جرنگاؤ کا آدم خور

جرنگاؤ کا آدم خور
مقبول جہانگیر​
جرنگاؤ ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام ہے۔ جو ضلع ڈنگن کے اندر دریائے ڈنگن کے کنارے آباد ہے اور یہیں رہنے والے آدم خور شیر کی داستان میں آپ کو سناتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنا بڑا شیر میں نے زندگی میں اس سے پیشتر کبھی نہیں دیکھا۔ اس کا قد گدھے کے برابر لمبائی دس فٹ سات انچ اور منہ ببر شیر کی مانند چوڑا اور بارعب تھا۔ مکاری اور قوت میں بھی وہ ملایا کے عام شیروں سے کچھ زیادہ ہی بڑھا ہوا تھا۔ جرنگاؤ سے تین میل کے فاصلے پرڈنگن کے کنارے ہی ایک دوسرا کمپونگ واؤ نامی بھی آباد تھا۔ ملائی زبان میں کمپونگ گاؤں کو کہتے ہیں اور اس سے آگے تین میل دور کمپونگ مانچس واقع تھا۔ دریا کا یہ علاقہ جہاں تینوں گاؤں قریب قریب آباد تھے، ربڑ کے درختوں سے پٹا پڑا تھا اور ان باشندوں کی گزر اوقات کا سب سے بڑا ذریعہ ربڑ کے یہی درخت تھے۔ جن سے وہ شب و روز کی سخت محنت کے بعد ربڑ جمع کرتے تھے، لیکن ۱۹۵۰ کے اواخر میںان باشندوں پر جرنگاؤ کے آدم خور کی صورت میں ایک مہیب بلا نازل ہوئی جس نے ان بستیوں کا امن و چین غارت کردیا اور بہت سی جانوں کو اپنا لقمہ بنا لیا۔
دریا کے دوسری جانب بھی ربڑ کا جنگل پھیلا ہوا تھا اور جنگل سے پرے لوہے کی کانیں تھیں، جن میں سے ان دنوں لوہا تیزی سے نکالا جا رہا تھا۔ ریلوے لائن جنگل کے قیب سے گزرتی تھی جہاں چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں خام لوہا بھر کر ضلع ڈنگن پہنچایا جاتا تھا۔لوہے کی کانوں کے قریب ریل کی آخری حد پرکمپونگ پولت آباد تھا۔ اس کے عین سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر گاؤں مانچس نظر آتا تھا۔ جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس مقام پر جرنگاؤ تک پہنچنے کے لیے چھے میل طے کرنے پڑتے تھے اور اس کے دو ہی راستے تھے، پہلا راستہ دریا کا اور دوسرا جنگل کا تھا۔ میرا مکان کیمان میں واقع تھا جو ڈنگن کے جنوب میں ہے اور یہاں سے جرنگاؤ تک پہنچنے ،ی چھے گھنٹے صرف ہوتے تھے۔
آدم خور نے میرے یہاں پہنچنے سے پیشتر ہی اپنی ہلاکت خیز سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا اور بہت سے مویشیوں اور انسانوں کو ہڑپ کر چکا تھا۔مجھے بتایا گیا کہ آدم خور نے سب سے پہلا انسانی شکار ۱۲ جولائی ۱۹۵۰ کو دریائے ڈنگن کے اس حصے میں کیا جو جرنگاؤ اور واؤ کے درمیان واقع ہے۔ یہ ایک بدنصیب مزدور تھا۔ جو سورج غروب ہونے کے بعد کام سے واپس آرہا تھا۔ اس کے ساتھی گپ بازی کرتے ہوئے اس کے کچھ پیچھے چلے آرہے تھے کہ یکایک انہوں نے اپنے ساتھی کی چیخیں سنیں اور پھر شیر کے غرانے کی آواز سنائی دی جس سے یہ سب دہشت زدہ ہوکے ادھر ہی بھاگ گئے جدھر سے وہ آرہے تھے۔
جب دوسرے روز بھی یہ مزدور نظر نہ آیا تو اس کے ساتھیوں نے سمجھ لیا کہ شیر نے اسے ہلاک کردیا۔ اب یہ پندرہ بیس آدمیوں کے گروہ کی شکل میں جنگل میں نکلے اور دریا کے کنارے ایک جگہ لمبی گھاس کے اندر انہیں مزدور کی لاش پڑی مل گئی۔ شیر نے اس کا بڑا حصہ ہڑپ کر لیا تھا۔ اردگرد کی گیلی زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان آسانی سے تلاش کر لیے گئے اور یوں معلوم ہواجیسے اس لاش کو بیک وقت دو شیروں نے کھایا ہے کیوں کہ پنجوں کے یہ نشان ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
یہ لوگ مزدور کی لاش کے بچے کچھے ٹکڑے وہاں سے اٹھا کر اس کے گاؤں واؤ میں لے گئے اور اسے بعد ازاں مذہبی رسمیں ادا کرنے کے بعد دفن کردیا گیا۔ اس سے اگلے روز صبح جب اس گاؤں کے لوگ اپنے کام پر جانے لگے تو یہ دیکھ کر ان کے خوف کی انتہا نہ رہی کہ شیر کے پیروں کے واضح نشان گاؤں کے نواحی علاقے میں موجود ہیں اور جس راستے سے یہ لوگ مزدور کی لاش لے کر آئے تھے، شیر بھی اسی راستے پر ان کا تعاقب کرتا ہوا گاؤں تک پہنچا ہے۔ غالباً وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا کھاجا یہ آدمی کہاں لیے جارہے ہیں۔
