محاذ آرائی کو ختم کیا جا سکے جو گذشتہ 27 برس سے جاری ہے۔ ایران، مغرب بالخصوص امریکہ کے ساتھ جاری اس مکالمے میں سوچ کی تبدیلی کا متقاضی رہا ہے ۔ اس کی خواہش رہی ہے کہ مغرب اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ ایران کوئی دوسرے درجے کی طاقت نہیں ہے۔ اس ساری گفتگو میں نصف جدوجہد تو اس بات پر مبنی ہے کہ مغرب دنیا کے اس خطے میں ایران کی درست پوزیشن کو تسلیم کرے ۔


اگرچہ ایران اور مغر ب کے درمیان ڈائیلاگ کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ تاہم یہ ڈائیلاگ ابھی بھی بامعنی اور نتیجہ خیزنظر نہیں آتے۔ دونوں انتہائی درجے پر مبنی اپنی پسند کے نتائج سامنے رکھ کر آغاز کرتے ہیں ۔ امریکہ کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کر دے جو کہ ایران کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ضروری ہے کہ کسی ایسے سمجھوتے پر پہنچا جائے جس میں ایران کے وقار اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ا بھی تک تو امریکہ نے ایران کو گھیرے رکھنے کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کرنا تو دور کی بات اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی۔ یہ اس کی روایتی پالیسی ہے اور اس پالیسی میں کسی نمایاں تبدیلی کی توقع رکھنا ابھی تک ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ البتہ اوباما کی اپنی پوزیشن میں تبدیلی نمایاں نظر آتی ہے۔


یہ بات بھی ناممکنات میں سے ہے کہ ایران مغرب کے دبائو کا شکار ہو جائے گا۔ ایرانی ایک خوددار قوم ہیں اورایسے کوئی زمینی حقائق او ر وجوہ نظر نہیں آتے جن کے نتیجے میں ایران اس دبائو کے سامنے ٹوٹ پھوٹ جائے۔ ایران نے نہ صرف اس دبائو کو برداشت کیا ہے بلکہ اس سے انکار نے ایرانی قوم کے حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرکے ہی اسے ملائم کر سکتا ہے کیونکہ اسے جدید ٹیکنالوجی اور دیگر بنیادی نوعیت کی ضروریات اشد درکار ہیں۔ اگرچہ ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی اور پابندیوں نے ایران میں ترقی کا پہیہ سالہاسال سے سست کر رکھا ہے پھر بھی اس نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود نتائج سے بے پروا ہو کر اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھا ہوا ہے۔


شدت پسندامریکی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پابندیوں سے کامیابیاں حاصل نہیں ہو پائیں۔یہ سوال سنجیدہ جواب کا متقاضی ہے کہ کیا ایران کے خلاف سخت پابندیوں سے کوئی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں جبکہ اب ایران کی پوزیشن ناقابل تاخت ہے تاہم ایران اور مغرب کے درمیان ایک درجہ کی مفاہمت بھی خطے اور خود ان کے اپنے مفاد میں ہے۔

سوال: ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی مہم میں چین اور روس کا کردار کیا ہے؟

جہاں تک چین اور روس کا تعلق ہے تو ہمیں ایران کے خلاف امریکہ کی طرف سے لائی جانے والی قراردادوں کی تاریخ پر نظر ڈالنا ہو گی ۔ امریکہ نے ہمیشہ ان قراردادوں کے لیے انتہائی سخت ڈرافٹ کی شکل میں ابتدا کی لیکن پھر چین اور روس کی طرف سے ویٹو کے خدشے کے پیشِ نظر اس نے پس پردہ مذاکرات کے باعث ان کے متن میں نرمی کر دی۔ چین اور روس انفرادی حیثیت سے اور اجتماعی طور پر بھی ایران کے خلاف اس سے زیادہ سخت پابندیوں کے حمایتی نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں مقصد فوت کر دینے والے عمل کے سوا کچھ نہیں۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ اس طرح کی پابندیاں ایران کے اندر سخت رو اور جنگجو یانہ سوچ رکھنے والے افراد کو مزید مضبوط کریں گی۔ ایران کی خوشحالی میںحصہ دارہونے کے باعث چین اور روس کو بہت کچھ اور بھی دیکھنا پڑ رہا ہے۔ دونوں طاقتوں کے ایران کے ساتھ، بالخصوص اقتصادی نوعیت کے معاملات میں، انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔ چین کے ایران کے ساتھ انتہائی تیزی سے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات ہیں ۔ روس نے ایران کو ایٹمی ری ایکٹر فراہم کیا ہے اور وہ ایران کے چاہنے پر مزید بھی فروخت کرنے کی خواہش رکھتا ہوگا۔ ایران نے روس کو انتہائی جدید ائیر ڈیفنس سسٹم کے حصول کے لیے بھاری رقم کی ادائیگی کر رکھی ہے ۔ امریکہ روس پر دبائو ڈالے ہوئے ہے کہ وہ اس سودے کو تعطل میں ڈالے رکھے یا سرے سے ختم ہی کر دے۔


دوسری طرف چین کے امریکہ کے ساتھ بڑے وسیع تعلقات ہیں۔ اوباما نے اپنے حالیہ دورہ چین میں تقریباً یہ تسلیم کر لیا ہے کہ چین نئے منظر نامے میں ابھر تی ہوئی طاقت ہے۔ ایک موقع پر وہ یہ تجویز دیتے نظر آئے کہ اس وقت دو طاقتیں ہیں امریکہ اور چین یعنی G2 اور یہ کہ یہ دونوں عالمگیر مسائل کا حل نکال سکتی ہیں یا کم از کم دنیا کی اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح روس کے بھی امریکہ کے ساتھ یورپین سیا ست کے باعث حساس نوعیت کے تعلقات ہیں اور نیٹوکے مشرق کے طرف بڑھتے ہوئے پھیلائو کی وجہ سے روس کے لیے یہ معاملات انتہائی نازک بھی ہیں اس پرمستزادیہ کہ(Strategic Arms Reduction Treaty) یعنی START کی معیادختم ہو رہی ہے اور بہت جلد ایک نئے معاہدے پر مذاکرات متوقع ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں نہ تو روس اور نہ ہی امریکہ ایک دوسرے کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔


یہ وہ منظرنا مہ ہے جس میں چین اور روس واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس نہج پر استوار رکھنا چاہتے ہیں کہ ایران یا ایران کا ایٹمی پروگرام ان کے اپنے دوطرفہ تعلقات کی راہ میںبہت بڑی رکاوٹ نہ کھڑی کر دے ۔وہ بہت محتاط ہیں لیکن ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ایران کے خلاف بہت شدید اور سخت پابندیوں کی مخالفت کے باوجود چین اور روس یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایران ایک ایٹمی قوت بنے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ممالک پریشان کن صورت حال سے دوچار ہیں۔ دونوں چاہتے ہیں کہ ان کے ایران کے ساتھ تعلقات خطرے میں نہ پڑیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتے ہیںکہ امریکہ اور مغرب انہیں بین الا قوامی سطح پر ایک ذمہ دار کردار کے حامل ممالک سمجھیں۔ مختصراً یہ کہ چین اور روس امریکہ کی پوزیشن کو آہستہ آہستہ کمزور کرنے پر کمر بستہ ہیں اور غالب امکان نظر آتاہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔

سوال: آپ امریکی دبائو کو ایران کے اندر کس طرح دیکھتے ہیں؟ یہ ایران کے سماجی اور سیاسی پہلوئوں کو کس طرح متاثر کرے گا؟

ایران نے بیرونی دبائو کا جواب مقامی استعداد اورصلاحیت کار میں اضافے اور بہترتنظیم نو کے ذریعے دیاہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ پابندیاں ایران کے لیے ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے ایران کے لیے ممکن ہو سکا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی منازل طے کر سکے اگرچہ ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے خود انحصاری کی منزل حاصل کر لی ہے ۔ بظاہر جو ٹیکنالوجی وہ استعمال کر رہا ہے اس کا مقابلہ مغربی ممالک کے زیر استعمال جدید ترین ٹیکنالوجی سے نہیں کیا جا سکتا لیکن ایران کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس کے پاس ایک بڑی ہی جدید فوج ہے جو جارحانہ عزائم نہیں رکھتی لیکن اس کی نظریں اپنے ملک کے دفاع پر مرکوز ہیں بالخصوص ساحلی علاقوں کے دفاع پر اور اس نے وقت پڑنے پر اپنی ان صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔


جہاں تک ایران کی اندرونی صورت حال پر ان پابندیوں کے اثرات کا تعلق ہے تویقینا حکومت کو عوام کا دبائو بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے لیکن یہ ایسا دبائو نہیں ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام کی قومی پالیسی کو تبدیل کر سکتا ہو۔ ایٹمی پروگرام عوام میں انتہائی مقبول ہے اور اس مقبولیت کے کئی اسباب ہیں مثلاً خودانحصاری، اسرائیل ،بھارت، اور پاکستان کا ایٹمی ممالک ہونا، ایران کی سا لمیت اور آزادی کو درپیش خطرات وغیرہ۔ حکومت کے دبائوبرداشت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی معاشرہ میں بہت لچک ہے اور اس میں بے حسی اور سکوت کی کیفیت نہیں ہے۔ انقلابِ ایران اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے او ربہت سے لوگوں کو یہ احساس ہے کہ جو خطرات و خدشات انقلاب ِایران کو ابتدائی دور میں ہو ا کرتے تھے اب وہ نہیں رہے اس لیے اب ایرانی عوام کے لیے زیادہ اچھی سودا بازی کی جا سکتی ہے ۔ایران میں حکومت جن پالیسیوں کو وضع کرتی رہی ہے یا جن کے لیے کوشاں رہی ہے وہ کسی نہ کسی طرح تبدیلی یا اصلاح کا جواز بھی بنتی رہی ہیں-مثلاً اسلامی انقلاب کی ابتدا سے ایرانی حکومت نے تعلیم نسواں کی حوصلہ افزائی کی ہے چنانچہ ایرانی خواتین کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ یونیورسٹیوںمیں اس وقت مردوں سے زیادہ خواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں جن کی مختلف پیشوں میں کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جب حکومت نے ان معاملات میں لوگوں کی سوچ کو خود مختارکر ہی دیا ہے تو وہ اس حیرت کا شکار بھی ہو رہے ہیں کہ پھر انقلابیوں نے ان پر جس سخت پردے اور دیگر پابندیوں کو لاگو کیا تھا انہیںجاری رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ تبدیلی کے لیے فضا کے ساز گار ہونے کا مرحلہ یقینا موجود ہے۔


یہی صورت حال انسانی حقوق کے دیگر پہلوئوں کی ہے ایرانی معاشرہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہے جس میں وہ لوگ بھی کتابوں کے خریدار نظر آتے ہیں جو بہت زیادہ امیر اور مالدار نہیں ہیں۔چنانچہ ایسی سوسائٹی جو بہت زیادہ باخبر بھی ہو اور مواصلاتی انقلاب کے ایک ایسے دورمیں زندہ ہو جہاں پوری دنیا کی چیزیں اس تک پہنچ رہی ہوں تو وہ یقینا اس بات پر حیران و پریشان ہوگی کہ انہیں دنیامیں دیگر اقوام کی طرح آزادیٔ اظہار کا موقع میسر کیوں نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ ایک فطری اور جائزجدوجہد ہے اور اسی طرح کی جدو جہدآئندہ بھی جاری رہے گی تاہم ایران کا قدامت پسند طبقہ تبدیلی سے خائف ہے۔ اس خوف کی ایک وجہ ایران کی اپنی تاریخ بھی ہے جس میں شاہ ِایران ایک مثال کے طور پر سامنے ہے۔ وہ باخبر ہیں کہ اگر تبدیلی بہت تیزی سے ہو رہی ہو تو حکومت اپنا اختیار گنوا بیٹھتی ہے اور غیر متوقع نتائج سامنے آجاتے ہیں ۔ اس خوف و خطرے نے حکومت کو اور زیادہ قدامت پسند بنا دیا ہے۔


اس سب کے باوجوداحمدی نژاد سے قبل اصلاحات کاا یک دور گزرا تھا جس میں کوئی انقلابی کیفیت پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک تدریجی عمل تھا ۔ بہر حال ایران کو اپنی راہ خود تلاش کرنا ہے کوئی باہر سے آکر کچھ نہیں کرے گا۔ بہتر انصاف ، دولت کی بہتر تقسیم ، اظہار رائے کی آزادی جیسے انسانی حقوق کے پہلووئو ںپر ایرانیوں کی کامیابی خالصتاً اندرونی جدوجہد پر مبنی ہونی چاہیے اور ایسا لگتا ہے کہ اس جدو جہد کی سمت مثبت ہی ہوگی۔ غالباً آج کا ایران انقلاب کے دور کی نسبت کم راسخ العقیدہ ہے لیکن پھر بھی انقلاب کی روح کے ساتھ ان کا بڑا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران کو محاصرے میںلینے کی دھمکی دی جاتی ہے تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔ ایرانی اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر یکجا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں قومیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وہ اپنی اندرونی جدوجہد کو موقوف کر دیتے ہیں اور اپنے اختلافات کو بھلا دیتے ہیں جیسا کہ اس وقت ہوا جب صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا تھا۔ ایرانیوں کی یہ وہ خصو صیت ہے جس کا ادراک مغرب نہیں کر سکتا۔


اس کے بالکل برعکس مغرب اختلاف رائے رکھنے والے ایرانیوں کو مسلسل رقوم فراہم کر رہا ہے اور ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم کر رہا ہے تاکہ ایرانیوں کو اظہار رائے کی آزادی، حقوق نسواں اور اسی طرح کے دیگر نعروں کے نام پر حکومت کے خلاف کھڑا کیا جا سکے لیکن ایٹمی مسئلے پر ایران میں کوئی ایک بھی ایسا نمایاں گروپ نہیں ہے جو مغرب کو خوش کرنے کے لیے ایٹمی پروگرام کو ترک کر دینا چاہتا ہو۔

سوال: سعودی عرب اور یمن کی سرحدپر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجوہات کیا ہیں؟ عربوں اور ایران کے تعلقات پر اس کشیدگی کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

یمن میں اندرونی تفریقات کی ایک طویل تاریخ ہے جنہوں نے ملک میں نظم و ضبط کو تاراج کیے رکھا ہے۔ اس کی سرحد پر ایسے غیر مقبوضہ اور غیر آباد علاقے ہیں جنہیں القاعدہ یا اس طرح کے دیگر عوامل اپنے زیر استعمال لا سکتے ہیں لیکن سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ القاعدہ سعودی عرب کو اپنے دبائو میں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بڑا ثابت قدم رہا ہے۔


تاہم جو بات معاملات کو پیچیدہ بنا رہی ہے وہ مغرب کا یہ رویہ ہے کہ وہ بعض اوقات اس خطے میں اپنے دوستوںکو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہا ہے کہ کہیں سعودی عرب ، پاکستان یا کوئی بھی اور ریاست مغرب کے کنٹرول سے نکل نہ جائے اور اپنے فیصلے خود مختاری سے نہ کرنے لگے ۔ کیونکہ یمن ان سرگرمیوں کے لحاظ سے گرما گرم علاقہ ہے اس لیے سعودی حکومت اس لحاظ سے درست ہے کہ وہ یمن میں ان مسلح گروہوں کے وجود کی اجازت نہیں دے سکتی مبادا وہ قابو سے باہر ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر بھر پور ردعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس مسئلے کو ان پہلوئوں سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے لیکن مغربی میڈیا اس معاملے میںفرقہ پرستی کے عنصر کو گھسیٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔


ایران خارجہ تعلقات اور سفارت کاری میںمحتاط رویہ رکھتا ہے مثلاً جب ایران کا سعودی عرب کے ساتھ سخت جملوں کا تبادلہ ہو ا تو اس نے کوشش کی کہ یہ صرف دو حکومتوں کے درمیان رہے۔ سعودی عرب نے یمن کے معاملات میں ایران کی مداخلت کے حوالے سے شبہ کا اظہار کیا تھا۔ ایران نے اس کا جواب دیا- تاہم یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ایران نے کبھی بھی القاعدہ کی ایک تحریک کے طور پر حمایت نہیں کی ہے لیکن اگر معاملات کسی اور نہج پر پہنچ جائیں تو وہ اپنے معاملات میں القاعدہ کے فراریوںکو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اسی طرح افغانستان کے معاملے میں ایران نے طالبان کی ہمیشہ مخالفت کی ہے کیونکہ اس نے انہیں ہمیشہ سنی فکر سے منحرف اور اسلام کی تاویل میں انتہائی تنگ نظر گردانا ہے جو کہ ایران کی اسلام سے متعلق سوچ کے دشمن ہیں۔


امریکہ نے سیاست کاری کے سارے ہنر عربوں کی رائے کو ایران کے خلاف کر دینے پر آزما رکھے ہیں وہ عربوں کو مسلسل اس خوف کا شکار کیے ہوئے ہے کہ ایران ایٹمی قوت بن سکتا ہے۔ مغربی پروپیگنڈے کا ایک اور مستقل موضوع یہ ہے کہ وہ عربوں اور ایرانیوں کے درمیان افتراق پیدا کرنے کے لیے انہیں یہ باور کرواتا رہتا ہے کہ ایران خلیج اور مشرق وسطیٰ میں قائدانہ کردار حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کی شکل میں موجود ہیں جو کہ سعودی عرب کے تیل سے مالامال علاقے کے باسی ہیں۔ مغرب سعودی عرب کو اس خدشے میں مبتلا کیے رکھتا ہے کہ اگر سعودی عرب کے تیل پید ا کرنے والے اس مشرقی حصے میں کوئی شیعہ انقلاب آگیا یا ایرانی اس خطے میں داخل ہوگئے تو سعودی عرب کے استحکام خصوصاً اس کے تیل کے ذخائر کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔


اسی طرح کا خوف علاقائی میڈیا کی نسبت مغربی میڈیا نے ایک پالیسی کے تحت پیدا کر رکھا ہے جو کہ برسہا برس سے اس شیعہ سنی عنصر کے ذریعے رخنہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکہ نے رخنہ پیدا کرنے و الے اس عنصر کو بہت پہلے سے نوٹ کر رکھا تھا چنانچہ اس نے عراق میں اسے بڑے برے انداز میں استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں اندوہناک اموات واقع ہوئیں حتیٰ کے مقدس بارگاہوں پر حملوں کے واقعات رونما ہوئے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جنہیں ایران کے مخالفین اس علاقے میں بڑی کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ بہرحال اس علاقے کے لوگوں کے لیے شیعہ سنی کسی بھی لحاظ سے رخنہ ڈال دینے والا عنصر نہیں ہے۔ یہ لوگ اس کی موجود گی میں انتہائی اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ ہمسایوں کے ساتھ معاملات کے نقطہ نظر سے انقلابِ ایران کے ابتدائی دور سے ہی کشیدگی کی موجودگی منطقی طور پر بھی درست نظر آتی ہے پھر بھی اس کی کوئی نمایاں شہادت موجود نہیں ہے کہ ایران کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔


عربوں اور ایرانیوں کے درمیان موجود بد اعتمادی سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا پھر بھی عرب ممالک اور ایران اس حدتک ضروردانش کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اس بچھائے ہوئے جال میں آسانی سے نہیں پھنس رہے۔ شاید ایران کی طرف سے عرب دنیا کو بہت واضح پیغام ہی یہ ہے کہ اس کے کوئی قائدانہ ارادے نہیں ہیں اور وہ ہمسایوں کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے جس طرح کے متحدہ عرب امارات اور دوبئی کے ساتھ ہیں -جن کی نوعیت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات ایران کی تجارت کے بڑے حصے کو کنٹرول کر رہا ہے۔


انقلاب کے رہنما امام آیت اللہ خمینی ہمیشہ یہ بات دہراتے رہے کہ انقلابِ ایران کوئی فرقہ وارانہ انقلاب نہیں بلکہ یہ خالصتاً مسلم یا اسلامی انقلاب تھا۔ تاہم ایران میں ایسی دیگر آوازیں بھی شامل رہی ہیں جو انقلاب ِایران کو اول و آخر شیعہ انقلاب ہی گردانتے ہیں۔ یہ تنائو تو وہاں موجود ہے لیکن یہ ایسا تنائو نہیں ہے جس سے کسی اور ریاست کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اس اندرونی بحث و مباحثہ سے قطع نظر ایران کے بحیثیت ریاست فیصلے ہمیشہ عملی اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ ایران حزب اللہ تعلقات محض شیعہ تعلق کی وجہ سے نہیں ہیں۔ یہ تعلقات در حقیقت اس ہولناک نا انصافی پر مبنی رویے کے خلاف ہیں جو فلسطینیوں او ر لبنان کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اور پچھلی چھ دہائیوں سے ان کے علاقوں کو بارہا تاراج کیا گیا ہے۔ حماس سنی اکثریت کی تنظیم ہے لیکن اس کے ایران کے ساتھ انتہائی شاندار تعلقات ہیں۔


حقیقت پر مبنی صورت حال یہ ہے کہ امریکہ، ایران/ شیعہ کے خلاف عرب / سنی محاذ کھڑا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ کھینچا تانی کی جنگ ہے اور اہم بات یہ ہے کہ صدر اوباما ایران کے ساتھ معاملات نمٹانے کے لیے پرامن اور معقول ڈائیلاگ پر استقامت دکھاتے ہیں یا نہیں۔
 

موجو

لائبریرین
مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیاں اور اس کے مضمرات
اہم عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کے اثرات بالعموم اسی خطے یا ریاست تک محدود نہیں رہتے جس کے حوالے سے پالیسی تشکیل دی گئی ہو۔ بعض اوقات تو یہ اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں پر یہ بات کچھ زیادہ ہی صادق آتی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پالیسیاں تاریخ، مقامی سیاسی حقائق اور عمل اور ردّعمل کے تزویراتی خمیازے ہی نہیں، دوستوں اور اتحادیوں بلکہ خود بڑی طاقتوں کے اپنے قومی مفادات کو بھی پیش نظر رکھے بغیر وضع کر لی جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان پالیسیوں کے مضمرات جاننے کے لیے ان عوامل کی اہمیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ متعدد مواقع ایسے آئے جب کئی واقعات وعوامل اس طرح سے رونما ہوئے جنہوںنے بین الاقوامی سیاست کے حقائق ومناہج کو اس حد تک تبدیل کردیا کہ بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کو لازماً تبدیل کیا جانا چاہیے تھا۔لیکن پالیسیوں کو تشکیل دیے جانے اور ان کے اثرات کا جائزہ لینے کا عمل اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا۔



ماضی قریب میں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے مذکورہ بالا اُمور پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کے اُتار چڑھائو میں مشرقِ وسطیٰ کے حالات کا بہت اہم کردار ہے۔ دنیا کے اہم ترین جنگی، اقتصادی اور سیاسی اہمیت کے حامل بحر عرب، خلیج فارس، خلیج عمان، بحر احمر اور بحر روم اسی خطے میں پائے جاتے ہیں۔ توانائی کے دنیا کے عظیم ترین ذخائرکی خطے میں موجودگی نے بھی اسے اہم علاقہ بنادیا ہے۔ علاوہ ازیں مکہ، مدینہ اور یروشلم کے تین مقدس شہروں کے علاوہ (ایران اور عراق میں موجود) شیعہ مسلمانوں کے کئی مقدس مقامات واقع ہونے کی وجہ سے بھی یہ خطہ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ان ہی اسباب کی بناء پر مشرق وسطیٰ پر اثر انداز ہونے والی بڑی طاقتوں کی پالیسیاں باقی مسلم دنیا پر بھی اثر پذیر ہوتی ہیں اور اسی طرح کسی بھی مسلم ملک یا آبادی کے حوالے سے ان طاقتوں کے فیصلے مشرق وسطیٰ کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس خطے کی اہمیت، یہاں سے متعلق پالیسیاں اور ان کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان تمام باہم گڈ مڈ عوامل کو بیک وقت سامنے رکھنا ہوگا۔

جنگ عظیم اوّل کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے اور خطے میں یہودیوں کو ایک ریاست مہیا کرنے کے برطانوی وعدے نے مشرقِ وسطیٰ پر دور رَس اثرات مرتب کیے۱۔اس وقت کی بڑی طاقتوں،برطانیہ اور فرانس،نے اپنے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ میں عرب سرزمین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر وہاں اپنی مرضی کے حکمران مسلط کرکے عربوں کے مابین اور عربوں اور یہودیوں کے درمیان مستقل تنازعے کے بیج بودیے۔جنگ عظیم دوم کے بعد اسرائیل کے قیام نے ان تنازعات کو مستقل بنیادوں پر فروغ دیا۔ مغربی طاقتوں کو اس خطے میں ایک دیرپا اور قابل اعتماد دوست کی ضرورت ہے، اس لیے وہ مستقلاً اسرائیل کی پشت پناہی کرتی ہیںاور اسی مقصد کے حصول کی غرض سے وہ تنازعات کو ہوا دینے یا انہیں دبانے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کو اپنی سلامتی اور استحکام کے لیے کم از کم کسی ایک بڑی طاقت کی سرپرستی کی ضرورت رہتی ہے کیونکہ اسے اپنے کمزور لیکن بڑی تعداد میں موجود دشمنوں سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ سے جہاں یہ ثابت ہوا کہ اسرائیل کی بقا اس کے سرپرستوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، وہیں یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ جب تک اسرائیل کو مغربی حمایت حاصل ہے عرب اس کو شکست نہیں دے سکتے۔

سیاستِ سرد جنگ

امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی رسہ کشی نے بھی مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اثرات مرتب کیے۔ ۱۹۵۶ء میں نہر سوئز کا تنازعہ بھی اسی وجہ سے کھڑا ہوا۔امریکہ خطے میں روسی اثرات روکنا چاہتا تھا اورخطے میں تیل کے وسیع ذخائر بھی دریافت ہورہے تھے۔چنانچہ امریکہ کے لیے اس خطے کی اہمیت دو چندتھی۔

مصر اور عراق کے روس کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے امریکہ نے خطے کے تین غیر عرب ممالک: اسرائیل، ایران اور ترکی کے ساتھ قربت پیدا کی اور علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا شروع کی۔ ان ممالک میں بھی امریکہ کو دیگر مغربی ممالک کی طرح سب سے زیادہ قربت و اعتماد اسرائیل کے ساتھ تھا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل کی فتح نے امریکہ کو اس کے مزید قریب کردیا۔باقاعدہ فوجی اوراسٹریٹیجک حصہ دار کی حیثیت سے امریکہ نے اسرائیل کو انتہائی جدید اوراعلیٰ قسم کے ہتھیاروںاورغیر معمولی فنڈز مہیاکرکے اُسے علاقے کی ناقابل تسخیرقوت بنادیا۔

