جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں

ظفری

لائبریرین
جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں
دل سے ہم انتقام لیتے ہیں

میری بربادیوں کے افسانے
میرے یاروں کے نام لیتے ہیں

بس یہی ایک جُرم ہے اپنا
ہم محبت سے کام لیتے ہیں

ہر قدم پر گرے ، مگر سیکھا
کیسے گرتوں کو تھام لیتے ہیں

ہم بھٹک کر جنوں کی راہوں میں
عقل سے انتقام لیتے ہیں
 

محسن حجازی

محفلین
اور کیا خوبصورت جگجیت اور چترا نے گائی ہے؟ کمال۔۔۔ میں اکثر سنتا ہوں۔۔۔۔ ایک اور بھی ہے۔۔۔

چاک جگر کے سی لیتے ہیں۔۔۔۔
جیسے بھی ہو جی لیتے ہیں۔۔۔

اور پھر۔۔۔
میری تنہاہئو تمہیں لگا لو مجھ کو سینے سے۔۔۔ کہ میں گھبرا گیا ہوں اس طرح رو رو کے جینے سے۔۔۔


یہ بھی کہ۔۔۔
کس کو آتی ہے مسیحائی۔۔۔
کسی کو آواز دوں اے خونخوار تنہائی۔۔۔۔


اور کچھ یوں بھی کہ۔۔۔۔
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی۔۔۔
جیسے احسان اتارتا ہے کوئی۔۔۔
آئینہ دیکھ کر تسلی ہوئی۔۔۔
اس گھر میں ہمیں جانتا ہے کوئی۔۔۔


میں اکثر یہ غزلیں گنگناتا ہوں۔۔۔

ظفری بھائی اچھا انتخاب ہے۔

کل رات تین بجے اسلام آباد کی شدید سردی میں ایک ٹیکسی میں سفر کا اتفاق ہوا۔۔۔ کوئی ایک گھنٹے کا سفر تھا اور اس بھلے مانس نے غلام علی کا ایک پنجابی گیت لگایا ہوا تھا جس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔
کی حال پچھدے او ساڈے فقیراں دا۔۔۔۔
۔۔۔
اور کچھ یوں بھی ایک شعر تھا کہ
تقدیر ساڈی ہے نئیں تے تدبیر ساڈے کو ہوئی نہیں۔۔
نہ جھنگ چھڈیا نہ کن پاٹے ڈولا کون لے گيا ہیراں دا۔۔۔

اس سے خوبصورت سفر میں نے اب تک نہیں کیا۔۔۔۔۔۔!
 
Top