انیس جب حرم مقتلِ سرور سے وطن میں آئے - میر انیس (مرثیہ)

حسان خان

لائبریرین
جب حرم مقتلِ سرور سے وطن میں آئے
اشکِ خوں روتے ہوئے رنج و محن میں آئے
سب سیہ پوش غمِ شاہِ زمن میں آئے
خاک اڑانے کو خزاں دیدہ چمن میں آئے
بال تھے چہروں پہ سنبل سے پریشاں سب کے
مثلِ گل چاک تھے ماتم میں گریباں سب کے
گرد تھا ناقوں کے ساداتِ مدینہ کا ہجوم
رو کے چلاتے تھے سب 'ہائے امامِ مظلوم'
سرنگوں آتے تھے سجاد، بلکتے معصوم
ہاتھ اٹھا کر یہ بیاں کرتی تھی زینب مغموم
دشت میں سیدِ ابرار کو رو آئے ہم
اے مدینہ! ترے سردار کو رو آئے ہم
اے مدینہ! متوجہ نہیں ہوتا تُو ادھر
آئے ہیں حسرت و اندوہ سے ہم خستہ جگر
ہو کے آگاہ یہ دے احمدِ مرسل کو خبر
یا نبی! لٹ گیا پردیس میں سادات کا گھر
داد دیجے کہ بہت بے کس و نادار ہوں میں
اپنے بھائی کی مصیبت میں گرفتار ہوں میں
رن میں افتادہ ہیں بے گور و کفن اور بے سر
بھائی مارا گیا، سب ذبح ہوئے خویش و پسر
چادریں چھن گئیں، قیدی ہوئے ہم خستہ جگر
لے گئے ہم کو کنیزوں کی طرح بانیِ شر
شہرِ یثرب کی جو بستی تھی وہ تاراج ہوئی
آپ کی آل کفن کے لیے محتاج ہوئی
اے محمد کے مدینے! نہیں کیا تو آگاہ؟
یاں سے جس روز گئے تھے حرمِ شیرِ الٰہ
بھائی، فرزند، بھتیجے تھے سب اس دن ہمراہ
آج ان میں سے کوئی ساتھ ہمارے نہیں آہ!
لختِ دل ہے کوئی، نے راحتِ جاں ہے کوئی
اب نہ ہے پیر، نہ بچہ، نہ جواں ہے کوئی
امن میں یاں سے گئے، خائف و ترساں آئے
چادریں بھی نہ رہیں، با سرِ عریاں آئے
جمع یاں سے گئے اور واں سے پریشاں آئے
گھر لٹا، قید ہوئے، بے سر و ساماں آئے
تعزیہ دارِ شہِ یثرب و بطحا ہم ہیں
سوگوارِ پسرِ حضرتِ زہرا ہم ہیں
خاک اڑاتے ہیں کہ ہم لوگوں کا آقا نہ پھرا
ہم پھرے پیٹتے روتے ہوئے، مولا نہ پھرا
وا دریغا! پسرِ حضرتِ زہرا نہ پھرا
قافلہ لٹ کے پھرا، شاہ ہمارا نہ پھر
دکھ میں شاکر ہیں ہم، آزار میں صابر ہیں ہم
اک جہاں روتا ہے جس پر وہ مسافر ہیں ہم
یہ بیاں کرتی ہوئی دور سے با نالہ و آہ
متصل روضۂ احمد کے جو پہنچی ناگاہ
دخترِ فاطمہ و لختِ دلِ شیرِ الٰہ
رو کے چلائی کہ لوٹے گئے ہم یا جداہ!
چھٹ گیا ہم سے شہنشاہ ہمارا، نانا!
بے گنہ ذبح ہوا آپ کا پیارا، نانا!
ظلم جو چاہتے تھے حق میں ہمارے جلاد
وہ کیا ہم پہ، بر آئی بس اب ان سب کی مراد
گھر کا گھر لوٹ لیا، کرتے رہے ہم فریاد
زندگی تھی جو بچے قتل سے بے کس سجاد
کہتے تھے سب کہ اماں یہ بھی نہ اب پائے گا
خنجرِ ظلم سے سر اس کا بھی کٹ جائے گا
لے گئے لوٹ کے اسباب بھی سب بانیِ شر
بلوۂ عام میں ہم پیٹتے تھے ننگے سر
بے ردا بانوئے بے کس کو نکالا باہر
گوشوارے لیے کُبرا کے، سکینہ کے گہر
رو کے چلائی تھی، دکھ دیتے ہیں ناری یا رب!
سن لے اِس وقت میں فریاد ہماری یا رب!
