تین نوجوانوں کی انوکھی کہانی

حسینی

محفلین
فیس بک پر اک کہانی پڑھی جو ُپسندآئی۔ لذا پیش خدمت ہے۔
تین نوجوان ملک سے باہر سیر کے لیئے گئےاور وہاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرے جو 75 منزلہ ہےانکو کمرہ بھی سب سے اوپر والی منزل پر ملاان کو عمارت کی انتظامیۃ باخبر کرتے ہویے کہتی ہےہمارے یہاں کا نظام آپ کے ملک کے نظام سے تھوڑا مختلف ہے یھاں کے...
نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیںلھذا ہر صورت آپ کوشش کیجیے کے دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ہوکیونکہ اگر دروازے بند ہوجاییں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوا نا ممکن نہ ہوگاپہلے دن وہ تینوں سیر وسیاحت کے لیے نکلتے ہیں مگر رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ہیںمگردوسرے دن انہیں دیر ہوگئی اور 10:05 پر عمارت میں داخل ہوئے اب لفٹ کے دروازے بند ہو چکے تھےاب ان تینوں کو کوئی راہ نظر نہ آئی کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائےجبکہ کمرہ 75 ویں منزل پر ہےاب تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اس لیے اب سیڑھیوں کے ذریعے ہی جانا ہوگا ۔ لیکن اتنا لمبا رستہ طے کرتے کرتے ہم تھک جائیں گے اس لیے ہم باری باری قصے سنائیں گے تاکہ راستہ کا پتہ ہی نہ چلے
25 منزل تک پہلا ساتھی قصے سنائے گا پھر 25 منزل دوسرا اور پھر آخری 25 منزل تیسرا اس طرح ہمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ہوگا اور راستہ بھی کٹ جایے گا
پہلے دوست نے کہا کہ میں تمہیں لطیفے اور مزاحیہ قصے سناتا ہوںاب تینوں ہنسی مزاق کرتے ہویے چلتے رہےجب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تمہیں قصے سناتا ہوںمگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقت ہونگیںاب ۲۵ منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے ہویے چلتے رہےاب جب ۵۰ منزل تک پہنجے تو تیسرے ساتھی نے کہا کہ اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ہوںاورغم بھرے قصے سنتے ہویے باقی منزل بھی طے کرتے رہےیھاں تک کے تینوں تھک تھک کر جب دروازے تک پہنچےتو ایک ساتھی نے کہاکہ میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ہے کہ ہمکمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ہی چھوڑ آیے ہیںیہ سن کر تینوں پر غشی طاری ہوگیی
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔رکیںابھی میری بات مکمل نہیں ہوئیانسان کی اوسط عمر 60 سے 80 سال ہے ۔ بہت کم لوگ اس سے اوپر جاتے ہیںاور ہم لوگ اپنی زندگی کے 25 سال ہنسی مزاق کھیل کود اور لہو لعب میں لگا جاتے ہیںپھر باقی کے 25 سال شادی ، بچے رزق کی تلاش ، نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رہتے ہیںاور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ہوتے ہیں توباقی زندگی کے آخری 25 سال بڑھاپے میں مشکلات کا سامنا ،بیماریاں ، بچوں کے غم اور ایسی ہی ہزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ہیںیھاں تک کے جب موت کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو ہمیں یاد آتا ہےکہچابی اصل کنجی تو ہم ساتھ لانا ہی بھول گیےاس جنت کی چابیجس کو ہم اپنی منزل سمجھتے ہویے یہ زندگی گزارتے رہتے ہیںاور پھر افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں لیکن وہ افسوس کسی کام نہیں آتاتو کیوں نا ابھی سے جنت کی چابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، تاکہ منزل پر پہنچ کر پچھتاوا نہ ہو۔
 
Top