شوق تو ہمیں بھی جاسوسی کا بہت تھا، مگر جب بھی جاسوسی کی منہ کی ہی کھائی۔
چھوٹا بھائی گھر میں سب کو تجسس میں ڈالے ہوئے تھے، وہ اپنے کمرے میں ہی گھسا رہتا تھا، ہم نے اس کی جاسوسی کے لیے اس کے کمرے میں ٹیپ ریکارڈ رکھ دیا، بعد میں سارے گھر والوں کے سامنے اسے سنا تو صرف خراٹوں کی آوازیں سنائی دیں۔
امی اور ابو ایک مرتبہ کمرے میں چھپ کر کھسر پھسر کر رہے تھے، ہم جو وہاں سے گزرنے لگے تو کانوں میں اپنا ہی نام سن کر چونک گئے، اور لگے چھپ کر امی اور ابو کی باتیں سننے، سمجھ تو ہم فوراً گئے کہ ہم چوں کہ بڑے ہوگئے ہیں، اس لیے دوسروں ماں باپوں کی طرح ہمارے بھی امی ابو ہماری شادی کی فکر میں ہیں، ہمیں تھوڑا سا فخر محسوس ہونے لگا کہ اب ہم بھی شادی کے قابل ہوگئے ہیں، ہوسکتا ہے شادی کے بعد ہماری پڑھائی ہی چھٹ جائے، اسکول سے جان چھٹ جانے کے تصور سے ہی ہمارے جسم کے رگ و ریشے میں خوشی کی خوش گوار لہریںدوڑنے لگیں، مگر جوں ہی ہم کان لگا کر سننے لگے تو ہمارے سارے خواب ہمیں چکنا چور ہوتے محسوس ہوئے ، کیوں کہ امی ابو سے ہمارے بارے میں کہہ رہی تھیں:
’’اس کا جاسوسی کا بھوت کسی دن ہم سب کو لے ڈوبے گا، اسے سمجھائو، بل کہ میں تو کہتی ہوں کسی اچھے ماہر نفسیات سے اس کا علاج کرائو، کل کو یہ بڑا ہوگا، اس کی شادی ہوگی ، شادی کے بعد یہ عادت کتنی نقصان پہنچائے گی اس کا آپ کو اندازہ بھی ہے کہ نہیں۔‘‘
ہم وہاں سے لاحول پڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آکر کرسی پر دھب سے گرکر آنکھیں موندے اپنا انجام سوچ سوچ کر پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے چکر میں اور پریشان ہونے لگے۔
ایک دن ہمیں ایک فقیر پر شک ہوگیا، ہم نے سوچا آج تو ہماری جاسوسی کوئی اچھا رنگ ہی لائے گی، ممکن ہے ملک و قوم کے لیے ایسی فائدہ مند ثابت ہو کہ ہمیں ایک ہیرو کا درجہ دے دیا جائے۔
ہم کمر کس کر اس کے پیچھے پیچھے ہولیے، وہ ٹانگ سے لنگڑ ا کر چل رہا تھا، ہم نے سوچا یہ بھی فراڈ ہے، دوسرے کو دکھانے کے لیے یہ لوگ لنگڑاتے ہوئے چلتے ہیں، مگر اپنے گھر جاکر بالکل سیدھے ہوجاتے ہیں، اس کی جاسوسی ہمیں ایک قبرستان تک لے گئی، ایک چھوٹی سی جھگی میں جاکر وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوا تو ہمیں آس پاس کے ماحول کا کچھ اندازہ ہوا، اب تو خوف کے مارے ہماری گھگھی بندھ گئی، چاروں طرف قبریں ہی قبریں ، مگر ہم بھی طبیعت کے کافی بہادر واقع ہوئے تھے، اس جھگی سے کان لگائے کھڑے ہوگئے:
’’بس ایک ہفتہ اور ٹھہر جائو۔‘‘ اندر سے غالباً اسی فقیر کی آواز آئی۔
’’پھر دیکھنا ، میں پہلے جیسا بھاگنے دوڑنے لگوں گااور اپنے چوراہے پر کسی اور کو ہرگز بھیک مانگنے نہیں …‘‘ ابھی ہمارے کانوں نے یہاں تک ہی سنا تھا کہ کسی نے ہمارے انھیں کانوں کو پکڑ کر موڑنا شروع کردیا۔
ہم نے ایک دم سے گھبرا کر پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک اور بڑی عمر کا فقیر ہمارے کان پکڑے غصے سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔
’’کون سے چوک پر ہوتے ہو؟‘‘ اس نے غصے سے پوچھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ ہمیں اس کا سوال قطعاً سمجھ میں نہیں آیا۔
مگر جب اس نے سمجھایا تو توبہ توبہ کرتے ہوئے ہم وہاں سے اپنے گھر آئے اور بجائے کسی کی تسلی سننے کے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کیا۔

بقلم: محمد اسامہ سَرسَری
 

ماہا عطا

محفلین
bht khub.....bht haqeeqat ka guma hota hy...bht achi mazah se bharpur tahrer hy... Bht umda....parh k maza agya.... Jasosi se to toba kr li lakin likhny se toba na krna....
 
bht khub.....bht haqeeqat ka guma hota hy...bht achi mazah se bharpur tahrer hy... Bht umda....parh k maza agya.... Jasosi se to toba kr li lakin likhny se toba na krna....
بہت شکریہ تعریف کرنے اور پسند کرنے کا۔
لکھنے سے توبہ تو نہیں کی ، مگر مصروفیات نے اب قلم کو کافی روک دیا ہے۔
 
Top