جدید شاعری

عباد اللہ

محفلین
فیسبک کے اساتذہ ان دنوں اس قسم کے کلام سے نواز رہے ہیں
شراب آنکھیں
گلاب آنکھیں
کباب آنکھیں
یہ نرم رخسار
گرم رخسار ا
شرم رخسار
عجب ادائیں
غضب ادائیں
سو لطف کا ہیں
سبب ادائیں
یہ زلفِ توتِ سیاہ یعنی
ارے ارے کچھ غلط کہا ہے
درست کچھ اس طرح ہے جاناں
یہ زلفِ برہم
سیاہ پرچم
کہ جیسے بچے مچائیں اودھم
سو اب یہ تشبیب ہو چکی ہے
قصیدۂ لب جو رہ گیا ہے
برا نہ مانو
تمہاری قامت کا تذکرہ بھی
دھیان سے محو ہو گیا تھا
مگر وہ کیا ہے
کہ اب یہ فرسودہ رسم ہم ترک کر چکے ہیں
تو غیرتِ ماہ ہے مگر ہم
قصیدۂ حسن کیا کہیں اب
یہ نظم بھی خود پہ جبر کر کے
ترے تصور میں کہہ رہے ہیں
وہی تصور کہ جس میں ہم پر
ہوس کا غلبہ نہیں ہے لیکن
کوئی کسک ہے ستا رہی ہے
مگر میں سادہ تھا کہہ گیا ہوں
سو تم بھی وعدہ کرو کہ اس کو
ہوس پرستی نہیں کہو گے
ترے تصور سے عشق کرتا
تمہارا پریمی
(جاری و ساری ۔۔۔۔۔)
 
آخری تدوین:
Top