فیصل عظیم فیصل
محفلین
2005 میں تمہارے ساتھ سفر شروع ہوا ۔ اجنبی تو پہلے دن ہی نہ رہنے دیا ۔ اپنایا تو ایسا اپنایا کہ فطرت ثانیہ بن گئی کہ جب بھی کمپیوٹر یا انٹرنیٹ پر اختیار پایا پہلی دو ویب سائٹس جو کھولیں ان میں سے ایک تم ہی تھیں ۔ نبیل ۔ زکریا۔ دوست ۔ ڈاکٹر افتخار ۔ بوچھی ۔ شارق مستقیم ۔ نقیبی ۔ زینب ۔ ماورا ۔ جیسے لوگوں نے آغاز آسان کیا اور بتایا کہ گفتگو اور ساتھ کے لئے کوئی دوسرا تعلق ہرگز ضروری نہ ہے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ کی بات سنی جا سکے اور آپ کسی کی بات سننے کا حوصلہ رکھتے ہوں ۔ اختلاف کرنا ۔ اختلاف سننا اور اسے برداشت کرنا یہی پر سیکھا ۔ زندگی کے سفر میں بال سیاہ سے سفید ہوئے ۔ بیٹا شیرخوار سے کاروباری ہوگیا ۔ بیوی کا ماڈل بدل گیا ۔ زندگی تلخ اور کھڑپینچ ہوئی ۔ ہم ہر محفل کے ستارے سے خبطی بڈھے ہوگئے ۔ لیکن نہ چھوٹا تو محفل سے ساتھ نہ چھوٹا ۔ پھر ایک دن نبیل نے وہ خبر دی کہ جو ویسے تو سالوں پہلے سے طے تھی لیکن دل اسے جھٹلاتے جھٹلاتے لئے چلتا رہا ۔ فاتح ، نایاب ، شمشاد بھائی سے جدائیاں ملیں ۔ پھر بھی ہم جڑے رہے یہ سوچ کر کہ ایک یہی تو ساتھی ہے جس نے ہمیں اب تک نہیں چھوڑا ۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ماسوا کوئی بھی اتنا عرصہ میرے ساتھ نہیں چل پایا کہ جتنا عرصہ محفل نے میرے ساتھ گزارا ہے ۔ اب وقت جدائی قریب ہے تو احساس ہو رہا ہے کہ جیسے شریک حیات کو ممیانے کے لئے حوالہ حکیم کیمیا کے کر چکا ہوں ۔ تھوڑی ہی دیر باقی ہے کہ پھر ہم صرف اسے دیکھ سکیں گے ۔ نہ اس کی زلف سیدھی کریں گے نہ اس سے لڑیں گے ۔ نہ اس کی سن سکیں گے ۔ نہ اسے کچھ سنا سکیں گے ۔ پھر ایک دن اچانک غار کے دہانے کا پتھر بھی دیمک اور وقت کا بوجھ نہ اٹھاتے ہوئے غار کے منہ پر آن پڑے گا اور دنیا سے ، ہم سے ، اور ان بیتے دنوں سے وہ رابطہ ہوا ہو جائے گا ۔ الوداع اے یادوں کے سمندر ، الوداع اے محفل اردو ۔ الوداع اے محبوب