گاؤں کے نمبردار نے سب مرد، عورتوں کو خبردار کر دیا کہ آدم خور جنگل میں چھپا ہوا ہے۔ اس لیے کوئی فرد گاؤں سے اکیلا باہر نہ جائے۔ اس ہدایت پر سختی سے عمل کیا جاتا رہا اور آدم خور نے دو ہفتوں تک کسی پر حملہ نہیں کیا۔ لیکن جب لوگوں نے دیکھا کہ جنگل میں شیر کے گرجنے اور غرانے کی آوازیں سنائی نہیں دے رہیں تو وہ سمجھے کہ آدم خور کسی اور جانب چلا گیا ہے۔ اس لیے وہ پھر آزادی سے جنگل مین گھومنے پھرنے لگے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تین روز بعد ہی آدم خور نے ایک اور انسانی جان کو اپنا تر نوالہ بنا لیا۔ یہ بھی ربڑ کے درختوں پر کام کرنے والا ایک مزدور ہی تھا۔ دو روز تک گھر نہ پہنچا تو اس کے رشتے داروں کو تشویش ہوئی اور جب اسے تلاش کیا گیا تو اس کی لاش اس عالم میں پڑی ملی کہ شیر نے اس کی دائیں ٹانگ ہڑب کرلی تھی اور لاش کو گھاس کے اندر چھپا دیا تھا۔ لوگوں نے اس کی لاش کو بھی وہاں سے اٹھا کر زمین میں دفن کردیا اور ایک بار پھر احتیاتی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جانے لگا۔ اس کے بعد کئی ماہ تک اس علاقے میں کوئی واردات نہیں ہوئی۔ البتہ مویشیوں کو شیر اٹھا کر لے جاتا رہا۔ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ کسی اور شیر کی حرکت ہے۔
فروری ۱۹۵۱ میں شیر نے ایک اور مزدور کو ہلاک کیا اور اس کے بعد پندرہ دن کے اندر اندر چار پانچ آدمی اس کے ہوتھوں مارے گئے تو اردگرد کی بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور مزدوروں نے کام پر جانا چھوڑ دیا۔ ایک روز جب کہ میں دریائے ڈنگن مین کشتی کے ذریعے سفر کر رہا تھا، کمپونگ واؤ کے نزدیک مجھے بہت سے آدمیں اور عورتوں کا مجمع دکھائی دیا۔ عورتیں اونچی آواز مین رو رہی تھیں۔ میں نے کشتی کنارے پر لگائی اور پوچھا کیا معاملہ ہے تو لوگوں نے بتایا کہ شیر نے کل ایک اور آدمی کو مار ڈالا ہے، جس کی لاش ابھی تک وہیں پڑی ہے، اور جب چند آدمی لاش اٹھانے کے لیے جنگل میں گئے تو آدم خور نے ان کا بھی تعاقب کیا اور وہ وہیں موجود ہے۔ معاملہ روز بروز نازک صورت اخیار کرتا جا رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ اگر آدم خور کی ان سرگرمیوں کو فوراً نہ روکا گیا تو وہ ان سب آدمیوں کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر جائے گا۔ مزدوروں نے کام پر جانے سے صاف انکار کردیا تھا اور یہ وہ موسم تھا جب درختوں کے تنے ربڑ کے رس سے بھرے ہوئے تھے، اور اگر اس رس کو بروقت نہ نکالا جائے تو یہ ضائع ہوسکتا ہے۔
ڈنگن کے پولیس اسٹیشن کا انچارج بھی اس صورتِ حال کے اچانک نمودار ہوجانے سے سخت ہراساں تھا اور اس کے ذہن میں اس آفت سے نبٹنے کی کوئی تدبیر نہیں آتی تھی۔ اس نے مجھے اور جرنگاؤ کے تھانے کے پولیس افسر کو صلاح و مشورے کے لیے بلایا اور ہم دیر تک آپس میں نئی نئی تجاویز پر بحث کرتے رہے۔ اس زمانے میںملایا کے صوبے ترینگانو کی سرحدوں پر چینی کیمونسٹ دہشت پسندوں کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں اور پولیس کی ان دہشت پسندوں کے ساتھ جھڑپیں روزانہ ہوا کرتی تھیں۔ اب آدم خور کا معاملہ درمیان میں آن پڑا تو مزدوروں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے کام پر حاضر ہونے سے صاف انکار کردیا۔ اب اتفاق دیکھیے کہ چند روز بعد ہی مجھے خبر ملی کہ ڈنگن پولیس کا انچارج ترینگانو کی سرحد پر گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا اور آدم خور سے دو دو ہاتھ کرنے کا جو پروگرام ہم نے وضع کیا تھا، وہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے بھی ڈنگن ہی میں قیام کرنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ مجھے اس شیر کا قصہ پاک کرنے کا موقع مل جائے۔ میں نے اپنی مدد کے لیے جرنگاؤ اور ڈنگن سے چند پولیس والے بلوا لیے تھے جو بندوق چلانا جانتے تھے۔
سات مارچ ۱۹۵۱ کا دن تھا۔ مین صبح ناشتے سے فارغ ہو کر روزانہ کی رپورٹ لکھنے کی تیاریاں کر رہا تھا کہ ایک پولیس والا کمرے میں آیا اور کہنے لگا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ آدم خور نے ایک اور مزدور ہلاک کردیا ہے اور اس کی لاش دریا کے کنارے عین اسی جگہ پڑی پائی گئی ہے جہاں پہلے بھی شیر نے ایک مزدور کو مار ڈالا تھا۔ میں نے فوراً سب سپاہیوں کو بلایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپنی بندوقیں لے کر میرے ساتھ چلیں۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر موقعہ واردات پر پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر ہوئی تو دوسرے مزدور لاش کو وہاں سے اٹھا لے جائیں گے۔
