احسان دانش جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا (احسان دانش)

جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا
شروع عشق ھے وہ فطرتاً چھپائے گا

دمک رھا ھے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیراھن چھپائے گا

ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا

حصار ضبط ھے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا

نظر کا فرد عمل سے ھے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا

کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا

ترا غبار زمیں پر اترنے والا ھے
کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا
 
Top