۱۹۷۱ء میں برطانیہ نے اپنی فوجیں خلیج فارس سے واپس بلالیں تو امریکہ علاقے کے تحفظ کا ضامن بن کر آگیا۔اس حوالے سے واشنگٹن نے زیادہ کام ایران اور سعودی عرب سے لیا۔ یہ منصوبہ دو رُکنی حکمتِ عملی (two-pillar strategy) کے نام سے معروف ہے۔اس میں زیادہ مضبوط اور قابل بھروسہ دوست ایران تھا۔اس دو رُکنی حکمت عملی میں ایک دقّت تھی اور وہ یہ کہ خلیج کی ان دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے اور امریکہ کوان دونوں کے ساتھ تعاون کے لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا تھا۔ دوسرے یہ کہ سعودی عرب خلیجی ریاست ہونے کے ساتھ عرب لیگ کا ممبر اور اسرائیل کا دشمن تھا۔ لیکن یہ مسئلہ امریکہ کے لیے زیادہ تشویش کا باعث نہ تھاکیونکہ وہ خلیج کی صورتحال اور باقی مشرق وسطیٰ کے معاملات کو دو مختلف اُمور کے طور پر دیکھتا تھا۔ لیکن ۱۹۷۳ء کی جنگ میں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا اور پوری مغربی دنیا کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی جب خلیجی ریاستوں نے امریکہ سمیت اسرائیل کے تمام طرف داروں کو تیل کی برآمد پر پابندی لگادی۔اس کے بعد ہی سے امریکہ نے ایران اور اسرائیل کو قریب لانا شروع کردیا اور ان دو ریاستوں پر اس کا مزید اعتماد قائم ہوا۔

یہ حکمتِ عملی بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب ۱۹۷۹ء میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوگیا۔ اب امریکہ کا انتہائی معتمد اتحادی اس کا یکسر دشمن بن چکا تھا۔ اس کے فوراً ہی بعد سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا اور تھوڑے ہی عرصے بعد عراق ایران جنگ چھڑ گئی۔ تجزیہ نگاروں نے امریکی انتظامیہ کو خلیج سے متعلق پالیسیوں پر از سرِ نو غور کرنے پر رضامند کرلیا۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کے ذریعے سے عراق کو ایران پر حملہ کرنے کے لیے اُکسایا۔ کارٹر انتظامیہ نے ’’تنازعہ میں انتہائی غیر جانب دار‘‘ رہنے کی پالیسی کا اعلان کیا لیکن پھر عراق کو براہِ راست اور ایران کو اسرائیل کے توسط سے ہتھیار پہنچانے شروع کردیے تاکہ جنگ طول پکڑے اور دونوں ملک کمزور ہوں۔ ۱۹۸۸ء تک امریکہ اس قابل ہوگیا کہ خطے میں پہلے ہی سے موجود بحری افواج کو مزید مضبوط بنائے اور اپنے مفادات کو محفو ظ بنالے۔

کوئی اخلاقی ضابطہ، قانون یا بین الاقوامی سیاست کا کوئی اصول ایران اور عراق دونوں کو اسلحہ مہیا کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن امریکہ کو کسی اصول، ضابطہ، اخلاق یا انسانیت کی بھلائی سے نہیں،اپنے مفادات سے غرض تھی۔
بعد از سرد جنگ پالیسیاں

جس وقت ایران عراق جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، اسی عرصہ میں افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے ساتھ سرد جنگ بھی ختم ہورہی تھی۔اب امریکہ واحد سپر طاقت بن کر سامنے آیا۔ وہ اپنے دشمنوں اور دوستوں سب پر واضح اقتصادی، سیاسی اور فوجی برتری کا حامل تھا۔ اہم گزرگاہیں اس کی افواج کے قبضے میں تھیں۔کویت پر صدام کے حملہ (۹۱-۱۹۹۰ئ)نے امریکہ کو یہ موقع دیا کہ وہ کویت کو آزادی دلانے کے بہانے اپنی اتحادی طاقتوں کے ساتھ تیل سے مالامال خلیج میں آبیٹھا۔

خلیج میں امریکی توسیع پسندی کی مزاحمت کرنے کی ہمت کسی ریاست میں نہ تھی۔ لیکن متعدد غیرریاستی عناصر نے مزاحمت شروع کردی، جنہیں پہلے مغربی ذرائع ابلاغ نے ’’مجاہدین‘‘ اور پھر ’’دہشت گرد‘‘ کا نام دیا۔ یہ وہی گروہ تھے جو امریکہ کی فنی و حربی معاونت سے سوویت یونین کے خلاف برسر پیکار رہے تھے۔ اس وقت امریکہ نے ان گروہوں کے نظریاتی اور مذہبی جذبات کو بھی سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔ لیکن سرد جنگ کے بعد سوویت یونین کے انتشار اور صدام کی شکست کو امریکہ نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ مختصر افواج کی حامل خلیجی ریاستیں اب اپنے تحفظ و بقاء کے لیے امریکہ کی رہین منت ہوکررہ گئی ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہوئی ہے کہ امریکہ نے خطے میں اپنی افواج کو اس طرح مضبوط و منظم کرلیا ہے کہ اب نہ صرف وہ تیل کی سپلائی کو اپنے قبضے میں رکھنے کے قابل ہوچکا ہے،بلکہ خطے کے اندر سے ابھرنے والے یا بیرونی طور پر در آنے والے خطرات سے نمٹنا بھی اس کے لیے آسان ہوگیا ہے۔

دونوں خلیجی جنگوں کے خاتمے اور سرد جنگ کے اختتام سے امریکہ کو وہ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت حاصل ہوگئی کہ وہ ایران، عراق اور شام جیسی امریکہ مخالف قوتوں کو لگام دینے اور اپنے باج گزار حکمرانوں کی مدد سے ۱۹۹۰ء کی دہائی میں عرب اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے امن مذاکرات شروع کرانے کے قابل بھی ہوگیا۔ ۱۹۹۳ء میں معاہدہ اوسلو ہوا لیکن اسے نہ تو حماس اور دوسرے فلسطینی گروہوں نے قبول کیا اور نہ ہی اسرائیلی آباد کاروں نے۔ اس لیے اس پر جزوی عمل ہی ہوسکا۔ اس معاہدہ پر عملدرآمد اور کئی مزید اختلافی اُمور کو طے کرنے کے لیے متعدد اجلاس اور کوششیں ہوئیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔ نتیجتاً مسلح گروپ متحرک ہوئے اور ۲۰۰۰ء میں اسرائیل کے خلاف دوسرا انتفاضہ ہوا۔

۱۹۹۰ء کی دہائی میں امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی کے مرکزی نکات یہ تھے: اقوامِ متحدہ کی پابندیوں اور میزائل حملوں سے عراق کو کمزور کرنا، ایران کے ایٹمی پروگرام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ہدف تنقید بناکر اسے عالمی برادری میں تنہاکرنا اور عرب ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں اُلجھانا۔
بعد از 11ستمبر پالیسیاں

’’دی پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سینچری‘‘ (PNAC) نے ستمبر ۲۰۰۰ء میں ۹۰ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بعنوان ’’امریکی دفاع کی تعمیر نو-- نئی صدی کے لیے حکمتِ عملیاں، قوتیں اور وسائل‘‘ شائع کی۔ اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ امریکی سلامتی اور وقار کو مستحکم بنانے کے لیے عراق پر حملہ ناگزیر ہے۲۔سانحۂ ۱۱ ستمبر ان تجاویز کو رو بہ عمل لانے کے لیے نہایت موزوں تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ PNAC کے اکثر اراکین بش انتظامیہ کے مؤثر افراد میں سے تھے۔

بش کی مشیر برائے قومی سلامتی کونڈا لیزا رائس اور سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ اسی نہج پر منصوبہ سازی کررہے تھے کہ سانحۂ ۱۱ ستمبر سے صدام حسین کا کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود عراق پر حملہ کردینا چاہیے۔کولن پاول کا مؤقف تھا کہ افغانستان پر حملہ اور قبضہ عراق کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوگا۔یہ سب حقائق یہ ظاہر کرتے ہیںکہ بش انتظامیہ کسی نہ کسی بہانے عراق پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی پہلے ہی سے کرچکی تھی۔

عراق پر حملے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اسرائیل پر سے دو دشمن ریاستوں، عراقی خطرات کو ختم کرنا اور شام پر دباؤ میں اضافہ کرنا تھا، تاکہ علاقائی توازن میں امریکہ اور اسرائیل کا پلڑا مزید بھاری ہوسکے۔ اس کا دوسرا مقصد فلسطینیوں کے حوصلے پست کرنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی پیش کردہ شرائط قبول کرلیں۔ تیسرے یہ کہ بش انتظامیہ میں گہرا عمل دخل رکھنے والی امریکی آئل کمپنیاں، تعمیراتی ادارے اور دفاعی صنعت کے مفادات کو تحفظ دیا جاسکے۔ ان مقاصد کے حصول کی خاطر امریکہ نے تمام مخالفتوں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالم گیر احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے عراق پر یک طرفہ حملہ کردیا۔

عراق اور افغانستان پر مہم جوئی کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے ایران کی طرف توجہ کی، کیونکہ ان کے خیال میں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف اختیار کرنے کی بناء پر ایران دنیا بھر کے مسلمانوں، بالخصوص عراق اور افغانستان کی شیعہ آبادی میں خاصا مقبول ہوگیا تھا اور خلیج میں ایک مضبوط حریف ثابت ہوسکتا تھا۔ لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی خاطر ایران کو ’’برائیوں کا مرکز‘‘، ’’دہشت گردوں کا سرپرست‘‘، ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں‘‘،’’افغانستان کے مغربی حصے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا مجرم ‘‘اور ’’القاعدہ کی پناہ گاہ‘‘ وغیرہ الزامات لگائے جانے لگے اور یہاں بھی عراق جیسی حکمت عملی اختیار کی گئی تاکہ ایران پر حملے کے جواز فراہم ہوسکیں۔

تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ عراق اور افغانستان میں صورتحال مکمل قابو میں نہیں ہے اور یہاں ایران کی مدد کی ضرورت ہے، امریکہ نے ایران کو تنہا کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی۔ یہ خیال بھی تھا کہ اس طرح اسرائیل اور ایران کے درمیان پائی جانے والی تناؤ کی کیفیت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں مختلف الخیال ریاستوں کی موجودگی کو برقرار رکھنے کے روایتی امریکی حربے کو استعمال کیاگیا۔

مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی کے تحت اس کے دیرینہ اتحادی،اسرائیل، کو ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بعد زیادہ چھوٹ دی گئی تاکہ وہ اپنی سرحدوں پر موجود ’’دہشت گردوں‘‘ سے بخوبی نمٹ سکے۔ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی سے اپنی فوجوں کی غیر مشروط واپسی اور فلسطینی اتھارٹی کو محدود خودمختاری دے کر اسرائیل نے دو دھاری حکمت عملی اختیار کی۔ ایک طرف اس نے اپنے دشمن غیرریاستی عناصر کو قتل کرنا شروع کیا اور دوسری جانب فلسطینی گروہ کی حمایت کرکے ان دونوں گروہوں کے درمیان خلیج کو وسیع کیا، تاکہ فلسطینی مزاحمت کو کمزور کیا جاسکے اور فلسطینی اسرائیل کے پیش کردہ امن معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔اسرائیل کے ان سارے منصوبوں میں اسے امریکہ کی غیر مشروط اور مسلسل حمایت حاصل رہی اور یہ کہا گیا کہ خودکش حملہ آوروں سے اسرائیل کو سانحۂ ۱۱ ستمبر سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا ہے، اس لیے امریکہ اور اسرائیل اپنے تحفظ کی خاطر دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے مشترکہ کوششیں کررہے ہیں۔

فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی کھلم کھلا امریکی حمایت نے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر اشتعال پیدا کیا، جس سے مزاحمت اور متشدد انہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا اورعوامی سطح پر اس کے ردعمل کی بناء پرفلسطین اور لبنان میں اسلامی قوتیں جمہوری عمل کے ذریعے سے کرسیٔ اقتدار تک پہنچ گئیں۔
 

موجو

لائبریرین
مذکورہ بالا امریکی پالیسیوں، ان کے نتائج اور اس خطے ہی نہیں دنیا بھر بالخصوص یورپ میں اس کے رد عمل کو دیکھتے ہوئے، سیاسی و معاشرتی اضطراب کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔ ان اقدامات میں معاشی، تعلیمی اور سیاسی اصلاحات، خواتین کو بااختیار بنانا،جمہوریت اور بہتر انتظام (good governance) کے اقدامات کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں امن کا لائحۂ عمل(Road Map for Peace) تیار کرنا شامل تھا۔ گوکہ اس نقشۂ کار پر عمل نہ ہوسکا۔ کیونکہ یہ سارے نعرے خوبصورت لیکن کھوکھلے تھے۔ لوگ دیکھ رہے تھے کہ شفاف انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی فلسطین کی حماس اور لبنان کی حزب اللہ کو کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ جبکہ مشرق وسطیٰ اور دیگر علاقوں کے آمرانہ حکومتیں امریکہ کی قریبی حلیف بنی ہوئی ہیں۔

لبنانی حزب اور فلسطینی حماس کے اسرائیل کے ساتھ مسلسل تصادم کی صورت حال میں ۲۰۰۲ء میں عرب سربراہ کانفرنس نے قیام امن کے لیے کئی تجاویز پیش کیں اور پھر ۲۰۰۷ء کے اجلاس میں ان تجاویز کا اعادہ کیا۔ یہ تجاویز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر ۱۹۴ کی روح کے مطابق تھیں اور سب نے انہیں منصفانہ اور معقول قرار دیا لیکن اقوامِ متحدہ سمیت کسی نے ان پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

امریکی پالیسیوں سے یوں لگتا ہے کہ ان کا اصل محور اسرائیل کا دفاع ہے، خواہ اس کی وجہ سے خود امریکہ میں انتہا پسندانہ جذبات پروان چڑھیں، آمرانہ حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے یا غیر ریاستی عناصر کو مستحکم کیا جائے۔
اوباما انتظامیہ کی پالیسیوں کے رجحانات

جارج بش کے بارک حسین اوباما کو اقتدار منتقل کرنے سے پہلے امریکہ نے عراق کے ساتھ دو دفاعی معاہدے کیے: ایک افواج کی حیثیت کے تعین سے متعلق اوردوسرا تزویراتی دائرۂ کار (strategic framework) کے بارے میں۔ ان معاہدوں کی بدولت امریکہ کو عراق کی سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور سفارتی پالیسیوں پر طویل عرصہ تک اثر انداز ہونے کی اجازت مل گئی۔ اور اب یہ ممکن نہ رہا کہ عراق پر اسرائیل مخالف یا امریکہ مخالف کوئی قوت تسلط حاصل کرسکے، یا اسرائیل کے تحفظ اور امریکی مفاد کو کوئی نقصان پہنچاسکے۔ اس پالیسی کو امریکی صدر اوباما نے بھی کیمپ لیجیون،نارتھ کیرولینا میں تقریر کے دوران میںعراق سے امریکی افواج کی واپسی کا ذکر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں بیان کیا:

’’ہم ذمہ داری کے ساتھ اپنی افواج کو واپس بلائیں گے۔ ہم اپنی حکمتِ عملی کے دوسرے حصے کے بارے میں بھی چوکنا رہیں گے۔( ایک زیادہ پُر امن اور مستحکم عراق کے حوالے سے دیرپا سفارت کاری۔) عراق آئینی اداروں کا حامل ایک خودمختار ملک ہے۔ امریکہ ان کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ اسے لینا چاہیے۔ تاہم ہماری ایک مضبوط سیاسی، سفارتی اور تمدنی کوشش سے ترقی، پائیدار امن اور سلامتی میں مدد ملے گی۔‘‘

یہ بات سمجھ لینے کے بعد کہ عراق میں پُر تشدد واقعات زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں گے اور کئی برسوں تک عراق کی سیاسی صورتِ حال ابتر رہے گی، نظر یہ آتا ہے کہ امریکہ کی توجہ مزاحم یا سرد مہری کے حامل ممالک جیسے ایران اور شام پر زیادہ ہوجائے گی۔ امریکی صدر نے واضح الفاظ میں کہا:’’امریکہ خطے کے تمام ممالک، بشمول ایران اور شام، سے اصولی اور پائیدار تعلقات قائم کرے گا۔‘‘

یہ بات صدر اوباما اپنی متعدد تقاریر میں تواتر کے ساتھ دہراتے رہے ہیں اور بالخصوص قاہرہ یونیورسٹی میں کی جانے والی تقریر میں اسے شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا۔ تاہم اوباما انتظامیہ کی پالیسی کے مقاصد ان کے پیش رئووں سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔ امریکہ میں مضبوط اسرائیلی لابی کو دیکھتے ہوئے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل کی ہر طرح کی امداد جاری رہے گی۔ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے رہیں گے۔ اوباما انتظامیہ بھی عراق کی جنگ میں کامیابیوں کے ثمرات سمیٹتی رہے گی، کیونکہ اس کی نظریں ’’مشرقِ وسطیٰ میں نئی امریکی قیادت اور اس کے عمل دخل‘‘ پر مرکوز ہیں۔

مختصریہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے بنیادی اور ثانوی مقاصد یہ ہیں کہ توانائی کے ذخائر اور تیل کی فراہمی پر تسلط، خطے کے اہم دفاعی اور تجارتی مقامات پر گرفت اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اقتصادی و سیاسی مفادات کو درپیش ممکنہ خطرات کا تدارک۔ اس وجہ سے یہ باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ خطے میں تادیر موجود رہے گا، اسرائیل اور دوسری مغرب نواز حکومتوں کی امداد جاری رکھے گا اور خطے کے اہم عناصر کو آپس میں منقسم رکھے گا۔
مضمرات

مشرقِ وسطیٰ کا پوراخطہ امریکی پالیسیوں سے بری طرح متأثر ہوا ہے اورغالب گمان یہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ عمل اس طرح جاری رہے گا۔ عالمگیریت کی موجودہ رفتار اور پھیلاؤ کے پیش نظر یہ امکان بھی موجود ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی رویہ باقی دنیا کو بھی متأثر کرے گا اور خود امریکہ کے لیے کئی ایسے مسائل جنم لیں گے جن سے جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا۔ قارئین کی سہولت کے لیے ان اثرات کو تین مختلف پیرایوں میں بیان کیاجارہا ہے: مشرقِ وسطیٰ پر اثرات، امریکہ پر اثرات اور باقی دنیا پر اثرات۔
مشرقِ وسطیٰ پر اثرات

مشرقِ وسطیٰ ایک غیر مستحکم اور غیر محفوظ خطہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہر ریاست کے لیے تحفظ سب سے اہم مسئلہ ہے اور تمام ریاستیں اپنی فوجی صلاحیت میں اضافے کے لیے خطیر رقم خرچ کررہی ہیں۔

اس سلگتی ہوئی صورتِ حال میں جبکہ اسرائیل کو بہترین ہتھیاروں کی تیاری اور مستحکم عسکری وسائل کے حصول میں مغربی ممالک کا مالی ہی نہیں فوجی تعاون بھی حاصل ہے، خطے کی دوسری ریاستیں اپنے مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجوداپنے تحفظ کے لیے بیرونی ضمانتوں کی محتاج ہیں۔ یہ ریاستیں دفاعی صنعتوں کو ترقی دے کر اعلیٰ معیار کے ہتھیار خود تیار کرنے اور بیرونی سہاروں سے نجات حاصل کرنے کے بجائے باہر سے تیار شدہ اسلحہ اور ساز و سامان خریدنے پر انحصار کررہی ہیں اور ان کے معیار کو بہتر بنانے یا مرمت کرنے کا کوئی انتظام بھی ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے میں بھی ان کے برآمد کنندگان کی مدد کے محتاج رہتے ہیں۔ اس سے ان ممالک کے بیرونی طاقتوں پر انحصار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

خلیجی ریاستوں کے دفاعی ڈھانچے کی سست رفتاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کے لحاظ سے پیش بندی کی پالیسی پر نہیں بلکہ دفاعِ محض کے نظریے پر یقین رکھتی ہیں۔ اسی لیے ان کے پاس اتنی فوجی طاقت نہیں کہ وہ کسی بڑے خطرے سے نمٹ سکیں، خواہ یہ خطرہ خطے ہی میں سے نمودار ہو یا اس کے باہر سے در آئے۔

اس حوالے سے امریکہ تقریباً وہی کردار ادا کررہا ہے جو ۱۹۷۰ء تک برطانیہ کا تھا۔اس بناء پر غالباً ایران کے استثنیٰ کے ساتھ، فوجی اعتبار سے خلیج کی تمام ریاستیں اسرائیل کی نسبت بہت کمزور ہیں۔ اس خطے کو عسکری لحاظ سے دنیا کا متحرک ترین خطہ سمجھا جاتا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک فوجی سازو سامان، فنی مہارت اور جدید اسلحہ مغرب بالخصوص امریکہ سے خریدنے پر مجبور ہیں۔
بیرونی مداخلت اور عوامی اضطراب

مشرقِ وسطیٰ کی اکثر ریاستیں اپنے معاملات و مسائل کے حل کے سلسلے میں پیش بندی اور اقدام کی صلاحیت سے عاری ہیں کیونکہ ان کے رہنماؤں کو اصل فکر یہ رہتی ہے کہ ان کی پشت پناہ طاقت --امریکہ -- ان کے اقدامات کی منظوری دیتی ہے یا نہیں؟ یہ ریاستیں ان ممالک سے تعلقات استوار کرنابھی چاہیںجو امریکہ کے پسندیدہ ممالک نہیں تو اس خوف کی وجہ سے کہ امریکہ اس سے ناراض ہوگا، یہ ریاستیں خاموشی ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔ اس لیے یہ ریاستیں دیگر ممالک مثلاً چین اور روس سے تحقیق، فنی مہارت، جدید تعلیم، تجارت اور اقتصادی ترقی وغیرہ میں معاونت حاصل نہیں کرسکتیں، باوجوداس کے کہ ایسے ممالک ان کی مدد کرنے پرآمادہ ہیں۔

اسی طرح مقامی سطح پر امریکہ کی کھلم کھلا مداخلت نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں بلکہ یہاں کے عوام کو بھی اپنے اکثر سیاسی مسائل کے سلسلے میں اپنی صوابدید کے مطابق حل تلاش کرنے سے محروم کردیا ہے۔ مثلاً صدام حسین کا کویت پر حملہ، امریکہ کی عراق پر چڑھائی، ایران کے مبینہ جوہری منصوبوں پر دھمکیاں، اسرائیل کی لبنان، غزہ اورمغربی کنارے کے خلاف جارحیت اور شدت پسندی میں اضافے مشرقِ وسطیٰ کے ایسے مسائل ہیں جن کو خطے کے مقامی عوامل کے تحت حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ کی اکثر حکومتیں اپنی خواہش اور ترجیحات کے مطابق ان مسائل کو حل نہیں کرسکتیں اور وہ مجبور ہیں کہ ان مسائل کے حل میں بھی بیرونی قوتوں کی مداخلت کو خاموشی سے برداشت کریں۔ حتیٰ کہ خطے میں جمہوری طور پر منتخب حکومتیں مثلاً فلسطین، لبنان، مصر اور الجزائر کو ختم کرکے ان ممالک کو جمہوریت سے محروم کردیا گیا اور یہ کام بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں ہی نے کیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اپنے ممالک میں غیر مقبول حکمرانوں کے خلاف سیاسی اور مسلح جدوجہد کے علاوہ دیگر امکانات پر سوچنا شروع کردیا۔

ان حالات نے خطے کے عوام میں اضطراب، مایوسی، غصہ، جارحانہ رویہ اور شدت پسندی کو فروغ دیاہے۔ خطے کے اکثر رہنما امریکی فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کرتے ہیں جبکہ عوام چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں اپنے قومی مفاد کے پیش نظر فیصلے کریں۔ عوام اور حکمرانوں کے درمیان اس تفریق نے اُلجھنوں، احساسِ محرومی، مایوسی اور بے حسی میں اضافہ کیا ہے اور یہ چیزیں بالآخر جارحیت اور شدت پسندی کی طرف لے جارہی ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کو مسلمان ’’اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ‘‘ تصور کرتے ہیں، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کسی اور گروہ کو ہدف نہیں بنایا گیا ہے اور نہ کسی اور کو مقدمہ چلائے بغیر قید رکھا جاتا ہے اورابوغریب اور گوانتانامو بے جیسے اذیت خانوں میں تشدد کا نشانہ بننے والے بھی صرف مسلمان ہی ہیں۔ان احساسات کو اس بات سے مزید تقویت ملتی ہے کہ فلسطینیوں اور لبنانیوں کے خلاف اسرائیل کی ہر فوجی جارحیت کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہتی ہے۔
انتشار، بدگمانی اور فرقہ وارانہ اختلافات

’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی روایتی پالیسی مشرقِ وسطیٰ کے لیے بھی کوئی نئی بات نہیں۔ مختلف گروہوں میں تفرقہ پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینا استعماری طاقتوں کا شروع سے وطیرہ رہا ہے اور اس خطے میں بھی اس کے ذریعہ سے لوگوں کو منقسم رکھنے اور حکمرانوں کو اس خوف میں مبتلا رکھنے کا کام کیا جاتا رہا ہے کہ علاقائی گروہ اور ریاستیں ان کے لیے خطرہ ہیں۔ خوف اور بے اعتمادی کی ایسی فضا بنادینے سے استعمار کو اپنی نو آبادیات میں قدم جمانے اور وہاں کے عوام کو قابو میں رکھنے میں بہت سہولت رہتی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کو منتشر رکھنے کے لیے اب یہی حکمتِ عملی امریکہ نے اختیار کی ہے۳۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے حل اور عرب اسرائیل تنازعے کو طے کرانے کی کوئی قابل ذکر کوششیں نہیں ہورہیں۔ ایران اور عرب ریاستوں کے معاملے میں بھی اوّل الذکر کو خطے کے تحفظ کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے اور اس پرجوہری پروگرام ترک کرنے کے لیے دبائو ڈالا جارہاہے۔

