تِمر کی تہذیب

سندھو اور سمندر، دونوں بہہ رہے ہیں۔ سمندر آگے بڑھے یا دریا پیچھے ہٹے، ہمالیائی جوگیوں کے ہاتھوں سے پھسلا سانپ کہانی میں اب بھی موجود ہے لیکن اب یہ سمندر میں نہیں بلکہ مچھیروں کے ہاتھوں میں پہنچ چکا۔​
یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا حصّہ ہے، پہلا حصّہ “ہمالیہ کا سندھو سانپ” یہاں دیکھیے

اسکردو کے فلک بوس پہاڑوں کی تنگ گھاٹیوں سے سانپ کی طرح لہرا کر گزرتا دریائے سندھ۔ — تصویر بشکریہ مضمون نگار
یہ مچھیرے تِمر کے زیرِ سایہ سندھ کی ڈیلٹائی سرزمین پر رہتے اور سمندر سے مچھلی پکڑ کر دو پیسے کماتے تھے لیکن اب دریا کی بنائی ہوئی باقی ماندہ سرزمین سے سانپ پکڑ کر روزی حاصل کرتے ہیں۔
یہ کون لوگ ہیں؟ کہانی میں آگے بہنے سے پہلے دریائے سندھ، اُس کی زمین اور سمندر کے ملاپ کا حال جان لیں۔​
دریائے سندھ کا شمار دنیا کے بڑے بڑے دریاؤں میں کیا جاتا ہے۔ کیلاش کی جھیل مانسرور کے برفانی پانیوں سے جنم لینے والا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’دم چُک‘ سے لدّاخ میں داخل ہوجاتا ہے اور یہاں سے سیکڑوں میلوں کا سفر طے کرتا ہوا بحیرہ عرب سے ہم آغوش ہونے کو پہنچتا ہے۔​
بحیرۂ عرب کی شفاف نیلگوں موجوں اور دریائے سندھ کے گدلے پانی کا گذشتہ ہزارہا برسوں سے ملاپ، اُس سرزمین کی تشکیل کا جواز بنا، جسے آج ہم انڈس ڈیلٹا کہتے ہیں۔​
یہ لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل کی بات ہوگی، جب یونانی مورّخ ہیروڈوٹس دریائے نیل کے اُس انتہائی اختتامی حصے تک پہنچا، جہاں وہ بحیرہ روم میں گرتا تھا۔ وہاں اس یونانی مورّخ نے دیکھا کہ دریا کا پانی تو سمندر میں جا گرتا ہے لیکن اس کے ساتھ آنے والی ریت و مٹی بدستور ایک قطعۂ ارضی تشکیل کرتی چلی جارہی ہے۔​
ابھرتی زمین کا بغور مشاہدہ کیا تو اس کی ہئیت تکون پائی۔ تکون یا مثلث کو رومن زبان میں ‘ڈیلٹا’ کہا جاتا ہے، لہٰذا ہیروڈوٹس نے دریائے نیل کے ختم ہوتے دہانے سے بحیرہ روم کی جانب بڑھتے ہوئے، اس مثلث نما قطعہ اراضی کو نام دیا: ڈیلٹا۔​
یوں دریاؤں کے اختتامی دہانوں پر تخلیق پانے والی یہ نئی زمین رفتہ رفتہ پوری دنیا میں ‘ڈیلٹا’ کے اصطلاحی نام سے معروف ہوگئی۔ آج کرۂ ارض کا کم و بیش دو فیصد رقبہ انہی ڈیلٹائی علاقوں پر مشتمل ہے۔ سندھو کے ڈیلٹا کو دنیا بھر کے ڈیلٹاؤں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔​
تاریخ دانوں اور علمائے بشریات کا اتفاق ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے تہذیبوں کو جنم دیتے رہے اور اس کے پانیوں نے ہمیشہ تہذیبوں اور ثقافتوں کی آبیاری کی لیکن اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جاتا کہ دریائے سندھ نے صرف اپنی رہ گزر کے کناروں پر ہی نہیں بلکہ اختتام پر بھی ایک شاندار تہذیب کو جنم دیا تھا۔​
اس تہذیب نے وہاں جنم لیا، جہاں دریاکے گدلے پانیوں کے بپھرے ریلوں نے سمندر کی نیلگوں موجوں کو مستقل پیچھے دھکیلا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت ومٹی کے ننھے ننھے ذرات کو، ایک دوسرے سے پیوست کرکے، اس سنگم پر ہزارہا برس کی ریاضت سے زمین تشکیل دی۔​
دریائے سندھ نے، سمندر اور اپنی تخلیق کردہ دَلدَلی زمین کے درمیان، تِمر کے گھنے جنگلات کی باڑ باندھ کر حد قائم کی اور سمندری کناروں کو مچھلیوں کی دولت کا بیش بہا خزینہ عطا کیا۔ یوں سندھ ڈیلٹا کی زرخیز زمین پرایک نئی تہذیب کا جنم ہوا، جسے ہم کہہ سکتے ہیں: تمر تہذیب یا مینگرووز سویلائزیشن۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی ہی یہ عطا ہے کہ دنیا بھر میں اس نے پاکستان کو تِمر کے ساحلی و دلدلی جنگلات کا حامل چودھواں بڑا ملک قرار دلوایا۔​
رہی بات دریائے سندھ کے اس ‘احسان’ کی تو پھرجانتے چلو۔ آج بھی تِمر کی سمندری کھاڑیوں میں آباد مچھیرے ماہی گیری کے لیے رخ کرتے ہیں سمندر کا لیکن پوچھ لو کہ بھائی کدھر جارہے ہو تو جواب ملے گا: دریا پر جارہا ہوں۔​
جب بھی ان سے سمندر کی بات کرو تو جواب میں وہ ذکر تو سمندر کا ہی کریں گے لیکن نام ‘دریا’ کا لیتے ہیں۔ خود فراموشی کی یہی منزل عشق کی معراج ہے: ‘رانجھا رانجھا کردے نی میں آپئی رانجھا ہوئی’۔
دیومالائی قصے کہانیوں اور رومانی حیثیت کے حامل دریائے سندھ کی ڈیلٹائی سرزمین پر وہ ایک اَبر آلود شام تھی۔ آسمان پر کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی اور سمندری ہواؤں نے ماحول کو نہایت کیف آگیں بنادیا۔​
اُس شام کیٹی بندر کے ساحل پر میرے ساتھ مچھیرے نور محمد محوِ گفتگو تھے۔ ان کی عمر پچاسی برس تھی جو پوری کی پوری کیٹی بندر اور اس کے ساحلوں پر ہی تمام ہوئی۔ ہم ساحل کی ریت پر بیٹھے تھے۔ جب اُن سے سندھو دریا اور ