تہذیب

افسانہ : تہذیب
انتساب : ام سلمہ جی کے نام
تحریر : لالہ صحرائی

اپنے ڈرائیور اور اس کی بیوی کے ساتھ وہ اپنے گھر میں اکیلی ھی رھتی تھی، اس تنہائی میں اس کی ساتھی کتابوں سے بھری الماریاں تھیں جس میں انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ چند اردو کی کتابیں بھی موجود تھیں

اسے اردو سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا، ایک بار بچپن میں لندن سے اس کی کزنز آئیں تھیں، ان کا انگریزی لب و لہجہ اس کے اندر انگریزی زبان کے لئے ایک سنگِ میل دھر گیا تھا

انگریزی ادب میں امتیازی حیثیت سے ڈگری لے کر وہ پڑھانے لگی اور کچھ ھی عرصے میں ایک معروف ایجوکیشنسٹ کی حیثیت سے ابھری، وقت کے کچھ ماہ و سال اس کی گود میں دو لڑکیاں ڈال کر اس کے شوھر کو شراب کی بھٹی اور کسی رقاصہ کے عشق کی بھینٹ چڑھا گئے

اس خلاء کو پر کرنے کے لئے اس کے پاس ایک بار پھر تہذیب کے دامن سے اپنے آنسو پونچھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا

اس کی نظریں جب کبھی اپنی خاطر اس زمانے کی طرف اٹھتیں تو بس کتابوں کی الماریوں تک ھی جاتیں، کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان شیلفوں میں سجی کتابوں کے درمیان اردو کے چار مجموعے اس کی جان تھے، ان چار کتابوں کے اندر کہیں نہ کہیں وہ چند عبارتیں تحریر تھیں جنہیں وہ اکثر و بیشتر پڑھتی رھتی تھی
کسی ایک کتاب میں لکھا تھا
"تہذیب کا غلاف اوڑھ کر شکستہ روحوں کو روائیتوں کے قبرستان میں دفن ھونا ھی پڑتا ھے ورنہ یہ آسیب زدگان جس گھر میں اپنے زندہ ھونے کا احساس دلائیں وھاں نحوستوں کی گہری پرچھائیاں امڈ آتی ھیں"

اس مصنف کی ھر دوسری کتاب آنے تک اسے تین سے چار سال تک کا انتظار کرنا پڑا تھا، اس کی پہلی کتاب بھی منظر عام پہ آنے کے آٹھ سال بعد ملی تھی

ادارے کی سربراہ بننے کے بعد وہ صرف ادبی ٹیوٹورئیلز میں ھی لیکچرز دیا کرتی تھی جہاں انگریزی ناولز اور شیکسپئیرز کو جب وہ اپنے انداز میں پڑھاتی تو ماحول پر ایک سحر طاری ھو جایا کرتا، پوری کلاس پر پن ڈراپ سائیلینس چھا جاتا اور طالبعلموں کا گروہ اس کے لہجے اور باڈی لینگوئیج کو کہانی کے کرداروں میں ڈھلتا ھوا دیکھ کر دم بخود رہ جاتا

لیکچرز کے دوران سارے جزبات و ھیجان سے گزرنے کے بعد جب وہ لڑکے لڑکیوں کی آنکھوں میں نمی کے آثار دیکھتی تو پھر کتاب ڈائیس پر پھینک کر ایک خفیف سی مسکراھٹ کے ساتھ کہتی
اوئے بچو، یہ کہانی تھی کہانی، دی ج۔َ۔گلری آو ورڈز، اٹ ھیز نتھنگ ٹو ڈو ود یو