زینبِ خستہ جگر، خواہرِ شاہِ ذی جاہ
درِ مسجد پہ جو روتی ہوئی پہنچی ناگاہ
اُس گھڑی اور بھی صدمے سے ہوا حال تباہ
سر کو ٹکرا کے دلِ زار سے کھینچی اک آہ
تھا یہ مشکل کہ کلیجے کو وہ خوش خو تھامے
غش جو آنے لگا، دروازے کے بازو تھامے
دی یہ آواز کہ فریاد ہے یا خیرِ بشر!
کٹ گیا خنجرِ بے داد سے شبیر کا سر
لائی ہوں آپ کے پیارے کی شہادت کی خبر
کیجے اس رختِ مشبک پہ ذرا اٹھ کے نظر
بھر گیا خون میں افسوس عمامہ، نانا!
ٹکڑے تیغوں سے ہوا آپ کا جامہ، نانا!
کچھ نہ امت نے کیا پاسِ رسولِ کونین
یا رسولِ عربی! ذبح ہوا رن میں حسین
ننگے سر ہم سوئے کوفہ گئے با شیون و شین
چھپ گیا خاک میں وہ فاطمہ کا نور العین
قیدِ آفت میں کہیں چین نہ پایا، نانا!
دربدر آپ کی امت نے پھرایا، نانا!
دیکھتے کاش ہمیں آپ اُن اونٹوں پہ سوار
جن پہ تھی کوئی عماری، نہ کجاوہ زنہار
شہر وہ شام کا اور ظلم و ستم کا بازار
پہنچی بعد اس کے یہ نوبت کہ گئی تا دربار
بال بکھرا دیے چہروں پہ، یہ پردا ٹھہرا
ننگے سر دیکھنا لوگوں کا تماشا ٹھہرا
کاش اے فاطمہ تم دیکھتیں ہم سب کو اسیر
کہ ہر اک شہر میں کس طرح پھرے ہم دلگیر
دیکھتیں سیدِ سجاد کو با حالِ تغئیر
طوق پہنے ہوئے اور ہاتھ سے تھامے زنجیر
منزلوں رنج و مصیبت میں گرفتار رہے
دن کو خوں بار رہے، راتوں کو بیدار رہے
ہم پہ اے فاطمہ! جو کچھ کہ ہوئے ظلم و ستم
تم نے اک حصہ بھی دیکھا نہیں وہ درد و الم
زندہ رکھتا جو سدا تم کو خدائے اکرم
حشر تک ہم پہ بکا کرتیں بہ صد حسرت و غم
ٹکڑے ہو جاتا، اگر کوہ پہ آفت پڑتی
پھٹ کے گرتا، جو فلک پر یہ مصیبت پڑتی
آج اے فاطمہ! ہے روزِ غم و درد و بکا
دیجے رو رو کے بقیعہ میں حَسَن کو یہ صدا
اے جگر بندِ نبی، اے حَسَنِ سبز قبا
کٹ گیا تیغِ ستم سے ترے بھائی کا گلا
تشنہ لب رن میں امامِ ازلی کو مارا
فوجِ اعدا نے حسین ابنِ علی کو مارا
کربلا میں ہوئی ضائع ترے بھائی کی عیال
مل گیا خاک میں وہ حیدرِ کرّار کا لال
تنِ بے سر کو کیا اہلِ ستم نے پامال
دفن بھی ہونے نہ دی لاشِ شہِ نیک خصال
بے کفن رن میں تنِ سبطِ پیمبر رکھا
سرِ مجروح کو خولی نے سناں پر رکھا
یا حَسَن چھپ گیا آنکھوں سے وہ اللہ کا نور
یا حَسَن حربوں سے سب جسم تھا بھائی کا چور
کوئی ایسا نہ ہوا ہو گا غریب و مجبور
اس کی مظلومی پہ کرتے ہیں فغاں وحش و طیور
تا بہ مقتل جو بیاباں سے ہوا آتی تھی
صاف 'مظلوم حسینا' کی صدا آتی تھی
کاش وہ واقعہ تم دیکھتے با دیدۂ تر
جب ستمگر لیے جاتے تھے ہمیں ننگے سر
نہ تو برقع، نہ عصابہ تھا، نہ سر پر چادر
کوئی غم خوار، نہ مونس، نہ انیس و یاور
ایک عابد تھا سو آہن میں مسلسل تھا وہ
اہلِ کیں گھوڑوں پہ اسوار تھے، پیدل تھا وہ
(میر انیس)
(ناقص الآخر)
 
Top