دریا پر موٹر بوٹ کا انتظام چوبیس گھنٹے رہتا تھا۔ میں نے اپنی رائفل اور کارتوسوں کا ڈبہ سنبھالا اور سپاہیوں کو لے کر موٹر بوٹ پر سوار ہو گیا اور اسے پوری رفتار سے چلا دیا۔ ابھی ہم دریا میں ایک میل ہی گئے ہوں گے کہ دوسری جانب سے ایک اور موٹر بوٹ آتی ہوئی دکھائی دی۔ جب یہ موٹر بوٹ قریب آئی تو میں نے دیکھا کہ اس میں چھے آدمی سوار تھے اور درمیان میں مزدور کی لاش پڑی ہوئی تھی جسے شیر نے ہلاک کیا تھا۔ اس کے کپڑے خون مین لت پت تھے اور چہرہ بری طرح نچا ہوا تھا۔ ان مزدوروں نے بتایا کہ وہ یہ لاش مجھے دکھانے کے لیے لا رہے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ لاش کو وہاں سے ہرگز نہ اٹھانا چاہیے تھا۔ بلکہ اسے وہیں رہنے دیا جاتا تاکہ رات کو کسی وقت شیر اسے کھانے کے لیے آتا تو ہم اسے گولی کا نشانہ بنا دیتے، لیکن یہ لوگ اس مشورے پر عمل کرنے کو تیار نہ تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا مذہب لاش کی بےحرمتی کی اجازت نہیں دیتا اور تاکید کی گئی ہے کہ میت کو جلد از جلد دفنا دینا چاہیے۔ مین نے انہیں نرمی سے سمجھایا کہ اس طرح آدم خور تم سب کو ایک ایک کر کے ہڑپ کرتا جائے گا اور ہم اسے قیامت تک ہلاک نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس لاش کو صرف ایک روز کے لیے وہیں لے جا کر رکھ دو جہاں سے لائے ہو۔ میرا ارادہ ہے کہ میں قریب ہی چھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ضرور آئے گا اور اس وقت میں اسے اپنی رائفل کا نشانہ بنا سکوں گا۔
میں نے لاش کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ شیر نے پہلے اس کے عقب سے آ کر گردن پر پنجہ مارا جہاں گہرا گھاؤ تھا۔ اس ضرب سے مزدور زمین پر گر گیا ہوگا۔ پھر شیر نے اس کے کندھوں اور سینے پر پنچے مارے اور بعد ازاں گردن منہ میں دبا کر اسے دور تک گھسیٹا تھا۔ گردن پر شیر کے دانتوں کے جو نشانات موجود تھے، ان کو بغور دیکھنے پر یہ انکشاف ہوا کہ شیر کے نچلے دو بڑے دانتوں میں سے ایک دانت یا تو ٹوٹا ہوا ہے یا بالکل غائب ہے۔ اسی اثنا میں ایک اور خیال میرے دل میں پیدا ہوا۔ ممکن ہے کہ یہ شیر نہ ہو شیرنی ہو، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ ملایا کے ان علاقوں میں اکثر شیرنیاں ہی آدم خور بن جایا کرتی ہیں۔
مزدوروں نے لاش کو دوبارہ وہاں لے جانے سے انکار کردیا۔ مجبور ہوکر میں نے ان سے مزدور کے خون آلود کپڑے حاصل کیے، کیوں کہ شیر کو پھنسانے کی ایک تجویز میرے ذہن میں آ چکی تھی۔ میں نے سپاہیوں کو تو رخصت کیا اور اپنے ڈراٗیور کو ساتھ لے کر اسی کشتی کے ڈریعے جرنگاؤ پہنچا اور وہاں لوگوں سے آدم خور کے بارے میں تمام تفصیلات حاصل کیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ان میں سے کسی شخص نے آدم خور کو اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا تھا۔ البتہ اس کے غرانے اور بولنے کی آوازیں ضرور سنی تھیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے وہ مقام دکھایا جائے جہاں مزدور کی لاش پڑی ملی تھی۔ گاؤں سے ساٹھ آدمیوں کا ایک گروہ تیار ہوا اور پھر ہم دریا کے کنارے کنارے جنگل کی طرف چلے۔ میں اس امید پر زمین کو دیکھتا جارہا تھا کہ کہیں نہ کہیں آدم خور کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیں گے جن سے اس کے نر یا مادہ ہونے کا پتا لگ سکے گا۔ مگر دور تک کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں زمین پر خشک گھاس اگی ہوئی تھی اور خشک گھاس میں شیر کے پنجوں کے نشانات تلاش کرنا ناممکن بات تھی۔
چونکہ دن کا بڑا حصہ باقی تھا اور چمکیلی دھوپ جنگل میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شام سے پہلے پہلے اپنی تدبیر کو عملی جامہ پہنا دینا چاہیے۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم اس مقام پر پہنچے جہاں مزدور کی لاش پڑی دیکھی گئی تھی۔ یہ دراصل وسیع و عریض دلدلی قطعہ تھا۔ جس کے اوپر گھاس اگی ہوئی تھی اور بہت کم لوگ ادھر سے گزرنے کی جرات کرتے تھے۔ اس قطعے کے کنارے جھاڑیوں کے اندر، جہاں دن کے وقت بھی اندھیرا سا محسوس ہوتا تھا، شیر نے لاش چھپائی تھی۔ ارد گرد کی زمین پر اس کے پنچوں کے بڑے بڑے نشانات بھی موجود تھے اور پہلی ہی نظر میں پتا چل گیا کہ یہ آدم خور شیرنی نہیں شیر ہے۔
