کلیم عاجز جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا۔

جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا
یاد ہم کو انقلاب روزگار آ ہی گیا

کس لیے اب جبر کی تکلیف فرماتے ہیں آپ
بندہ پرور میں تو زیر اختیار آ ہی گیا

لالہ و گل پر جو گزری ہے گزرنے دیجئے
آپ کو تو مہرباں لطف بہار آ ہی گیا

دہر میں رسم وفا بدنام ہو کر ہی رہی
ہم بچاتے ہی رہے دامن غبار آ ہی گیا

ہنس کے بولے اب تجھے زنجیر کی حاجت نہیں
ان کو میری بے بسی کا اعتبار آ ہی گیا

شکوہ سنجی اپنی عادت میں نہیں داخل مگر
دل دکھا تو لب پہ حرف ناگوار آ ہی گیا
کلیم عاجز
 
Top