کاشفی

محفلین
غزل
(محمد خاں عالم حیدرآبادی - 1899)

جان جاتی ہے میری آئیے آپ
جھوٹے وعدوں سے نہ تڑپائیے آپ

اپنی گھونگہٹ کو تو سرکائیے آپ
ہے شب ِوصل نہ شرمائیے آپ

آئیے آئیے جلد آئیے آپ
روئے روشن مجھے دِکھلائیے آپ

خیر گر جاتے ہیں تو جائیے آپ
پھر بھی آنے کی قسم کھائیے آپ

گر نہ آؤ تو یہ کہلا بھیجو
ہم نہیں‌آتے ہیں خود آئیے آپ

بیوفا میں ہوں بجا ہے صاحب
باوفا خلق میں‌کہلائیے آپ

بے رُخی خوب نہیں‌عاشق سے
رات باقی ہے نہ گھبرائیے آپ

ناگنیں بن کے ڈسیں گی دل کو
زلفیں سلجھیں ہیں نہ اُلجھائیے آپ

آئے گی اس چمنستاں پہ خزاں
اپنی جوبن پہ نہ اترائیے آپ

پھیرئیے تیغ مری گردن پر
بات کہہ کر نہ مُکر جائیے آپ

نہیں آنا ہے تو کہہ دیجئے صاف
اسقدر راہ نہ دکھلائیے آپ

کہنے سننے سے یہ رقیبوں کے حضور
مجھ سے برگشتہ نہ ہوجائیے آپ

ہرطرح تابع فرمان‌ ہوں میں
حکم جو چاہیئے فرمائیے آپ

دل جگر خوں ہوئے جاتے ہیں
دست رنگیں کو نہ دکھلائیے آپ

دو نہیں تین‌نہیں چار نہیں
ایک بوسہ ہمیں دلوائیے آپ

دل کے لینے میں پس و پیش ہے کیا
عذر جو کچھ ہو وہ فرمائیے آپ

کس لیئے ذکر عدو ہوتا ہے
آگ سینے کی نہ بھڑکائیے آپ

قتل کرنے کو ہیں کافی ابرو
قصد شمشیر نہ فرمائیے آپ

غیر سے کر کے اشارے صاحب
اپنے عاشق کو نہ تڑپائیے آپ

پاس اُس شوخ کے چل کر عالم
درد دل شوق سے کہہ آئیے آپ
 
Top