میں نے ان نشانات کا تعاقب کیا تو یہ جنگل کے اس حصے کی جانب تھے، جس کے پار ربڑ کے درختوں کا بہت لمبا چوڑا جنگل اگا ہوا تھا اور جہاں صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک سینکڑوں مرد، عورتیں اور بچے ربڑ جمع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کی موجودگی کے باعث جنگل میں منگل کی سی کیفیت چھائی رہتی تھی۔ مگر وہاں اب ایک بھیانک سناٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ کبھی کبھی کسی پرندے کے پھڑپھڑانے اور جنگلی طوطوں کے چیخنے کی آوازیں اس سکوت کو توڑتی ہوئی ہمارے کانوں تک آتی تھیں۔
ربڑ کے اس وسیع قطعے کے مشرقی کنارے پر ایک پگڈنڈی تھی جو گاؤں تک جاتی تھی اور اس پر اکثر آمدورفت رہتی تھی اور یہیں آدم خور نے اس مزدور پر حملہ کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ راستہ بھی گاؤں والوں کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے قطعی طور پر اندازہ ہوگیا کہ شیر نے بدنصیب مزدور پر کس طرح حملہ کیا ہوگا اور میں نے اس حادثے کی بکھری ہوئی کڑیاں اس طرح ترتیب دیں کہ جھپٹنے کے قوت شیر حسبِ معمول شکار کی تلاش میں نکلا اور پھرتا پھراتا ربڑ کے درختوں کی طرف آن نکلا اور یہیں اس نے ایک درخت پر مزدور کو دیکھا جو اپنا کام تقریباً ختم کر چکا تھا۔درخت سے بندھے ہوئے برتن ربڑ سے پر ہوچکے تھے اور اب انہیں لے جانے کے لیے کھول رہا تھا۔ شیر نے موقع غنیمت سمجھا اور بلی کی مانند دبے پاؤں ربڑ کے درختوں کے درمیان چلتا ہوا اس مزدور کے عقب میں کئی پندرہ گز دور ایک گرے ہوئے درخت کے پیچھے چھپ کر اسے دیکھتا رہا۔ اسے امید تھی کہ یہ شخص اب اس طرف آئے گا۔ لیکن جب شیر نے دیکھا کہ وہ دوسری طرف جارہا ہے تو وہ غصے سے غرایا اور پوری قوت سے دوڑا اور اس سے پیشتر کہ ہواس باختہ مزدور اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر اختیار کرے، شیر نے اسے نیچے گرا دیا۔
اس مزدور کی دو تین چیخیں جنگل کی خاموش فضا میں گونجیں اور دور فاصلے پر کام کرنے والے مزدور کے کانوں میں گئیں۔ اس نے شیر کے غرانے اور دھاڑنے کی آواز بھی ایک مرتبہ سنی اور پھر وہی بھیانک سکوت جنگل پر طاری ہوگیا۔ اس مزدور نے بعد میں مجھے بتایا کہ، "شیر کی آواز سن کر میں سمجھ گیا کہ ضرور کوئی شخص اس کے ہتھے چڑھ گیا ہے، لیکن مجھے وہاں جانے کی جرات نہ ہوئی۔ میں نے اپنا ربڑ وہیں چھوڑا اور گاؤں کی طرف بھاگ گیا۔"
میں نے اس گرے ہوئے درخت کا معائنہ کیا جہاں شیر مزدور پر حملہ کرنے سے پہلے چھپا تھا اور وہاں میں نے اس کے پنجوں کے گہرے نشانات پائے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے شکار پر حملہ کرنے سے پیشتر پوری تیاری میں تھا اور جس طرح بلی شکار پر جھپٹتے وقت اپنی گردن اور پیٹ جھکا لیتی ہے اور پچھلے پنجوں پے پورا بوجھ پڑتا ہے۔ اس طرح شیر نے بھی دو چھلانگیں لگائیں اور بےخبر مزدور کو جا لیا۔ شکار پر حملہ کرتے ہوئے شیر کی چھلانگیں لگانے کا انداز جن شکاریوں نے دیکھا ہے، وہی سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت دہشت کا کیا عالم ہوتا ہے۔
شیر نے جب دیکھا شکار ٹھنڈا ہوگیا، تو وہ اسے گھسیٹ کر اس مقام تک لے گیا جہاں وہ اس سے پہلے بھی کئی آدمیوں کو لے جاکر ہڑپ کر چکا تھا۔ میں نے اس مقام پر کئی انسانی ہڈیاں پڑی پائیں اور جھاڑ جھنکاڑ سے پُر ایسی جگہ تھی کہ اگر اتفاق رہنمائی نہ کرتا تو کوئی بھی یہاں اس مزدور کی لاش نہ پاسکتا تھا۔ اس مقام پر میں نے شیر کے بیٹھنے اور آرام کرنے کی واضح علامات بھی پائیں، گویا دوسرے الفاظ میں آدم خور رہتا بھی یہیں تھا۔
اب مجھے ایک ایسے مناسب درخت کی تلاش تھی جہاں میں مچان باندھ کر کسی خطرے کے بغیر اطمنان سے بیٹھ کر شیر کا انتظار کر سکوں اور وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔ ربڑ کے درخت ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر قطعاً اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس موقع پر انہی میں سے ایک اونچے درخت کا اعتبار کرنا پڑا، میرے ڈرائیور نے جلدی سے اس پر چڑھ کر دو مضبوط شاخوں کے درمیان رسیوں سے ایک تختہ باندھا۔ جس پر میں بیٹھ بھی سکتا تھا اور لیٹنا چاہتا تو تھوڑی دیر کے لیے لیٹ بھی سکتا تھا۔ اپنے آپ کو شیر کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے تختہ کی ارد گرد کی شاخوں پر دوسرے درختوں سے پتوں کی ٹہنیاں اور گھاس پھونس جمع کی گئی اور اسے بھی ڈوریوں سے باندھ دیا گیا۔ اب میں ان پتوں اور گھاس کے اندر اس طرح چھپ گیا تھا کہ درخت کے نیچے کھڑا ہوا کوئی بھی شخص میری موجودگی سے آگاہ نہ ہوسکتا تھا۔