امریکہ کے زیر اثر ذرائع ابلاغِ عامہ کے توسط سے فرقہ وارانہ اختلاف کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جارہا ہے۔اس کی بناء پر یہاں کے عوام کے لیے اپنے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں مل جل کر کام کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ خطے کے سیاسی اُمور زیادہ تر بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے مختلف فرقوں اور نسلی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں ہورہی جس سے عمومی طور پر عوام میں نفرت، اختلاف اور انتشار پروان چڑھ رہا ہے۔
تیل کے ذخائر کو درپیش خطرات

خلیج فارس کی اقتصادی ترقی کا اصل دار و مدار تیل کے ذخائر پر ہے۔ ۱۹۸۰ء تا ۱۹۸۸ء کی ایران عراق جنگ، کویت پر عراق کی چڑھائی اور خلیج کی دو جنگوں نے تیل کے ان ذخائر کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک طرف تو اربوں ڈالر کا تیل ضائع ہوا اور دوسری طرف تیل کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

تیل کی قیمتوں میں اضافے سے خلیج کی ریاستوں کو کافی آمدن ہوئی لیکن یہ عارضی منافع ہی ثابت ہوگا اور اس بات کا مداوا نہیں ہوسکے گا کہ خطے کے ذخائر آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ امریکہ مخالف جذبات اور بڑھتا ہوا اشتعال خطے کی سلامتی اور تیل کے ذخائر کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کا مزید نقصان یہاں کی ریاستوں کی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
معاشرتی ڈھانچہ اورانسانی وسائل کی ترقی میںکمی

دنیا کی امیر ترین ریاستیں ہونے کے باوجود مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اپنے معاشرتی، عسکری اور انسانی وسائل کے مستحکم ادارے اور سائنسی، تعلیمی اور فنی مہارتوں کے شعبے یا مقامی ماہرین کی تیاری کے لیے تحقیقی مراکز قائم کرنے پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، بلکہ وہ دیگر ممالک کے ماہرین کی مدد ہی پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ اور چونکہ آمرانہ طرز حکومت کی وجہ سے بیرونی عناصر کے لیے مفادات حاصل کرنا آسان رہتا ہے لہٰذا ایسے مستحکم اداروں کے قیام کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں ہے جن کے ذریعے سے جمہوریت کو پروان چڑھایا جاسکے اور امورِ مملکت میں عوام کی شرکت کا کوئی نظام وضع کیا جاسکے۔
عراق کا المیہ

یوں تو پورا خطہ ہی امریکی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے لیکن عراق کی صورتِ حال سب سے زیادہ ابتر ہے۔ عراقی المیہ کی کچھ جھلک امریکی صدر باراک اوباما کے اس بیان میں دیکھی جاسکتی ہے:

’’عراق میں پُر تشدد کارروائیاں معمول کا حصہ بنی رہیں گی۔ عراق کے بارے میں بہت سارے بنیادی سیاسی سوالات جو اب طلب ہیں۔ تیل کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام حکومت کی مشکلات مزید بڑھ رہی ہیں۔ --- اس وقت عراق کو خطے میں سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے کوئی مقام حاصل نہیں۔ ---لاکھوں بے گھر عراقی ابھی بھی مدد کے منتظر ہیں۔ یہ مرد، عورتیں اور بچے اس جنگ کے منہ بولتے اثرات اور خطے کے استحکام کے لیے چیلنج ہیں‘‘۔(۲۷فروری۲۰۰۹ئ)

اس گول مول بیان سے بھی یہ بات واضح ہورہی ہے کہ جارحانہ امریکی پالیسی کا اصل مقصد محض اپنے مفادات کا حصول ہے۔ یہ اتحادی جارحیت اب تک دس لاکھ سے زائد افراد کو نگل چکی ہے اور یہ تقریباً تمام ہی افراد عام شہری تھے۔جارحیت کایہ بھیانک رُخ واحد تو نہیں لیکن اذیت ناک ترین ضرور ہے۔ عراق میں امریکی اقدامات کے انسانی نقصان کا مکمل اندازہ لگانے کے لیے بنیادی معاشرتی ڈھانچے کی تباہی، آبادیوں کا انخلاء اور نفسیاتی اثرات کے ساتھ ساتھ معاشرتی و سیاسی سانحات، نسلی و لسانی تصادم اورملک کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اہم مقام حاصل کرنے کی غرض سے ہونے والی فرقہ وارانہ کوششوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔

عراق کی اس بھیانک اور مایوس کن صورتِ حال اور تسلسل کے ساتھ پُر تشدد واقعات پر نظر رکھنے والے افراد بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ عوام کے شدائد و مصائب کا یہ سلسلہ تادیر جاری رہے گا۔ عراقی عوام پر مسلط کردہ یک طرفہ ’’جنگ‘‘ کے متأثرین جن کے گھر اُجڑ گئے، کاروبار تباہ ہوگئے، عزیز و اقربا ہلاک اور معذور ہوئے اور جنہوں نے ابو غریب جیسے عقوبت خانوں کا تشدد سہا، وہ اپنی پوری زندگی اس کرب کا شکار رہیں گے۔ عراقیوں کی اگلی نسلیں ہی شاید معمول کی زندگی گزار سکیں۔

امریکی قیادت یہ دعوے کررہی ہے کہ اس ’’جنگ‘‘ کے نتیجے میں عراقیوں کو آزادی اور جمہوریت حاصل ہوئی ہے، جبکہ خود مغرب کا سیاسی ارتقاء یہ بتاتا ہے کہ جمہوری اقدار کا فروغ اور جمہوری رویوں کی تشکیل آہستہ روی کے ساتھ بتدریج ہوتی ہے اور آمریت سے جمہوریت کا سفر معاشرے کی اندرونی جدوجہد ہی سے ممکن ہوتا ہے۔ عراق کے عوام پر اچانک جمہوریت ٹھونس دینے سے جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی اور ملک کا سیاسی مستقبل سالہا سال تک مخدوش ہی رہے گا۔ یہ بات سمجھنی زیادہ مشکل نہیں کہ اگر عراق میں جمہوریت ناکام ہوتی ہے تو خطے کے دیگر ممالک میں جمہوریت کے پنپنے کے امکانات بھی معدوم ہوجائیں گے۔
امریکہ پر اثرات

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی کے گو ناگوں نتائج حاصل کیے ہیں۔ اسے کسی بھی دوسری بیرونی طاقت کی نسبت زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے اور گمان یہی ہے کہ مستقبل قریب میں اسے یہ حیثیت حاصل رہے گی۔ بہت سے رہنما خطے میں امریکی پالیسیوں کی پیروی یا مزاحمت کررہے ہیں یا اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے اپنے مفادات کو درپیش خطرات پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے۔ ان مفادات میں اسرائیل کا تحفظ، تیل کے ذخائراور پیٹرو ڈالر پر تسلط اور اندرونی اور بیرونی طور پر ابھرنے والے خطروں کو انگیخت کرنا شامل ہے۔ بلاشبہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی بساط بنیادی طور پر امریکہ نے بچھائی ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں خطے کے مسائل کے حل کے لیے امریکہ ہی کی طرف دیکھتی ہیں۔

ان کامیابیوں کے پہلو بہ پہلو مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی سے خود اس کو بھی کئی ناگوار نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گوکہ واشنگٹن میں تیار ہونے والی پالیسیوں کے ردّعمل سے نمٹنے کی حکمت عملیاں بھی وضع کی گئیں لیکن امریکی پالیسی ساز کچھ پالیسیوں کے منفی اثرات کا اندازہ صحیح طور پر نہ لگاسکے۔ یا تو متوقع ردّعمل اور نتائج کی شدت توقع سے زیادہ رہی یا پھر ایسے واقعات پیش آئے جن کے بارے میں سوچا نہیں گیا تھا۔ ذیل میں دیا گیا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کی توقعات اور اندازوں سے ہٹ کر رونما ہونے والے اثرات آنے والے وقتوں میں امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
مقامی سیاسی ماحول کا انتہا پسندی کی طرف میلان

امریکہ کی ہر معاملے میں اسرائیل نواز پالیسی کی وجہ سے امریکہ خود عالمی برادری میں اپنی ساکھ اور وقار کھورہا ہے۔ اسرائیلی اقدامات امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو کچھ عرصہ بعد امریکہ دنیا میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ اسرائیل کی من مانیاں خود امریکہ کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ امریکہ کے قانون ساز، پالیسی ساز اور اور دانشور حضرات اسرائیل کے ہر اقدام کے دفاع میں جو جارحانہ اور شدت پسندانہ نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں وہ نہ صرف امریکہ کی معاشرتی و نظریاتی اور سیاسی اقدار کو متأثر کررہے ہیں بلکہ اس ’’امریکی طرز فکر‘‘ کو بھی مجروح کررہے ہیں جس پر امریکی اب تک فخر کرتے چلے آئے ہیں۔

امریکہ میں مذہبی اور نظریاتی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ملک میں سیاسی مباحثوں کے ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کی مدد اور تعاون کی پالیسی اکثر زیر بحث رہتی ہے۔نسل پرستانہ مذہبی سوچ امریکہ کے پالیسی ساز گروہوں میں اچھی طرح جڑ پکڑ چکی ہے اور بار بار بائبل کے حوالے دے دے کر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کو باقی رہنے کا حق ہے اور یہ امریکی عوام کی ’’مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری‘‘ ہے کہ فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں سے نکالنے میں اسرائیل کی مدد کی جائے۔ بالفاظ دیگر یہ ’’نسلی صفایا‘‘ سیاسی جنگ قطعاً نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ ’’خدا کی بات سچی ہے یا نہیں‘‘۔ (اس تناظر میں ’’خدا کی بات‘‘ کا مطلب ہے: بائبل میں اسرائیلیوں سے خدا کا یہ فرمان کہ ’’میں تمہیں یہ زمین دے رہا ہوں‘‘۔)

گوکہ اسرائیل کے حق میںیہ شدت پسندانہ مذہبی بنیاد پرستی امریکی عوام کی اکثریت کو قبول نہیں لیکن اس سوچ کا بااثر پالیسی ساز اور ذہن ساز گروہوں میں گہرائی تک سرایت کرجانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ نقطۂ نظر اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں نفرت، مذہبی شدت پسندی، بعض صورتوں میں قوم پرستانہ سیاسی بنیاد پرستی، نسل پرستی اور عدم برداشت کے مظاہر امریکی معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں گے۔
پالیسی سازی کا مخدوش مستقبل

اسرائیل کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے کی مستقل پالیسی امریکہ کی بین الاقوامی سفارتی حیثیت اور اس کے عالمی رہنما ہونے کی ساکھ کے لیے شدید خطرہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس سے بین الاقوامی سیاست کی اخلاقیات و آداب بھی سخت متأثر ہورہے ہیں۔ اسرائیل اور اسرائیلی لابی کی امریکی پالیسیوں بالخصوص مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اُمور پر روز افزوں گرفت اور بڑھتے ہوئے دباؤ کا اندازہ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے اشکیلون (اسرائیل) کے مقام پر ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ ۲۰۰۹ء میں غزہ کی جنگ بندی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے بارے میں اس وقت کے امریکی صدر بش کے ساتھ ٹیلی فون پر اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے ایہود اولمرٹ نے بتایا کہ ’’میں نے اس (بش) سے کہا کہ تم اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دوگے۔ا س پر صدر بش نے جواب دیا، مجھے اس قرارداد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ میں نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے اور نہ میں اس کے متن سے واقف ہوں۔ اس پر ایہود اولمرٹ نے کہا کہ:یہ کافی ہے کہ میں اسے جانتا ہوں، تم اس کے حق میں ووٹ نہیں دو گے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ’’اس (بش) نے اپنی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو حکم دیا اور سیکریٹری آف اسٹیٹ کو اس بات کی سخت شرمندگی اُٹھانی پڑی کہ اس قرارداد کے حق میں اس نے ووٹ نہیں دیا جو اس نے خود سوچی، تیار کی، اسے حتمی شکل دی اور اس کے لیے لوگوں کو قائل کیا تھا۔‘‘

اس ایک واقعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ اسرائیل اتحاد کی مثال زیادہ عرصہ یوں نہیں رہ سکتی کہ کتا دُم کو نہیںہلارہا ہے، بلکہ دُم کتے کو گھما رہی ہے اور اس کا سر بھی دیوار سے پھوڑ رہی ہے۔
ساکھ کی خرابی اور امریکہ مخالف جذبات کا فروغ

یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہر سوئز کے مسئلہ پر جب امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں حصہ لینا شروع کیا اور ایک معتدل نقطۂ نظر اختیار کیا تو اسے خطے کے عوام نے امن کے حقیقی علم بردار کی حیثیت سے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ تاہم اس میں غیر ضروری توسیع کے ذریعہ سے اسرائیل کو فائدہ پہنچانے کی کوشش نے امریکہ کی ساکھ کو مجروح کرنا شروع کردیا۔

خطے میں امریکی پالیسیوں کا پہلا غیر معمولی ردّعمل ایرانی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ ایران میں امریکی مداخلت کی پالیسی کا غیر متوقع نتیجہ تھا۔ گوکہ امریکی پالیسی سازوں نے کوشش کی کہ سنی عرب حکمرانوں کو شیعہ فارسی خطرے سے ڈرا کر ایران کے خلاف مقامی تعاون حاصل کیا جائے لیکن پھر بھی خلیج فارس میں امریکہ کو اپنے مقاصد حاصل نہ ہوسکے۔ امریکہ کی اب بھی حتی المقدور کوشش ہے کہ ایران کو اس طرح الجھاکر رکھا جائے کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کی راہ میں رُکاوٹ نہ بن سکے۔

عوامی سطح پر بے چینی کا دوسرا مظہر مسلح گروہوں کا منظم ہونا ہے۔ یہ گروہ اسرائیل کی ’’پُرامن‘‘ بقا، امریکہ کے حمایت یافتہ مسلمان حکمرانوں اور امریکی مفادات کے حامل خطے کے توانائی کے ذخائر کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ان گروہوں کی تنظیم کی ضرورت، تخلیق اور ان میں اضافے کی اصل وجہ امریکی پالیسیوں کا اپنا شدت پسندانہ انداز ہے۔ اسی بناء پرہاس(Haass)کے الفاظ میں ’’عراق، لبنان اور فلسطینی علاقوں کی نجی افواج پہلے ہی مضبوط ہورہی ہیں۔ ---عرب حکمرانوں کے بارے میں یہی اندازہ ہے کہ وہ آمرانہ طرز ہی پر کاربند، مذہبی لحاظ سے غیر مصالحت پسند اور امریکہ مخالف رہیںگے۔ دواہم ہمنوامصر اور سعودی عرب ہی ہوںگے‘‘۔

امریکی افواج کی جانب سے ابو غریب، بگرام اور گوانتا نامو بے کے قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک، عراق کے حوالے سے گمراہ کن امریکی پروپیگنڈہ اور فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی مظالم پر اسرائیل کی کھلم کھلا امریکی حمایت نے امریکہ کی ساکھ کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ امریکہ ایک طرف تو جمہوریت، آزادی اور حریت پسندی کا علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتاہے، لیکن مشرق وسطیٰ کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ امریکی قیادت کے بیانات جو بڑے تواتر کے ساتھ امریکی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوتے رہتے ہیں، ان میں انہیں اسلامی فاشسٹ قرار دے کر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے خلاف کارروائیوں کو ’’صلیبی جنگ‘‘، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘اور’’ تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ مزید برآں امریکہ کا مسلمان ممالک سے ان کے تعلیمی نظام،تہذیب و اقدار اور نظام حکمرانی میں امریکی طرز پر تبدیلی لانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے عمل سے مسلمان عوام بجا طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اسلامی تمدن پر امریکی طرز زندگی کو مسلّط کیا جارہا ہے۔ اس بناء پر امریکہ مخالف ہی نہیں مغرب مخالف جذبات اور فکر پروان چڑھ رہی ہے۔

درج بالا صورت حال کی وجہ سے امریکہ کے بطور عالمی رہنما اور دنیا کی بھلائی کے لیے کام کرنے والی حقیقی طاقت کا تأثر زائل ہورہا ہے۔لوب(Lobe)کے الفاظ میں:’’ بہت جلد یہ نظر آنے والاہے کہ امریکہ ایک نوآبادیاتی طاقت ہے۔ بلکہ امریکہ اپنے سے پہلے والوں (یورپیوں) سے بھی بدتر نظر آئے گا۔ کیونکہ ان کو اقتصادی مفادات کی حامل وسائل چوسنے والی طاقتیں سمجھا جاتا تھا، جبکہ امریکہ وسائل ہڑپ کرنے والی طاقت کے ساتھ ساتھ نظریاتی دشمن بھی ہے‘‘۔

مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اگر امریکہ اپنی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرتا تو خلیج کے رہنما خواہی نخواہی اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر مجبور ہوکر امریکہ مخالف ممالک سے وابستہ ہوجائیں گے۔ یہ بات امریکی مفادات کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگی۔ جس طرح کئی مغربی ممالک یہ دیکھتے ہوئے کہ امریکہ اپنے مفاد کی غرض سے مختلف مہم جوئیاں کررہا ہے، امریکہ کی حمایت کی پالیسی سے دست کش ہورہے ہیں۴۔ مختلف ممالک کی یہ سوچ آگے چل کر امریکہ کو بین الاقوامی برادری سے علیحدہ کرسکتی ہے۔
امریکہ اور یورپ کے درمیان کھینچاتانی

صدام حسین کی کویت پر چڑھائی کے موقع پر تو امریکہ اہم بین الاقوامی طاقتوں کا اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگیا اور خلیج کی پہلی جنگ کے نتیجے میں اسے خطے میں قدم جمانے کا موقع بھی مل گیا لیکن نائن الیون کے بعد عراق پر حملے کے لیے امریکہ کی دلیل کو کئی ایسے ممالک نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جو پہلے اس کے ساتھ شریک رہے تھے اوراقوامِ متحدہ نے بھی اس اقدام کی منظوری نہیںدی۔ امریکہ اپنی اس جارحیت کی بناء پر بین الاقوامی برادری میں تنہا ہوگیا۔ خاص طور پر اسے یورپ میں پذیرائی نہ مل سکی اور اسے اکیلے ہی عراق پر حملہ کرنا پڑا۔ کچھ یورپی ممالک نے تو بین الاقوامی اداروں میں عراق کے خلاف جنگ کی سخت الفاظ میں مخالفت کی۔ ویتنام کی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب امریکہ کو اپنے یورپی دوست ممالک کی طرف سے اتنی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکہ کی اسرائیلی لابی کو خوش رکھنے اور ہر جا و بے جا اقدام پر اسرائیل کی حمایت کرنے کی پالیسی کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے درمیان سرد مہری میں مزید اضافہ ہوا۔ کچھ یورپی رہنماؤں، تحقیقی و تجزیاتی اداروں (Think Tanks) اور سیاسی دانشوروں کو، خصوصاً اسرائیلی لابی کی طرف سے، اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں اس کی جارحیت پر تنقید کرنے کی وجہ سے سامی مخالف (Anti-Semitic) کی گالی دی گئی۔اسرائیل پر تنقید کرنے والوں کو سامی مخالف قرار دینے اور یورپ میں سامیت مخالفت کو ہیبت ناک اور دہشت انگیز بناکر پیش کرنے سے امریکہ پر جو اثرات پڑے ہیں، وہ متعلقہ اُمور تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔

اس زاویۂ نگاہ نے ان امریکی تجزیہ نگاروں کو بھی متأثر کیا ہے جو بالعموم سمجھ دار اور اعتدال پسند گردانے جاتے ہیں۔ مثلاً تھامس فرائڈ مین نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں تحریر کیا کہ ’’فرانس ہمارا محض ناراض اتحادی نہیں ہے، یہ ہمارا محض حاسد مخالف بھی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا دشمن بنتا جارہا ہے‘‘۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان نے اس بات کے لیے ووٹ دیا کہ اس کے کیفے ٹیریا میں فرنچ فرائز (چپس) کا نام بدل کر اسے فریڈم فرائز کہا جائے۔اس طرح کے اقدام امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان تصادم کی سرکاری تصدیق کرتے ہیں۔ یہ رویہ بالآخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
عالمی اثرات

فی الوقت امریکہ ہی بنیادی طور پر بین الاقوامی سطح پر ترجیحات طے کرنے کا کام کرتا ہے۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً مغربی دنیا، بالعموم امریکی نقطۂ نظر ہی کی پیروی کرتی ہے۔ اس طرح بہت سے ممالک اپنے اپنے طور پر اپنے مالی، انسانی، عسکری، سفارتی اور سیاسی وسائل امریکی مفادات کو لاحق خطرات سے مقابلہ کرنے میں صرف کرتے ہیں۔

نائن الیون کے بعد کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسیوں نے بلاشبہ بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کو جڑسے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ پہلے دہشت گردی کو جرم سمجھا جاتا تھا اور دہشت گرد پر عدالتوں میں مقدمہ چلاکرتا تھا۔ نائن الیون کے بعد دنیا نے قانون و انصاف کے بین الاقوامی نظام میں یکسر تبدیلی دیکھی۔ خودمختار ریاستوں کو ہدف بنایا گیا، بدنام کیا گیا، ان پر حملے کیے گئے اور ان پر قبضہ کرلیا گیا۔ صرف اس لیے کہ کچھ افراد نے انفرادی طور پر مجرمانہ سرگرمیاں کی تھیں۔ واشنگٹن کے اس دعوے کہ ’’عالم گیر دسترس رکھنے والے دہشت گردوں کے خلاف جنگ غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والا عالمی سطح کا کام ہے‘‘ کا مطلب ہے کہ خفیہ دشمن کو ختم کرنے کی فوجی کارروائی سالہا سال تک جاری رہ سکتی ہے اور مزید خود مختار ممالک اور اقوام کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

اس جنگ میں دشمن کے خلاف نفسیاتی حربوں کو بے رحمانہ طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی سیاست کے اخلاق و آداب کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد، بالخصوص صدام حسین کے خلاف جھوٹے دلائل کی بنیاد پر جنگ نے بھی انسانی تحفظ اور انسانی حقوق کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ دنیا کی تمام مہذب اقوام کے لیے چند سالوں کے اندر لکھوکھا افراد کی ہلاکت ہی تشویش کا باعث نہیں ہے بلکہ معصوم شہریوں کی عزت و وقار کے منافی امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کی کارروائیوں نے مغربی دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس عمل سے خود ان کی اپنی تہذیبی ترقی متأثر ہورہی ہے۔

امریکہ کی یک طرفہ فوجی مہم جوئی، اقوام متحدہ کو درخور اعتنا نہ سمجھنا، اِقدامی حملہ کا اصول اور جب اور جہاں چاہے طاقت کے استعمال کی پالیسی نے دنیا کو جنگل کے قانون کے اُس دور میں پہنچادیا ہے جہاں آمر اور مامور، طاقتور اور کمزور اقوام اور دوست اور دشمن کے درمیان تعلقات کا فیصلہ ڈنڈے کی طاقت کی بنیاد پر ہوتا تھا۔حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس پر احتجاج کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان قوانین کو پامال کرکے رکھ دیا گیا ہے جو قانونی اور پُرامن طریقے سے اختلافِ رائے کا اظہار کرنے والے شہریوں کے حوالے سے موجود ہیں۔ اب حکمران مخالفانہ جمہوری تحریکوں کو طاقت کے ذریعے سے کچل دینے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے لگے ہیں۔

اِقدامی حملہ (Preemptive Strike) کا اصول بین الاقوامی سیاسی نظام میں طوائف الملوکی کا سبب بناہواہے اور عالمی برادری کے مفادات داؤ پر لگ چکے ہیں۔ علاقائی طاقتیں مثلاً اسرائیل اور بھارت کھلم کھلا یہ باتیں کررہے ہیں کہ وہ اپنے دشمن پر اِقدامی حملہ کرسکتے ہیں۔ اسرائیل بہت سے فلسطینی رہنماؤں کو قتل کراچکا ہے، لبنان اور فلسطین کے خلاف جنگ چھیڑ چکا ہے۔ یہ طرز فکر ایسے نہایت ذہین، مہذب اور معتدل افراد کو بھی متأثر کررہا ہے جن کی دلائل و اعتدال کی صلاحیت اُس وقت ختم ہوجاتی ہے جب ان کے افراد اور قوم کو درپیش تنازعات پر بات شروع ہوتی ہے۔یہ احساسات انہیں انتہا پسند اورعسکریت پسند گروہوں میں شامل ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔

اس بات کا خدشہ ہے کہ عراق، لبنان اورفلسطین میں موجود عسکریت پسندی پڑوسی ممالک شام، ترکی اور خلیجی ریاستوں اور بالآخر پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ عراق میں فرقہ وارانہ گروہوں کو باہم منقسم رکھنے کی امریکی پالیسی بھی انتہائی مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ عراق میں تیل کے بڑے ذخائر سنی علاقوں میں ہیں اور ان پر عسکریت پسند عناصر کا قبضہ کسی بھی صورت میں بین الاقوامی برادری کے مفاد میں نہیں ہے۔

مزید برآں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسیوں نے تحاریکِ آزادی، خودمختاری کے لیے جدوجہد اور حقِ خودارادیت کے حصول کے تصورات کو ختم کرکے رکھ دیاہے۔ نائن الیون سے پہلے بین الاقوامی سیاست میں انہیں قانونی اور مبنی بر انصاف سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ اس سے نفرت، مایوسی، جھنجلاہٹ اور متشددانہ رجحان میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اور دنیا کو اس جانب دھکیلا جارہاہے کہ سیاسی جدوجہد کو مسلح تحریکوں میں تبدیل کردیا جائے۔ اگر یہ رجحان بین الاقوامی سیاسی نظام میں رواج پاگیا تو پورا کرۂ ارض تشدد کی لپیٹ میں آجائے گا۔
حاصلِ بحث

جنگ عظیم دوم کے اختتام پر دنیا نے یہ باور کرلیا تھا کہ قوم پرستی کو زیادہ مضبوط بنانا، قومی مفادات پر ضرورت سے زیادہ زور دینا اور کمزور اقوام پر کسی خاص نسل کے لوگوں کو بزورِ طاقت مسلّط کرنا دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے جاسکتا ہے۔ یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی گئی کہ نازیوں کا یہ تصور کہ جرمن نسل دیگر تمام اقوام سے برتر ہے، دنیا کی تباہ کن ترین جنگ کا ایک اہم سبب ہے۔

