تہی داماں

زرقا مفتی

محفلین
tdaman1qq6.jpg
 

الف عین

لائبریرین
اگر یہ ان پیج سے جف فائل بنائی گئی ہے تو براہِ کرم اسے یونی کوڈ کنورٹر سے تبدیل کر کے اردو میں پوسٹ کریں۔ میں تو تصویریں دیکھتا ہی نہیں!!
کنورٹر شارق مستقیم کی سائٹ بوریت ڈاٹ کام پر ہے، یہاں بھی لکھنے پڑھنے میں مدد کی فورم میں کسی پیغام میں لنک ملے گا۔ اگر اردو تحریر میں لکھ سکتی ہیں تو میرا جریدہ بھی حاضر ہے۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
اگر یہ ان پیج سے جف فائل بنائی گئی ہے تو براہِ کرم اسے یونی کوڈ کنورٹر سے تبدیل کر کے اردو میں پوسٹ کریں۔ میں تو تصویریں دیکھتا ہی نہیں!!
کنورٹر شارق مستقیم کی سائٹ بوریت ڈاٹ کام پر ہے، یہاں بھی لکھنے پڑھنے میں مدد کی فورم میں کسی پیغام میں لنک ملے گا۔ اگر اردو تحریر میں لکھ سکتی ہیں تو میرا جریدہ بھی حاضر ہے۔۔
اعجاز صاحب
ؔآپ کے کہنے پر فائل کنورٹ تو کر لی مگر اب اس کو پوسٹ کیسے کروں یہاں تو کوئی فائل attachکرنے کا طریقہ نطر نہیں آرہا
 

