مصطفیٰ زیدی جرمنی

غزل قاضی

محفلین
جرمنی

میں نے کب جنگ کی وحشت کے قصیدے لکھے
میں نے کب امن کے آہنگ سے انکار کیا
میں نے تو اپنے سرِ دامنِ دل کو اب تک
کبھی پُھولوں ، کبھی تاروں کا گنہگار کیا
اے مری روحِ طرب میں نے ہر عَالم میں
جب بھی تو آئی ترے پَیار کا اقرار کیا

لیکن اس دیس کے آہنگِ گراں بار میں بھی
وہی نغمہ ہے جو شب تاب کی تقدیر میں ہے
میں نے زلفوں کے گھنے سائے میں سیکھی تھی جو بات
وہی اس حلقہء بدنام کی زنجیر میں ہے
کتنے خوابوں کے طلسمات کی جنّت ہے یہاں
کون سا خواب ابھی پردہء تقدیر میں ہے
خواب اس وقت کا جو وقت نہیں آسکتا
خواب اس وقت کا جس وقت کو آنا ہوگا

گیت جس میں اب لب و رخسار کے افسانے ہیں
گیت جو خود بھی کبھی ایک فسانہ ہو گا !
جس کو چھیڑیں گے مہکتے ہوئے ہونٹوں کے گلاب
جس کو بندوق کے آہنگ پہ گانا ہوگا

آگ کے دشت پڑے ، خُون کے صحرا آئے
اب بھی لیکن وہی رفتارِ جواں ہے کہ جو تھی
میونخ اب بھی ہر اک ہر اک عہد کا روشن وارث
ہائیڈلبرگ و حکمت کی دوکاں ہے جو کہ تھی

فرض کرتے ہیں تری مرگ وہی لوگ جنھیں
خود نہ جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور !
تیرے ماتھے پہ نئے عہد نئے دن کی امنگ
تیری آنکھوں میں چمکتے ہوئے مہتاب کا نور
وَیگنر کا یہ سبک ساز یہ فولاد کے گیت
تیرے سینے کی امنگیں تیرے بازو کا غرور
ہم پیمبر تو نہیں ہیں ترے دیوانے ہیں
اک ذرا آگ ہمیں بھی ملے اے شعلہء طور

( فرینکفرٹ )

( مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
 

فرخ منظور

لائبریرین
جرمنی

میں نے کب جنگ کی وحشت کے قصیدے لکھے
میں نے کب امن کے آہنگ سے انکار کیا
میں نے تو اپنے سرِ دامنِ دل کو اب تک
کبھی پُھولوں ، کبھی تاروں کا گنہگار کیا
اے مری روحِ طرب میں نے ہر عَالم میں
جب بھی تو آئی ترے پَیار کا اقرار کیا

لیکن اس دیس کے آہنگِ گراں بار میں بھی
وہی نغمہ ہے جو شب تاب کی تقدیر میں ہے
میں نے زلفوں کے گھنے سائے میں سیکھی تھی جو بات
وہی اس حلقۂ بدنام کی زنجیر میں ہے
کتنے خوابوں کے طلسمات کی جنّت ہے یہاں
کون سا خواب ابھی پردۂ تقدیر میں ہے

خواب اس وقت کا جو وقت نہیں آسکتا
خواب اس وقت کا جس وقت کو آنا ہوگا
گیت جس میں لب و رخسار کے افسانے ہیں
گیت جو خود بھی کبھی ایک فسانہ ہو گا !
جس کو چھیڑیں گے مہکتے ہوئے ہونٹوں کے گلاب
جس کو بندوق کے آہنگ پہ گانا ہوگا

آگ کے دشت پڑے ، خُون کے صحرا آئے
اب بھی لیکن وہی رفتارِ جواں ہے کہ جو تھی
میونخ اب بھی ہر اک عہد کا روشن وارث
ہائیڈلبرگ و حکمت کی دوکاں ہے جو کہ تھی

فرض کرتے ہیں تری مرگ وہی لوگ جنھیں
خود نہ جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور !
تیرے ماتھے پہ نئے عہد نئے دن کی امنگ
تیری آنکھوں میں چمکتے ہوئے مہتاب کا نور
وَیگنر کا یہ سبک ساز، یہ فولاد کے گیت
تیرے سینے کی امنگیں ترے بازو کا غرور
ہم پیمبر تو نہیں ہیں ترے دیوانے ہیں
اک ذرا آگ ہمیں بھی ملے اے شعلۂ طور

( فرینکفرٹ )

( مصطفیٰ زیدی از مَوج مِری صدف صدف )
 
Top