تھمے گی کب یہ آندھی، یہ ہوا،

سارہ خان

محفلین
تھمے گی کب یہ آندھی، یہ ہوا، کُچھ کہہ نہیں سکتے
ٹلے گا کب یہ دورِ ابتلا ، کُچھ کہہ نہیں سکتے
کھڑے ہیں گنگ سب صورتِ حال کے آگے
رہے گی اور کب تک یہ فضا،کُچھ کہہ نہیں سکتے
ہوائیں چاہتی ہیں کیا،سمجھ میں کُچھ آ نہیں سکتا
جلے گا دیکھیے کب تک دیا،کُچھ کہہ نہیں سکتے
مراحل سینکڑوں ہیں راستے میں دیکھیے کیا ہو
کہاں تک ساتھ دے کس کی دُعا،کُچھ کہہ نہیں سکتے
شبیں اس بے یقینی کی اذیت میں گُزرتی ہیں
سحر دم جانے کیا ہو جائے گا،کُچھ کہہ نہیں سکتے
 

عمر سیف

محفلین
مراحل سینکڑوں ہیں راستے میں دیکھیے کیا ہو
کہاں تک ساتھ دے کس کی دُعا،کُچھ کہہ نہیں سکتے

خوب ۔۔۔
 
Top