نبیل

تکنیکی معاون
زرقا، آپ فائل اٹیچ کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ آپ اس کا ٹیکسٹ کاپی پیسٹ کرکے ہی یہاں پوسٹ کر دیں۔ کہانی پوسٹ کرنے کا شکریہ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
تہی داماں
عظمیٰ ایک متوسط ، روشن خیال گھرانے میں پیدا ہوئی ۔اُس کے خاندان میں لڑکے یا لڑکی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا تھا۔ گھر کا ماحول نہ تو بہت قدامت پسند تھا اور نہ ہی مادر پدر آزاد۔ماں باپ کی پہلی ترجیح بچوں کی تعلیم تھی ۔ عظمی بچپن سے ہی سنجیدہ طبع تھی ، کتابیں پڑھنے اور اپنے خیالوں میں گم رہنے والی۔اللہ نے اُسے حسن بھی جی بھر کر دیا تھامگر وہ اس سے بھی انجان تھی۔مزاج میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔اُس کی خواہشات اور خواب عام لڑکیوں سے یکسر مختلف تھے۔ جب وہ نویں جماعت میں تھی تو اُس کی ایک سہیلی رفعت کی شادی طے کر دی گئی ۔جس پر عظمیٰ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ سخت رنج ہواپہلی بار اُس کو اندازہ ہوا کہ معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اُس نے خود سے وعدہ کیا کہ کم از کم اپنے ساتھ ایسا نہیں ہونے دے گی۔
عظمیٰ فرسٹ ائیرمیں تھی کہ اُس کے کز ن عرفان نے اُس کے لئے پروپوزل بھیج دیاجو خود میڈیکل کا لج میں سٹوڈنٹ تھاعظمیٰ نے صاف انکار کر دیا۔ ا س پر عرفان کو سخت رنج ہوا اور اُس نے عظمیٰ سے اس انکار کی وجہ پوچھی عظمیٰ نے اُسے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ابھی نہ تو عرفان خود کسی مقام پر پہنچا ہے اور نہ ہی عظمیٰ ۔اس لئے منگنی یا رشتہ طے کرنے کا یہ وقت مناسب نہیں ۔پہلے تعلیم مکمل کر لیں کیا معلوم اس اثناء میں خیالات میں کتنی تبدیلی آجائے اور رشتوں میں کڑواہٹ بھر جائے ۔
عظمیٰ یکسوئی سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے تھی ۔ کتابوں سے اس کی محبت برقرار تھی اس کی ساتھی لڑکیاں ۔۔"Mills and Boons"پڑھتی اور یہ classics "۔"۔وہ اکثر سوچا کرتی دُنیا میں کتنے دکھ ہیں اور معاشرے میں کتنی ناہمواریاں ہیں اور جو اربابِ اختیار ہیں جو اہلِ شعور ہیں وہ کتنے خوابیدہ ہیں ۔گھر میں یا کالج میں کوئی بحث چھڑتی تو وہ یہی کہتی کہ اگر ہر انسان اپنے حصے کی ذمہ داری اُٹھا لے تو دُنیا کو کتنے ہی دکھوں سے نجات مل جائے۔ اس پر اس کی سہیلیاں یا بہن بھائی اس کا خوب مذاق بناتے کہ دیکھو یہ چلیں ہیں دُنیا بدلنے۔ وہ خاموشی سے ایک طرف ہو جاتی اورسوچتی کہ میں دُنیا نہیں بدل سکتی نہ سہی مگر اپنی دُنیا تو تعمیر کر سکتی ہوں نا۔اُس نے طے کر لیا کہ ماسٹرز کے بعد مقابلے کا امتحان دے گی ۔
ماسٹرز کے بعد وہ ایک پرائیویٹ ادارے میں جاب کرنے لگی ساتھ ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری اور مختلف محکموں میں انٹرویوز کا سلسلہ جاری تھا۔مگر عظمیٰ کے والدین اب اس کی شادی کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ عظمیٰ نے کبھی اس موضوع پر سوچا نہیں تھا یا اس حوالے سے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا۔اُسے معلوم تھا کہ زندگی میں ایک مقام ایسا آئے گا ۔وہ چاہتی تھی کہ اس کا جیون ساتھی کم از کم ذہنی سطح پر اس کے برابر ہو اوراس پر مکمل اعتماد کرتا ہو ، روشن خیال ہواوربیوی کو برابری کا درجہ دے۔
مگر لگتا ہے کہ انسان اپنی عزیز ترین خواہش کے حوالے سے ضرور آزمایا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ عظمیٰ کے ساتھ بھی ہوا۔اس کی نسبت ایک نیک شریف اور اعلیٰ خاندان کے فرد سے طے کر دی گئی۔نسبت طے ہونے کے بعد ایک سرکاری محکمے میں اس کی تقرری بحیثیت ریسرچ آفیسر ہو گئی ۔ مگر اس کے منگیتر نے اس کو ملازمت جوائن کرنے سے منع کردیا ۔دونوں نے باہم مشورے سے طے کیا کہ فی الحال یا تو لیکچرر شپ کی ملازمت مناسب رہے گی یا دونوں مل کر کوئی تعلیمی ادارہ یا NGOکھول لیں گے۔عظمیٰ کی والدہ نے عظمیٰ کو اپنے اس فیصلے پر نظرِثانی کرنے کے لئے کہا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ عظمیٰ کو اپنا کیریر بنانے کا کتنا جنون تھا۔مگر عظمیٰ نے کہا ’’امی میں نہیں چاہتی کہ رشتے کی ابتداء میں ہی ہمارے درمیان محاذ آرائی شروع ہو جائے اور مجھے احمر پر پورا بھروسہ ہے۔اس موضوع پر ہماری مکمل انڈر سٹینڈنگ ہے احمر کہتے ہیں کہ وہ مجھے خوشی دے کر ہی خوشی پاسکتے ہیں‘‘ ۔اسکی امی یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں کہ بیٹا دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے پر بعد میںتمہیں پچھتانا پڑے۔احمر کی ’’محبت ‘‘کے آگے اس کو سب ہیچ نظر آنے لگا تھا۔اس لئے اس کے وعدوں اور اصرار کے پیشِ نظر اس نے اپنی اچھی خاصی نجی ادارے کی ملازمت بھی چھوڑدی۔