اس تناظر میں امریکہ کی ۲۰۰۲ء کی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں یہ متکبرانہ دعویٰ کہ’’ امریکی قوم، امریکہ کا معاشرتی، سیاسی و اقتصادی نظام اوریہاں کی اقدار ہی قومی کامیابی کی بقاکے لیے رہنمائی کاکام دے سکتی ہیں‘‘،بین الاقوامی برادری کو اس کے مضمرات پر توجہ دینی ہوگی۔غرور اور قومی برتری کا یہ احساس امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسیوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے اور اس کے اثرات مسلسل بڑھتے تشدد، عدم برداشت، جنگی جنون اور مسلح جدوجہد کی شکل میں نظر آرہے ہیں۔

اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ بین الاقوامی برادری امریکہ میں موجودروشن خیال اور اعتدال پسند قوتوں کے ساتھ مل کر نازی ازم کی طرز کی دقیانوسی سوچ کو ختم کرنے کے لیے کام کرے تاکہ امریکہ کے سیاسی و معاشرتی منظر نامے کو درست کیا جاسکے اور بین الاقوامی سیاسی نظام کو ان قوتوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جاسکے جنہوں نے آزادی اور جمہوریت کو امریکہ کی بالادست فوجی قوت سے وابستہ کررکھا ہے۔

ضرورت صرف اسی بات کی نہیں کہ دنیا امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں پالیسیوں اور بین الاقوامی برادری پر پڑنے والے ان کے اثرات سے سبق حاصل کرے بلکہ اس امر کی ضرورت کہیں زیادہ ہے کہ طاقت کے محرکات کے استعمال کے حوالے سے زیادہ محتاط رہا جائے اور ان پر گہری نظر رکھی جائے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کی ذمہ دار ریاستیں تنازعات کے فیصلے، مسائل کے حل، خطرات سے نمٹنے اور معاملات کو سلجھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اس سے پہلے کہ بحران اور گھمبیر ہوجائیں اور تصادم مزید شدت اختیار کرلیں۔
 

موجو

لائبریرین
حواشی

۱۔ یہ وعدہ برطانوی خارجہ سیکرٹری اے جے بالفور نے لارڈراتھ شیلڈ کے نام اپنے خط محررہ ۲ نومبر ۱۹۱۷ء میں کیا۔اسے معاہدہ بالفور کہاجاتاہے۔اس خط کا متن اسرائیل کی وزارت امور خارجہ کی ویب سائٹ http://www.mfa.gov.ilپر"The Balfour Declaration - November 2, 1917"کے نام سے دیکھا جاسکتاہے۔ ۲۔ ’’سرد جنگ کے دوران فوج کاکام سوویت پھیلائو کو روکنا تھا۔آج اس کا کام ’’جمہوری امن کے خطوں ‘‘کی حفاظت اوران کا پھیلائوہے،تاکہ مقابلہ کی نئی طاقت کو ابھرنے سے روکا جا سکے؛ اور یورپ ، مشرقی ایشیا اورمشرقِ وسطیٰ کے اہم خطوں کا تحفظ کیا جاسکے اوراس لیے کہ نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے نئی قسم کی ممکنہ جنگ کے خلاف امریکہ کی اقدامی صلاحیت کا تحفظ کیا جاسکے۔‘‘حوالہ: Donnelly, "Rebuilding America's Defenses: Strategy, Forces and Resources for a new Century",2-3, See also Eaton, Why Iraq? Why Now? ۳۔ ایرانی انقلاب اور صدام کی کویت پر چڑھائی، بہت سے واقعات میں سے دو ایسے واقعات ہیں جن کو بنیاد بنا کر امریکہ نے پروپیگنڈے کے ذریعے خطے میںیہ تاثر دیا ہے کہ چھوٹی ریاستیں سخت خطرے میں ہیں اور انہیں اپنے تحفظ کے لیے امریکی طاقت کی ضرورت ہے۔امریکہ ایک عشرہ پر محیط ایران عراق جنگ میں دونوں ممالک کو اسلحہ مہیا کرتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ دونوں کو خطے کے لیے خطرہ بھی قرار دیتا رہا۔اگر خطے کے رہنما یکجاہو جاتے تو کسی بیرونی طاقت کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ان کو غلط طور پر استعمال کرسکے۔ ۴۔ جیسا کہ ہاس (Haass)نے اپنے مقالے میںتحریر کیا ہے کہ ۔حالیہ برسوں میں بین الاقوامی معاملات میں واضح دراڑ پڑ چکی ہے۔ ان معاملات میں بین الاقوامی فوجداری عدالت، کیوٹو پروٹوکول اور ABMمعاہدہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے اقدامات بھی تشویش کا باعث ہیں۔یورپی لوگ ہر معاملے میں اسرائیل کی حمایت اور فلسطینوں کے حقوق اور مطالبات کو لائق اعتنانہ سمجھنے کی امریکی پالیسوں کو بھی سمجھنے لگے ہیں۔حتیٰ کہ جب امریکیوں اور یورپیوں کے درمیان کوئی اصولی تجارتی معاہدہ بھی ہوتا ہے تو اس کی بھی ہمیشہ پاسداری نہیں کی جاتی ۔(نیز دیکھیے: Blacker, "US-European Relations after Iraq - An American perspective", and Gamble, "The idea of the West: Changing Perspectives on Europe and America."
 

موجو

لائبریرین
صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی - ایک تقابلی جائزہ
تعارف

مشرق وسطیٰ کا علاقہ امریکی مقاصد کے لیے تزویری اہمیت کا حامل ہے۔ توانائی کے ارزاں وسائل تک رسائی، اپنے کلیدی حلیف اسرائیل کی حفاظت اور مدد، نیزتجارتی اور علاقائی بالادستی قائم رکھنے والے راستوں پر کنٹرول اس کی چند اہم ترجیحات ہیں۔ تین عظیم ترین مذاہب کے مقدس مراکز کی موجودگی نے اس خطے کی اہمیت اور بڑھادی ہے۔صدر اوبامانے ایسے وقت میں ذمہ داری سنبھالی جب مشرق وسطیٰ کے حالات بہت پیچیدہ تھے۔اوباما کے انتخاب اور حلف برداری کے درمیانی وقفے میں غزہ پر اسرائیلی حملے نے علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جذبات کو مزید بھڑکا رکھا تھا۔ چنانچہ اسرائیل کے خلاف عربوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے خلاف اسرائیل کی کھلی حمایت اور نائن الیون کے بعد مسلم ملکوں پر کی جانے والی فوج کشی کی بناء پر پائی جانے والی شدید ناراضگی کو کم کرنا ضروری تھا۔

علاقے میں ہونے والے بعض واقعات نے نئی انتظامیہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ہتھیار فراہم کردیے۔ عراق جو۲۰۰۳ء سے مشرق وسطیٰ کا نہایت متاثرہ مقام تھا، خوں ریز جنگ کے بعد وہاں حالات بہتر ہورہے تھے اور امریکہ کی واپسی کی بات چیت جاری تھی اور نومبر ۲۰۰۸ء میں عراقی حکومت سے اسٹیٹس آف فورسز ایگری منٹ ( SOFA ) نامی معاہدہ طے پاچکا تھا۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو وہ عملاً عراق اور افغانستان میں امریکہ کی مدد کررہا تھا۔بظاہر امریکہ مخالف کردار اپنائے رکھنے کے باوجود وہ ان فوائد سے واقف تھا جو صدام کے بعد عراق کی شیعہ اکثریت تک اپنے اثرو رسوخ کو وسعت دے کر اسے حاصل ہوسکتے تھے۔افغانستان میں بھی ایران نے دسمبر ۲۰۰۱ء میں بون کانفرنس میں کرزئی حکومت کیحمایت کرکے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ ان تغیرات کے درمیان وائٹ ہاؤس میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ، بارک اوباما کی آمدسے ایک نئے دور کے آغاز کی امیدکی جارہی تھی۔صدر اوباما نے منصب سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں اپنی نئی پالیسی کے حوالے سے پہلی بار اپنے خیالات کا اظہارایک عرب نیوز نیٹ ورک العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ بعد میں ان کی یہ فکر قاہرہ کے خطبے میں زیادہ جامع انداز میں سامنے آئی جسے میڈیا کی جانب سے ’’تاریخی موڑ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس بناء پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اوباما نے اپنے اس خطاب میں مشرق وسطیٰ کے موجودہ مسائل خصوصاً تنازع فلسطین کا ذکر کس طور پر کیا۔
اوباما کی پیش قدمی


قاہرہ کی اس تقریر میں اسرائیل سے امریکہ کے مضبوط ثقافتی اور تاریخی رشتوں کا ذکر جذباتی انداز میں یہودیوں کو مظلوم ٹھہراتے ہوئے کیا گیا اور فلسطینیوں کی زمین پر یہودیوں کے وطن کے برقرار رہنے کی ضرورت کو ناقابل انکار قرار دیا گیا۔صدر اوباما نے فلسطینیوں کی بات بھی کی جو ان کے بقول’’ایک وطن کی تلاش میں تکالیف اٹھاتے رہے ہیں‘‘ اور’ ’ بے گھر ہونے کا دکھ جھیل رہے ہیں، انہیں آئے دن بڑے اور چھوٹے پیمانے پر توہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو کسی سرزمین پر قبضے کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘انہوں نے فلسطین کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ’’امریکہ عزت، مواقع اوران کی اپنی ریاست کے قیام کے معاملے میں ، جہاں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہیں، ان کے جائز جذبات سے بے رخی اختیار نہیں کرے گا۔‘‘ متعلقہ فریقوں سے ۲۰۰۳ء کے امن منصوبہ(روڈ میپ) پر عمل اور فلسطین خصوصاً حماس کی جانب سے تشدد ختم کیے جانے اور مؤثر حکمرانی کا مطالبہ کیا گیا۔فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف منفی جذبات میں کمی کے لیے اقدامات اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات معمول پر لانے کے لیے زمین ہموار کیے جانے کی ضرورت کا اظہار بھی کیا گیا۔

دونوں فریقوں سے ایک دوسرے کے زندہ رہنے کے حق کا احترام کرنے کو کہا گیا۔اسرائیل کو فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کی صورت حال کو، بے شمار مقامات پرسیکیورٹی کے نام پر چیک کیے جانے کے تناظر میں جس کی وجہ سے ان کی آزادانہ نقل و حرکت محال ہے، بہتر بنانے کے لیے کہا گیا۔متنازع اسرائیلی بستیوں کو ’’غیرقانونی‘‘ ،’’امن کی راہ میں رکاوٹ‘‘ اور’’ سابقہ سمجھوتوں کی خلاف ورزی‘‘ کا نام دیا گیا۔اوباما نے شاہ عبداﷲ کی تجویز کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ تمام عربوں اور ان کے ہمنواؤں سے دو ریاستی حل کی تائید کا مطالبہ کیا۔تاہم اوباما نے اس خطاب میں اقوام متحدہ کی قراردادوں خصوصاً ۲۴۲ ویں اور ۳۳۸ ویں قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا جو بالترتیب ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں منظور کی گئی تھیں اور جنہیں امریکہ نے مسئلے کے حل کے لیے کی جانے والی مستقبل کی کسی بھی کوشش کے لیے رہنما اصول کے طور پر قبول کیا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اوباما نے پہلے اسرائیل کی المناک تاریخ اور جرمن حکومت کے ہاتھوں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی بات کی لیکن جب وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ذمہ داریوں کی ادائیگی اور وعدوں کی تکمیل کے موضوع پر آئے تو بیشتر بوجھ فلسطینیوں پر ڈال دیا گویا موجودہ مصائب کا سبب فلسطینی سرزمین پر یہودی قبضہ نہیں بلکہ فلسطینی خود ان مصائب کے ذمہ دار ہیں۔نیز خوں ریز غزہ تنازع جس سے ۲۰۰۹ء کا آغاز ہوا، اور ہزاروں معصوم لوگوں کی زندگیاں جس کی نذر ہوئیں، اس کا ذکر بالکل سرسری طور پر کیا گیا۔

مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے کے علاوہ اوباما نے دوسرے علاقائی معاملات مثلاً عراق کی صورت حال، ایران کے جوہری پروگرام اور جمہوریت سے اس کی وابستگی، خواتین کے حقوق اور مذہبی آزادی وغیرہ کے موضوعات پر بھی بات کی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ’’امریکہ عراق کے وسائل پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا‘‘ اور’’ وہاں اپنے فوجی اڈے قائم رکھنے کا خواہش مند بھی نہیںہے‘‘ ۔ اس موقع پر انہو ں نے عراق سے اپنے جنگی بریگیڈوںکی جولائی ۲۰۱۰ء اور تمام افواج کی جولائی ۲۰۱۲ء تک واپسی کے پروگرام کے ذکر کو دہرایا۔ایران کے معاملے میں صدر اوباما نے ’’باہمی مفاد‘‘ کی بنیاد پر ’’پیشگی شرائط کے بغیر‘‘آگے بڑھنے کی خواہش کا اعادہ کیا۔ان کی جانب سے یہ بات واضح کی گئی کہ امریکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کے ساتھ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے ایران کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اوباما نے یہ اعتراف بھی کیا کہ۱۹۵۳ء میں جمہوری طور پر منتخب مصدق حکومت کے خاتمے میں ان کے ملک کا ہاتھ تھا جس کا مطلب ہے کہ ایران- امریکہ تعلقات کی خرابی کی ذمہ داری، ان کے ملک کے اس طرز عمل پر عائد ہوتی ہے۔


علاقے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ پوچھا جانا برمحل ہے کہ صدر اوباما کی پیش قدمی کیا واقعی ایک ٹھوس تبدیلی کا ذریعہ بننے جارہی ہے یا اس کا انجام بھی سابق امریکی سربراہوں کے اقدامات جیسا ہی ہوگا۔ اس کا جواب ماضی کے ریکارڈ میں مل سکتا ہے۔

سابق صدور کے اقدامات

علاقائی اور بین الاقوامی حالات:سرد جنگ کے آغاز ہی سے قائم ہونے والی امریکی حکومتیں، شرق اوسط کو بین الاقوامی سیاسی ماحول کے تناظر میں دیکھتی رہی ہیں، اس کے نتیجے میں یہ علاقہ بالادستی کے قیام، تزویری فوقیت کے حصول اورتیل کے ذخائر تک رسائی کے لیے عالمی طاقتوں کی باہمی کشمکش کا مرکزبنا چلاآرہا ہے۔ آئزن ہاور (۱۹۵۳-۱۹۶۱)سے ریگن(۱۹۸۱-۱۹۸۹) تک امریکہ کی شرق اوسط پالیسی کا اولین مقصد سوویت یونین کا گھیراؤ تھا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی کارکردگی کے پیش نظر نکسن حکومت(۱۹۶۹-۱۹۷۴) اس نتیجے پر پہنچی کہ امریکہ- اسرائیل تعلقات کو تزویری شراکت میں ڈھالنے سے امریکہ کے اولین علاقائی مفادات کی ضمانت فراہم ہوجائے گی۔۱۹۷۳ء کی جنگ اور عرب ملکوں کی جانب سے مغرب کے لیے تیل پر اجتماعی بندش کے بعد کارٹر (۱۹۷۷- ۱۹۸۱)نے عرب- اسرائیل تنازع کے لیے ایک نئی سوچ کے نعرے کے ساتھ صدارت کا منصب سنبھالا۔انہوں نے مصر واسرائیل ، اور اسرائیل و شام کے درمیان مذاکرات کے عمل کو کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے (۱۹۷۸)اور مصر- اسرائیل معاہدے (۱۹۷۹)کے ذریعے آگے بڑھایا۔ ان وعدوں کو پورا کرنے کے معاملے میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے ثالثی کی کوششوں پر اعتماد کو کمزور کیا۔

دریں اثناء ریگن برسراقتدار آگئے۔ اس وقت تک خلیج میں ایران-عراق جنگ اور افغانستان پر سوویت حملے سے بین الاقوامی منظر بدل چکا تھا۔اس لیے کارٹر کے برعکس ریگن فلسطین کے بارے میں کم پرجوش تھے۔ یوں ایک بار پھر شرق اوسط سے متعلق عالمی رویے نے علاقائی تناظر کو پس منظر میں دھکیل دیا۔تاہم ۱۹۸۲ء میں لبنان کی جنگ نے فلسطین کے مسئلے کو علاقائی امن پر اثر انداز ہونے والے معاملے کی حیثیت سے ازسرنو تازہ کردیا۔قیام امن کی کوششیں ناکام ہوئیں اور نکسن کی طرح ریگن نے بھی اسرائیل کو ایک قابل اعتماد حلیف باور کیا۔

سرد جنگ کے خاتمے کی بناء پرجارج ایچ ڈبلیو بش (۱۹۸۹-۱۹۹۳) ایک فتح مند امریکہ کے حکمراں بنے۔کسی حریف کے خوف سے آزاد واحد عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کو علاقائی تنازعات کا تصفیہ کرانے کا موقع حاصل تھا۔ مگر امریکہ نے اپنے آپ کو ۱۹۹۱ء کی خلیج کی جنگ میں الجھا لیا۔ کویت کے بحران کے حل کے لیے، جسے ممکنہ طور پر بات چیت سے بھی طے کیا جاسکتا تھا، امریکہ کے اس غیرمعمولی اور غیر متوقع رویے نے، مشرق وسطیٰ کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس کے مقابلے میں فلسطین کے عشروں پرانے تنازع میں اس کے بالکل برعکس امریکہ کی تقریباً مکمل بے عملی کا سبب کیاہے۔ اس سوچ کے ازالے کے لیے بش سینئر کی حکومت نے قیام امن کا عمل شروع کیا،جسے ان کے بعد صدر کلنٹن (۱۹۹۳-۲۰۰۱) نے بھی نئے جوش و جذبے کے ساتھ جاری رکھا، مذاکرات اور معاہدے ہوتے رہے لیکن امن قائم نہیں ہوا ۔

جارج ڈبلیو بش کی قیادت میں انقلابی نو قدامت پرستوں کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی رونما ہونے والے نائن الیون کا واقعہ، امریکہ کے لیے ’سرخ فوج‘ کے خطرے کو ’دہشت گردوں کے خطرے‘ سے بدلنے پر منتج ہوا۔ اس طرح امریکہ ایک بار پھر ایک عالمی جنگ میں مشغول ہوگیا جسے ایک بے چہرہ دشمن کو شکار کرنے کے ارادے سے شروع کیا گیا تھا۔شرق اوسط کے تنازعات کو اب’ دہشت گرد بمقابلہ اعتدال پسند‘ کی اصطلاحات میں بیان کیا جانے لگا۔علاقے کے لیے امریکہ کی پالیسی محض انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی توسیع بن گئی اور مقامی تنازعات کو بھی اسی سیاق و سباق میں دیکھا جانے لگا۔عراق پر حملے نے امریکی صدر کو یہ اعلان کرنے کا موقع فراہم کیا کہ ’’دنیا صدام حسین کے بغیرزیادہ محفوظ ہے‘‘ لیکن تنازعِ فلسطین کے رِستے زخموں کے ساتھ شرق اوسط کا حال خراب تر ہوتاگیا۔عراق کے معاملے میں امریکہ کی غیر معمولی عجلت کے ساتھ کی گئی کارروائی کے اعادے نے، ازسرنو اس تضاد کو نمایاں کردیا جو ہمسایوں کے خلاف جارحیت کے ارتکاب میں اسرائیل کی مدد کی صورت میں امریکی رویے میں موجود ہے۔ بش انتظامیہ کی ان پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اور پوری مسلم دنیا میں بالعموم امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دیا۔ مختصریہ کہ امریکی صدور نے اپنے اپنے دور کے بعض علاقائی اور عالمی حالات کے پیش نظر پالیسیاں اختیار کیں اور مشرق وسطیٰ کی حقیقی ضروریات کوملحوظ نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ سابق امریکی سربراہوں کی ان کوششوںاور ان کے نتائج کا تجزیہ، جن کے بارے میں صدر اوباما نے قاہرہ میں بات کی، اہم ہے۔

مسئلہ فلسطین - بنیادی معاملہ: جارج ڈبلیو بش کی صدارت کے پہلے سال میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔ اس کی وجہ سے شرق اوسط سمیت ہر علاقے کے لیے ان کی پالیسیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اعلان کے تابع ہوگئیں۔ ان کی تمام پالیسیوں کی بنیاد ان کا یہ اعلان ٹھہرا کہ ’’ہمارے ساتھ یا دہشت گردوں کے ساتھ ‘‘۔ ان کی جانب سے ’مہذب دنیا‘ یا’ دہشت گردوں‘ میں سے کسی ایک کیمپ کو چن لینے کا مطالبہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں خصوصاً شام، ایران اور فلسطین سے بھی، حزب اﷲ، حماس اور ان دوسری تنظیموں کے لیے ان کی حمایت کے حوالے سے کیا گیا جنہیں امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔

اس کے باوجودصدر بش نے ’’مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے روڈ میپ‘‘پیش کیا۔ اس حوالے سے ان کے خطاب میں پیش کردہ دوریاستی حل کو ’’امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ رہنا‘‘ کہا گیا۔اس خطاب میں فلسطینی انتظامیہ سے ریاستی ذرائع ابلاغ میں تشدد کی حوصلہ افزائی کو امن کے عمل میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کو کہا گیا جبکہ قیام امن کے لیے شاہ عبداﷲ کی تجویز کو عربوں کی جانب سے اسرائیل کو تقریباً تسلیم کرلینے کے مترادف قرار دیتے ہوئے سراہا گیا۔ بش نے اس موقع پر اسرائیل کی سلامتی سے امریکہ کی وابستگی کا واضح طور پر اظہار بھی کیا۔ تاہم انہوں نے مچل پلان کے مطابق مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر قطعی بند کرنے اور اقوام متحدہ کی قراداد ۲۴۲ اور ۳۳۸ کے تحت اسرائیلی فوجوں کو واپس بلانے پر بھی زور دیا۔انہوں نے اسرائیل سے فلسطینی کنٹرول والے علاقوں میں حملے بند کرنے اور ان جگہوں سے واپس چلے جانے کو بھی کہا جن پر ۲۰۰۰ء کے انتفاضہ کے بعد کی افراتفری میں قبضہ کرلیا گیا تھا۔

جارج بش سے پہلے صدر بل کلنٹن کی کوششیں بھی بے نتیجہ بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں اگرچہ سردجنگ کے ختم ہوجانے کی وجہ سے سمجھا جارہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے لیے سازگار حالات مہیا ہوگئے ہیں۔کلنٹن نے بھی اسرائیل کی سلامتی کو اولین ترجیح قرار دیا اور اس موقف کو برقرار رکھا کہ ’علاقائی امن‘ اسرائیل کی سلامتی سے مشروط ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ امریکہ اس مقصد کے لیے علاقے میں اسرائیل کی فوجی برتری قائم رکھنے کے لیے اپنے وعدے پورے کرتا رہے گا۔مذاکراتی عمل اقوام متحدہ کی محولہ بالا قراردادوں کی روشنی میں دوریاستی حل اور دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے نکات پر مبنی رہا۔کلنٹن نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۸ء کو غزہ میں فلسطینی قومی کونسل سے اپنے خطاب میں فلسطینیوں کو پرتشدد مزاحمتی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی بند کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا:

’’ ہر با اثر فلسطینی کو - خواہ وہ معلم ہو یا صحافی، سیاستداں ہو یا کمیونٹی لیڈر - بچوں کے ذہنوں سے خودکش بمباروں کے دلکش تاثر کے ازالے، ایک طرف امن کی بات اور دوسری طرف نفرت کی تبلیغ کی روش کے خاتمے ، اسکول کے بچوں میں امن کے فوائد اور جنگ کے نقصانات سے آگہی کے فروغ، اور تشدد کے چکر کی بندش کو لازماً اپنا مشن بنا لینا چاہیے۔ ‘‘

تاہم کلنٹن مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے تضاد کا اعتراف کرنے میں ناکام رہے۔فلسطینیوں کی تالیف قلب کے لیے کلنٹن اپنے اس خطاب میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکے وہ صرف یہ تھا کہ اسرائیلی بستیاں اوسلو معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ان بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے اقدامات تو درکنار،کلنٹن نے کبھی ان کے ناجائز اور غیرقانونی ہونے کی بات بھی نہیں کی۔حتیٰ کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو اس بناء پر تعطل کا سامنا کرنا پڑا کہ اسرائیلی بستیوں کے معاملے پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے یہودی بستیوں کے معاملے کو محض ’امن میں رکاوٹ‘ کا نام دینے کو کافی سمجھا۔

کلنٹن کے پیش رووں میں سے جارج ایچ ڈبلیو بش نے غالباً امریکہ پر اس حالت میں حکومت کی جب وہ اپنی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور تھا۔اس کے باوجود یہودی بستیوں کے غیرقانونی ہونے کاان کی حکومت کی جانب سے کبھی دوٹوک طریقے سے اعتراف نہیں کیا گیا۔جب ایک بار ان سے ان کے وزیر خارجہ جیمس بیکر کے اس بیان پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا کہ یہودی بستیاں امن میں رکاوٹ ہیں تو بش سینئر نے محض بالواسطہ طور پر اس خیال کی یوں تائید کی کہ ’’وزیر بیکر اپنی حکومت کی نمائندگی کررہے تھے اور جو کچھ انہوں نے کہا میں اس کی پرزور حمایت کرتا ہوں ۔۔۔ اگر ان بستیوں کا سلسلہ رک جائے تو امن کے قیام میں بڑی مدد ملے گی۔‘‘

صدر ریگن کی حکومت(۱۹۸۱- ۱۹۸۹)بھی اس حوالے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ریگن کے ۱۹۸۲ء کے پلان میں یہودی بستیوں کے غیرقانونی ہونے کا تو کوئی ذکر نہیں تھا تاہم بستیوں کی تعمیر کو ’’منجمد‘‘ کرنے کا مطالبہ اس صراحت کے ساتھ کیا گیا تھا کہ: عبوری مدت کے دوران بستیوں کی تعمیر کے لیے کسی مزید زمین کے استعمال کی امریکہ حمایت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیر کے انجماد کی راہ کا فوری طور پر اپنایا جانا ، کسی بھی دوسرے اقدام کی نسبت، ان مذاکرات کے لیے اعتماد کی فضاپیدا کرنے کا سبب بنے گا۔مزید بستیوں کی تعمیر اب کسی بھی طرح اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری نہیں۔ یہ عمل عربوں کے اعتماد کو گھٹانے اور آزادانہ اور منصفانہ طور پر حتمی فیصلوں تک پہنچنے کو مشکل بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ بہرکیف،اس وقت دو ریاستی حل کا کوئی نظریہ نہیں تھا،اس کے بجائے اردن کے تعاون کے ساتھ’ مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کی خود مختار حکومت ‘ کے تصور کی تشہیر کی گئی تھی۔

