جرمنی میں اعلی تعلیم کے مواقع

نبیل

تکنیکی معاون
پاکستان میں انجینیرنگ اور کمپیوٹر کے طلبا اور طالبات اپنی بی ایس سی یا ماسٹرز کی تعلیم ختم ہونے سے پہلے کم از کم ایک مرتبہ مزید تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کا ضرور سوچتے ہیں۔ کچھ سٹوڈنٹ بروقت منصوبہ بندی کرتے ہیں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ خط و کتابت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں فارغ التحصیل ہونے تک ان کا بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے کا کام بھی مکمل ہو جاتا ہے اور ویزہ ملنے کی شرط پر یہ اعلی تعلیم کے روانہ بھی ہوجاتے ہیں۔ میری طرح جو لوگ فوراً نہیں جا پاتے، وہ کم از کم اس خواہش کو دل میں ضرور رکھتے ہیں اور مناسب موقعہ ملنے پر اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سٹوڈنٹس کی توجہ عام طور پر ان ممالک کی یونیورسٹیوں کی جانب ہوتی ہے جہاں انگریزی بولی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستانی طلبا و طالبات کی انگریزی کی بہتر قابلیت ہے۔ ان کے لیے TOEFL یا IELTS جیسے امتحان پاس کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

پاکستانی سٹوڈنٹس عام طور پر جرمنی آنے سے گھبراتے ہیں۔ ایک وجہ ایک غیرمانوس جرمن زبان ہے جو کہ سیکھنے میں بھی اتنی آسان نہیں ہے۔ دوسری وجہ ایک قطعی مختلف نظام تعلیم ہے جہاں بیچلرز اور ماسٹرز الگ نہیں ہوتے اور ایک ہی پانچ سال کی ڈگری ہوتی ہے جسے ڈپلوم (Diplom) کہا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جرمنی والے پاکستان میں کی گئی بیچلرز کے کوئی کریڈٹس بھی نہیں دیتے جس کی وجہ سے وہاں تعلیم کا آغاز پہلے سمسٹر سے کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال تقریباً دس سے بتدریج تبدیل ہو رہی ہے لیکن پاکستانی سٹوڈنٹس حیران کن طور پر اس سے بے خبر ہیں۔

میں نے یونیورسٹی آف ارلینگن (University of Erlangen) سے کمپیوٹیشنل انجینیرنگ میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ یہ ایک بین المضامینی (Interdisciplinary) سبجیکٹ ہے جس میں انجینیرنگ کی فیلڈ میں کمپیوٹر سائنس کی اطلاقیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ دو سال کا ماسٹرز پروگرام اس یونیورسٹی میں 1997 سے شروع ہوا ہوا ہے اور اب تک صرف دو پاکستانیوں نے یہاں سے یہ ماسٹرز کی ہے۔ ان میں سے ایک میں ہوں اور دوسرا میرا ایک عزیز ہے جسے میں نے کافی مشکل سے یہاں آنے پر آمادہ کیا تھا۔ وہ اب ماسٹرز ختم کرنے کے بعد اپنی پی ایچ ڈی بھی مکمل کرنے کے قریب ہے۔ زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ماسٹرز پروگرام انگریزی میں آفر ہو رہا ہے اور اس میں ہماری انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور کی بیچلرز کی ڈگری کو تسلیم بھی کیا گیا تھا۔

ایک طرف پاکستانی سٹوڈنٹ جرمنی کی جانب کم رخ کرتے ہیں، دوسری طرف ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بھارتی اور چینی سٹوڈنٹس یہاں امڈے آتے ہیں۔ اگرچہ اب کچھ زیادہ پاکستانی طلبا یہاں آنے لگے ہیں لیکن میرے خیال میں انہوں نے یہاں تعلیم حاصل کرنے کا بہترین وقت مِس کر دیا ہے۔ جس وقت میں نے ماسٹرز کی تھی اس وقت جرمنی میں تعلیم بالکل مفت تھی اور اب تمام جرمنی میں یونیورسٹیاں بتدریج ٹیوشن فیس لاگو کر رہی ہیں۔ اگرچہ امریکی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں یہ فیس ابھی بھی بہت کم ہے لیکن قیاس یہی ہے کہ یہ بڑھتی جائے گی۔

بہرحال میری اس تحریر کا مقصد یہی معلومات عام کرنا تھا کہ اب پورے جرمنی میں ماسٹرز اور بیچلرز پروگرام شروع ہو رہے ہیں جو کہ بین الاقوامی نظام تعلیم سے کمپیٹبل بھی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ پروگرام جرمن میں ہیں لیکن ڈھونڈھنے پر مطلوبہ فیلڈ میں انگریزی میں پروگرام ضرور مل جاتا ہے۔ میرا ارادہ مزید اس موضوع پر لکھنے کا ہے اور میں کمپیوٹیشنل انجینیرنگ کے بارے میں بھی مزید معلومات فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ دوسرے دوست جو بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا تعلیم سے فارغ ‌ہو چکے ہی، ان سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ جونیئر سٹوڈنٹس کی اس سلسلے میں رہنمائی کریں۔ پاکستانی اخبارات میں بیرون ملک داخلہ کروانے کے لیے ایجنٹوں کے اشتہارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سٹوڈنٹ بلاجواز ان پر اپنا پیسہ ضائع کر رہے ہیں جبکہ خود وہ یہ کام بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔

وہ طلبا و طالبات جو اگلے سال (2007) میں جرمنی میں اپریل کے سمسٹر میں یونیورسٹی جوائن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ ابھی اپنے داخلے کی کاروائیاں شروع کر دیں۔ اپریل کے سمسٹر کے لیے داخلے دسمبر تک مکمل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ویزے کے لیے جرمنی کی ایمبیسی کے چکر لگانے پڑیں گے۔

ذیل کے روابط پر آپ جرمنی میں اپنے مطلب کا بیچلرز یا ماسٹرز پروگرام ڈھونڈھ سکتے ہیں:

First degree studies
Graduate studies
 

دوست

محفلین
بہت معلوماتی تحریر ہے۔
میں آگے ضرور بتاؤں گا ان معلومات کے بارے میں۔
 
Top