استاد کا رویہ جب دوستانہ ھو تو اس کے آگے محبت پر سوال و جواب نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن جاتا ھے، ٹیوٹورئیلز میں ایسے ھی سوالات اس کے سامنے بھی آتے تھے، وہ ان سوالوں کا جواب ان الفاظ میں سم اپ کیا کرتی جن میں کسی کو محبوب بنا کر اس سے محبت کرنے کا واضع انکار پنہاں ھوتا
محبت انرجی کے قانون کی طرح سے ھے، جسے آپ نہ تو پیدا کر سکتے ھیں اور نہ ھی ختم کر سکتے ھیں، یہ ایک قدرتی پروڈکٹ ھے، ہر انسان میں محبت کا نغمہ موجود ھوتا ھے، آپ محبت کو صرف دان کر سکتے ھیں، یہ نغمہ کسی کو سنا سکتے ھیں

اپنے ارد گرد محبت بانٹیئے، اسے کسی ایک فرد تک محدود نہ کریں، محبت صرف محبوب کے لئے ھی نہیں ھوتی، آپ کی محبت پر سب کا یکساں حق ھے، اگر آپ اسے کسی فرد واحد تک محدود کریں گے تو باقی سماج سے محبت آپ کو قربان کرنا پڑے گی

وقت کے ساتھ ساتھ محبت کے دائرے بدلتے رھتے ھیں بلکل گراموفون ریکارڈ کی طرح، جیسے اس کی سوئی ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ھوتی رھتی ھے ویسے ھی محبت بھی ایک دائرے سے دوسرے میں داخل ھوتی رھتی ھے، اور اس نغمے کے رنگ برنگے سُر آپ کو محضوض کرتے رھتے ھیں

لیکن جب آپ اپنی محبت کو کسی ایک محبوب کے نام کر دیتے ھیں تو آپ سماجی قدروں کی خلاف ورزی کرتے ھیں اور یہ ایسا جرم ھے جو آپ کو تلخ نوائی کے سوا کچھ نہیں سنوا سکتا

پرنسپل بننے کے بعد اس نے کالج کو ایک تاریخی موڑ دیا تھا اور یہیں سے اس کی اپنی زندگی بھی موڑ کاٹ کے واپس گاؤں کی گلیوں میں آسیب کی طرح بھٹکنا شروع ھوئی

ایک دن جب وہ ٹیوٹورئیل میں لیکچر دے کر واپس اپنے دفتر پہنچیں تو ایک پارسل ان کے انتظار میں تھا جس کے اندر سے برآمد ھونے والی کتاب نے اس کے معتدل فلسفہء محبت کے سارے تار و پو ھلا کے رکھ دیئے
یہ ڈاکٹر احمد شفیع کی پہلی کتاب تھی، اس کے بعد اس کی دوسری کتابیں بھی چھپنے کے کچھ عرصہ بعد اسے ملتی رھیں، وہ گھنٹوں اس کی تصویروں کو دیکھتی رھتی، ھر کتاب میں ایک مختلف تصویر تھی مگر سب میں سائیڈ کی مانگ نکلی اور کلائی گھڑی سے خالی

اسے گئے گزرے سمے کے کیواڑوں کے پیچھے دو آوازیں سنائی دیتیں

احمد تیری گھڑی کتھے
؎ یہ رھی جیب میں

کلائیمیکس کی ھے ناں ..... بہت اچھی لگتی ھے ..... لگا کے رکھا کرو

؎ جب میں نے وقت کو روکنا ھوتا ھے تو اسے جیب میں رکھ لیتا ھوں، تمھیں دیکھ کر وقت رک جائے تو اچھا لگتا ھے بس

تو میرے بھائیوں سے مار کھا لے گا کسی دن، ایسی باتیں نہ بنایا کرو

؎ اچھا؟ اور لڑکیاں تو سیدھی مانگ نکالتی ھیں تم سائڈ پہ کیوں نکالتی ھو؟

وہ تو تمھیں اچھی لگتی ھے اس لئے، اور تم کیوں درمیان میں مانگ نکالتے ھو؟

؎ سو بار تو بتا چکا ھوں پر تم اس دن سمجھو گی جس دن واقعی مجھے تمھارے بھائیوں سے مار پڑی