اس کام سے فارغ ہوکر ہم نے اب دوسرا مرحلہ طے کیا۔ مزدور کے خون آلود کپڑے میرے پاس تھے۔ مین نے اسی جگہ جہاں لاش ملی تھی، یہ کپڑے گھاس پھونس کا ایک انسانی جسم بنا کر اس پر پھیلا دیے۔ دور سے دیکھنے پر کوئی بھی دھوکہ کھا جاتا کہ یہ آدمی مرا پڑا ہے۔ اگرچہ مجھے پورا یقین نہ تھا کہ شیر آج رات ضرور ہی ادھر آئے گا تاہم میں نے ارادہ کر لیا کہ میں مسلسل کئی راتوں تک اس کا انتظار کروں گا۔ اس لیے میں نے ڈرائیور سے کہہ دیا کہ وہ جرنگاؤ ہی میں میری رہائش کا انتظام کرے اور کوئی مناسب سا مکان تلاش کرے تاکہ میں ڈنگن سے اپنی بیوی کو بھی بلوا لوں جو میری ان سرگرمیوں پر بہت خوف زدہ رہتی ہے اور اگر میں چار پانچ روز تک واپس نہ گیا تو وہ یہی سمجھے گی کہ شیر نے مجھے بھی اپنا لقمہ بنا لیا ہے۔
چونکہ مجھے شیر کے انتظار میں رات بھر جاگنا تھا۔ اس لیے میں نے تھرماس میں گرم چائے بھروا کر اپنے پاس رکھوالی۔ سگریٹوں کے پیکٹ، ماچس اور برقی ٹارچ میرے پاس پہلے سے ہی موجود تھی۔ جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے اور پرندوں کی ٹولیاں اپنے اپنے آشیانوں کو واپس آنے لگیں تو میں نے اپنے ڈرائیور صالح بن محمود کو جرنگاؤ چلے جانے کی ہدایت کی اور کہا وہ علی الصبح آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے جائے۔
سورج غروب ہوتے ہی فضا میں خنکی بڑھنے لگی اور اب مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا کہ میں نے سردی سے بچنے کا تو کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔ کم از کم ایک کمبل ہی منگوا لیتا۔ اب تو ڈرائیور یہاں سے جا چکا۔ رات بھر مجھے سردی سے ٹھٹھرنا پڑے گا۔ میری جیبوں میں اتفاق سے دستانے موجود تھے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہاتھوں کو تو سردی سے بچایا جا سکتا ہے، ورنہ رائفل چلانے میں بڑی دقت ہوتی۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، سات بج رہے تھے اور جنگل میں گھپ اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہر شے پر سکوت طاری تھا۔دلدل کے اوپر جھاڑیوں کے قریب بہت سے جگنو چمک کر شراروں کی مانند اڑ رہے تھے۔ میں دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔
مجھے قطعاً احساس نہیں ہوا کہ مین کب نیند کی آغوش مین پہنچ گیا۔ اچانک میری آنکھ کھلی۔ ایک الو کہیں بھیانک آواز میں چیخ رہا تھا۔ سردی کا اثر زائل کرنے کے لیے میں نے تھرماس سے چائے نکال کر پی اور سگریٹ سلگا لیا۔
تھوڑی دیر بعد مشرق کی جانب سے پچھلے پہر کے زرد چاند کا ابھرتا ہوا چہرہ دکھائی دیا اور جنگل میں مدھم سی سوگوار روشنی پھیل گئی، جس میں ہر شے ساکت اور خاموش دکھائی دیتی تھی۔ میں نے اپنی چھٹی حس کو بیدار پایا اور رائفل سنبھال کر مصنوعی لاش کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ جس کے اوپر رکھی ہوئی ہڈی دکھائی دے رہی تھی۔ دفعتہً میں نے دلدل کے قریب کھڑکھڑاہٹ اور خشک پتوں کے چرچرانے کی آواز سنی۔ مین سانس روک کر بیٹھ گیا اور پلک جھپکائے بغیر ادھر تکنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہآدم خور مصنوعی لاش کے قریب کھڑا ہے اور غالباً اسے بھی کسی دشمن کی موجودگی کا احساس ہوگیا ہے۔میرا دل دھڑکنے لگا اور سردی کے باوجود پیشانی پر پسینے کے قطرے پھوٹنے لگے۔ بلند مچان پر بیٹھنے اور کئی شیروں کو ہلاک کرنے کے باوجود مجھ پر آدم خور کا خوف سوار ہوگیا۔ کیوں کہ یہ اس سے میرا پہلا سابقہ تھا۔
میں نے اسے اب تک نہیں دیکھا تھا اور جانتا تھا کہ اگر میری جانب سے اس نے ذرا سی بھی آہٹ پائی تو وہ فرار ہوجائے گا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ پس میں سانس روکے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ چند منٹ بعد درختوں کے پار میں نے اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی۔ وہ دبے پاؤں چل رہا تھا۔ پھر اس نے منہ پھیر کر اس جانب دیکھا، جدھر میں بیٹھا ہوا تھا اور خون میری رگوں میں جمنے لگا۔ خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں، لیکن ارادے کے باوجود فائر کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ چند سیکنڈ بعد آدم خور میری نظروں سے اوجھل ہوگیا، تو میری جان میں جان آئی اور مجھے اپنی بزدلی پر شرم آئی کہ شیر سے اس قدر فاصلے اور مچان پر محفوظ ہونے کے باوجود میں اس سے ڈر رہا ہوں۔
