تیرے نام کی تھی جو روشنی ، اسے خود ہی تُو نے بجھا دیا

ظفری

لائبریرین

تیرے نام کی تھی جو روشنی ، اسے خود ہی تُو نے بجھا دیا
نہ جلا سکی جسے دھوپ ، اُسے چاندنی نے جلا دیا

میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا ، مجھے آپ اپنی خبر نہیں
وہ جو شخص تھا میرا رہنما ، اُسے راستوں میں گنوا دیا

جسے تُو نے سمجھا رقیب تھا ، وہی شخص تیرا نصیب تھا
تیرے ہاتھ کی وہ لکیر تھا ، اُسے ہاتھ سے ہی مٹا دیا

مجھے عشق ہے کہ جنوں ہے ، ابھی فیصلہ ہی نہ ہوسکا
میرا نام زینتِ دشت تھا ، مجھے آندھیوں نے مٹا دیا

یہ اداسیوں کا جمال ہے کہ ہمارا اوجِ کمال ہے
کبھی ذات سے بھی چھپا لیا ، کبھی شہر بھر کو بتا دیا

میری عمر کا ابھی گلستاں کھلا ہوا ضرور ہے
وہ پھول تھے تیری چاہ کے ، انہیں موسموں نے گرا دیا
 

ظفری

لائبریرین
سب دوستوں کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔ اور وارث بھائی آپ کو غزل اچھی لگی اس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے ۔ :)
 
Top