ماہ و سال کی گردشیں اس کے مرتبے، ذمے داریوں، الماریوں میں رکھی کتابوں اور اس کے سفید بالوں میں اضافہ کرتی رھی، بچیوں کی شادیاں کر کے اس نے اپنا یہ فرض بھی ادا کر دیا تھا

احمد کی کوئی کتاب ایسی نہیں تھی جو اس نے ایک بار سے زائد پڑھی ھو، ھر کتاب کا کرب وہ ایک ھی بار برداشت کر پائی تھی دوسری بار پڑھنا اس کے لئے سوھان روح سے کم نہ تھا البتہ ورق گردانی کر کے وہ کچھ پیرے ضرور پڑھا کرتی جن میں اس نے تہذیب کے منہ پر بڑے زور دار چانٹے مارے تھے

"ایک طرف تہذیب کا عَ۔لم وہ سفید جھنڈا ھے جو عشق اور باد مخالف کے درمیان طبل جنگ بجنے سے روک لیتا ھے ورنہ زندہ وجود اپنے جسموں سے کھنکتی ھنسی اور مہکتی سانسوں کی جگہ خون کا ایک فوارہ اگل کر سچ مچ کے قبرستان میں جا کے سو جاتے ھیں"
"محبت کی بساط پر تہذیب وہ مُہرہ ھے جو سب سے پہلے دو دلوں کے درمیان سوالیہ نشان بن کے کھڑا ھو جاتا ھے، اگر اسے درمیان سے ھٹا دیا جائے تو پھر یہ سماج کی طرف سے شعلہ بن کے لپکتا ھے اور اپنے پیچھے راکھ کا ایک ڈھیر چھوڑ جاتا ھے، جو اس کو سفید جھنڈے کی طرح تھام لیتا ھے وہ سماج کے ھاتھوں روند جانے سے تو بچ جاتا ھے لیکن اس کا سفید رنگ دیکھتے ھی دیکھتے کالے آسیب میں بدل کر دو خوش رنگ وجودوں کو اپنے سیاہ فام جبڑوں میں عمر بھر بھنبھوڑتا رھتا ھے"

ایسے پیراگراف پڑھ کر وہ پھر ماضی کے کیواڑ کھول کر کسی ویرانے میں نکل جاتی تھی

اگر میں اس کے ھاتھ میں سفید علم نہ دیتی تو اس دن واقعۃً ایسا ھی ھونا تھا، احمد کے سینے سے ایک فوارہ خون کا نکلتا اور بس کہانی ختم، یہ میں ھی تھی جو اس کو سمجھا بجھا کے چپ کرا دیا تھا اور صرف میری خاطر اس نے اپنی زبان سی لی تھی

اس دن ھم کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے، ابا جان اور چچا جی کے بیچ زمینوں کا تناؤ کافی حد تک بڑھ چکا تھا، گاؤں میں ملنا تو اب کسی طور بھی ممکن نہیں تھا، ھمیں دونوں طرف سے سمجھایا جاتا کہ یونیورسٹی میں بھی ایک دوسرے سے دور رھا کرو

احمد نے کہا اب ایک ھی صورت ھے، میں سب سے بھڑ جاؤں گا لیکن میں نے سختی سے منع کر دیا اور تجویز رکھی کہ ھم دونوں مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں گے، ھم میں سے ایک بھی کامیاب ھوگیا تو ھم اس تہذیب کی گرفت سے آزاد ھو جائیں گے، تم پاس ھو گئے تو تم پولیس گروپ جوائین کر لینا، میں پاس ھو گئی تو ڈی ایم جی یا فارن سروس جوائین کر لوں گی پھر ساری منزلیں آسان ھو جائیں گی لیکن ایسا ھو نہ سکا، ھم دونوں ھی ھار گئے اور تہذیب کی وراثت جیت گئی، نمبردار کے لڑکے سے مجھے بیاہ دیا گیا