ایک بار پھر میں نے جھاڑیوں میں کھڑکھڑاہٹ سنی، آدم خور غالباً مصنوعی لاش کو نوچ رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ اس طرح کھڑا تھا کہ مجھے اس کی پشت دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نشانہ باندھا اور خدا کا نام لے کر لبلبی دبا دی۔ رائفل کے منہ سے شعلہ نکلا اور جنگل گونج اٹھا۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ شیر نے ایک خوفناک گرج کے ساتھ جست کی اور دوڑتا ہوا ادھر چلا گیا، جدھر سے آیا تھا۔ اس کے غرانے اور گرجنے کی آوازوں سے جنگل دیر تک لرزتا رہا اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل کر فضا میں اڑنے لگے اور بندروں نے چیخ چیخ کر آسمان سے پر اٹھا لیا۔ میں حیران تھا کہ صحیح نشانہ باندھنے کے باوجود وہ بچ کر نکل گیا۔ ممکن ہے کہ وہ زخمی ہوچکا ہو۔ یہ خیال آتے ہی میرے دل کو ڈھارس بندھی اور میں صبح کا انتظار کرنے لگا، لیکن آدھے گھنٹے بعد ہی جنگل میں لال ٹینوں کی روشنیاں۔۔۔۔۔ اور پھر بہت سے آدمیوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔۔۔ جرنگاؤ کے آدمیوں تک رائفل کی آواز پہنچ گئی تھی۔
بارہ آدمی لاٹھیاں اور لالٹینیں لیے نمودار ہوئے ان کے ساتھ بندوقیں سنبھالے ہوئے تین سپاہی اور میرا ڈرائیور صالح بن محمود بھی موجود تھا۔ انہوں نے سیڑھی لگا کر مجھے نیچے اتارا اور پھر ہم نے اس جگہ کا معائنہ کیا جہاں شیر کھڑا تھا۔ اس نے مصنوعی لاش کو نوچ ڈالا تھا۔ اس کے پنجوں کے نشان زمین پر گہرے تھے اور قریب ہی ایک شاخ پر میری رائفل سے نکلی ہوئی گولی کا نشان تھا۔ آدم کور بال بال بچ گیا تھا۔
صبح کاذب کا دھندلکا آسمان کے مشرقی گوشے پر شفق کی ہلکی سرخی مین آہستہ آہستہ تبدیل ہورہا تھا۔ میں مایوسی کی حالت میں منہ لٹکائے ان لوگوں کے ساتھ جرنگاؤ چلا آیا۔ رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ اس لیے خوب گھوڑے بیچ کر سویا۔ سہ پہر کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں نے سنب سے پہلے ڈرائیور سے پوچھا کہ آدم خور کے بارے میں کوئی تازہ خبر ملی؟ اس نے اثباب میں سر ہلایا اور کہا، "شیر کے پنجوں کے نشانات جرنگاؤ کے اندر پائے گئے ہیں۔ لیکن اسے کسی آدمی پر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بھوکا ہونے کی باعث اس نے ایک گائے کو ہلاک کیا اور گھسیٹ کے لے جا نہ سکا۔ سبھی لوگ اس واقعے سے خوف زدہ ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس وقت تک گھروں سے باہر قدم نہ رکھیں گے جب تک اس بلا کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ گیم ڈیپارٹمنٹ والوں نے وعدہ کیا کہ وہ عنقریب چند تجربہ کار شکاری بھیج رہے ہیں۔"
"گائے کو شیر نے کہاں ہلاک کیا؟" مین نے سوال کیا۔
"باڑے مین گھس کر۔" محمود نے جواب دیا۔ "آپ کو معلوم ہے کہ گاؤں کے سب مویشی ایک ہی باڑے مین رات کو بند کیے جاتے ہیں۔ لکڑی کے مضبوط تختون کی ایک وسیع چاردیواری ہے جس کی اونچائی چار فٹ ہے اور شیر اس کے اندر چھلانگ لگا کر بخوبی داخل ہو سکتا ہے۔ گزشتہ رات جب آپ نے شیر پر فائر کیا تو وہ بےچین ہو کر ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اسے یقیناً بھوک ستا رہی تھی۔ پس وہ گاؤں میں گھس گیا وہاں کتوں نے اسے دیکھ کے بھونکنا شروع کیا تو وہ مویشیوں کے باڑے میں پھلانگ گیا اور ایک گائے کو گرا لیا۔ شیر کے اندر آتے ہی سو ڈیڑھ سو مویشیوں میں بھگڈڑ مچ گئی جس نے شیر کو بدحواس کردیا اور وہ غراتا ہوا وہاں سے نکلا اور جنگل کی جانب چلا گیا۔ آپ چائے پی کر میرے ساتھ چلیے، تو میں گائے کی لاش اور شیر کے پنجوں کے نشان آپ کو دکھا دوں۔"
میں نے جلد جلد چائے زہر مار کی اور محمود کو ساتھ لے کر گائے کی لاش دیکھنے چلا۔ باڑے کے باہر ریتیلی زمین پرشیر کے پنجوں کے گہرے نشان دکھائی دیے۔ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے اندر داخل ہونے سے پہلے چاروں طرف چکر لگایا اور جب وہ باڑے میں کودا تو جانوروں میں ہلچل مچ گئی۔ شیر نے طیش میں آ کر ایک گائے پر حملہ کیا اور اسے شدید زخمی کردیا لیکن اس دوران مین دوسرے مویشیوں نے شیر کے خوف سے ادھر ادھر دوڑنا اور اچھلنا شروع کردیا۔ شیر اپنے شکار کا خون بھی نہ چجھ سکا اور بدحواس ہو کر باہر بھاگ گیا۔ اتنے مین گاؤں کے بہت سے لوگ مویشیوں اور شیر کے غرانے کی آواز سن کر وہاں پہنچ گئے اگرچہ اندھیرا کافی تھا مگر انہوں نے شیر کی سرخ آنکھیں دیکھ ہی لیں۔ افسوس کہ ان میں سے کسی کے پاس رائفل نہ تھی ورنہ آدم خور کا کام اسی وقت تمام ہو جاتا، یہ لوگ ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے ہوئے تھے اور اگر ہمت کر کے شیر کو گھیر کر اس پر لاٹھیاں برسادیتے تو یقیناً اس کا کچومر نکل جاتا۔