شادی کے بعد احمر تو اپنے کاروبار اور سوشل مصروفیات میں گم ہو گئے ۔اُنہیں شاید یاد بھی نہ رہا تھاکہ عظمیٰ سے کوئی وعدہ کر رکھا ہے۔ یوں ہی شادی کو ایک سال بیت گیا اور وہ دونوں ایک بیٹے کے ماں باپ بن گئے۔عظمیٰ نے گھر میں ایڈجسٹ کرنے کی پوری کوشش کی ۔وہ کام جو کبھی نہیں کئے تھے کرنے لگی۔ گھر کی آرائش میں دلچسپی لی تو گھر کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ گھر پر مہمانوں کی آمد ہوتی تو کئی قسم کے پکوان بنا لیتی۔اور احمر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ اب گھرہستن ہو گئی ہے ۔ مگر ایک خلش رہ رہ کر عظمیٰ کے دل میں اُٹھتی تھی کہ کیا اس کی تعلیم ، قابلیت اور عملی میدان میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ سبھی رائیگاں چلے گئے ...........اور کس قیمت پر !
کئی بار دبی زبان سے احمر کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔اور وہ ہنس کر ٹال گئے اور کبھی یہ کہہ دیتے کہ اپنے سب وعدے پورے کروں گا۔پھر احمر نے حالاتِ حاضرہ پر ایک پندرہ روزہ رسالہ نکالنے کا سوچا تو عظمیٰ دل ہی دل میں بہت خوش ہوئی ۔ کئی آرٹیکل لکھ ڈالے ۔احمر کو دکھائے بھی مگر انہوں نے رسالہ کسی دوست کے لئے نکالا تھا اور عظمیٰ کو اس میں عمل دخل تو کیا کچھ لکھنے کا موقع بھی نہ دیا گیا۔احمر نے کئی لوگوں کو کاروبار کے لئے پیسہ دیا کئی غریب لڑکیوں کی شادیاں کروائیں۔ کچھ یتیم بچوں کی تعلیم کا خرچ اُٹھا رکھا تھا ۔ علاقے کے ایک میڈیکل سٹور کے مالک کو کچھ رقم ماہانہ دیا کرتے تھے کہ نادار لوگوں کو مفت دوائی مہیا ہو سکے۔غرض یہ کہ سارے جہاں کا درد تو تھا مگر عظمیٰ کے لئے کوئی پراجیکٹ شرو ع کرتے ایسا کوئی ارادہ دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ عظمیٰ کو اب اندازہ ہونے لگا تھا کہ احمر کیا چاہتے ہیں ۔
سو خاموش رہنے لگی اور چڑچڑی سی ہو گئی ۔خود سے لا پرواہ سی رہنے لگی ۔ خود فراموشی کے عالم میں گھر میں چلتی پھرتی سب فرائض نبھاتی۔ اس کے ذہن میں کئی خیال آتے کبھی اُسے اپنا وجود کسی گھریلو ملازمہ کا سا نظر آتا اور کبھی اُسے اپنی حقیقت ایک خوبصورت ڈیکوریشن پیس سے زیادہ نہ لگتی۔ احمر ہر بات میں اپنی برتری جتانے کے قائل تھے کبھی کوئی اس کے پکائے ہوئے کھانے کی تعریف کرنے لگتا تو فوراً بات بدل دیتے ۔’’آپ یہ نان لیجئے نا دیکھئے کتنے خستہ اور تازہ ہیں میں خود بازار جا کر لایا ہوں۔ ‘‘اگر کوئی گھر کی آرائش کو سراہتا یا اس کے ذوق کی تعریف کرتا تو فوراً بول اُٹھتے ’’ارے بھئی انہیں بھی تو ہم نے پسند کیا تھا نا۔ اور ہماری تعریف کیجئے کہ ہم نے کبھی ان کسی بات کو ٹھکرایا نہیں‘‘۔اسی طرح شادی کو چھ سات گزر گئے۔
اُن کا بیٹا سکول جانے لگا تھا عظمیٰ کی تنہائی اور بڑھ گئی تھی۔ اُسے عام خواتین کی طرح shopping کرنا یا گھنٹوں فون پر gossipکرنا یا kitty partiesمیں جانا پسند نہ تھا۔احمر کی کاروباری مصروفیات بھی بڑھ گئیں تھیں۔ ایک دن اس نے احمر سے ڈائریکٹ بات کر ہی لی کہ میں سخت ڈپریشن کا شکار ہوں۔اور دو تین تجاویز اُن کے سامنے رکھیں کہ اسے کوئی سکول کھول دیں یا لڑکیوں کے لئے کوئی ادارہ بنا دیں کمپیوٹر کی تعلیم کا یا پھر جو امداد وہ لوگوں کی کرتے ہیں اس کو organizeکر لیں اور ایک NGO بنا لیں۔ احمر نے کسی بات سے انکار نہیں کیااور نئے گھر کے ساتھ سکول کی عمارت بنانے کی منظوری دے دی ساتھ ہی اپنے ایک پلازہ میں لڑکیوں کے کے لئے کمپیوٹر سینٹر کھولنے پر آمادہ ہوگئے۔