یونیورسٹی سے فارغ ھو کر میں گھر جا رھی تھی، بس اڈے سے تانگہ لیا جو گرمیوں کی دوپہر میں گاؤں کی طرف جانے والی سڑک پر رواں دواں تھا، گھوڑے کے سُموں سے پکی سڑک پر ٹاپوں کی آواز ایک ردھم سے جا ری تھی

تانگے کے اگلی طرف بیٹھے دو لوگ آپس میں باتیں کر رھے تھے، کبھی کبھار تانگے والا بھی ان کی کسی بات پر گرہ لگا دیتا، پچھلی سیٹ پر میرے ساتھ دو خواتین بھی مردوں کی موجودگی پر میری طرح اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھی تھیں

چچا جی کا ٹیوب ویل نظر آیا تو دل دھک دھک کر اٹھا، گاؤں کی حدود شروع ھونے والی تھی، اپنا اسٹاپ بتانے کے پیش نظر گردن گھما کے کوچوان سے کہا، مجھے کرنل صاحب کی حویلی کے پاس اتار دینا

اسی لمحے اس نے گھوم کر مجھے دیکھا تھا، نمبردار کا لڑکا فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا، میری آواز کا کوئی سُر اس کے دل میں گھر کر گیا اور مجھے دیکھ کر اس کا چہرہ مبہوت ھو رھا، وہ بھی میرے ساتھ ھی اتر گیا

مجھے یاد آیا، اس کا گھر تو گاؤں کی دوسری طرف ھے اسے اگلے اسٹاپ پر اترنا چاھیئے تھا، یہ میرے ساتھ کیوں اترا، بس ایک تو اس سے بچنے کے لئے اور دوسرا بیگم صاحبہ سے بات کرنے کی خاطر میں کرنل صاحب کی حویلی میں چلی گئی

کرنل صاحب کی ابا جی سے اور بیگم صاحبہ کی امی سے اچھی دوستی تھی، کئی بار سوچا چچی بیگم سے سب کچھ کہہ دوں یا کرنل صاحب سے کہوں کہ ھماری خاطر ھی سہی ابا اور چچا کے درمیان تصفیہ کرا دیں، آپ کسی طرح ان دونوں پر دباؤ ڈالیں کوئی ایک تو آپ کی بات مان ھی جائے گا، کبھی کرنل چچا کا منہ دیکھتی تو کبھی چچی بیگم کا مگر میری بات گاؤں میں نہ نکل جائے اس ایک خوف سے اصل بات میری زبان پر آ نہ سکی

آخر چچی بیگم نے میری ادھیڑ بن کو بھانپ کر پوچھ ھی لیا، میری رانی تو ھمیشہ کھلی کھلی رھتی تھی آج کچھ اداس اداس کیوں ھے؟

میں ایک دم آنے والے اس سوال سے جھینپ گئی اور بات بنا کر جان چھڑائی
چچی بیگم ایک تو ساڑھے تین گھنٹے بس کا سفر، پھر آدھا گھنٹہ تانگے کا راستہ، اوپر سے گرمی، اسی لئے بہت تھک گئی ھوں

شربت کا ایک گلاس پی کر اجازت چاھی تو کرنل چچا نے ایک زور دار آواز لگائی……… اوئے کوئی ھے؟……… اوئے نوراں چل تو ھی ادھر آ ذرا……… جا میری بیٹی کو گھر تک چھوڑ کے آ

یہ اپنائیت بھرا لہجہ سن کر دل میں ایک چیخ سی اٹھی، کرنل صاحب چاھیں تو وہ اپنا فیصلہ ابا اور چچا پر مسلط بھی کر سکتے ھیں

دل میں آئی کہ ان کے گلے لگ کے رو دوں اور سب کچھ کہہ دوں لیکن یہ سوچ کر سارے جزبات مجروح ھو کے رہ گئے کہ میری بات کو عامیانہ سمجھ کر کہیں مجھے بے شرم و بے حیاء نہ کہہ دیں، یہ ساری محبت میرے حیاء دار ھونے کی وجہ سے ھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مجھے تہذیب یافتہ بیٹی سمجھتے ھیں، یہ خیال آتے ھی دل میں آیا ھوا بھونچال ایک دم بیٹھ گیا