میں نے گائے کی لاش کو وہاں سے اٹھوایا اور جنگل میں عین اس مقام پر رکھوا دیا جہاں گزشتہ رات مصنوعی لاش بنا کر رکھی گئی تھی۔ مجھے اب ایک بار پھر شیر کے انتظار میں اسی مچان پر رات کاٹنی پڑی۔
وقت مقررہ پر میں کیل کانٹے سے لیس ہوکر مچان پر پہنچ گیا اور آدم خور کا انتظار کرنے لگا۔ اس مرتبہ مجھے یقین تو نہین تھا کہ وہ ادھر کا رخ کرے گا، تاہم اس کا یہاں آنا محال بھی نہ تھا۔ قصے کو مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ رات ایک بجے جب میرے اعصاب پر پژمردگی طاری ہوچکی تھی اور میں آدم خور کی آمد سے تقریباً مایوس ہوچکا تھا، کہ درختوں پہ بسیرا کرنے والے سینکڑوں پرندے یکایک اپنے آشیانوں سے اڑے اور فضا میں سایوں کی مانند چکر کاٹنے لگے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ شیر اپنی کمین گاہ سے برآمد ہو چکا ہے۔ اور شکار کی تلاش میں پھر رہا ہے۔ دفعتہً میرے ذہن میں ایک تدبیر آئی کو میں اپنے ایک پیشرو شکاری کینتھ اینڈرسن کے حالات میں دیکھ چکا تھا کہ جب وہ شیر کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے تو اونچی آواز میں بولنا یا گانا شروع کردیتے۔ آدم خور شیر چونکہ انسانی آواز فوراً پہچان لیتا ہے اس لیے بےڈھڑک اس جانب دوڑ کر آتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا انسان جنگل میں آ نکلا ہے۔ جسے تر لقمہ بنایا جاسکتا ہے۔
اگرچہ یہ حربہ ایک حماقت ہے، لیکن اس کے موثر ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ میں نے یہ محسوس کر کے کہ شیر قریب ہی موجود ہے، اونچے لہجے میں بولنا اور نادیدہ لوگوں کو آوازیں دینی شروع کردیں۔ چند منٹ بعد اچانک ایک جانب سے شیر کے غرانے کی ہلکی سی آواز آئی اور میرا کلیجہ سمٹ کے حلق میں آگیا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس درندے کی آواز میں کیسا دبدبہ اور رعب تھا کہ نڈر سے نڈر آدمی کی ایک مرتبہ تو گھگھی بندھ ہی جاتی ہے۔
میرے چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا اور میں بار بار مشرق کی جانب دیکھتا کہ پچھلے پہر کا چاند نمودار ہونے میں کتنی دیر ہے۔ تاکہ میں شیر کی موجودگی کا صحیح اندازہ کر سکوں۔ میری رائفل میں اگرچہ طاقتور برقی ٹارچ لگی ہوئی تھی، لیکن جب تھ شیر کی صحیح پوزیشن کا علم نہ ہوجائے، ٹارچ روشن کرنا حماقت تھی۔ شیر اس کی روشنی دیکھتے ہی فرار ہوجاتا ہے۔
چند منٹ تک جنگل پر موت کا سکوت طاری رہا۔ فضا مین اڑتے ہوئے پرندے اب آہستہ آہستہ درختوں پر جمع ہوتے جارہے تھے۔شیر یقیناً کسی درخت کی اوٹ میں کھڑا منتظر تھا کہ راہ گیر اس کے قریب سے گزرے تو وہ حملہ کرے۔ میں نے ایک بار پھر گانا شروع کردیا اور جواب میں شیر غرایا۔۔۔۔۔ اب میں نے اس کی آواز کا رُخ پہچان لیا۔ چاند نکلنے کا انتظار کرنا فضول تھا۔ میں نے خدا کا نام لے کر رائفل کی نال اس طرف پھیری اور ٹارچ روشن کردی۔ آدم خور ایک بھیانک آواز کے ساتھ دھاڑا اور چھلانگیں لگاتا ہوا میرر سامنے سے گزرا۔ بس وہی لمحہ تھا کہ میں نے نشانہ لیے بغیر فائر کردیا۔ شیر نے ایک قلابازی کھائی اور وہیں گر پڑا۔ میں نے فوراً دوسرا فائر کیا اور یہ گولی بھی شیر کے شانے میں پیوست ہوگئی اور چند منٹ بعد وہ سرد ہوچکا تھا۔
میں فرطِ مسرت سے بےتاب ہوکر مچان سے درخت پر پھسلتا ہوا اترا اور شیر کی جانب بھاگا۔ اس کا دم لبوں پر تھا۔ جبڑا کھلا ہوا تھا اور آنکھیں اپنی چمک زائل کرتی جاری تھیں۔ مجھے قریب دیکھ کر اس نے آخری کوشش کی اور میری جانب جست کی۔ میں اسے مردہ سمجھ کر قطعاً غافل تھا۔ شیر میرے اوپر آن پڑا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بوجھ سے میری کمر ٹوٹ جائے گی۔ رائفل میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک طرف جا گری۔
اب میں آدم خور کے رحم و کرم پر تھا۔ مین نے اپنے حواس بحال کرکے اس کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں پوری قوت صرف کردی اور جھپٹ کے رائفل اٹھا لی اور دو گولیاں اس کی کھوپڑی میں اتار دیں۔ آدم خور کے پیر تھرتھرائے اور وہ بالکل ختم ہوگیا، اور اس طرح جرنگاؤ کا وہ آدم خور جس نے کئی انسانی جانوں کو ہڑپ کیا تھا، بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
×××​
 

