تیرے نام کی تھی جو روشنی ، اسے خود ہی تُو نے بجھا دیا
نہ جلا سکی جسے دھوپ ، اُسے چاندنی نے جلا دیا
میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا ، مجھے آپ اپنی خبر نہیں
وہ جو شخص تھا میرا رہنما ، اُسے راستوں میں گنوا دیا
جسے تُو نے سمجھا رقیب تھا ، وہی شخص تیرا نصیب تھا
تیرے ہاتھ کی وہ لکیر تھا ، اُسے ہاتھ سے ہی مٹا دیا
مجھے عشق ہے کہ جنوں ہے ، ابھی فیصلہ ہی نہ ہوسکا
میرا نام زینتِ دشت تھا ، مجھے آندھیوں نے مٹا دیا
یہ اداسیوں کا جمال ہے کہ ہمارا اوجِ کمال ہے
کبھی ذات سے بھی چھپا لیا ، کبھی شہر بھر کو بتا دیا
میری عمر کا ابھی گلستاں کھلا ہوا ضرور ہے
وہ پھول تھے تیری چاہ کے ، انہیں موسموں نے گرا دیا