نوراں کے آنے تک میں چپ چاپ کھڑی رھی پھر چچا نے سر پہ ھاتھ رکھا اور کہا، رزلٹ آ جائے تو میری بیٹی نے ایک بار مقابلے کا امتحان ضرور دینا ھے، ٹیچنگ از آ سیکنڈ آپشن، تیرے ابا کو میں خود سمجھا لوں گا، لاھور جا کے یہاں تک پڑھنا بھی کرنل چچا کے کہنے سے ھی ممکن ھوا تھا

اس لمحے مجھے پھر لگا کہ یہی وہ مضبوط سہارا ھے جو ھمارے کام آ سکتا ھے لیکن دوسرا خیال وھی تھا کہ چچا کے سامنے اپنے سر سے چادر کیسے اتاروں، بس اپنی چیخ کو دبا کر اور آنسووں کو چھپا کر وھاں سے چل دی

نمبردار کا لڑکا ابھی تک اسی راستے پر کھڑا تھا، شائد اسے میرا ھی انتظار تھا، نوراں کو میرے ساتھ دیکھ کر وہ قریبی گلی میں چلا گیا لیکن جانے سے پہلے اس نے میرا بھر پور جائزہ لیا تھا

چچی بیگم کو شیشے میں اتار کر کل انہیں یہ کہوں گی کہ مجھے اس پیار ویار سے کوئی غرض نہیں لیکن احمد نے کوئی سیاپا کھڑا کر دیا تو بدنامی پھر بھی میری ھی ھو گی اس لئے اس معاملے کو کرنل چچا نمٹا دیں تو اچھا ھے
یہ تجویز سوچ کر مجھے بہت ڈھارس بندھی تھی لیکن شام کو ھی نمبردار کی بیوی اور بیٹیاں رشتہ لے کر آگئیں، سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور میرے اندر آسیب اتر گیا، میرے اندر سے رونے کی بجائے بانسری کی کوئی دلدوز تان ابھر رھی تھی جس میں کسی موت کا اعلان تھا، ایسی موت جس کا نہ کوئی جنازہ پڑھتا ھے اور نہ ھی اسے دفناتا ھے، بس لال گھاگھرا پہنا کر میت کسی دولہا کے حوالے کر دی جاتی ھے

نمبردار کی زمینیں اتنی تھیں کہ چار بیٹوں میں بانٹ کر بھی اس دولہا کے حصے میں دو مربعے آتے، شہر میں اس کا بیوپار بھی سیٹل ھو رھا تھا

احمد سے ایک آخری ملاقات ھوئی تھی، وہ صرف یہ جاننا چاھتا تھا کہ میں نے ھاں کیسے کر دی، وہ اپنے گھر پہ شدید جھگڑا اٹھا کے آیا تھا جسے کافی رد و کد کے بعد اس کے گھر میں ھی دفن کر دیا گیا اگر اس کی بازگشت ھمارے گھر تک پہنچتی تو شائد جنگ کا پہلا حملہ ھمارے گھر سے ھی جاتا

احمد تم مجھے بہت عزیز ھو
؎ میں تمھیں صرف عزیز ھوں؟
نہیں تم میری جان ھو مگر میں نے شہر میں ایک کوٹھی اور نوکری کرنے کی تحریری اجازت کے عوض اس محبت پہ تہذیب کی مٹی ڈال دی ھے، یہ اس سے اچھا ھے کہ میرا نام تمھارے نام کے ساتھ گلی گلی اڑتا پھرے

تمھارا اے ایس پی بننا بہت ضروری ھے ورنہ تم دو گھروں سے کیسے لڑو گے، نمبردار کے چار لڑکے ھیں اور میرے ابا کے تین
اگر میں اے سی بن گئی یا ڈپلومیٹ تو میں اور کرنل صاحب کو منا لوں گی وہ سب سے نمٹ لیں گے، منگنی کا کیا ھے، منگنیاں ٹوٹتی رھتی ھیں بس کوئی خالص وجہ ھونی چاھئے