نایاب

لائبریرین
مزہ آگیا عرصہ بعد شیر کا شکار کرتے
محترم انیس الرحمن بھائی
شراکت پر بہت شکریہ
بہت دعائیں
 
مقبول جہانگیر نے یہ جم کاربٹ کا ترجمہ کیا ہے یا کینتھ انڈرسن کا؟
صبح سے ہم بھی اسی ادھیڑ بن میں تھے ۔ آخر تک پڑھنے کے بعد ہی پرہ چلا کہ مصنف نے کینتھ اینڈرسن کا بطور ایک دوسرے شکاری کے تذکرہ کیا ہے، لہٰذا گمان غالب ہے کہ یہ جم کاربٹ ہی کا مضمون ہے۔
 
صبح سے ہم بھی اسی ادھیڑ بن میں تھے ۔ آخر تک پڑھنے کے بعد ہی پرہ چلا کہ مصنف نے کینتھ اینڈرسن کا بطور ایک دوسرے شکاری کے تذکرہ کیا ہے، لہٰذا گمان غالب ہے کہ یہ جم کاربٹ ہی کا مضمون ہے۔
جم کاربٹ کماؤں سے باہرنہیں گئے۔ کینتھ اینڈرسن بھی میسور تک محدود رہے۔۔
 
بہت خوب.
ایک دوست ہیں. انہوں نے اپنے فیس بک آرکائیو میں کچھ کہانیاں تصویری صورت میں پوسٹ کی ہیں.
اگر کوئی ان کو برقیانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو لنک درج ذیل ہیں:

بلندر کا آدم خور

آدم خور بد روحیں

ساؤ کے آدم خور

جھومری کا آدم خور

اور رائفل خالی تھی

موہنیا کا آدم خور

خطا کس کی - سزا کس کو

بندوق شیر نے چلائی تھی

پانار کے آدم خور

اونچی پُلیا پر

جڑواں آدم خور

پانچ آدم خور

چکوری کا سیاہ آدم خور
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب.
ایک دوست ہیں. انہوں نے اپنے فیس بک آرکائیو میں کچھ کہانیاں تصویری صورت میں پوسٹ کی ہیں.
اگر کوئی ان کو برقیانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو لنک درج ذیل ہیں:

بلندر کا آدم خور

آدم خور بد روحیں

ساؤ کے آدم خور

جھومری کا آدم خور

اور رائفل خالی تھی

موہنیا کا آدم خور

خطا کس کی - سزا کس کو

بندوق شیر نے چلائی تھی

پانار کے آدم خور

اونچی پُلیا پر

جڑواں آدم خور

پانچ آدم خور

چکوری کا سیاہ آدم خور
ساؤ کے آدم خور کا ٹائٹل بیچلر آف پوال گڑھ سے لیا گیا ہے جو جم کاربٹ کی ہے۔ ساؤ کے آدم خور تو کرنل پیٹرسن کی تھی
اور رائفل خالی تھی میں چیتے کو اصل سے کم از کم دو یا تین گنا زیادہ بڑی جسامت کا دکھایا گیا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
مقبول جہانگیر نے یہ جم کاربٹ کا ترجمہ کیا ہے یا کینتھ انڈرسن کا؟

یہ جانے کون سے شکاری تھے۔۔۔
کیوں کہ یہ ملایا کے جنگلوں کا ذکر ہے اس لیے مجھے بالکل نہیں معلوم۔۔۔ قیصرانی بھائی بتا سکیں شاید۔
ٹائیگرز آف ترینگانو نامی کتاب ہے۔ اس میں صفحہ نمبر 181 سے جرنگاؤ کا آدم خور شروع ہوتی ہے۔ اس کے مصنف کا نام لیفٹینٹ کرنل اے لاک ہے :)
 

قیصرانی

لائبریرین
جم کاربٹ کماؤں سے باہرنہیں گئے۔ کینتھ اینڈرسن بھی میسور تک محدود رہے۔۔
آدم خور کی حد تک تو ٹھیک ہے، ورنہ جم کاربٹ افریقہ بھی شکار کھیل چکے تھے اور انڈیا کے دیگر حصوں میں بھی
کینتھ اینڈرسن کو میں اچھا شکاری نہیں مانتا۔ سب سے بڑی وجہ تو ان کا پروفیشنل شکاری ہونا ہے، یعنی پیسے کی خاطر آدم خور درندوں اور پاگل ہاتھیوں کا شکار کرنا۔ ان کے لیے سفید رنگت اور مقامی افراد کی جان اور ان کی لاش کی اہمیت الگ الگ ہوتی تھی اور بہت جگہوں پر انہوں نے بزدلی دکھائی ہے۔ ان کا دائرہ عمل جنوبی انڈیا تک محدود رہا۔ پھر جادو ٹونے میں ان کی دلچسپی سونے پر سہاگہ
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب.
ایک دوست ہیں. انہوں نے اپنے فیس بک آرکائیو میں کچھ کہانیاں تصویری صورت میں پوسٹ کی ہیں.
اگر کوئی ان کو برقیانے میں دلچسپی رکھتا ہے تو لنک درج ذیل ہیں:

بلندر کا آدم خور

آدم خور بد روحیں

ساؤ کے آدم خور

جھومری کا آدم خور

اور رائفل خالی تھی

موہنیا کا آدم خور

خطا کس کی - سزا کس کو

بندوق شیر نے چلائی تھی

پانار کے آدم خور

اونچی پُلیا پر

جڑواں آدم خور

پانچ آدم خور

چکوری کا سیاہ آدم خور
آپ اتار کر یہاں دے سکتے ہیں؟ میرا فیس بک اکاؤنٹ ایکٹو نہیں ہے عرصہ دراز سے
 
Top