جب شعر سفر کرجائےگا۔۔۔ وسعت اللہ خان، بی بی سی اردو

محمداحمد

لائبریرین
جب شعر سفر کرجائےگا

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، جون ایلیا، خاطر، قتیل، فارغ، منیر نیازی ، احمد شاہ فراز۔آسمانِ سخن کی یہ ڈار کل پوری طرح بکھرگئی ۔ظفر اقبال اور انور شعور نامی دو بچھڑی کونجیں پر سمیٹے بیٹھی ہیں۔اور اب ہم فرحت عباس شاہ، وصی شاہ اور سعد اللہ شاہ وغیرہ کے رحم و کرم پر ہیں۔

احمد فراز قبیلہ فیض کے آخری سورما تھے ۔یہ قبیلہ دنیائے ادب میں مزاحمتی نوالے کو معشوقی کے شہد میں ڈبو کر تناول کرنے کے لئے جانا جاتا تھا۔

احمد شاہ فراز اور انکے ہم عصروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اردو فراز کی سیکنڈ لینگیویج بھی نہیں تھی۔بلکہ اردو انہوں نے صحیح معنوں میں اپنی ریڈیو پاکستان کی نوکری کے زمانے میں سیکھنی شروع کی۔پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا کہ اہلِ اردو کے لئے تیرہ شعری مجموعے چھوڑ کر رخصت ہوا۔

ایک فراز وہ تھا جو

وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم، عاشقی زیادہ تھی


ٹائپ کی شاعری کررہا تھا اور پھر یوں لگا جیسے اس نے تخلیقی انجن پر پانچواں گئیر ٹربو کے ساتھ لگا دیا۔

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیری جستجو کرے
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا

اتنا بے صرفہ نہ جائے میرے گھر کا جلنا
چشمِ گریہ نہ سہی چشمِ تماشائی دے

یوں پھر رھا ہے کانچ کا پیکر لئے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا

یارو مجھے مصلوب کرو تم کہ مرے بعد
شاید کہ تمہارا قدوقامت نکل آئے

رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے

کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے

میرے سخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سنایا اسے فسانہ لگا

میری ضرورتوں سے زیادہ کرم نہ کر
ایسا سلوک کر کہ میرے حسبِ حال ہو

کیا مالِ غنیم تھا میرا شہر
کیوں لشکریوں میں بٹ گیا ہے

دانے کی ہوس لا نہ سکی دام میں مجھ کو
یہ میری خطا میرے شکاری نہیں بھولے

میری گردن میں بانہیں ڈال دی ہیں
تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا

درِ زنداں سے پرے کون سے منظر ہوں گے
مجھ کو دیوار ہی دیوار دکھائی دی ہے۔

گویا فراز کے ہاں عاشق کے لئے بھی معیاری مال وافر تھا۔معشوق کے لئے بھی اور انقلابی کے لئے بھی۔ایسا نہیں ہے کہ فراز نرا شاعر تھا۔وہ دنیا دار بھی تھا اور اسکا شمار اردو کے معدودے چند خوشحال شاعروں میں ہوتا تھا۔لہذا فراز کے اس شعری دھوکے میں نہ آئیے گا کہ

فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحبِ زر اور صرف شاعر تو

یہ شعر اسلام آباد کی بیورو کریٹک زندگی سے پہلے کا ہے۔
لیکن اس نے اپنی دنیا داری کو شعر میں خلط ملط نہیں ہونے دیا۔چنانچہ فراز کو جو بھی شخص جس سمت سے دیکھنا چاہے اسے وہ ویسا ہی دکھائی دے گا۔

سڑک کے آدمی کے لئے وہ براستہ مہدی حسن رنجش ہی سہی والا شاعر ہے۔اور کچی رومانویت میں لپٹے ہوئی نوجوان روح کے لئے وہ

کہا تھا کس نے اسے حالِ دل سنانے جا
فراز اور وھاں آبرو گنوانے جا

والا بال بکھیرو سخنور ہے۔

لیکن میرا فراز وہ ہے جس نے جنرل ضیا الحق کی تپتی آمریت کا سورج سوا نیزے پر ہوتے ہوئے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں نظم محاصرہ پڑھی تھی

میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ، ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہے لشکری اس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دھن اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دارورسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پے ایوانِ کج نگاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے شناگر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون، آس پاس تو دیکھو
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا ،میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدیدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پے دھرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبیں پہ لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا۔۔۔۔۔۔

فراز محاصرہ پڑھ کر سٹیج سے اترے تو نعروں اور تالیوں نے چھت پھاڑ دی اور نوجوان انکے ہاتھوں کو پرنم آنکھوں سے اس طرح چومتے رہے کہ ایسی عقیدت فراز کے جدِ امجد کوھاٹ کے ولی حاجی بہادر کو بھی شاید میسرنہ آئی ہو۔