تاہم بعد میں ان میں سے کوئی کام نہ کیا۔کمپیوٹر سنٹر کی جگہ ایک poly clinic بن گیا اور سکول کی جگہ کسی کاروباری خسارے کی نذر کردی۔لیکن ان کے رویے میں تھوڑی سی تبدیلی آ گئی ۔ کبھی کبھار اپنے کاروبار کے لئے مشورہ کر لیتے کچھ letters لکھوا لیتے کوئی feasibility بنوا لیتے ۔ مگر ساتھ ہی کسی بہانے سے ایک ناقص العقل عورت کے خطاب سے بھی نواز دیتے۔ عظمیٰ کو لگتا کہ احمر نے اس کے گرد ایک نظر نہ آنے والا حصار کھینچ رکھا ہے یا پھر اُسے ایک مدار میں گردش کا پابند کر دیا ہے۔ جس سے باہر نکلنے پروہ کسی شہابِ ثاقب کی طرح تباہ ہو سکتی ہے۔ کبھی وہ سوچتی کہ احمر اس کے ساتھ ایک ایسی ماں کی طرح پیش آرہے ہیں جو ہر بارضدکرتے، روتے ہوئے بچے کو چپ کروانے کے لئے ایک میٹھی گولی کھانے کو دے دیتی ہے، لیکن اس کا من پسند کھلونا نہیں دیتی۔
عظمیٰ بھی مجبور تھی ایک مشرقی معاشرے میں کسی بھی عورت کے لئے جو ضابطۂ اخلاق ہوتا ہے اس کی پابند تھی ایک بچے کی ماں تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بھی احمر سے محبت کرتی تھی۔کیونکہ اس کے خیال میں محبت یا شادی ایک package dealہوتی ہے جس میں آپ کسی کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ اس package میں ہم سفر کی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی آپ کو قبول کرنی پڑتی ہیں اور ان کے ساتھ عمر بھر گزارہ بھی کرنا ہوتا ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو سمجھانے لگی تھی کہ ہو سکتا ہے احمر جو اسے گھر کی محفوظ پناہ گاہ میں رکھنا چاہتا ہے اس کا محرک عظمیٰ کے لئے اس کی محبت ہو یا پھر یہ کہ ہو سکتا ہے اگر وہ کام کرنے لگتی تو گھر کی پرسکون ، محفوظ اور آرامدہ زندگی کے لئے ترستی۔ہو سکتا ہے جس زندگی پر وہ کڑھتی ہے وہ ہی سب سے بڑی نعمت ہو۔ایسے ہی دلاسے وہ خود کو دیا کرتی۔
احمر کے ایک دوست آفاق کا ذاتی اخبار تھا اتفاق سے ان کو کسی انگلش آرٹیکل کا ترجمہ کرواناتھا۔انہوں نے احمر سے ذکر کیا تواحمر نے یہ کام عظمیٰ کو دے دیا۔عظمیٰ یہ کام لے کر بہت خوش ہوئی اور سمجھی کہ اس کا صبر رنگ لے آیا ہے مگر اس کی ساری خوشی اس وقت کافور ہو گئی جب ترجمہ دیکھ کر احمر نے کہا اس پر سے اپنا نام حذف کر دو۔ عظمیٰ نے اپنا نام مٹا کر ۔’’ع۔ا‘‘لکھ دیا ۔ اس کے بعد آفاق صاحب کی فرمائشیں احمر کے توسط سے آتی رہیں کہ بھابھی سے کہو بجٹ پر کچھ لکھ دیں ،خودکشی کے موضوع پر لکھ دیں ، وغیرہ وغیرہ کچھ مہینوں کے بعد عظمیٰ نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ آرٹیکل اپنے نام سے لکھوں تو یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔عظمیٰ سمجھ گئی کہ احمر کو یہ کسی طور گوارا نہیں کہ اس کی اپنی کوئی شناخت ہو یا پھر وہ اس کی قابلیت سے خوفزدہ تھے کہ کل کلاں کواُن کا تعارف یوں نہ ہونے لگے ان سے ملئے یہ احمر صاحب ہیں کالم نویس عظمیٰ احمرکے شوہر.......
عظمیٰ جان چکی تھی احمر نے اپنی بیوی کی حیثیت کا جو تعین کر رکھا ہے اس سے ہٹ کر وہ کسی مقام پر اس کو دیکھنا ہر گز گوارا نہیں کریں گے مگر اس حقیقت سے جان بوجھ کر آنکھ چرائے رہتی۔ اس بد رنگ سچ کو وہ خوبصورت بہانوں کے رنگین چشمے سے دیکھتی ۔اور اپنے ذہنی خلفشار کو تسلیوں کی تھپکیاںدے کر سلا دیا کرتی۔
آج احمر نے اپنے پُرانے دوستوں کو چائے پر بلایا تھا۔چونکہ کسی کی فیملی ساتھ نہیں تھی اس لئے عظمیٰ سلام دعا کے بعد اپنے کمرے میں آگئی ۔ کچھ دیر بعد لاؤنج میں کسی کام سے گئی تو احمر کی طنزیہ آواز نے اس کے قدم جکڑ لئے وہ بڑے فخر سے کہہ رہے تھے ’’عورت کو اس کے صحیح مقام پر کیسے رکھا جاتا ہے یہ آپ مجھ سے سیکھئے ۔میں نے شادی بھی اپنی پسند سے کی اور بیوی کو نہ ملازمت کرے دی نہ ہی کوئی کاروبار۔عورتیں کام کرنے لگیں تو مرد کی برابری کرنے لگتیںہیں۔اب میری بیوی کو دیکھو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے کسی بھی محفل میں جائے تو لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ میں نے اُسے گھرہستن بنا دیاہے۔میں نے اُسے اتناdependent بنا دیا ہے کہ اب وہ خود کوئی فیصلہ کرتے ہوئے بھی گھبراتی ہے۔ گھر سے اکیلی کہیں جانا تو دور ماں کے گھر نہیں جا سکتی میرے بغیر۔۔۔۔۔‘‘
عظمیٰ کو اس پل یوں لگا کہ اس کے سر کے تاج سے افتخار کے سارے پر اس کے اپنے ’’سرتاج‘‘ نے نوچ لئے ہوں اور اس کی خود اعتمادی کی دولت لوٹ کر اس کو بالکل تہی داماں کر دیا ہو۔۔۔۔۔
﴿زرقاؔمفتی﴾


