امجد اسلام امجد جب بھی تیری آنکھوں میں وصل کا لمحہ چمکا۔

جب بھی تیری آنکھوں میں وصل کا لمحہ چمکا
چشمِ بے آب کی دہلیزپہ دریا چمکا

فصلِ گُل آئی ،کھُلے باغ میں خوشبو کے علَم
دِل کے ساحل پہ تیرےنام کا تارا چمکا

عکس بے نقش ہوئے،آئینے دھُندلانے لگے

درد کا چاند ، سرِبامِ تمنا چمکا

پیرہن میں بھی تیراحُسن نہ تھا برق سے کم
جب کھُلے بندِ قبا ،اور ہی نقشہ چمکا

روح کی آنکھیں چکاچوند ہوئی جاتی ہیں
کس کی آہٹ کا میرےکان میں نغمہ چمکا

رنگ آزاد ہوئے گُلکی گِرہ کھلتے ہی
ایک لمحے میں عجب
باغ کا چہرا چمکا

دل کی دیوار پہ ا
ڑتے رہے ملبوس کے رنگ
دیر تک اِن میں تیری یاد کا سایہ چمکا


لہریں اُٹھ اُٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں
وہ جو دریا پہ گیا ،خوب ہی دریا چمکا

یوں تو ہر رات چمکتے ہیں سِتارے ، لیکن
وصل کی رات بُہت ، صُبح کا تارا چمکا

جیسے بارش سے دھُلے صحنِ گُلِستاں امجد
آنکھ جب خُشک ہوئی ، اور بھی چہرا چمکا
امجداسلام امجد
 
آخری تدوین:
Top