لیکن فراز نے جو کام جنرل ضیا کی آمریت کے ساتھ کر دکھایا ویسا کام جنرل مشرف کی آمریت میں نہ ہوسکا۔آدمی تھک بھی تو جاتا ہے نا ! لیکن عمر کے بوجھ سے آہستہ آہستہ دبنے والے فراز نے یہ ضرور کیا کہ جنرل مشرف حکومت کے ہاتھوں پانے والا نشانِ امتیاز دو برس رکھنے کے بعد اسی حکومت کے منہ پر مار دیا۔اس کے عوض کوئی سال بھر بعد احمد فراز کا سامان سرکاری کارندوں نے گھر سے اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا۔

فراز سے میں نے آخری مصاحفہ گیارہ جون کو اعتزاز احسن کے لانگ مارچ سے قبل اسلام آباد پریس کلب میں کیا۔بوڑھے فراز کے چہرے پر وہی سرخی دوڑ رہی تھی جیسی سرخی برسوں پہلے جنرل ضیا کی آمریت کو للکارنے والے وجیہہ فراز کی آواز میں محسوس ہوتی تھی۔فراز نے پریس کانفرنس کے بعد بتایا آج کل وزیرستان پر ایک طویل نظم لکھ رھا ہوں۔جانے یہ نظم کب مکمل ہو۔۔۔۔۔۔۔

معلوم نہیں فراز کی یہ نظم کب سامنے آ ئے گی یا نہیں آئے گی۔تب تک برسوں پرانی اس نظم کے عکس میں آپ آج کے وزیرستان اور دیگر علاقوں کی تصویر دیکھ کر گذارہ کیجئے

تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو، اس شہر میں ہم کو رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے، ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھوگے، جب حرف یہاں مرجائےگا
جب تیغ سے لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کرجائےگا
جب قتل ہوا سب سازوں کا، جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا، پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں، جب دیکھوگے، ڈر جاؤ گے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ Bbc Urdu
 

محسن حجازی

محفلین
جب شعر سفر کرجائےگا

وسعت اللہ خان نے بی بی سی پر احمد فراز کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھے ہیں۔ اس ضمن میں کئی تحاریر پڑھ چکا ہوں لیکن مجھے تمام کی تمام رسمی جملوں سے اٹی نظر آئیں۔
وسعت اللہ خان نے بہت بے ساختہ اور دل کو چھوتی ہوئی تحریر لکھی ہے جسے پڑھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔

جب شعر سفر کرجائےگا

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد​

ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، جون ایلیا، خاطر، قتیل، فارغ، منیر نیازی ، احمد شاہ فراز۔آسمانِ سخن کی یہ ڈار کل پوری طرح بکھرگئی ۔ظفر اقبال اور انور شعور نامی دو بچھڑی کونجیں پر سمیٹے بیٹھی ہیں۔اور اب ہم فرحت عباس شاہ، وصی شاہ اور سعد اللہ شاہ وغیرہ کے رحم و کرم پر ہیں۔
احمد فراز قبیلہ فیض کے آخری سورما تھے ۔یہ قبیلہ دنیائے ادب میں مزاحمتی نوالے کو معشوقی کے شہد میں ڈبو کر تناول کرنے کے لئے جانا جاتا تھا۔
احمد شاہ فراز اور انکے ہم عصروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اردو فراز کی سیکنڈ لینگیویج بھی نہیں تھی۔بلکہ اردو انہوں نے صحیح معنوں میں اپنی ریڈیو پاکستان کی نوکری کے زمانے میں سیکھنی شروع کی۔پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا کہ اہلِ اردو کے لئے تیرہ شعری مجموعے چھوڑ کر رخصت ہوا۔

جاری رکھیے: جب شعر سفر کر جائے گا

اسی تحریر کا ایک اور نمناک حصہ:

معلوم نہیں فراز کی یہ نظم کب سامنے آ ئے گی یا نہیں آئے گی۔تب تک برسوں پرانی اس نظم کے عکس میں آپ آج کے وزیرستان اور دیگر علاقوں کی تصویر دیکھ کر گذارہ کیجئے
تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو، اس شہر میں ہم کو رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے، ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھوگے، جب حرف یہاں مرجائےگا
جب تیغ سے لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کرجائےگا
جب قتل ہوا سب سازوں کا، جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا، پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں، جب دیکھوگے، ڈر جاؤ گے
 

زھرا علوی

محفلین
تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو، اس شہر میں ہم کو رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے، ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھوگے، جب حرف یہاں مرجائےگا
جب تیغ سے لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کرجائےگا
جب قتل ہوا سب سازوں کا، جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا، پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں، جب دیکھوگے، ڈر جاؤ گے


کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعی ایسے لوگوں کا اب کال پڑ گیا ہے۔۔۔۔۔۔
 

محسن حجازی

محفلین
یہ کون ہمارے عرض حال کو تہہ و بالا کر گیا۔۔۔۔
ضرور ارض وسطی کے کسی جادوگر کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔
 
Top