 

زرقا مفتی

محفلین
زرقا بہت اچھی بات ہے کہ فورآ بات مان لی۔ سمت کے لئے کچھ لکھیں۔

اعجاز صاحب
یہ بتائے کیا سمت میں صرف غیر طبع شدہ مواد شامل کیا جاتا ہے۔ اور کب تک لکھ بھیجوں۔بھیجنے کا ای میل پتہ اور فائل کا فورمیٹ بتائیے
 

الف عین

لائبریرین
اعجاز صاحب
یہ بتائے کیا سمت میں صرف غیر طبع شدہ مواد شامل کیا جاتا ہے۔ اور کب تک لکھ بھیجوں۔بھیجنے کا ای میل پتہ اور فائل کا فورمیٹ بتائیے
غیر طبع شدہ ہو تو بہتر ہے۔ سمت کے ہوم پیج پر ہی ای میل آئی ڈی دی گئی ہے۔ اس پر بھیج دیں۔ جریدہ اب تک نہیں دیکھا ہو تو دیکھیں پاک نستعلیق فانٹ نہ ہو تو ڈاؤن لوڈ کر کے تاکہ پھر تصویروں کا خیال ہی دل سے نکل جائے!!!
 
بہت عمدہ زرقا ایک تو افسانہ لکھنے پر اور دوسرا اسے اتنی جلدی تحریر میں بدلنے پر بھی اور تیسرا اس کی اشاعت کے لیے بندوبست ہونے پر۔
 

زرقا مفتی

محفلین
غیر طبع شدہ ہو تو بہتر ہے۔ سمت کے ہوم پیج پر ہی ای میل آئی ڈی دی گئی ہے۔ اس پر بھیج دیں۔ جریدہ اب تک نہیں دیکھا ہو تو دیکھیں پاک نستعلیق فانٹ نہ ہو تو ڈاؤن لوڈ کر کے تاکہ پھر تصویروں کا خیال ہی دل سے نکل جائے!!!

شکریہ اعجاز صاحب
 
Top