صدر جمی کارٹر نے البتہ ان بستیوں کو واضح طور پر غیرقانونی قرار دیاتھا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بہت کھل کر کہا ۔: بستیوں کے معاملے میں ہمارا موقف بہت واضح ہے۔ ہم انہیں قانونی نہیں سمجھتے۔ لنڈن بی جانسن،رچرڈ نکسن، جیرالڈ فورڈ اور کارٹر کی حکومتیں چوتھے جنیوا کنونشن کی دفعہ ۴۹ کے چھٹے پیراگراف کے حوالے سے بستیوں کے غیرقانونی ہونے کے موقف پر قائم رہیں۔ صدر اوباما نے اسرائیلی بستیوں کے معاملے میں ان سابق امریکی سربراہان کے موقف کی پیروی کی ہے۔ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے نومبر ۲۰۰۹ء میں اپنے دورۂ مشرق وسطیٰ کے دوران بستیوں پر امریکہ کے اس چالیس سال قدیم مخالفانہ موقف کا پرزور طور پر اعادہ کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پورے مسئلہ فلسطین کا محض ایک چھوٹا سا جزو ہے، اس کے باوجود امریکی سربراہوں کی بیشتر کاوشیں اس پر صرف ہورہی ہیں۔اس معاملے کے دوسرے کئی بہت اہم پہلو ہیں مثلاً فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کا حق،یروشلم کا قضیہ، فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے حملے جن کے نتیجے میں جنگ کی سی صورت حال رونما ہونے کا خطرہ رہتا ہے، اور بحیثیت مجموعی پورے تنازع فلسطین کے حتمی حل کی جانب پیش قدمی۔

دوسرے متعلقہ معاملات: مشرق وسطیٰ کے بنیادی مسئلے میں امریکی سربراہوں کی پالیسیوں کے اس تقابلی جائزے کے بعد علاقے کے دیگر متعلقہ مسائل یعنی عراق وا یران اور ان اقدار کے حوالے سے جن کا ذکر صدر اوباما نے قاہرہ کے خطاب میں کیا، مختلف امریکی حکومتوں کی پالیسیوں پر بھی ایک نگاہ ڈال لینا مناسب ہوگا۔

عراق: عراق مختلف وجوہ سے مختلف اوقات میں امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کا محور رہا ہے۔ ایران- عراق جنگ کے دوران ریگن انتظامیہ نے علاقے میں ایرانی انقلاب کے اثرات کو روکنے کے لیے صدام حسین کی حمایت کی۔اسے عراق کے معاملے میں امریکہ کی سوچ میں تبدیلی سمجھا گیا کیونکہ سرد جنگ کے پورے دور میں عراق امریکہ کے مخالف بلاک کا حصہ رہا تھا۔ تاہم ۱۹۹۱ء کی جنگ خلیج نے، جو کویت پر عراق کے حملے کے نتیجے میں شروع ہوئی، صورت حال کو تبدیل کردیا۔ بسا اوقات بش سینئر پر نکتہ چینی کی جاتی ہے کہ انہوں نے صدام حکومت کے خاتمے کے کام کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔کویت کے بحران کے وقت سے عراق وائٹ ہاؤس سے دیے جانے والے آزادی، جمہوریت اور انصاف وغیرہ کی قدروں پر مشتمل خطبات کا محور رہا ہے۔ کلنٹن انتظامیہ نے صدام کو مہلک ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے عراق کو مسلسل میزائل حملوں کا نشانہ بنائے رکھا مگر ان پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے صدام حکومت کے خاتمے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ ستم ظریفانہ طور پر آزادی اور کشادہ روی سے امریکہ کی وابستگی کے نعروں نے، تشدد اور آمریت سے جنگ اور مہلک ہتھیاروں کے خطرے سے نجات دلانے کے بہانے ۲۰۰۳ء میں عراق کو فتح کرلینے کے لیے چھوٹے بش کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے صدام حسین کو’ امریکہ کے دشمن ‘کا نام دیا کیونکہ ان کے بقول ’ صدام نے اپنے پڑوسیوں پر حملے کیے تھے‘ اور ’وہ فلسطین میں خودکش بمباروں کو پیسے دے رہے تھے‘۔

اس پس منظر میں یہ بات دلچسپ ہے کہ اوباما کی قاہرہ کی تقریر میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ عراق کے معاملے سے نمٹنے کے بہتر طریقے ان کے نزدیک کیا ہوسکتے تھے۔ انہوں نے فوجوں کی واپسی کی جو حکمت عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بھی پچھلی حکومت کی پالیسی سے مختلف نہیں ۔نومبر ۲۰۰۸ء کے وسط میں امریکہ اور عراق کی حکومتوں میں یہ معاہدہ طے پاگیا تھا کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۱۱ء تک تمام امریکی فوجیں عراق سے نکل جائیں گی اور لڑنے والی فوج اس سے بھی بہت پہلے یعنی ۳۰ جون ۲۰۰۹ء تک ہی عراق سے چلی جائے گی۔ جبکہ صدر اوباما نے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ منصب سنبھالنے کے بعد وہ ۱۶ مہینوں میں عراق سے لڑنے والی فوج واپس بلالیں گے۔قاہرہ میں اوباما نے اعلان کیا کہ امریکہ جولائی ۲۰۱۰ء تک عراقی شہروں سے اپنے لڑنے والے فوجی دستے اور ۲۰۱۲ء تک تمام افواج واپس بلالے گا۔اس سے عیاں ہے کہ ان کی حکمت عملی سابقہ حکومت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔

صرف ایک چیز ہے جسے مختلف کہا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ اوباما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کے بجائے افغانستان کو مرکزی محاذ قرار دیا۔ تاہم افغانستان میں مزید فوج بھیج کر بڑی یلغار کا خیال بھی اوباما کا اپنا نہیں تھا ، صدر بش ۹ ستمبر ۲۰۰۸ء کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں یہ نسخہ تجویز کرچکے تھے ۔

عراق میں اوباما کی ذمہ داریاں اپنے پیش رووں سے کہیں زیادہ ہیں۔عراق کا سیاسی استحکام اور مستقبل کا نقشہ اور امریکہ کی واپسی کے بعد عراقیوں کی نگاہ میں اس کی حکومت کا اعتبار وہ امور ہیں جو عراق کے معاملے میں اوباما کی کارکردگی کا تعین کریں گے۔

ایران: ایران بھی صدر بش کی کرخت پالیسیوں کا ہدف بنا رہا۔ نائن الیون نے بین الاقوامی حالات کو جو رنگ دیا اس میں امریکہ کے لیے ایران کو ان ریاستوں میں شامل کرنا آسان ہوگیا جنہیں اس کی جانب سے برائی کا محور قرار دیا گیا تھا۔اس کی وجہ حماس اور حزب اﷲ کے لیے ایران کی حمایت تھی۔۲۰۰۶ء میں ، لبنان پر اسرائیلی حملے کے دوران،امریکہ نے ایران اور حزب اﷲ پر لبنان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کا الزام لگایا جبکہ عراق میں تشدد اور عدم استحکام کے فروغ پر مبنی اس کے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ بش نے ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کی پالیسی اختیار کی تاکہ اسے جوہری مسئلے پر امریکہ کی بات ماننے پر مجبور کیا جاسکے ، اس کے نتیجے میں ایران کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پالیسی ۲۰۰۳ء کے بعد کی صورت حال میں امریکہ کے علاقائی مفادات سے متصادم تھی۔ عراق کی شیعہ آبادی پر ایران کے اثرات کے پیش نظر ، ایران کو خوش رکھنا امریکہ کے لیے لازماً مفید ہوتا، لیکن جارج بش نے اپنی ایران پالیسی صدر کارٹر اور ان کے بعد آنے والے اپنے پیش رووں کی ایران مخالف پالیسیوں کے مطابق تشکیل دی۔بنیادی طور پر یہ صدر ریگن تھے جنہوں نے امریکہ-ایران تعلقات کو یوٹرن دیتے ہوئے ایران کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا۔تاہم اسلامی انقلاب سے سے پہلے ایران علاقے میں امریکہ کا پولیس مین اور خلیج میں امریکی مفادات کا نگراں تھا۔صدر کارٹر کے الفاظ میں،ایران دنیا کے ایک انتہائی مشکل علاقے میں استحکام کا جزیرہ تھا۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی ایرانی آمریت امریکہ کے علاقائی مفادات کے تحفظ کی ضامن تھی۔ امریکہ کی جانب سے مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کے مقابلے میں شاہ کی آمرانہ حکومت کی پشت پناہی کی وجہ بھی یہی تھی۔ مصدق حکومت ایرانی تیل پر بڑی طاقتوں کے کنٹرول کے لیے سنگین خطرہ تھی۔اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آئزن ہاور حکومت نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں تعاون کا وہ فیصلہ کرڈالا جس میں صدرٹرومین ہچکچارہے تھے۔ یہ مدد تیل کی کمپنیوں کے عالمی کارٹل کو ایرانی تیل کی پیداوار اور فروخت پر مؤثر کنٹرول اور منافع میں پچاس فی صد کی شرکت کی ضمانت پر فراہم کی گئی۔

اس پس منظر میں ، صدر اوباما کی جانب سے نوروز کے موقع پر، ۱۹۵۳ء کے انقلاب جیسی امریکی خارجہ پالیسی کی بھاری غلطیوں اور ایران کے جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے حق کو این پی ٹی کی پابندی کیے جانے کی صورت میں تسلیم کیے جانے کے ساتھ ایرانیوں کو غیر مشروط بات چیت کی پیشکش، وائٹ ہاؤس کی جانب سے بہت اہم اشارہ ہے۔اس کے باوجود ایران نے الزام لگایا کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے ایران کے صدارتی انتخابات سے جنم لینے والی بے چینی کو ایران کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔اس صورت حال نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کردی۔اس کے ساتھ ساتھ صدر اوباما نے ایران کے خلاف پابندیوں کی مہم بھی شروع کردی ، بالکل اسی طرح جیسے چھوٹے بش نے اپنے یورپی حلیفوں کے تعاون سے کیا تھا۔

اقدار: ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے تمام فوجی کارروائیاں، مختلف ملکوں کے خلاف پابندیوں کے نفاذ اور فوجی اتحادوں کی تشکیل کے اقدامات اس دعوے کے ساتھ کیے جاتے رہے ہیں کہ ان کا مقصد جمہوریت، خواتین کے حقوق، مساوی مواقع، مذہبی آزادی اور تعلیم وغیرہ کا فروغ ہے۔ ان اقدار سے امریکہ کی وابستگی کے اِن دعووں کا سراغ جارج واشنگٹن کے دور ہی میں مل سکتا ہے۔ سب سے زیادہ انقلابی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی مسلسل دعوے کیے کہ عراق کے خلاف جنگ کا مقصد جمہوریت، آزادی، کشادہ روی اورانسانی حقوق کی اقدار کا فروغ ہے، اگرچہ بین الاقوامی برادری یقین رکھتی تھی کہ عراق کی جنگ کے حقیقی مقاصد اور خواہ کچھ بھی ہوں مگر بش حکومت جو کچھ بتارہی ہے وہ کسی صورت نہیں ہیں۔اس کا ثبوت عراق پر حملے کے خلاف وہ عظیم الشان احتجاجی مظاہرے ہیں جو پوری دنیا میں ہوئے۔صدر اوباما نے بھی اسی طرح اپنی تردید آپ کرتے ہوئے ان اقدار کو عرب دنیا میں فروغ دینے کی بات اس جگہ کھڑے ہوکر کی جہاں ۱۹۶۷ء سے ایمرجنسی نافذ ہے۔ ان کے قول اور عمل میں اس تضاد کا ایک انتہائی عملی سبب واشنگٹن کو دی گئی جارج کینان کی اس پالیسی ہدایت میں تلاش کیا جاسکتا ہے کہ:

ہمیں پسند کیے جانے ، یا بین الاقوامی سطح پر ایثار و بے نفسی کا سرچشمہ سمجھے جانے کے خبط سے جان چھڑالینی چاہیے۔ہمیں اپنے بارے میں اپنے بھائیوں کے نگہبان ہونے کا تاثر قائم کرنے اور انہیں اخلاقی یا نظریاتی ہدایات دینے کی کوشش سے باز آجانا چاہیے۔ ہمیں انسانی حقوق، معیار زندگی کی بہتری اور جمہوریت کی ترویج جیسے مبہم اور غیرحقیقی مقاصد کے بارے میں بات کرنا بند کردینا چاہیے۔وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سیدھے طاقت کی زبان میں بات کرنا اور معاملات طے کرنے ہوں گے، اس وقت یہ غیرحقیقی نعرے ہماری راہ میں جس قدر کم رکاوٹ بنیں، اتنا ہی اچھا ہوگا۔

حاصل کلام: صدر اوباما اور دوسرے امریکی سربراہوںکے اقدامات کے اس تقابلی جائزے کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ تبدیلی کے علم بردار اوباما نے مشرق وسطیٰ بالخصوص علاقے کے بنیادی مسئلے تنازع فلسطین کے حل کے لیے کیا واقعی کوئی انقلابی یا کم از کم کسی حد تک مختلف قدم اٹھایا ہے؟تاہم اس تقابل سے واضح ہے کہ اوباما اپنے پیش رووں کی طرح یہودی بستیوں کی غیرقانونی حیثیت، معاہدوں اور قراردادوں کی پابندی کے مطالبات، ایک دوسرے کے باقی رہنے کے حق کے احترام، اور ایسی دوریاستوں کی موجودگی کے حوالے سے جن میں فلسطینی اور اسرائیلی دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں، محض زبانی جمع خرچ کررہے ہیں۔اسی طرح اسرائیل سے امریکہ کے ناقابل شکست تعلق اور فلسطین کے انسانی بحران کے لیے صرف زبانی ہمدردی کی روش پر قائم رہ کر بھی وہ سابق امریکی سربراہوں کے طرز عمل کا اعادہ کررہے ہیں۔ان کے بیان کے یہ الفاظ کہ: ’مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا مقصد آزاد یہودی ریاست کی حیثیت سے اسرائیل کا تحفظ ہے کیونکہ یہ امریکہ کے قومی مفاد میں ہے‘ ۔۔۔ ہوبہو سابق امریکی قائدین کے بیانات کا عکس ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کا اکتوبر ۲۰۰۹ء کا دورۂ مشرق وسطیٰ جس نے معاملات کو پیچیدہ تر بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا، اس حقیقت کی ایک اور گواہی ہے کہ اوباما انتظامیہ اپنی پیش رو امریکی حکومتوں ہی کے راستے پر چل رہی ہے۔امریکہ اب یہودی بستیوں کو’ منجمد‘ کرنے کے اپنے سابقہ مطالبے سے بھی پیچھے ہٹتا معلوم ہوتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کے حوالے سے ’ تحمل ‘ (restraint) یعنی منجمد نہ کرنے کی پیش کش کو بے مثال (unorecedented) قرار دے کر یہی ظاہر کیا ہے۔ نیز اپنے دورے میں انہوں نے یہ بات واضح کردی کہ امریکہ محمود عباس کے اس مطالبے کی حمایت نہیں کرتا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند کیا جائے۔یہ انحراف ظاہر کرتا ہے کہ بستیوں کے معاملے میں صدر اوباما نے جس ناراضگی کا اظہار پہلے کیا تھا وہ محض مسلم دنیا کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھا۔

اسی طور پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ گولڈ اسٹون رپورٹ کو جس میں ۲۰۰۹ء کے اوائل میں اسرائیل کو غزہ کے تنازع میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا، مسترد کردیا۔یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے لائی گئی تھی مگر امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے غیرقانونی اور غیر انسانی اقدامات کی عالمی برادری کے علی الرغم حمایت کی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تقریباً ہر قرارداد کو امریکہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ اسرائیل اور امریکہ کے اندر اسرائیلی لابی کا شدید دباؤ ہے۔ واشنگٹن میں اسرائیلی لابی انتہائی متحرک اور مؤثر ہے۔اس کی وجہ امریکی کانگریس میں اسرائیل نواز نمائندوں کی موجودگی ہے۔اسرائیلی لابی کی بہت سی آئینی تنظیموں میں سے ایک امریکن اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی ہے ،امریکی ایوان نمائندگان کے ایک سابق اسپیکر نیوٹ گنگ رِچ کے بقول یہ کرۂ ارض کا مؤثر ترین مفاداتی گروپ ہے۔اس کے علاوہ کئی دوسری طاقتور لابیاں مثلاً ملٹری انڈسٹریل کمپلکس، تیل کی صنعت اور مختلف کارپوریشنیں، امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ ان مفاداتی گروپوں نے امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی خصوصاً عراق کی جنگ اور علاقے کے دوسرے تنازعات سے براہ راست فائدہ اٹھایا ہے۔ صدراوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس ۲۰۱۰ء میں ان لابیوں کے حد سے بڑھے ہوئے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان کو سختی کے ساتھ حدمیں رکھنے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی بالخصوص اسرائیل- فلسطین تنازع کے حوالے سے اپنے اس عزم میں کس قدر کامیاب ہوتے ہیں۔

سابق امریکی سربراہوں اور صدر اوباما کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے اس تقابلی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پرفریب الفاظ اور اصطلاحات کی آڑ میں اوباما بھی اپنے پیش رووں ہی کے راستے پر چل رہے ہیں، جبکہ پوری دنیا کے مسلمان ان سے ایسے عملی اقدامات کی توقع رکھتے تھے جو اسرائیل کو سابقہ معاہدوں کی پابندی پر مجبور کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی خصوصاً غزہ کے محاصرہ کے خاتمے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ، فلسطینی مہاجروں کے مستقبل کے لیے درست فیصلوں، یروشلم کے معاملے کے منصفانہ تصفیے، اور آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا ذریعہ بنیں۔

اسرائیل کی برملا بے جا حمایت،اس کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرائم کی پشت پناہی، فلسطینیوں سے صرف زبانی وعدے،چالیس سال سے جاری یہودی بستیوں کی تعمیر پر احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کو ، بستیوں کی تعمیر بند کرانے کے کسی عملی اقدام کے بغیر تشدد سے باز رہنے کی تلقین ، یروشلم اور مہاجروں کے مسئلے پر فلسطینیوں کو مطمئن کرنے میں ناکامی۔۔۔ ان سب حوالوں سے صدر اوباما اپنے پیش رو امریکی سربراہوں سے ذرا بھی مختلف نظر نہیں آتے۔ اوباما کی اس کارکردگی اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ان کے قول و عمل سے اس کے سوا کوئی اور نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دور میں بھی مشرق وسطیٰ خصوصاًفلسطین کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
 

موجو

لائبریرین
صدر اوباما کے وعدے ۔۔۔ عمل کی کسوٹی پر
صدر اوباما نے جون ۲۰۰۹ء میں اپنے قاہرہ خطاب میں مسلم دنیا اور امریکہ کے درمیان بے اعتمادی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے تعلقات کے جس نئے اور خوشگوار دور کے آغاز کی نوید سنائی تھی، اس حوالے سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے معاملے میں وہ عمل کی کسوٹی پر کس حد تک پورے اترے ہیں، اس کا ایک مختصر مگر جامع جائزہ عرب تجزیہ کار عصام الامین نے آن لائن میگزین کاؤنٹر پنچ پرچار جون (۲۰۱۰ئ) کو پیش کیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ تمام معاملات کا احاطہ کرلیا گیا ہے ۔اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمایئے:
عصام الامین لکھتے ہیں: ’’ ایک سال پہلے صدر بارک اوباما نے قاہرہ یونیورسٹی سے مسلم دنیا کو خطاب کیا۔ان کی تقریر فراخدلانہ، متواضع اور دوٹوک تھی اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔یہ تقریر اپنے الفاظ اور لہجے کے اعتبار سے سابق صدر بش کی کسی بھی اور کہیں بھی کی گئی تقریرسے نمایاں طور پر مختلف تھی۔ اوباما نے مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان پوری دنیا میں تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز کی ضرورت کا اظہار کیا۔انہوں نے پرزور انداز میں اعلان کیا کہ ’’اسلام امریکہ کاایک حصہ ہے‘‘ اور ’’امن کے فروغ کا اہم جزو ہے۔‘‘اس خطاب میں صدر نے اس بات پر زور دیا کہ کسی شخص کو اس کے عمل سے جانچا جانا چاہیے کیونکہ ’’تنہا الفاظ ہمارے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتے ۔‘‘


فاضل تجزیہ نگار کے بقول ’’ان میں سے کچھ وعدے جن کا تعلق پاکستان اور افغانستان کے لیے امداد سے تھا، وہ واقعتا کانگریس سے منظور ی حاصل کرچکے ہیں۔دوسرے وعدے جن کا اعلان انہوں نے عراق سے امریکی فوجوں کی مکمل واپسی یا مسلمان ملکوں کے ساتھ کاروبار، تجارت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کے حوالے سے کیا تھا، وہ مفروضہ طور پر زیر تکمیل ہیں۔


عصام الامین بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’لیکن دوران خطاب امریکی صدر نے اپنی پریشانی کا اظہارکرتے ہوئے شکایت کی کہ امریکہ کی پالیسیوں کو پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے غلط سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید مفاہمت اور قبولیت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’’ شکوک و شبہات اور تنازعات کے چکر کو لازماً ختم ہونا چاہیے۔‘‘ فاضل تجزیہ نگار کہتے ہیں :’’ اس لیے ان کے سب سے زیادہ پذیرائی پانے والے خطاب کی سالگرہ کے موقع پر دیکھا جانا چاہیے کہ اوباما نے اپنے انتہائی اہم اعلانات پر کہاں تک عمل درآمد کیا ہے؟‘‘


عصام الامین لکھتے ہیں:’’امریکی پالیسی سازوں کو دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل و دماغ جیتنے کی جنگ کے حوالے سے جو پریشانی لاحق ہے ، ایک حد تک اس کا جواب ذیل کے رپورٹ کارڈ میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ اس میں دس سیاسی وعدوں کی فہرست درج ہے جو اوباما نے دنیا کے سامنے کیے، ان میں سے نصف سے زائد براہ راست اسرائیل- فلسطین تنازع سے متعلق ہیں، یہ کارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی پالیسیوں نے ان کے الفاظ کی توثیق کی یا نہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک ایک وعدے کو صدراوباما کے اپنے الفاظ میں نقل کرکے اس پر عمل درآمد کی کیفیت کا جائزہ یوں پیش کیا ہے:

۱- گوانتا نامو بے کی بندش
اوباما کے الفاظ: ’’میں نے گوانتا نامو بے کی جیل کو اگلے سال کے اوائل میں بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘
کیفیت: وعدہ پورا نہیں ہوا۔
تبصرہ: کانگریس اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے بڑھتے ہوئے دباؤکی وجہ سے اوباما انتظامیہ پیچھے ہٹ گئی۔

۲-اسرائیلی بستیوں کی تعمیر
اوباما کے الفاظ: ’’یہ تعمیرات(اسرائیلی بستیاں)سابقہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور قیام امن کی کوششوں کے لیے تباہ کن ہیں،وقت آگیا ہے کہ ان بستیوں کی تعمیر روک دی جائے۔‘‘
کیفیت: کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ: پچھلے سال اوباما نے دوبار نیتن یاہو کا سامنا کیا اور دونوں بار امریکی صدر، اسرائیلی وزیر اعظم کے سامنے پلکیں جھپکاتے رہے۔

۳- غزہ کے محاصرے کا خاتمہ
اوباما کے الفاظ : ’’اسرائیل کولازمی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں جن میں فلسطینی زندہ رہ سکیں،کام کرسکیں اور اپنے معاشرے کو ترقی دے سکیں،اور جس طرح غزہ کے انسانی بحران کا جاری رہنا فلسطینیوں کے لیے تباہ کن ہے، اسی طرح یہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے بھی مفید نہیں۔‘‘


کیفیت: کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ: امریکی حکومت نے (غزہ کے انسانی بحران کو ختم کرنے کے بجائے)مصر-غزہ سرحد کے ساتھ ۶۰ فٹ گہری فولادی دیوار کی تعمیر کے لیے مالی وسائل فراہم کیے تاکہ غزہ کے محاصرے کو مزید سخت کیا جاسکے، اس کے علاوہ امریکہ نے حال ہی میں غزہ کے لیے بحری امدادی قافلے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل عام کے بعد اقوام متحدہ میں اسرائیل کی پشت پناہی کی۔

۴- انسانی حقوق اور گولڈ اسٹون رپورٹ
اوباما کے الفاظ : ’’اس چیز کو ہم بھی مسترد کرتے ہیں جسے ہر عقیدے کے لوگ مسترد کرتے ہیں، یعنی بے قصور مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل۔‘‘
کیفیت: کوئی عملی کارروائی نہیں ہوئی۔
تبصرہ: اگرچہ گولڈ اسٹون رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اورغزہ پر حملے کے دوران ۱۴۰۰ فلسطینیوںکو ( جن کی غالب تعداد سینکڑوں عورتوں اور بچوں سمیت جنگ نہ لڑنے والے شہریوں پر مشتمل تھی) قتل کردیا،اس کے باوجود اوباما انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور ہیومن رائٹس کمیشن سمیت تمام بین الاقوامی فورموں پر اسرائیل کا دفاع کیا۔
۵- فلسطینی انتخابات کے نتائج
اوباما کے الفاظ : ہم تمام منتخب اورپرامن حکومتوں کا خیرمقدم کریں گے،اور انہیں اپنے لوگوں کے معاملات باوقار طور پر چلانے کے لیے سہولت مہیا کریں گے۔
کیفیت: یقین دہانی پوری نہیں ہوئی۔
تبصرہ: اس یقین دہانی کے برعکس امریکہ غیرمنتخب فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرتا ہے جسے فلسطینی عوام پر مسلط کرنے میں امریکہ کا بھی حصہ ہے،نیز وہ اس کی سیکوریٹی فورسز کو (جنرل ڈے ٹن کے تحت) تربیت دینے اور مالی وسائل فراہم کرنے کا کام بھی کررہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فلسطینی اتھارٹی نے سینکڑوں افراد کو ٹارچر کیا ہے اورصرف گزشتہ ایک سال میں کوئی مقدمہ قائم کیے بغیر اپنے ایک ہزار سے زائد مخالفین کو قید میں ڈالاہے۔