؎ ڈپلومیٹ تو تم بن چکی ھو ورنہ سات کیا میں تو تیس بندے مار کے بھی نہ مرتا

وہ جب بھی مجھ سے ملتا تھا تو درمیان سے مانگ نکالا کرتا تھا اور وقت کو روک لینا چاھتا تھا، اس دن اس نے میرے سامنے سائڈ سے مانگ نکالی اور گھڑی اتار کر جیب میں رکھ لی

پھر کہیں جا کر پتا نہیں کتنا رویا ھوگا، پتا نہیں کتنا کرلایا ھوگا، پتا نہیں کتنا سلگا ھوگا کہ ھر کتاب ھر ناول ھر افسانہ اس کا کرب کی آغوش میں مچلتا ھے، گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ھے، وہ جب تک برق رفتار گھوڑے پر سوار ھو کر ایک زور دار چابک تہذیب کے منہ پر نہ مارے تب تک اسے چین نہیں آتا

" تہذیب اس بانسری کا نام ھے جسے بجایا جائے تو صرف ھجر کا ایک دلدوز نغمہ پھوٹتا ھے جو جینے دیتا ھے نہ مرنے، تہذیب کی اقدار بڑی پکی ھوتی ھیں یہ ھر رات کسی ادھ موئے وجود کو اگلی رات پھر سے ملنے کا وعدہ کر کے اسے جیتا مرتا چھوڑ جاتی ھیں، ھر صبح تہذیب کا طوطی اسی طرح سے بولتا ھے، ھر رات اسی تہذیب کے وجود سے نغمہ سنج ھوتی ھے"

یہی پیرے پڑھ کر مجھے یک گونہ سکون ملتا ھے اور یہی پیرے پڑھ کر مجھے کوئی خلش گھیر لیتی ھے، اس نے زمینوں میں سے اپنا حصہ لے کر ملک ھی چھوڑ دیا تھا اور لندن جا کر میری ایک کزن سے شادی کر لی لیکن نباہ نہیں ھو سکا، بچے بڑے ھوئے تو وہ ڈومینیٹ کرنے لگی، احمد کے سامنے ایک بار پھر تہذیب کی بانسری بجنے لگی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے اسے مشرقی تہذیب کا سامنا تھا اور اب مغربی تہذیب اس کے سامنے کھڑی تھی جس کی تلخی سے دو ناولوں نے جنم لیا، جیسے میرے منہ سے تہذیب کا نغمہ سن کر اس کے من سے افسانوں کے دو مجموعے بہہ نکلے تھے

کئی سال بعد جب رابطے بحال ھوئے تو میں نے اسے بتایا نمبردار کا لڑکا بھی روائیتی چوھدریوں سے مختلف نہیں تھا، اس نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی، بزنس، شراب، مجرے اور کچھ میری بے اعتناعی سے وہ دن بدن مجھ سے دور ھی ھوتا گیا اور پھر لوٹ کر کبھی نہیں آیا، اسے بیٹا چاھئے تھا جس کی پیدائیش پر وہ مجرا کرا سکتا مگر دونوں بار بیٹیاں ھوئیں اور اس کی مونچھیں دونوں طرف سے نیچی ھو گئی تھیں

لڑکیاں تو ھوتی ھی صبر کا پیکر ھیں لیکن اب احمد نے بھی کسی صبر کی وادی میں دم لے کر افسانوں کے بعد "تہذیبوں کی اساس" اور "دو تہذیبوں کا ثمر" دو کتابیں اور دے دیں

