جب تری دید کے جذبے میں جیا کرتے تھے۔۔ اساتذہ کی رہنمائی کا منتظر

حنیف خالد

محفلین
جب تری دید کے جذبے میں جیا کرتے تھے
بے سبب ہم ترے کوچے میں پھرا کرتے تھے

آج قبریں بھی کسی کو نہیں معلوم ان کی
ہم خدا ہیں، جو یہ لوگوں سے کہا کرتے تھے

آج اُس ہاتھ کو تمہاری ضرورت ہے بہت
جس کو تم تھام کے بے فکر چلا کرتے تھے

ایک دن طور پہ موسیؑ سے کہا یہ رب نے
اب سنبھل جا نہ رہے وہ جو دعا کرتے تھے

ماں پہ اک بیٹے کو کل ہاتھ اُٹھاتے دیکھا
اب مرے گھر ہے وہ منظر، جو سنا کرتے تھے
 
آج اُس ہاتھ کو تمہاری ضرورت ہے بہت

خارج از بحر ہو گیا ہے۔ تمھاری میں غالباََ دو چشمی ھ ہے جو کہ تقطیع میں نہیں آتا۔ اگر دوسری ہ سے جائز ہو تو تب ٹھیک ہے۔ مگر میرے خیال میں یہ تمھاری ہی درست ہے۔
پہلے دو اشعار کے مضامین ملتے جلتے انداز میں پہلے باندھے جا چکے ہیں۔ طور والے شعر کا طلسم کھل نہیں سکا۔
 
تھوڑی اسلامی تاریخ بھی پڑھ لیں ممنوع نہیں ہے۔​
واقعہ یاد آگیا میں نے بھی سنا ہوا ہے۔ مگر سنبھل جا ہی کیوں کہا؟ میرے حساب سے تو موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا کہ آج تجلیات میں وہ بات نہیں جو اس سے پہلے تھی تو ربِ کائنات نے جواب دیا کہ اس سے قبل تیری ماں زندہ تھی اور اس کی دعاؤں سے تجلیات میں اضافہ ہوتا تھا اور اب وہ زندہ نہیں رہیں۔ کچھ ایسے باندھ لیتے

رب سے موسیٰ نے عنایت میں کمی کا پوچھا
یہ کہا رب نے گئے وہ جو دعا کرتے تھے
 
Top