۶-کوئی مخصوص نظام مسلط کرنا
اوباما کے الفاظ : ’’کسی قوم پر کسی دوسری قوم کی طرف سے حکومت کا کوئی مخصوص نظام مسلط نہیں کیا جاسکتا اور نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
کیفیت: وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
تبصرہ: اسرائیلی حکومت نے حماس کی حمایت پر مشتمل فلسطینی انتخابات کے نتائج کو پسند نہیں کیا، اور اس کے بعدغزہ کا محاصرہ کرکے مقامی آبادی کو سخت مشکلات سے دوچار کردیا، امریکہ اسرائیل کی جانب سے ان انتخابی نتائج کو غیرمؤثر بنانے کی کوششوں کی خاموش مفاہمت کے ساتھ حمایت اور دفاع کرتا چلا رہا ہے۔

۷- فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت
اوباما کے الفاظ : ’’ہم اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور عربوں سے برسرعام بھی وہی کہیں گے جو نجی طور پرکہتے ہیں۔‘‘
کیفیت: کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
تبصرہ: امریکی انتظامیہ برسرعام کہتی ہے کہ فلسطینی دھڑوں کا اختلاف قطعی طور پر فلسطینیوں کا اپنا معاملہ ہے،لیکن نجی طور پر اس نے حماس اور فتح کے درمیان ہر مفاہمت کو مسترد کیا اور اس میں رکاوٹ ڈالی ، غزہ کا محاصرہ جاری رکھنے کے لیے مصر پر دباؤ ڈالا،اور فتح کو دھمکی دی کہ اس نے حماس سے مفاہمت کی تواس کی ساری مالی امداد بند کردی جائے گی۔

۸- جوہری ہتھیار
اوباما کے الفاظ : ’’ کسی اکیلی قوم کو یہ فیصلہ ]اور اس کی بنیاد پر اقدام[ نہیں کرنا چاہیے کہ کون سی قومیں جوہری ہتھیار رکھتی ہیں۔‘‘
کیفیت: یقین دہانی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔
تبصرہ: ایران پر (جس نے این پی ٹی پر دستخط کررکھے ہیں) دباؤ ڈالا جاتا رہا اور اس کے خلاف سخت پابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی رہیں ] ان سطور کی اشاعت کے چند روز بعد سلامتی کونسل سے ایران پر نئی پابندیوں کی قرارداد منظور کرالی گئی[ جبکہ امریکہ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر اور اس کی جانب سے این پی ٹی پر دستخط سے انکار کو نظر انداز کرتا ہے۔

۹- ڈرون حملوں کا استعمال اور خودمختار اقوام کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہریوں کا قتل
اوباما کے الفاظ : ’’لہٰذا امریکہ اپنا دفاع، دوسری قوموں کی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے کرے گا۔‘‘
کیفیت: عمل نہیں ہوا۔
تبصرہ: شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ملکوں کے اعتراضات کے باوجود، اوباما حکومت کے تحت نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے تین گنا تک بڑھادیے گئے، بلکہ انہیں دوسرے ملکوں مثلاً یمن اور صومالیہ تک وسعت دے دی گئی۔ حتیٰ کہ اس پالیسی کے نتائج امریکی شہریوں کو قانونی کارروائی کے بغیر سزا دینے ( ٹارگٹ کلنگ ) کی کوششوں کی شکل میں رونما ہوئے۔ ]انڈر ویئر بمبار کے لقب سے شہرت پانے والے نائیجیرین نوجوان کی جانب اشارہ ہے ، اس واقعے کے بعد امریکی ایئرپورٹوں پر دنیا بھر کے مسلمان مسافروں کو کئی ماہ تک خاص قسم کے ا سکینروں کے ذریعے عریاں تلاشی کی ذلت سے گزرنا پڑا، تاہم شدید احتجاج کے بعد اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کردیا گیا [۔

۱۰- امریکہ میں مسلمانوں کے رفاہی اداروں کی بحالی
اوباما کے الفاظ : ’’امریکہ میں رفاہی مدات میں رقوم دینے کے قوانین نے مسلمانوں کے لیے اپنے دینی فرائض کی انجام دہی مشکل تر بنادی ہے۔چنانچہ میں امریکی مسلمانوں کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کا پابند ہوں کہ وہ زکوٰۃ ادا کرسکیں۔‘‘
کیفیت: وعدہ پورا نہیں ہوا۔
تبصرہ: بش دور میں بند کیا گیا کوئی مسلم رفاہی ادارہ نہ تو اب تک بحال کیا گیا ہے نہ ان اداروں کے اثاثے واپس کیے گئے ہیں۔حتیٰ کہ اس کے بجائے امریکی انتظامیہ نے بش کی جانب سے ریاست اوریگن میں ایک مسلم رفاہی ادارے کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطوں کی نگرانی کا دفاع کیا جبکہ فیڈرل جج نے اس مقدمے میں حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔اوباما حکومت اب تک بند کیے گئے رفاہی اداروں اور ان کے اہلکاروںکے خلاف غیرمنصفانہ کارروائیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کسی قابل اعتبار امریکی مسلمان گروپ سے رابطہ کرنے میں ناکام ہے۔

حتمی نتیجہ:
o کیے گئے وعدوں کی تعداد: ۱۰
o پورے کیے گئے وعدوں کی تعداد: صفر

قاہرہ خطاب میں صدر اوباما کی جانب سے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کامندرجہ بالا جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکی سربراہ دنیا میں مثبت اور خوشگوارتبدیلیوں خصوصاً مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر بنانے اور اس حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کی جن یقین دہانیوں کے ساتھ جون ۲۰۰۹ء کے اوائل میں قاہرہ میں جلوہ افروز ہوئے تھے، ان پر عمل کے حوالے سے ان کی کارکردگی مکمل طور پر مایوس کن ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے معاملے میں اپنی حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا خود صدراوباما نے بھی واضح لفظوں میں اعتراف کیا ہے۔ منصب صدارت کے ایک سال کی تکمیل پر ۲۱ جنوری ۲۰۱۰ء کو ٹائم میگزین کے سینئر رکن جوئے کلین کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا :
’’میں آپ کے ساتھ دیانت داری سے بات کروں گا۔یہ فی الحقیقت مشکل کام ہے۔جارج مچل جیسے شخص کے لیے بھی۔‘‘
امریکی صدر نے اسرائیل کی ضد کے حوالے سے اپنی اور اپنے ملک کی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا :
’’میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے میں اپنی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا جبکہ ان کی سیاست کا رخ اس کے برخلاف ہے۔میرے خیال میں یہ بات قطعی درست ہے کہ اس سال ہم نے جو کچھ کیا،اس سے اس طرح کا بریک تھرو نہیں ہوسکا جو ہم چاہتے تھے۔ اور اگر ہم دونوں طرف کی ان سیاسی مشکلات میں سے کچھ کا پہلے اندازہ لگالیتے تو اُمیدوںکو اتنی اونچی سطح تک نہ لے جاتے۔‘‘


امریکہ میں اسرائیلی لابی کتنی طاقتور ہے، اس کا ایک حالیہ مظاہرہ غزہ میں کئی سال سے محصور فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے جانے والی بحری قافلے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد دوتہائی امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے اسرائیل پر اس دکھاوے کی نکتہ چینی بھی بند کیے جانے کے تحریری مطالبے کی صورت میں ہوا جوامریکی انتظامیہ کی جانب سے بدرجہ مجبوری کی گئی تھی۔ ۲۰۰۹ء میں بھی ۳۲ امریکی سینٹروں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مبنی گولڈ اسٹون رپورٹ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچنے سے روکا جائے۔ان سینیٹروں سے وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے ایک خط میں یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ رپورٹ میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی جو سفارش کی گئی ہے، اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا جائے۔

عراق سے امریکی فوج کی واپسی

جہاں تک عراق سے امریکی فوج کی واپسی کے حوالے سے صدر اوباما کے وعدے کا تعلق ہے تو اگرچہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ ۱۹ اگست کو امریکہ کی لڑاکا فوج کا آخری دستہ بھی عراق سے چلا گیا ہے اور اکتیس دسمبر ۲۰۱۱ء تک باقی تمام فوج بھی عراق سے نکل جائے گی ، امریکی حکومت اور مین اسٹریم میڈیا کہہ رہا ہے کہ عراق کی جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن حقیقی صورت حال اس سے بہت مختلف ہے۔ ۱۹ اگست کے اخبارات میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا یہ اعلان موجود ہے کہ’’ عراق سے امریکی افواج کی واپسی امن و امان کی صورت حال سے مشروط ہے‘‘۔ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیاہے کہ ’’امریکی وزیر دفاع نے یہ بات واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ جیسے جیسے عراق کی صورت حال میں بہتری آئے گی،عراق سے امریکی فوج کی واپسی جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ عراق میں سیکوریٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے عراقی سیکوریٹی فورسز کو ذمہ داریاں دی جارہی ہیں۔تاہم عراق سے امریکی فوج کی واپسی کے وقت کا تعین عراق میں امن و امان کی صورت حال کو دیکھ کر کیا جائے گا۔‘‘


رابرٹ گیٹس سے بھی زیادہ غیرمبہم الفاظ میں عراق میں امریکی افواج کے سابق سالار اعلیٰ جنرل پیٹریاس نے، جو اب افغانستان میں اسی منصب پر کام کررہے ہیں، حقیقی صورت حال کی وضاحت کی ہے۔۱۹ اگست کو سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم عراق چھوڑ نہیں رہے ہیں۔وہاں پچاس ہزار امریکی فوج موجود ہے۔۔۔ اور وہ ہر قسم کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘ اس لیے عراق سے امریکی فوج کی واپسی اور امریکہ کی طر ف سے عراق کے حوالے سے اپنے ایجنڈے سے دستبرداری کا گمان رکھنا بے بنیاد خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔


عراق میں امریکہ کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے،یہ بات جوزف بائیڈن سے سنیے جو اَب صدر اوباما کے دست راست یعنی امریکہ کے نائب صدر ہیں۔ یکم مئی ۲۰۰۶ء کو نیویارک ٹائمز میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے سابق صدر لیزلی ایچ گلب کے اشتراک سے ’’عراق میں خود مختاری کے ذریعے اتحاد‘‘(یونٹی تھرو آٹو نومی اِن عراق) کے زیر عنوان شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ صدر بش عراق کو متحد رکھتے ہوئے وہاں امن و استحکام قائم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔اس لیے عراق کو خود مختار شیعہ، سنی اور کرد ریاستوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق میں تبدیل کردیا جانا چاہیے۔ مضمون میں اس حوالے سے بوسنیا کی مثال دی گئی ہے کہ وہاں نسلی بنیادوں پر جاری خانہ جنگی پر اسی طرح قابو پایا گیا ہے۔ مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ حل خلاف عقل نظرآتا ہے مگر عراق میں امن قائم کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں۱۔
یہی جوزف بائیڈن اب امریکہ کے نائب صدر ہیں اور ۲۰۰۶ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور بااختیار ہیں تو بھلا کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ اور امریکی انتظامیہ میں شامل ان کے ساتھی عراق کے معاملے میں اپنے ان عزائم سے دستبردار ہوگئے ہوں گے جبکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ماضی میں بہت دور تک پیوست ہیں۔


جوبائیڈن نے مئی ۲۰۰۶ء میں عراق کی تین حصوں میں تقسیم کی جو تجویز پیش کی، اس کے پس منظر سے ناواقف شخص محسوس کرسکتا ہے کہ عراق میں اس وقت جو شیعہ سنی فرقہ وارانہ خانہ جنگی شروع ہوچکی تھی، ملک کو خود مختارشیعہ ، سنی اور کرد ریاستوں میں تقسیم کردینے پر مبنی یہ تجویز واقعتا اسی کے تناظر میں پیش کی گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فروری ۲۰۰۶ء کے تیسرے ہفتے تک عراق کے شیعہ اور سنی عوام متحد ہوکر قابض افواج کی واپسی کی مہم اور مزاحمت کی تحریک چلارہے تھے۔ مبصرین کے مطابق عراق میں شیعہ سنی تصادم کا تصور بھی محال تھا کیونکہ صدیوں کے تعلقات اور باہمی شادیوں نے لاکھوں شیعہ سنی خاندانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا تھا۔ تاہم ریکارڈ پر موجود شواہد سے عیاں ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے انہیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی پے درپے خفیہ کوششیں کیں اور بالآخر ۲۲ فروری ۲۰۰۶ء کو سامراء کی مسجد عسکری میں بم دھماکا کرکے، جس کے نتیجے میں دو شیعہ ائمہ کرام کے مزارات کو بھی نقصان پہنچا، شیعہ آبادی کو سنیوں کے خلاف اس طرح مشتعل کردیا گیا کہ اس واردات کے بعد چوبیس گھنٹوں میں سینکڑوں سنی مساجد اور سنی مسلمان شہید کردیے گئے اور پورے ملک میں فرقہ وارانہ جنگ کی آگ اس طرح بھڑک اٹھی کہ پھر اسے بجھانے کی کوئی کوشش کا میاب نہیں ہوسکی ۔گویا مئی کے مہینے میں جوبائیڈن نے اپنے مضمون میں عراق کی تقسیم کا جواز جس صورت حال کو بنایا اسے محض تین ماہ پہلے پیدا بھی امریکی ایجنسیوں ہی نے کیا تھا۔


مزید چشم کشا حقیقت یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز کے محولہ بالا مضمون میں ان کے شریک قلم کارلیزلی ایچ گلب، عراق کی تقسیم کی یہ تجویز عراق پر امریکی حملے اور قبضے کے محض چند ماہ بعد نومبر ۲۰۰۳ء ہی میں پیش کرچکے تھے حالانکہ اس وقت پوری عراقی قوم متحد ہوکر قابض فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کررہی تھی اور شیعہ سنی محاذ آرائی کے بجائے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی تھی۔لیزلی ایچ گلب نے امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے صدر کی حیثیت سے ۲۵نومبر ۲۰۰۳ء کو نیویارک ٹائمز میں ’’تھری اسٹیٹ سلوشن‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے ایک تجزیے میں عراق کی صورت حال پر امریکی مفادات کے نقطہ نظر سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ان حالات میں ایک ہی قابل عمل حکمت عملی ہے اور وہ ہے عراق کے تاریخی نقص کی اصلاح،اس کے لیے تین ریاستوں پر مشتمل حل کی طرف بڑھنا ہوگا، یعنی شمال میں کرد، مرکز میں سنی اور جنوب میں شیعہ۔‘‘ اور ’’ان حالات‘‘ سے ان کی مراد امریکی قبضے کے خلاف عراقی عوام کی مشترکہ مزاحمت تھی جس پر قابو پانا امریکہ کے لیے مشکل نظر آرہا تھا۲۔


جوزف بائیڈن کی نیک نیتی کی حقیقت لیزلی ایچ گلب کے اس مضمون کے مندرجات سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ تاہم عراق کی توڑ پھوڑ کا یہ منصوبہ فی الحقیقت اس سے بھی کہیں پرانا ہے جس کے پیچھے عالمی صہیونیت ہے اور مشترکہ مفادات کی بناء پر امریکہ اس کی تکمیل کے لیے پورا تعاون کررہا ہے۔ فروری ۱۹۸۲ء میںاسرائیلی وزارت خارجہ سے وابستگی رکھنے والے تجزیہ کار اورصحافی اودد یینن (Oded Yinon)نے مسلم دنیا کے لیے صہیونیت کے توسیع پسندانہ عزائم کا بھرپور اظہار ’’انیس سواسّی کی دہائی میں اسرائیل کے لیے ایک حکمت عملی‘‘ (A Strategy for Israel in the Ninteen Eighties)کے عنوان سے تیار کی گئی دستاویز میں کیا تھا۔اس منصوبے میں عرب اور مسلم ملکوں کی مزید تقسیم کی ضرورت اور عزم کا اظہار کیا گیا تھا اور اس عمل کا آغاز عراق کی تین ملکوںمیں تقسیم سے کرنے کی تجویز دی گئی تھی جبکہ امریکہ حیرت انگیز طور پر ۱۹۹۱ء کی جنگ خلیج سے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ عراق کے بارے میں صہیونی- امریکی ایجنڈے کے اس پس منظر سے آگاہی رکھنے والا کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوسکتا کہ اوباما دور میں اس ایجنڈے کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا جبکہ عراق کی تقسیم کے جوزف بائیڈن جیسے علم بردار صدر اوباما کے دست راست ہیں۔

افغانستان اور صدر اوباما

ریکارڈ پر موجود یقینی شواہد کے مطابق فی الحقیقت کیسپین کے تیل کے ذخائر تک رسائی کی خاطر شروع کی گئی افغانستان کی جنگ کو قطعی جائز اور امریکہ کی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دینے میں بارک اوباما ، اپنی انتخابی مہم کے دوران اور الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے پیش رو اور افغان جنگ شروع کرنے والے جارج بش سے بھی آگے رہے۔ ان کا موقف تھا کہ عراق کی جنگ تو غلط تھی مگر افغانستان پر امریکی حملہ بالکل درست تھا اور اس کارروائی کو مکمل فتح تک پہنچنا چاہیے۔صدر بننے کے بعد بارک اوباما نے بالکل غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ان امریکی دعووں کو دہرایا کہ اگر طالبان حکومت ، نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کے مطالبے کے مطابق اسامہ بن لادن کو مقدمہ چلانے کے لیے حوالے کرنے پر تیار ہوجاتے تو امریکہ افغانستان پر حملہ نہ کرتا جبکہ خبروں پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ طالبان حکومت نے امریکہ کو ایک سے زائد بار کھلی پیش کش کی تھی کہ اگر وہ نائن الیون حملوں میں القاعدہ یا بن لادن کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت مہیا کردے توبن لادن کو کسی قابل اعتماد بین الاقوامی عدالت کے حوالے کردیا جائے گا تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ صدر اوباما نے یہ غلط بیانی یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں بھی کی جبکہ متعدد مغربی تجزیہ کاروں نے فوری طور پر اپنی تحریروں میں اصل حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان حکومت نے کم از کم تین بار جرم کا ثبوت مہیا کیے جانے پر بن لادن کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کرنے کی پیش کش کی تھی۔ طالبان کی ان پیش کشوں کی تفصیل برطانوی جریدے گارڈین نے بھی ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو اپنی آن لائن اشاعت میں دی تھی۳۔


اس طرح افغان جنگ کے جائز ہونے کے دعووں کے ساتھ یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کی اس پالیسی تقریر میں اوباما نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے مشترکہ سربراہ جنرل مک کرسٹل کے مطالبے کے مطابق تیس ہزار مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجنے تاہم جولائی ۲۰۱۱ء سے امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی بھی شروع کردینے کا اعلان کیا جبکہ پاکستان کو القاعدہ اور طالبان کی محفوظ پناہ گاہ قرار دیتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے امریکہ کی معاونت سے کی جانے والی حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا اور تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔


اس پالیسی کے اعلان کے بعد جسے افپاک پالیسی کا نام دیا گیا، تیس ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیج دیے گئے۔اس کے بعد مرجا ہ نامی قصبے میں طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن اس دعوے کے ساتھ شروع کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں طالبان کی کمر ٹوٹ جائے گی تاہم یہ کارروائی مکمل طور پر ناکام رہی۔چنانچہ مرجاہ کے بعد قندھار میں طالبان کے خلاف جس فیصلہ کن کارروائی کی تیاریوں کا شور تھا ، اس کی نوبت ہی نہیں آسکی جبکہ جنرل اسٹین لے مک کرسٹل صدر اوباما سمیت اپنے ملک کی سیاسی قیادت پر نکتہ چینی کے جرم میں برطرف کردیے گئے اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے ان کی جگہ لے لی۔ تاہم غیور افغانوں کی سخت جان مزاحمت کو کمزور کرنے میں امریکہ اور اس کے اتحاد ی نوسال میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اس لیے واپسی کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں طالبان قیادت سے بات چیت بھی شامل ہے مگر طالبان قیادت اس موقف پر جمی ہوئی ہے کہ جب تک بیرونی فوجوں کی واپسی کا اعلان نہیں کیا جاتا اور اس پر عمل کی یقینی ضمانت نہیں دی جاتی، اس وقت تک کوئی بات نہیں ہوسکتی۔


طالبان کے اس مضبوط موقف نے امریکہ کو سخت مشکل صورت حال سے دوچار کررکھا ہے۔ افغان جنگ نے اس کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں اور ایسی صورت میں جب کامیابی کی کوئی امید دور دور نظر نہیں آتی، افغان جنگ کا مزید جاری رہنا ، امریکہ کے شہریوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور جنگ کے مخالفین نہ صرف اب اکثریت میں ہیں بلکہ ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کا پتہ وقتاً فوقتاً منظر عام پر آنے والے رائے عامہ کے جائزوں سے چلتا ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکومت کے لیے فوجوں کی واپسی بارک اوباما کے طے شدہ پروگرام کے مطابق مشکل ہے کیونکہ امریکی مفادات کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ بنائے بغیر فوجوں کا واپس بلالینا مکمل خسارے کا سودا ہوگا اور یہ ایسی کڑوی گولی ہے جسے نگلنے سے گریز کی ہر ممکن کوشش موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے عین متوقع ہے۔چنانچہ اگست کے وسط میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے درمیان اختلاف منظر عام پر آچکا ہے۔ ۱۶ اگست ۲۰۱۰ء کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ایک طرف امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے ایک امریکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی ۲۰۱۱ء افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے آغاز کی حتمی تاریخ ہے اور سب کے ذہنوں میں یہ بات واضح رہنی چاہیے۔جبکہ دوسری طرف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے جب پوچھا گیا کہ کیا زمینی حقائق کی وجہ سے انخلاء میں تاخیر ہوسکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یقینا ایسا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر واضح کرچکے ہیں کہ انخلاء ایک عمل کا نام ہے کسی وقوعے کا نہیں اور اس کا انحصار صورت حال پر ہوگا۔


ان تفصیلات سے واضح ہے کہ افغانستان کی جنگ کے حوالے سے نہ تو صدر اوباما اپنی اولین اور اصل پالیسی یعنی مکمل فتح کے حصول میں کامیاب ہورہے ہیں اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کے لیے فوجوں کی واپسی کا کوئی حتمی شیڈول دینا ان کے لیے ممکن ہے اور اس دلدل میں امریکہ کو مزید پھنسا دینے کے بعد ان کے لیے جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی کیفیت ہے۔

صدر اوباما اور ایران

اپنے قاہرہ خطاب میں صدر اوباما نے تسلیم کیا تھا کہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے حصول کا حق ایران سمیت دنیا کے تمام ملکوں کو حاصل ہے۔ اس سے پہلے ۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء کو ایران کے جشن نوروز کے موقع پر انہوں نے ایرانی عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ رابطوں کا نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہے ۔ اور ان کی حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔بارک اوباما کا کہنا تھا کہ وہ ایرانی عوام اور حکومت سے براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔اور ان کی حکومت نے ایران سے مثبت روابط قائم کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔اس پیغام مزید کہا گیا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کو عالمی برادری میں اس کا جائز مقام حاصل ہو، ایران کو یہ حق حاصل ہے مگر یہ حق ذمہ داریوں کے بغیر نہیں ملے گا۔


اس کے باوجود بارک اوباما کے دور میں بھی ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے کام ہوتا رہا، حتیٰ کہ ترکی اورا یران کے درمیان سلامتی کونسل کے امریکہ سمیت پانچ مستقل ارکان کی تجویز کے مطابق مئی کے مہینے میں یہ معاہدہ ہوجانے کے بعدبھی--کہ ایران بارہ سو کلوگرام کم افزودہ یورینیم ترکی کو بھیج کر اس کے بدلے ایک سو بیس کلوگرام بیس فی صد افزودہ یورینیم میڈیکل آئسوٹوپس کی تیاری کے لیے حاصل کرے گا-- امریکہ کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ترکی- ایران معاہدے کاخود امریکہ کی جانب سے بھی بادل ناخواستہ خیرمقدم کیا گیا مگر جون میں ایران کے خلاف سلامتی کونسل سے نئی پابندیوں کی قرارداد بھی منظور کرالی گئی جبکہ اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں سے اوباما کے دور میں بھی سابق ادوار کی طرح مکمل چشم پوشی کی روش جاری ہے۔


اس سے واضح ہے کہ ایران کے ساتھ مثبت روابط اور بات چیت کے ذریعے اختلافات کے حل کی جوباتیں صدر اوباما نے کی تھیں وہ سب بھی نقش برآب ثابت ہوئی ہیں۔

صدر اوباما اور پاکستان

قاہرہ خطاب میں صدر اوباما نے قوموں اور ملکوں کی خودمختاری کے احترام کی جو یقین دہانیاں اپنی حکومت کی جانب سے کرائی تھیں ، پاکستان کے معاملات میں حددرجہ مداخلت اور ڈرون حملوں کی تعداد میں کم و بیش تین گنا اضافے کے ذریعے ان یقین دہانیوں کو بری طرح پامال کرنے کا سلسلہ حسب سابق جاری ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعاون کے جو وعدے کیے تھے ، اس کے باوجود خطے میں ان کی حکومت کی ساری پالیسیاں صرف امریکی مفادات کے مطابق تشکیل دی جارہی ہیں اور ڈرا دھمکا کر پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد کی خاطر امریکی مفادات کے تحفظ سے صرف نظر نہ کرے۔پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے کسی ثبوت کے بغیر ہیلری کلنٹن، رچرڈ ہالبروک اور مائیکل مولن سب کی جانب سے مسلسل یہ دعوے کیے گئے ہیں کہ اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی قیادت پاکستان میں ہے اور پاکستان کے بااختیار حلقے اس سے واقف ہیں۔ ایڈمرل مولن نے گارڈین کے مطابق صاف لفطوں میں کہا کہ ’’امریکہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے توقع رکھتا ہے کہ وہ امریکہ کی سلامتی کے مفادات کا لحاظ رکھے۔‘‘


تبدیلی کے نعروں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھانے سے قبل مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکہ کی جانب سے مؤثر کردار کی ادائیگی کی ضرورت کا واضح اظہار کیا تھا۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان یکسوئی سے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کرسکے ۔منتخب ہونے کے بعدانہوں نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو اس مقصد کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ تاہم حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اس سمت میں کوئی پیش رفت کرنے کے بجائے صاف کہہ دیا کہ یہ معاملہ بھارت اور پاکستان کو خود ہی حل کرنا چاہیے۔کشمیر میں جاری مظالم پراوباما انتظامیہ کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے ۲ اگست کو ایک نیوز کانفرنس میں امریکی کانگریس کے رکن جوئے پٹس اور اس موقع پر موجود دیگر امریکی رہنماؤں نے اس صورت حال کو امریکہ کے لیے شرمناک قرار دیا ہے۔