میں تھک گئی ھوں لیکن وہ نہیں تھکا، وہ آج بھی کسی غصے میں بائیں طرف ھی مانگ نکالتا ھے، درمیان سے مانگ نکالنا اس کا بہت دلفریب اسٹائل تھا مگر کس کے لئے کرے، اس کی کلائی ابھی تک گھڑی سے خالی ھے، وہ وقت کے دیئے کرب کو اپنے ارد گرد روک کے کھڑا ھے جبھی وہ اتنی زھریلی تحریر لکھتا ھے

باھر گاڑی کے ھارن کی آواز آئی تو وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باھر آگئی
ملازمہ نے دروازہ کھولا تو دونوں بیٹیاں بے چینی سے اس کے کمرے کی طرف بھاگیں، لیکن وہ اسٹڈی میں راکنگ چئیر پر احمد شفیع کی ایک کتاب چہرے پہ رکھے نیم دراز تھی

بس بہت ھو گئی ھٹ دھرمی اب آپ ھمارے ساتھ رھیں یا ھم باری باری آپ کے پاس رھیں گی، اتنا کچھ ھو گیا اور ھمیں خبر تک نہیں کی

ارے نہیں بیٹا میں اب ٹھیک ھوں بس کل ذرا سا دل پہ بوجھ تھا، اسی لئے رات کو ھسپتال لے گئے تھے، ڈاکٹر نے چار چھ گھنٹے آبزرویشن میں رکھ کے چھوڑ دیا تھا، اب میں بلکل ٹھیک ھوں

بیٹیوں کی والدین سے محبت بھی اسی تہذیب کا حصہ ھے جس پر احمد شفیع جیسا محبوب ھو یا بیٹیوں کے شوھر ھوں کوئی بھی غالب نہیں آسکتا، ان دونوں نے بھی اپنی ماں کے پاس ڈیرے لگا لئے

بیٹیوں کے اصرار پر اس نے کالج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو لیٹر بھی لکھ دیا، جب تک آپ کسی قابل پرنسپل کا انتخاب نہیں کر لیتے تب تک میں جیسے تیسے کالج چلاتی رھوں گی، بورڈ کے استفسار پر اس نے موزوں ترین امیدوار کے طور پر ڈاکٹر احمد شفیع کو ھی ریفر کر دیا

ایک دن دروازے پر ایک اجنبی آیا، اس کے تعارف کرانے سے پہلے ھی ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ لڑکی نے سوال کر دیا، کیا آپ افسانہ نگار انکل احمد ھیں، مانچسٹر سے، ھم سب آپ کے بڑے فین ھیں، آپ اندر آئیں ناں پلیز

اس نے احمد کو دیکھا تو دیکھتی رہ گئی، آج اس کے ھاتھ پر گھڑی بھی تھی اور مانگ بھی اس کے حسب پسند، احمد نے پھر گھڑی اتار کر جیب میں رکھ لی وہ وقت کو اب اسی مقام پر روکنا چاھتا تھا لیکن وقت کسی کا غلام نہیں، لڑکیاں کھانے پکانے میں لگ گئیں اور وہ دیر تک باتیں کرتے رھے، وہ بیشتر باتوں کا جواب سر ھلا کر دیتی رھی یا کبھی اس کی آنکھیں نم ھو جاتیں، رات دیر تک ان کے گھر محفل جمی رھی، پھر اجازت لے کر وہ واپس چلا گیا لیکن ایک بار پھر اسے گھائل کر گیا، سمے کا کرب اس کے رگ و پے میں اترنے لگا اور دو دن بعد لامحالہ اسے پھر ہسپتال لے جانا پڑا

ڈاکٹر نے دونوں بیٹیوں سے شکوہ کیا، آپ کی امی ھیں تو میری استاد ھیں، رشتہ تقریباً ایک جیسا ھی ھے، اسی لئے میں نے طوطے کی طرح سمجھایا تھا کہ انہیں کوئی خوشی یا دکھ کی خبر ایک دم سے مت دینا، وہ دونوں حیران تھیں کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں ھوا، پھر وہ دو دن وینٹیلیٹر پہ رہ کے وقت کی قید اور تہذیب کے چنگل سے نکل گئیں