ان کھلے حقائق کی موجودگی میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کی جانب سے مثبت اور خوشگوار تعلقات کے نئے دور کے آغاز کی جو نوید صدر اوباما نے سنائی تھی وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ تھی اور ان کی قاہرہ تقریر، امریکن یونیورسٹی قاہرہ میں سیاسیات کے استاد، پروفیسر مصطفی کامل السید کے بقول ’’تعلقات عامہ کی محض ایک عمدہ مشق ‘‘تھی۔(الاہرام، ہفتہ وارآن لائن انگریزی ایڈیشن، تین تا نو جون ۲۰۱۰ئ)۔ یہی وجہ ہے کہ قاہرہ خطاب کے بعد مسلم دنیا میں صدر اوباما کی مقبولیت جس تیزی سے بڑھی تھی، رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اب اس میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور امیدیں مایوسی میں بدل چکی ہیں۔
۱۔ http://www.nytimes.com/2006/05/01/opinion/01biden.html
-۲۔ http://www.nytimes.com/2003/11/25/opinion/25GELB.html
 

موجو

لائبریرین
مشرقِ وسطیٰ ۔ یورپی تناظر میں

تاریخی تناظر
یورپ کےمشرقِ وسطیٰ کےساتھ تعلقات تاریخ کا حصہ ہیں۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوکہ جس عیسائی مذہب کےساتھ اہلِ یورپ کی وابستگی ہےاور جس نےان کےذہنوں کو مسخر اور زندگی کو اپنےحلقۂ اثر میں لےرکھا ہے، اس کا ظہور مشرقِ وسطیٰ میں ہی ہوا تھا۔ عیسائیت کی حیثیت بھی ایک مذہبی فرقہ سےزیادہ نہ تھی جو افلاطونیت (Platonism)، مانویت (Manichaeism)، زرتشتی فکر (Zoroastrianism)، آفتاب پرستی (Mithraism)، یہودیت اورنوافلاطونیت (Neo-platonism) کی طرح مشرقی بحیرۂ روم سےیورپ میں درآیا تھا۔ درحقیقت عیسائیت کےچند مخصوص اوصاف مثلاًتثلیث کا عقیدہ، پوپ کا منصب اورکرسمس کا مخصوص دن وغیرہ سب مشرقِ وسطیٰ کےمذاہب سےلیےگئےہیں۔ مثلاً قدیم روما کےہاں متبرک ثلاثہ کا تصور، مذہبی رہنماؤں کےسربراہ پونٹی فیکس میکسی مس یا بڑےپادری کا عہدہ (جسےآج کل پوپ کہا جاتا ہے) اور روما کےہاں جشنِ زحل جو دسمبر میں منایا جاتا تھا اور جسےآج کل کرسمس کہا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ عیسائیت نےمشرقِ وسطیٰ کےمذہبی ماحول میں ہی جڑیں پکڑیں اورفروغ حاصل کیا۔

یہ رائےقائم نہیں کی جا سکتی کہ اہلِ یورپ اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتےہیں۔ تاہم کیتھولک چرچ کی نسبت پروٹسٹنٹ چرچ کےیورپی عیسائیوں کو مسلسل یہ یاددِہانی کروائی جاتی ہےکہ ان کےمذہب کےبانی نےمشرقِ وسطیٰ کےایک یہودی گھرانےمیں انکھ کھولی تھی اور یہ کہ ان کی کتابِ مقدس ’بائبل‘ کےزیادہ تر حصےکےمخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ بائبل کےعہد نامۂ قدیم اور زبور کےحمدیہ گیت ہی ہیں جو عیسائیوں کی عبادت کا حصہ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہےکہ بائبل کی یہودی، کیتھولک، آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ اشاعتوں کےمتن میں فرق ہے۔ اس سب کےباوجود بائبل کی یہ اشاعتیں ایک ایسےمضبوط ذریعےکی شکل میں موجود ہیں جنہوں نےیورپی عیسائیوں کا تعلق اُس علاقےسےجوڑرکھا ہےجہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئےاور ان کےعقیدےکےمطابق مصلوب ہوئے۔ یہی وجہ ہےکہ آج بھی یورپ کےبہت سےمذہبی عقیدت مند یروشلم کےساتھ جذباتی وابستگی رکھتےہیں۔

قرونِ وسطیٰ میں یہ عقیدت اتنی غالب تھی کہ ہزاروں نوجوان حتیٰ کہ بچےبھی مقدس مقامات کو مسلمان حکمرانوں کےقبضےسےآزاد کروانےکےلیےنکل پڑے۔ وہ پُر عزم تھےکہ یہ مقدس لڑائی انہیں جیتنی ہے، چاہےاس کےلیےان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

۱۰۹۵ء سے۱۲۹۱ء تک تقریباً دو صدیوں پر محیط اس دور میں پوپ اربن دوم کےتحریک اور ولولہ دلانےپر کم از کم۹ صلیبی جنگیں ہوئیں، جن میں یورپ کےمشہورجانباز سردار(knights) حتیٰ کہ فرانس کےلوئس نہم(۵۴۔ ۱۲۴۸ '۱۲۷۰)اورانگلینڈ کےرچرڈ شیردل(۹۲۔ ۱۱۸۹)جیسےبادشاہ مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جانےوالی ان جنگوں کےلیےیہاں پہنچےاورصلیبی ریاستوں کی بنیاد بھی رکھ دی۔ انہیں بالآخر صلاح الدین ایوبی نےارضِ فلسطین سےنکال باہر کیا۔ (صلاح الدین ایوبی کی اس فتح کا اثر اس وقت زائل کیا جا سکا جب گزشتہ صدی میں استعماریت کےہتھکنڈوں اور یہودی آباد کاری کےذریعےاسرائیل کویہاں قبضہ دلایا گیا۔ )

مسلمان حکمرانوں کےلیےیہ صلیبی جنگیں ایک ضمنی تماشےسےزیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں، جوکہ مسلمانوں کےدو اہم ہم عصر تہذیبی مراکز بغداد اور قرطبہ سےکوسوں میل دور لڑی جا رہی تھیں۔ لیکن یورپ پر ان جنگوں کےاثرات بڑےگہرےاور دور رَس ثابت ہوئے۔ ان پر نہ صرف خوف کی ایک کیفیت طاری رہی جو بالآخرہنٹنگٹن کےاسلام سےخائف ہونےکا اظہاربنی، دوسری طرف انہوں نےاس سےاپنےلیےمثبت نتائج پیدا کرنےکی منصوبہ بندی بھی کی۔ مشرق میں کی جانےوالی اس جنگی مہم جوئی نےیورپی ثقافت پر ان گنت اثرات مرتب کیے۔ ان اثرات نےیورپی ادب، ریاضی، ٹیکنالوجی اور ایجادات میں قوتِ محرکہ کا کام کیا اورشجاعت و بہادری کےنئےاُفق وا ہوئے۔ حتیٰ کہ تجارتی میدانوں میں بھی دونوں اطراف کا نفع بڑا نمایاں تھا۔ وینس نےمشرقی بحیرۂ روم کےسواحل پر واقع ممالک کےساتھ تجارت میں بڑا فائدہ اُٹھایا۔

اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیےکہ جب چھٹی صلیبی جنگ اختتام پذیر ہوئی تو اہلِ یورپ نےمشرق کےپُرامن اورخیر سگالی دورےکرنا شروع کر دیےتھے۔ صلیبی جنگی جہاز پر اسی طرح کا ایک دورہ اسیسی کےسینٹ فرانسس (-۱۲۱۹۲۰ء) اور پوپ کےدباؤ پر چھٹی صلیبی جنگ میں حصہ لینےوالےجرمن بادشاہ فریڈرک دوم (-۱۲۲۸۲۹ء)نےمصر کا کیا۔ اس دورےکو عالمگیریت کی پہلی مثال قرار دیا جا سکتا ہے، جب دو حریف ثقافتیں ایک دوسرےپر اپنےاثرات مرتب کرنےکی ابتداء کر رہی تھیں۔ اس واقعےکےبعد مغرب کبھی بھی پہلےکی طرح مسلم تہذیب سےالگ تھلگ نہ رہا۔

اندلس اور سسلی میں مسلم ثقافت اسی طرح کےمضبوط اور پر تاثیر اثرات یورپ پر مرتب کر رہی تھی۔ اس حقیقت سےانکار ممکن نہیں کہ سپین آج کی تاریخ تک بھی عیسائیوں سےزیادہ طویل عرصہ مسلمانوں کےپاس رہا ہے، کیونکہ اندلس پر مسلمانوں کا دورِ حکومت۷۳۶برسوں پر مشتمل ہے۔ یعنی بنو اُمیہ کے۷۵۶ء تا۱۰۸۶ء، المرابطون کے۱۰۸۶ء تا۱۱۵۷ء، المواحدون کے۱۱۵۷ء تا۱۲۳۷ء اور قرطبہ پر بنو نصرکے۱۲۳۷ء تا۱۴۹۲ء۔

مسلمانوں کےاس دورِ حکومت میں یورپ نےزیادہ تر طلیطلہ کےراستےسےمسلم آرٹس اور سائنس میں بہت کچھ سیکھا (سوائےمذہبیات کے)۔ زراعت میں بادام اور زیتون کا پھل یہاں سےپہنچا، جبکہ ہوائی چکی کا تصور یورپ نےیہاں سےہی لیا تھا۔ علم الاعداد میں یورپ نےبےڈھنگےرومن ہندسوں کی جگہ عربی اعداد کو اپنایا۔ فلسفےاور علم الادویات میں تو کیا کہنا، کہ پُروقار اور شاندار طرزِ زندگی کا تصور ہی یہاں سےپہنچا۔

ابنِ سینا کی کتاب ’’قانون‘‘ یورپ میں اٹھارویں صدی عیسوی تک میڈیکل ٹیکسٹ بک کےطور پر پڑھائی جاتی رہی۔ ابن رشد نےارسطو کی فلسفےپر لکھی گئی کتاب کی جو تشریح کی تھی اس نےپیرس کی یونیورسٹی میں ہلچل مچائےرکھی۔ اسی کی مدد سےسینٹ تھامس اقیناس نےمتکلمانہ تعلیم (Scholesticism) کا طریقۂ تدریس متعارف کروایا تھا۔

مشرقِ وسطیٰ کا مذہب ’اسلام‘ ایک دفعہ پھر اٹھارویں صدی عیسوی میں اس وقت یورپ پر اثر انداز ہوتا ہوا نظر آیا جب خدا یا ہستیٔ برتر کےوجود کےاقرار کےساتھ فطرت و استدلال کی بصیرت پر عقیدےکی بنیاد رکھنےوالےیورپی مفکرین نےاس نظریے(Deist) کا پرچار کیا کہ خالقِ کائنات تو ہےلیکن کاروبارِ کائنات میں حصہ نہیں لیتا۔ روشن خیالی کےاس فلسفےکی نمایاں نمائندگی کرنےوالےمفکرین میں امانوئیل کانت (۱۷۲۴ء - ۱۸۰۴ء)، والٹیئر (۱۶۹۴ء - ۱۷۷۸ء)، بروشیا کےفریڈرک دوم (-۱۷۸۶۱۷۱۲ء)، جوحان والف گینگ وان گوئٹے(۱۷۴۹ء - ۱۸۳۲ء) اور گوتھ ہولڈ افرائم لیسنگ (-۱۷۸۱۱۷۲۹ء) شامل تھے۔ ان سب نےکیتھولک یا پروٹسٹنٹ ہر دو چرچوں کےاختیارات کےخلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ انہوں نےمتعصب پادریوں کو ایک ایسےفرقےکےطور پر مثال بنا کر پیش کیا جو جہالت اور بےعلمی کےگڑھےمیںگرےہوئےتھے۔ یہ تمام مفکرین اسلام سےمتاثر تھے، خصوصاً اس کےبےلاگ عقیدۂ توحید، تثلیث اور اوتار کےعقیدےکامکمل رد، اہل کلیسا کےحق استثناء سےانکار نیز بپتسمہ، ناکتخدائی اور تجرد کی زندگی جیسےعوامل سےمکمل انکار اور عقل پر مبنی قرآنی رویہ کےاوصاف سےبےانتہا متأثر تھے۔

نپولین کےخلاف لڑی جانےوالی جنگوں میںگوئٹےنےوائیمر کےمقام پر زار کےمسلمان سپاہیوں کو نماز ادا کرتےدیکھا تھا۔ اس نے۱۷۷۲ء میںڈیوڈ فریڈرک میگرلین کےجرمن زبان میں قرآن کےترجمےکو بھی پڑھا تھا۔ یہ ترجمہ انتہائی ابتدائی تراجمِ قرآن میں سےتھا اور اسے’’ترک بائبل‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ گوئٹےنے۱۴ ویں اور ۱۵ ویں صدی کےایرانی صوفی شاعر حافظ شیرازی کی شاعری سےمتأثر ہوکر مذہبی شاعری بھی کی تھی۔

دوسری طرف جرمنی کےمشہور ڈرامہ نگار گوتھ ہولڈ لیسنگ نےاپنےڈرامےNathan and Wise میں مسلمان کرداروں کو مثبت شکل میں پیش کر کےسب کو ششدر کر دیا تھا۔ اسےاس بات سےتو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ مسلمان ہوجائےلیکن وہ اپنےدور میں زوال پذیر ہوتی عیسائیت کےخلاف اسلام کی کسی بھی اثر پذیری کو روکےرکھنا چاہتا تھا۔

اس کےبعد ۱۹ ویں صدی میں یورپ ملحدانہ طرزِ فکر کی طرف مائل رہا۔ جن مفکرین نےاس سوچ کو ہوا دی، ان میں لڈوِگ، فیوربیگ، کارل مارکس، چارلس ڈارون اور فریڈرک نطشےشامل ہیں۔ اس صدی میں یورپ نےاپنی استعماری پالیسی کےباعث مشرقِ وسطیٰ کو ایک شکار گاہ بنائےرکھا۔ اس خطےمیں موجود استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس نےلیگ آف نیشنز سےتوثیق کروا کر علاقےکو اپنےدرمیان تقسیم کر لیا اور اس کا معاشی استحصال شروع کر دیا۔

اہلِ یورپ نےاستشراقی مطالعےمیں اپنی نسلی برتری کو بڑا نمایاں کر کےپیش کیا۔ وہ عربوں کےساتھ بچوں کا سا برتاؤکرتےہوئےانہیں اپنےقبضےکےخیر خواہانہ پہلو سمجھا رہےتھےکہ اس میں مقامی لوگوں کےفائدےہی فائدےہیں۔

اس سارےعمل میں یورپ کےسیاستدانوں، سائنسدانوں، تاجروں، فوجیوں اورمشنری مبلغوں نےمشرق وسطیٰ کےبارےمیں بہت کچھ جانا۔ لیکن ۔ بہت کم سمجھا۔ وہ خود مادہ پرست اور لا ادری (خدا کےبارےمیں تشکیک میں مبتلا ) تھے، اس لیےاس خطےمیں نہ تو مذہب کی اہمیت کا ادراک کرسکےاور نہ انہیں یہ سمجھ آ سکا کہ اسلام کا سماجی کردار یہاں پر کتنا مضبوط ہے۔ لاعلمی کی اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نےایک بالکل غلط اور غیر منصفانہ اندازِ فکر کو اپنالیا اور ان کےنزدیک مسئلہ فلسطین کا آسان حل یہ تجویز ہو گیا کہ خطےکو ’’زمین کےبغیر لوگوں‘‘ کی خاطر ’’لوگوں کےبغیر زمین‘‘ بنادیا جائے۔

جب فلسطینیوں نےصیہونی قبضےکےخلاف مزاحمت شروع کی اور بڑی تعداد میں پناہ گزیں یورپی ممالک میں جاپہنچےتو مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق یورپ کےنقطئہ نظر میں پھر سےتبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اب یورپی ممالک اس خطےکےمعاملات میںگھرتےچلےجا رہےتھےاور دونوں فریقوں میں سےکسی ایک کا ساتھ دینا ان کی مجبوری بنتی جا رہی تھی۔ اس کےنتیجےمیں حکومتوں کو اپنی آبادی میں پھوٹ، اختلاف اور مناقشت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔

یورپی ممالک کی حکومتیں عمومی طور پر اور جرمن حکومت بالخصوص اپنےتاریخی پس منظر کےباعث اسرائیل کی حمایت پر گامزن رہتی ہیں جبکہ عوام صیہونی سفاکی کا بچشم خود مشاہدہ کرنےاور علم اور سوچ کےلحاظ سےبالغ نظر ہوجانےکےباعث مظلوم فلسطینیوں کی طرف داری کر رہےہوتےہیں۔

اس پس منظر کو سامنےرکھا جائےتو یہ صاف نظر آتا ہےکہ یورپ کا رویہ امریکی رویےکےخلاف ہےجس میں اسرائیل کی حمایت کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں رہی۔ اسرائیل برا کرےیا بھلا، امریکہ کی بلا سے۔ اس کا بھائی چارہ اسرائیل کےساتھ ہی ہے۔ اس رویےنےامریکہ کو سیاسی، فوجی اور معاشی میدان میں اسرائیل کا غیر مشروط حلیف بنادیا ہے۔ اس اندھی حمایت کےپیچھےطاقت ور یہودی لابی اور اس کی میڈیا میں موجود گی کےساتھ ساتھ انتہا پسندانہ نظریات رکھنےوالےان پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا بھی بہت اہم کردار ہےجو امریکہ میں ہی پیدا ہوئےہیں۔ اُن کےنزدیک وہ جو کچھ بائبل میں پڑھتےہیں سب واہیات ہے۔ ہاں انہیں یہ یقین ہےکہ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کا مکمل طور پر انحصار اس بات پر ہےکہ (غیر عیسائی) اسرائیلی فلسطین میں پہلےکی طرح دوبارہ سےمضبوط ہوجائیں۔

یہ اسی کا نتیجہ ہےکہ اہل یورپ اور امریکی۱۱ ستمبر کےحملوں کی مختلف انداز سےتوضیح کرتےنظر آتےہیں۔ امریکیوں نےاس واقعہ کا کوئی بھی تجزیہ کرنےسےانکار کرتےہوئےاس پر صرف اور صرف برائی کا ٹھپہ لگا دیا۔ انہوں نےکسی بھی جواب کا انتظار کیےبغیر بس ایک ہی دہائی ڈالےرکھی کہ ’’یہ لوگ (مسلمان) ہم سےنفرت کیوں کرتےہیں؟‘‘

اس کےبرعکس یورپ کےلوگ باوجودیکہ ۱۱ ستمبر کو ہونےوالےنقصان پر امریکہ کےساتھ دکھ کا اظہار کر رہےتھے، لیکن انہوں نےفوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ امریکہ کو اپنےساحلوں سےدور مشرق وسطیٰ میں کسی دوسرےکی جنگ میں متحرک فریق کا کردار ادا کرنےکی وجہ سےنشانہ بنایا گیا ہے۔

امریکہ کےفوجی نقطۂ نظر کےبرعکس مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق یورپ کی سوچ سیاسی، یہودی مداخلت سےکافی حد تک پاک اور علاقےسےمتعلق بہت بہتر اور مؤثر معلومات پر مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ ہےکہ یورپ میں رہنےوالےفلسطینی اپنےمؤقف کو اُجاگر کرنےمیں اس لیاقت اور قابلیت کا مظاہرہ نہیں کرپائےجس طرح امریکہ میں انہوں نےکیا ہے۔ یہاں پر شائد ہی کوئی ایسا کالج یا گریجویٹ سکول ہوجہاں فلسطینی پروفیسر موجود نہ ہوں اور فلسطینی طلبہ مسلمان طلبہ کی تنظیموں کےپلیٹ فارم سےفعال کردار ادا نہ کر رہےہوں۔ جس طرح یہودیوں نےستم رسیدہ بن کر پوری دنیا میں بکھر جانےکےبعد تعلیم کےمیدان میں غیر معمولی قابلیت حاصل کر لی تھی، اسی طرح اب اسرائیل کےہاتھوں ستم رسیدگی کا شکار ہوکر فلسطینی بھی دنیا بھر میں جرأت اور دلیری کےساتھ ساتھ تعلیم میں بھی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہےہیں۔

یورپ کےاندر بڑی تعداد میں آکر بس جانےوالےمسلمان مہمان کارکن (guest workers) مہاجر فلسطینیوں کےلیےایک اثاثہ ثابت ہو سکتےہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر البانیہ، الجیریا، افغانستان، بوسنیا، مصر، بھارت، ایران، عراق، کوسو وو، مراکش، نائجیریا، پاکستان، سینیگال، صومالیہ اور تیونس سےآئےہوئےہیں۔ انسانی فطرت کےعین مطابق یہ تمام لوگ سب سےپہلےاپنےملک کےبارےمیں ہی سوچتےہیں اور ہر کوئی اپنےکسی نہ کسی مسئلےمیں الجھا ہوا محنت مزدوری کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سےقطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ میں رہنےوالےان تمام مسلمانوں کو فلسطین میں ہونےوالےواقعات بڑی شدت کےساتھ متأثر کرتےہیں۔ اس نقطۂ نظر سےدیکھا جائےتو مسلم اُمہ کا تصور ابھی بھی ایک حقیقت رکھتا ہےاور اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہےکہ ارضِ فلسطین کےمقدر کا فیصلہ فلسطینیوں کےحق میں بہت پہلےسےہو چکا ہے۔

موجودہ دور میں تنازعہ فلسطین میں یورپ کا کردار

اکثر یورپی ممالک اب یورپی یونین کےممبر ہیں۔ تاہم یورپی یونین بہترین نتائج تبھی حاصل کرسکتی ہےاگر مشرقِ وسطیٰ کےممالک کےساتھ اقتصادی تعلقات کو نئی نہج دی جائے۔ اس پہلو سےدیکھا جائےتو یورپی یونین کو اس خطےمیں امریکہ، روس اور چین کےبڑھتےہوئےاثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتےہیں کہ خارجہ پالیسی کےسیاسی، فوجی اور ثقافتی پہلو دو ممالک کےباہمی تعلقات پر ہی مبنی ہوتےہیں۔ انہیں صرف یورپی ممالک کےنقطۂ نظر سےقابلِ عمل اور درست نہیں سمجھا جا سکتا۔

عراق

کویت پر صدام حسین کی جارحیت کےخلاف جنگ لڑنےکےلیےجو اتحاد تشکیل دیا گیا تھا، وہ یورپی ممالک اور امریکہ کےدرمیان فوجی تعاون کا سبب بنا اور اس طرح دونوں فریق ایک دوسرےکےبہت قریب آ گئے۔ یہ تعاون۱۱ ستمبر کےواقعہ اور طالبان کےخلاف اعلانِ جنگ کےبعد اتحاد کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ البتہ یہی تعلق اور تعاون وہ وجہ بنا جس کےسبب امریکہ کےعراق پر حملہ آور ہونےکےعزائم اس کی اصل منصوبہ بندی کےساتھ پورےنہ ہو سکے۔ امریکہ سےاختلاف کرتےہوئےفرانس اور جرمنی جیسی دو انتہائی اہم اور با اثر یورپی ریاستیں نہ صرف اس اتحاد سےباہر نکل آئیں بلکہ امریکی حملےکی پوری شدت کےساتھ مخالفت بھی کی۔ اٹلی، اسپین اور چند ایک وسطی اور مشرقی یورپ کی ریاستیں جنہوں نےامریکہ اور برطانیہ کےساتھ مل کر عراق کےخلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور وہ جنہوں نےان کی مخالفت کی تھی، باہمی اختلافات کےباعث تقسیم ہوتی رہیں۔ تاہم جب بش نےعراق میں’’مشن کی تکمیل‘‘ کا اعلان کیا تو یورپی یونین نےجنگ کےدوران ہچکچاہٹ کا رویہ اپنائےرکھنےکےباوجود اب بہتر جاتا کہ سقوطِ بغداد سےملنےوالےمفادات حاصل کرنےکےلیےپالیسی تشکیل دی جائے۔

اب جبکہ عراق خانہ جنگی کےاثرات سےباہر نکل رہا ہےتو یورپی رہنما اس تحریص میں مبتلا ہیں کہ یہاں موجود انسانی وسائل کی ترقی، تعمیرات، سیکیورٹی کےاُمور میں معاونت اور توانائی کےشعبوں میں موجود مواقع سےکیسےفائدہ اُٹھایا جائے۔ اسی ضمن میں۲۰۰۹ء کےاوائل میں فرانس کےصدر نکولس سرکوزی، جرمنی کےوزیر خارجہ فرانک والٹر سٹینمےئر اور برطانیہ کےوزیر تجارت پیٹر مینڈلسن نےبغداد جانےوالےتجارتی وفود کی قیادت کی۔

یورپی یونین کےنائب صدر کا یہ بیان اسی سمت میں ایک اشارہ ہے۔

’’یورپی یونین۲۰۰۳ء کےبعدعراق کےلیےدی گئی امداد میں ایک بلین یورو سےزائد رقم فراہم کر چکا ہے۔ یہ امداد بنیادی خدمات، انسانی وسائل کی ترقی، مہاجرین، اچھےنظام حکومت، سیاسی عمل اور استعداد کا ر ی جیسےعوامل پر خرچ کی گئی ہےجن کی درجہ بدرجہ فوقیت کا تعین خود عراقی حکومت نےکیا تھا۔ ‘‘

عراق کو جنوب کی جانب راہداری کی اہمیت حاصل ہونےکےسبب ان علاقوں تک قدرتی گیس کی فراہمی کا منصوبہ قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین نے’’توانائی کی تزویراتی شراکت داری‘‘ (Strategic Energy Partnership) پر عراق کےساتھ مفاہمتی یادداشت پردستخط کر رکھےہیں جس کےذریعےیورپی یونین عراق کےساتھ توانائی کےمنصوبوں کو مزید تقویت دینےکا بنیادی ڈھانچہ ترتیب دےسکےگا۔ مفاہمت کی اس یادداشت میں تعاون کےلیےجو میدان چنا گیا ہےوہ مستقبل میں عراق کےاندر یورپی یونین کےکردار کا تعین کرتا نظر آتا ہے۔ یہ تعاون درج ذیل پہلوؤں پر محیط ہو گا۔ عراق کےلیےتوانائی کی پالیسی پر ترقیاتی کام، یورپی یونین اور عراق کےدرمیان تعاون کےلیےتوانائی کےذرائع پر عملدرآمد کا پروگرام، عراق کی گیس کےترقیاتی پروگرام کو جدید بنانےکا منصوبہ، عراق کےہائیڈرو کاربن وسائل کی نقل و حرکت اور فراہمی کےنیٹ ورک کا تخمینہ لگانا، پائپ لائنوں کی پائیداری اور حفاظت کا معیار مزید بہتر بنانا، گیس کی عراق سےیورپی یونین تک فراہمی کےلیےدرکار ذرائع اور روٹ کی نشاندہی کرنا، عراق میں توانائی کی پالیسی کی پائیداری کو یقینی بنانےکےلیےقانونی، اصولی اور ادارتی فریم ورک جیسےضروری عوامل پر کام کرنا اور عراق میں توانائی کےتجدید طلب پہلوؤں کی ترقی کےلیےلائحہ عمل تیار کرنا۔ یورپی یونین عراق کےساتھ شراکت داری اور تعاون کےمعاہدےکو آخری شکل دےرہا ہےجو توانائی کی فراہمی کےخصوصی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