ڈاکٹر احمد بھی صرف ٹیوٹورئیل کے پیرئیڈ میں ھی لیکچر دیا کرتے تھے، ان کا انداز بھی مسحور کن تھا، کلاس پر پن ڈراپ سائیلینس چھا جاتا، سب ان کے لہجے اور باڈی لینگوئیج کو کہانی کے کرداروں میں ڈھلتا ھوا دیکھ کر دم بخود رہ جاتے، لیکن تہذیب کی طرف ان کا رویہ بہت جارحانہ ھوتا، وہ ان مصنفین کی طرح سے بولتے جو معاشرتی ٹیبوز کو بے لاگ بیان کیا کرتے ھیں، جسے قبول کرنا مشکل ھوتا ھے، جسے فیس کرنا کبھی ضروری اور کبھی مجبوری بن جاتا ھے، ساتھ ھی ساتھ وہ ان ٹیبووز کو ایک جھڑدی پلائے بغیر نہیں رکتے تھے

"تہذیب کے سانچے میں ڈھلے ھوئے سماج کے لوگ اس تند و تیز بارش کی طرح ھوتے ھیں جو پکے مکانوں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی مگر کچھے کوٹھے بہا کے لے جاتی ھے، کہیں یہ پگڈنڈیاں دھو دیتی ھے اور کہیں کچے راستے کیچڑ سے بھرپور کر دیتی ھے، جو اپنی بقا چاھتا ھے اس انسان کے پاس ایک مضبوط لاٹھی ھونی چاھئے جو ٹیک ٹیک کر اس ماحول میں اپنی مرضی کی راہ بنا کر چل سکے"

ڈاکٹر احمد ایک قبر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے، مستری نے قبر پر کتبہ فٹ کر کے آواز دی، لؤ دیکھو جی ڈاکٹر صاحب اب ٹھیک ھے؟

ڈاک۔۔۔۔ٹر ف۔۔۔ریح۔۔ہ م۔۔ہر
سابق پرنسپل سینٹ جوزف کالج
"آپ انگریزی ادب کی ماسٹر اور مشرقی تہذیب کی بے مثال وارث تھیں"

کتبہ پڑھتے ھوئے کالج کے ٹیوٹورئیل ھال سے خود ان کی اپنی ھی آواز ان کے کانوں میں گونج رھی تھی
"ڈئیر کڈز ... محبت اور تہذیب کو کبھی آمنے سامنے مت آنے دو ... ورنہ .... محبت مر جائے گی"

مستری انہیں چپ کراتا رھا لیکن اسے نہیں پتا تھا کہ برسوں کا کرب جب آنسؤوں میں ڈھلنے لگے تو کسی قبر کے سرھانے روتے روتے شام بھی ھو سکتی ھے۔
 
مصنف کا تعارف بھی کروائیے۔ گوگل پر تلاش سے جو کچھ ملا ناکافی رہا۔
مصنف ناول نگار، افسانہ نگار اوراچھے شاعر ہے، فیصل آباد میں رہتے ہیں، میڈیا اورادب سے کافی گہرا رشتہ ہے۔
ہم سے توفیس بک پرملاقات ہوئی وہیں پرہم نے استفادہ کیا اورانہی کی اجازت سے یہ افسانہ یہاں پرآپ کے ساتھ شیئرکردیا۔
ان کی فیس بک آئی ڈی یہ ہے: https://www.facebook.com/lalasehrai1
 
لالہ صحرائی کا اصل نام مہر سہیل چوھدری ھے۔

افسانوں اور انشائیوں پر مبنی ان کی دو کتابیں زیر طبع ھیں جو جلدی منظر عام پر اجائیں گی، تیسری کتاب لکھنے کا آج ھی اعلان کیا ھے جس کا پہلا افسانہ کل پوسٹ ھونا متوقع ھے، یہ کتاب منٹو کے اسلوب میں نشتر زنی کرنے والی قسم کے سماجی افسانوں پر مشتمل ھوگی۔
 
Top