فوجی محاذ پر نیٹو کےذریعےچلایا جانےوالا تربیتی مشن۲۰۰۳ء سےکام کر رہا ہے۔ یہ مشن نہ صرف سینئر عراقی افسروں کو تعلیم فراہم کر رہا ہےبلکہ پولیس کی تربیت بھی کر رہا ہے۔ اگرچہ اسی مشن کےذریعےتربیتی عمل بڑےپیمانےپر نہیں کیا جا رہا، تاہم کچھ یورپی ممالک کےطرف سےعراق میں لڑی جانےوالی جنگ میں ہچکچاہٹ کو مدّنظر رکھےجانےکےباعث یہ کافی حد تک مؤثر ہے۔

یورپی یونین کی عراق میں بڑھتی ہوئی مصروفیات بالخصوص توانائی کی پالیسیوں، توانائی کےذرائع کی سیکیورٹی، تیل کی پیداوار میں بڑھوتری اورعراقی تیل کو یورپ تک پہنچانےکےلیےنئے راستےمتعین کرنےکےاقدامت سےنہ صرف علاقےمیں یورپی مفادات کو جِلا ملےگی بلکہ دیگر مؤثر اور طاقت ور ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ، روس اور چین کےمفادات کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔

ایران

۱۹۷۹ء کےانقلابِ ایران سےقبل یورپی ممالک دوطرفہ بنیاد پر ایران کےساتھ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات کےمزےلےرہےتھے۔ تب بھی ان کےتعلقات کا مرکزی نکتہ تیل اور گیس ہی تھا۔ ایرانی انقلاب کےمابعد اثرات اور ایران کے’نہ مشرق نہ مغرب‘ کےمؤقف کےباعث یہ متوازن تعلقات اختلافِ رائے، فقرےبازی اور سیاسی خلفشار کےہنگاموں میںگم ہوگئے۔ تاہم اس کےبعدعراق کی کویت پر جارحیت اور ایران کےحریف ملک کےخلاف مغربی ممالک کےاتحاد نےتناؤ میں کچھ کمی کر دی۔ چنانچہ ۱۹۹۰ء اور۲۰۰۰ء کےابتدا میں ان کےتعلقات میں کچھ بہتری نظرآئی۔ اس دوران دونوں طرف کی قیادت نےتعاون کو مزید پھیلانےکےلیےباہمی دلچسپی کےاُمور پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز کیا۔ پھر۲۰۰۱ء میں یورپی مشن نےبھی اپنےرابطےبحال کیےتاکہ ایران کےساتھ قریبی تعلقات کو پروان چڑھانےکےلیےحالات و واقعات کےتناظر میں منصوبہ بندی کا آغاز کیا جا سکے۔ ایک مقصد تو یہ تھا کہ ’’تجارت و تعاون کا معاہدہ‘‘ (Trade and Cooperation Agreement) یعنی TCA حتمی طور پر طےکیا جا سکے، اس کےلیےمذا کرات کا آغاز دسمبر۲۰۰۲ء میں ہوا۔ اگرچہ تجارت گہرےاور قریبی تعلقات کی راہ ہموار کرسکتی تھی لیکن ایک بار پھر سیاسی خوف و ہراس اور وسوسوں نےبہتری کی جانب بڑھتےاقدامات کا راستہ روک دیا، اس دفعہ اس کا سبب امریکہ کا ایران پر یہ دباؤ تھا کہ وہ اپنےایٹمی منصوبےپر کام روک دے۔

یورپی یونین کو امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں لڑی جانےوالی عراق جنگ میں امریکہ کےساتھ جذباتی دباؤ پر مبنی تعلقات اورپھر تفرقہ اورپھوٹ کا تجربہ ہو چکا تھا، اس لیےاس نےایران کےمسئلےمیں خارجہ تعلقات میں مضبوط کردار ادا کرسکنےکی ساکھ برقرار رکھنےکےلیےاپنےآپ کو جذبات کی رو میں بہنےنہیں دیا۔ چنانچہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس آگےآئےاور اختلافات کےباعث راستےجدا ہوجانےکےسابقہ تجربےکی بناء پر اس معاملےکو فاتر العقل بش انتظامیہ کی طرح محض طاقت کی زبان کی بجائےزیادہ واضح ایجنڈےکےساتھ حل کرنےکےلیےمذا کرات اور پُرامن طریقےاختیار کرنےکو ترجیح دی۔ اس سب کےباوجود یورپ کےممالک کو نہ تو انفرادی ملک کی حیثیت سےاور نہ ہی یورپی یونین کےپلیٹ فارم سےایٹمی ایران قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس لیےایک زیادہ معقول اور عملی قدم اُٹھایا گیا اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو یہ معاملہ ہاتھ میں لےکر اپنا کردار ادا کرنےکو کہا گیا۔ باقی کی کہانی مذا کرات اور پابندیوں اور پھر مذا کرات کی ہے۔ ضروری نہیں کہ ترتیب یہ ہی رہی ہو لیکن اہم بات یہ نوٹ کرنےکی ہےکہ ایران کےایٹمی پروگرام کےمعاملےمیں یورپی ممالک کی اجتماعی سوچ تادیرامریکی دباؤ اور اس کےایجنڈےکی یرغمال بنی رہی ۔

موجودہ حالات میں جبکہ امریکہ ایک دفعہ پھرسلامتی کونسل کےارکان اور اپنےیورپی اتحادیوں کو بہلا پھسلا کر ایران کےخلاف سخت رویہ اختیار کرنےپر آمادہ کر رہا ہےتو یورپی یونین حتیٰ کہ اس کےممبر ممالک کےلیےانفرادی طور پر بھی یہ مشکل ہوتا جا رہا ہےکہ وہ ایران کی انقلابی حکومت کےساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں ایسےمیں یورپی یونین کو انتہائی معقول طریقۂ کاریہ اختیار کرنا چاہیےکہ وہ ایران میں اپنےنفع اور نقصان کو سامنےرکھ کر پیش قدمی کےذریعےصورتِ حال پر قابو پانےوالا ایجنڈا بنائے، ساری صورتِ حال کو عقلمندی کےساتھ جانچے، محتاط رویہ اختیار کرتےہوئےاپنےمفادات کو مدّنظر رکھےاور اُن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بنائی ہوئی رپورٹوں کی طرف توجہ نہ دےجنہوں نےصدام حسین کےبڑےپیمانےپر تباہی پھیلانےوالےہتھیاروں(Weapons of Mass Destruction) کےذخیروں کا ثبوت پیش کیا تھا۔ لیکن اس سب کےلیےیورپی ممالک کو امریکی مقاصد پر مبنی پالیسی کےسحر سےباہر نکلنا ہو گا اور ایک متبادل اور کھری قیادت فراہم کرنا ہو گی۔

اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ

اسرائیلی فلسطین میں بڑےپیمانےپر اپنی آباد کاری کا جواز فراہم کرنےکےلیےاسے’’واپسی کا حق‘‘ جتاتےہیں(دوسری طرف وہ بےدخل فلسطینیوں کےلیےاسی حق سےانکاری ہیں)۔ مسئلہ یہ ہےکہ یورپ کےنقطۂ نظر سےقوانینِ بین الممالک میں اس طرح کےدعویٰ کو تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بڑی اچھی دلیل یہ ہےکہ اس وقت دنیا بھر میں شاید ہی کوئی قوم اس جگہ آباد ہو جہاں اس کےآباء و اجداد بستےتھے۔

اگر مخصوص آبادیوں یا لوگوں کو یہ حق حاصل ہوجائےتو اینگلو سیکسن جوکہ آج کےڈنمارک سےآئےتھے، انہیں برطانیہ خالی کر دینا چاہیے۔ امریکہ کےآئرستانی باشندےبخوشی اپنےگرین آئس لینڈ پر واپس چلےجائیں۔ تمام لاطینی امریکہ کو ریڈ انڈین قبائل کی طرف پلٹ جانا چاہیے۔ اسی طرح آسٹریلیا سےبھی بڑےپیمانےپراخراج ہو گا۔ جرمنوں سےبھی یہ توقع رکھی جائےکہ وہ ذرا مزید مغرب کی طرف چلےجائیں تاکہ ان کی جگہ ان کےسلاوی (slav) پڑوسی پھر سےآباد ہو سکیں۔ سپین میں بھی اسی طرح کی ہلچل مچےگی اور فرانس بھی کیلٹی (Celtic) آبادی کو اس کا حقیقی وارث ہونےکےسبب واپس کرنا ہو گا۔ اس سلسلےکو برقرار رکھا جائےتو شمالی افریقہ کو بھی آبادی سےصاف کرنا ہو گا تاکہ قبل از تاریخ کےبربر قبائل کا حق انہیں لوٹایا جا سکے۔

یہ بات تو کھل کر سامنےآ گئی کہ اہلِ یورپ کےہاں اس طرح کے’’واپسی کےحق‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان لوگوں کےلیےتو بالکل بھی نہیں جو علاقےکو تقریباً ۲۰۰۰سال قبل ۷۰عیسوی میں اس کےتباہی سےدوچار ہونےکےبعد دوبارہ آباد کاری کےباوجود رضاکارانہ یا مجبوری میں چھوڑچکےہوں۔ مزید واضح بات یہ ہےکہ ان فلسطینی مسلمانوں کو تو ان کےخطےسےنکال باہر کرنےکا حق کسی کو حاصل نہیں جو حضرت عمرؓ کےعہدِ حکومت میں(۶۳۸ء)، تقریباً ۱۳۷۱ سال قبل اپنےملک کو اسلامی رنگ دےچکےتھے۔

۱۸۹۷ء میں با سل کےمقام پر تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں ابتدائی صیہونیوں نےوقت اور حالات کےساتھ تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال کو سمجھتےہوئےپہلی ورلڈکانگریس کا انعقاد کیا تھا۔ انہوں نےاس کانگریس میں ایک الگ ملک تلاش کرنےکا فیصلہ کیا جس کےلیےاُس وقت صرف فلسطین کےعلاقےکو ضروری نہیں سمجھا گیا تھا۔ گویا یہ اُس وقت کی بات ہےجب اُن کےپیشروؤں نےیہ سنگدلانہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ فلسطین کو ’زمین کےبغیر لوگوں‘ کی خاطر ’لوگوں کےبغیر زمین‘ بنادیا جائےکیونکہ انہیں اس زمین سےغرض تھی نہ کہ یہاں کےباسیوں سے۔

اسرائیل کےحمایتی یہ دعویٰ کرتےہیں کہ یہودیوں کو فلسطین کےکم سےکم ایک حصےکا مالک بنانےکا منصوبہ ۱۹۱۷ء میں بدنامِ زمانہ ’’بالفور اعلامیہ‘‘ (Balfour Declaration)کےذریعےانگریزوں نےدیا تھا۔ بہرحال اس اعلامیےنےایک یہودی ریاست کو ارضِ فلسطین پر بنانےکی نشاندہی کر دی تھی۔ تاہم اُس وقت یہ کہا گیا تھا کہ ایسا کرتےہوئےفلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کےحقوق کا خیال رکھا جائےگا۔

تب بھی یہودیوں کا ریاستی حیثیت منوانےکا دعویٰ مکمل طورپر گمراہ کن ہےکیونکہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی رُو سےایک بالکل واضح اُصول طےشدہ ہےکہ

’’کوئی فرد ایسےحقوق کسی کو منتقل نہیں کرسکتا جن کا اختیار سرےسےاس کےپاس ہےہی نہیں۔ ‘‘

برطانیہ فلسطین کا حقیقی مالک نہیں تھا۔ برطانیہ کو یہ علاقہ عارضی طور پر لیگ آف نیشنز کےتفویض کردہ اختیار کےتحت حوالےکیا گیا تھا تاکہ مستقبل میں کسی موقع پر آزادی دینےتک اس کا نظم و نسق بہتر طور پر چلایا جا سکے۔ چنانچہ برطانیہ نے۱۴ مئی۱۹۴۸ء کےروز فلسطین کو صیہونیوں کےحوالےکر کےاپنےاختیارات سےتجاوز کیا تھا۔ اس لیےاختیارات کےناجائز استعمال کےباعث یہ اقدام کالعدم اور منسوخ سمجھا جانا چاہیے۔

برطانیہ یورپ نہیں البتہ یہ یورپ میں ضرور واقع ہے۔ میں ایک یورپی ہونےکےناطےشرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ برطانیہ۱۹۲۳ء سے۱۹۴۸ء تک کیوں تذبذب میں رہا اور کوئی بات طےنہ کرپایا اور پھر فلسطین کےمعاملےمیں متولی ہونےکی ذمہ داری ایسےبھونڈےپن سےنبھائی کہ اب یہ کبھی ختم نہ ہونےوالا تنازعہ بن گیا ہے۔

اہلِ یورپ کےلیےابھی مزید شرمندگی ہی شرمندگی فلسطین میں ہونےوالےحالات و واقعات میں یورپ کےکردار پر ہےجس میں اگر فلسطینیوں کی مدد نہیں بھی کی جا رہی تو سب کچھ ٹھنڈےپیٹوں برداشت کیا جا رہا ہےاور اس کا سبب یہ ہےکہ یورپ اپنی محافظ عالمی طاقت اور اس وقت عملاً صیہونیت کےگھر امریکہ کےاحترام میں سر تسلیم خم کیےہوئےہے۔ ان اندوہناک واقعات میں چند مشہور اور فیصلہ کن مرحلےدرجہ ذیل ہیں۔

۶ تا ۱۰ جون ۱۹۶۷ء: اسرائیلی فوج نےغزہ، القدس کےمشرقی حصے، شرق الاردن، سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ دن فلسطینیوں کےہاں یوم النکبہ ٹھہرا جب ان پر بےپناہ تکلیفوں کا آغاز ہوا اور پھر اس کےبعد کی کہانی استعماریت کےہتھکنڈوں، نسلی امتیاز، نسل پرستی اور فلسطینیوں کی مظلومیت سےعبارت ہے۔
۲۲ نومبر۱۹۶۷ء: اقوامِ متحدہ نےسلامتی کونسل کی قرارداد۲۴۲کےذریعےمطالبہ کیا کہ اسرائیل نےاس وقت تک فلسطینیوں کی جتنی سرزمین پر قبضہ کیا ہے، وہاں سےفوجیں واپس بلالے۔ اس نےمہاجرین کےمسئلےکا منصفانہ حل تلاش کرنےکا بھی مطالبہ کیا (قرارداد۲۴۲کو اقوامِ متحدہ کی تمام قراردادوں سےزیادہ شہرت ملی، کیونکہ اس پر کبھی عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا)۔
۱۷ ستمبر۱۹۷۸: کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ طےپا گیا (لیکن اس پر کبھی بھی عملدرآمد نہ ہو سکا)۔ سمجھوتےکےبعد ۱۹ نومبر کو صدر انور ساداتاسرائیلی پارلیمانی کنیسٹ میںگئے۔
۱۹۸۷ء: پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۹ء تک۶۰۰فلسطینیوں(اور۲۱ اسرائیلیوں) کو قتل کیا جا چکا تھا۔
۱۹۸۸ء: امریکہ کےسیکرٹری آف سٹیٹ جارج شُلز نےفلسطینیوں کےحقِ خود ارادیت کےلیےایک منصوبہ تیار کیا۔ القدس کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دےکر دو ریاستیں تشکیل دینےکا حل۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ پہلےبھی تجویز کر چکی تھی۔
۱۳ ستمبر۱۹۹۳ء: اوسلو معاہدہ پر یاسر عرفات اوراسحاق رابن نےدستخط کیے(جو اس کےقتل کا سبب بن گیا)۔
اوسلو معاہدےکےتحت امن کوششوں کی ناکامی اور ایریل شیرون کےاشتعال انگیز مارچ کےباعث دوسری الاقصیٰ انتفاضہ کی ابتداء ہوئی۔
۲۸ مارچ۲۰۰۲ء: سعودی بادشاہ عبداللہ نےتنازعہ کےحل کےلیےیہ تجاویز دیں۔

(i) اسرائیل۱۹۶۷ء سےپہلےوالی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔

(ii) فلسطینی مہاجرین کےمسائل کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد۱۹۴ کےمطابق حل کیا جائے۔

(iii) آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔

اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ ان سب تجاویز کی توثیق اسرائیل اور عرب دنیا کےدرمیان ایک کثیرالفریق امن معاہدےکی صورت میں کی جائےگی۔

ان تمام باتوں میں دو پہلو بہت نمایاں ہیں۔ پہلا یہ کہ اوپر بیان کردہ اور ان کےعلاوہ دیگر تمام ابتدائی اقدامات میں سےکوئی ایک بھی نتیجہ خیز نہیں ہوا۔ تاہم جو کچھ اس کا متضاد ہو سکتا تھا وہ نتائج کی شکل میں سامنےآتا رہا۔ مثلاً جب سفارتکار مسئلےکےحل کی کوششیں کر رہےہوتےتھے، اسرائیل اپنی غیر قانونی آبادکاری جاری رکھتےہوئےخاموشی کےساتھ دو ریاستی حل کا امکان ختم کر دیتا تھا۔ درحقیقت اس وقت فلسطینی اپنی ہی سر زمین پر نہایت تنگی سےرہنےپر مجبور ہیں، جہاں وہ اس سےزیادہ کچھ نہیں کرسکتےکہ اپنےآپ کو قابو میں رکھیں(اسرائیل کےمفاد میں) اور اپنی غربت ختم کرنےکا بندوبست کریں۔

اب اسرائیل ایک فلسطینی ریاست کےامکان پر آمادہ ہونےکی ہمت کرسکتا ہے، کیونکہ ’’ایسی کوئی ریاست ہو گی ہی نہیں۔ ‘‘ اس خیالی قبول کردہ ریاست سےعمداً انحراف کی وضاحت کولمبیا انسائیکلوپیڈیا میں لفظ ’اسرائیل‘ کےاندراج میں کچھ اس طرح ہے: ’’اسرائیل کی آبادی جس میں غالب اکثریت یہودیوں کی ہے، نمایاں ترین اقلیت مسلمان ہیں‘‘۔ پڑھنےوالوں کو حیران ہونا چاہیےکہ یہ نمایاں اقلیت وہاں پہنچ کیسےگئی ہے!

دوسری اتنی ہی نمایاں بات اس سارےعمل میں یورپ کی غیر موجودگی ہے۔ یہ بات بھی درست ہےکہ عرب ممالک نےخود بھی اس کےلیےزیادہ تگ و دونہیں کی ۔ بہتر ہوتا اگر وہ کرتے۔ یورپ کی اپنی کیفیت یہ ہےکہ حالیہ برسوں میں بش انتظامیہ کےدور میں یورپ اور امریکہ کےدرمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کےدوران بھی یورپ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا آزادانہ کردار ادا کرنےمیں ناکام رہا ہے۔ انہوں نےاس مقولےکو سچ کر دکھایا ہےکہ یورپ ایک اقتصادی دیو لیکن سیاسی بونا ہے۔

مستقبل کی راہ

مشرقِ وسطیٰ میں ائندہ کیا ہو گا یہ کہنا بالکل غیر یقینی ہے۔ ممکن ہےکہ آئندہ شورش اور تشدد کا نہ ختم ہونےوالا سلسلہ جاری رہے۔ یہ بھی سچ ہےکہ اسرائیل کےلیےامن کی نسبت مستقل جنگ اپنا وجود برقرار رکھنےکےلیےزیادہ آسان ہے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ ممکن ہو سکتا ہےکہ معاشی امداد سکڑتی چلی جائے۔

صورتِ حال کچھ بھی ہو، اسرائیل کا وجود اس وقت تک خطرات میںگِھرا رہےگا جب تک وہ اس گمراہ کن رویہ پر مُضر ہےکہ نسل پرستی پر قائم ایک جعلی جمہوری ملک کےتحفظ کا انحصار فلسطینیوں کو ظالمانہ طریقوں سےدبا کر رکھنےاور ان کےساتھ تیسرےدرجےکےشہریوں جیسا سلوک روا رکھنےمیں ہے۔ حنان اشراوی نےدرست کہا ہےکہ ’’اس سےپہلےکسی مفتوحہ فوج نےمحبوس شہری آبادی کا دم گھونٹ دینےوالا ایسا محاصرہ کبھی نہیں کیا ہو گا جس نےفلسطینیوں کو ایک تعذیب زدہ قوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہےکہ وہ حریت، آزادی اور وقار کےساتھ ایک غیر متزلزل عہد نبھا رہےہیں۔ ‘‘

ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ایمنسٹی انٹرنیشنل نےاس بات کا تذکرہ کیا ہےکہ ایک اسرائیلی عدالت نےایک فلسطینی کو قتل کر دینےوالےاسرائیلی فوجی کو 0.03 ڈالر یعنی 3 سنٹ جرمانےکی سزا سنائی ہے۔ اس سےواضح ہوجاتا ہےکہ فلسطینوں کو قتل کرنا، فوجی و غیر فوجی سرائیلیوں کےلیےکیوں آسان ہے۔

اس طرح سےمعاملات چلانےوالا ملک جس کی آدھی آبادی آزاد ہو اور آدھی غلام، طویل عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہی ہےکہ اگر اسرائیل نےیہ مکروہ سلسلہ جاری رکھا تو یہ بھی اسی خطےمیں اٹھ سو سال پہلےقائم ہونےوالی صلیبی ریاستوں کی طرح ختم ہوجائےگا۔

اہلِ یورپ ان واقعات کو ششدر ہوکےدیکھتےرہتےہیں۔ جرمنوں کےلیےان میں سچائی تلاش کرنا مشکل نہیں، کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھ سکتےہیں کہ معصوم فلسطینی جن کا نازیوں کےجرائم سےکوئی لینا دینا نہیں تھا، نا کردہ جرم کی سزا بھگت رہےہیں۔ ہولوکاسٹ کےبعد انصاف پر مبنی فیصلہ یہ ہوتا کہ بچےکھچےیہودیوں کو فلسطین کی بجائےجرمنی کےمختلف حصوں میں اباد کر دیا جاتا۔

ذرا اس قابلِ فہم مگر انتہائی مضحکہ خیز بات کو دیکھیے:کہ جرمن حکومت نےآش وزاور دیگر مقامات پر جرمنوں کےجرائم کی تلافی کےلیےاسرائیل کو کئی بلین ڈالرز کی ادائیگی کی اور انہیں جدید ترین ہتھیار فراہم کیے۔ دوسرےالفاظ میں صیہونیوں کی مدد کی تاکہ جس طرح نازیوں نےیہودیوں پر مظالم ڈھائےتھے، اب یہودی بھی عربوں پر دباؤ برقرار رکھنے، انہیں ان کےعلاقوں سےبےدخل کرنےاور اذیتیں دینےمیں پوری طاقت صرف کرسکیں۔

فیکٹریوں کےگیس چیمبرز میں جس طرح بڑی تعداد میں قتل عام کیا گیا اورنسلی صفایاکیا گیا، اس سےہولوکاسٹ کی ہولناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہےکہ یہ اپنی نوعیت کا بہت بُرا فعل تھا۔ اس کےباوجود بھی اہلِ یورپ کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں اتی کہ اسرائیل کس طرح اپنےباپ دادوں پر ہونےوالےظلم سےکئی گنا زیادہ ظلم فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے۔

نازیوں کو بھی اپنےنسلی امتیاز کےنظریےکےساتھ فرار ہونا پڑا تھا۔ خانہ بدوشوں اور یہودیوں کےساتھ نسلی امتیاز برتنےسےکیا ہوا؟ ان میں سےبہت بڑی تعداد میں لوگ مصیبت سےبچنےکےلیےبھیس بدل کر رہنےلگے۔ اور جو لوگ نازی حکومت کی مخالفت کرنےپر تیار ہوئے، ان کےلیےبھی بھیس بدل کر پھرنےوالےگسٹاپو کےایجنٹوں کی نظروں سےبچنا ممکن نہیں تھا۔

ہم بھی مشرقِ وسطیٰ کےپس منظر میں اسی طرح کا مشاہدہ کرسکتےہیں۔

(الف) جہاں تک مسئلہ فلسطین کےلیےایک مؤثر اور بھرپور حمایت کی بات ہےتو عرب دنیا اس سلسلےمیں بہت ہی تاریک تصویر پیش کر رہی ہے۔ جناب خالد رحمن نےاسےنہ صرف عربوں کےاتحاد و اتفاق میں کمی سےتعبیر کیا ہےبلکہ ان کا یہ تجزیہ بالکل درست ہےکہ الفتح اور حماس کےدرمیان موجودہ تنازعہ اس شک و شبہ کو طول دینےکی وجہ سےہےکہ الفتح کسی سازش کا حصہ ہے۔ نتیجتاً اس کا سارا فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہورہا ہے۔

(ب) اس مسئلہ میں یورپ کی سوچ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ عام لوگوں کی ہمدردیاں فلسطینیوں کےساتھ ہوتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہےکہ بعض افراد تو یہاں تک محسوس کرتےہیں کہ اسرائیلیوں کی سفاکی نےنازیوں کےجرائم کو بھی کم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی حکومتوں کی خواہش بھی پوری ہورہی ہوتی ہےکہ لوگ ٹی وی سکرینوں پر بہت کم صیہونی جرائم دیکھ پاتےہیں جب تک کہ وہ قطرمیں چلنےوالےالجزیرہ ٹی وی کےعربی یا انگلش پروگرام نہ دیکھ لیں۔ غیرشعوری طورپراہل یورپ ایک جرمن ضرب المثل کی اتباع کر رہےہیں’’میں جس چیزکےبارےمیں علم نہیں رکھتا وہ مجھےپریشان نہیں کرتی۔ ‘‘ یعنی یہ کہا جا سکتا ہےکہ اہل یورپ کی فلسطینیوں سےہمدردی آسانی سےعملی تعاون یا قربانی کی شکل اختیار نہیں کر سکتی ۔
 
Top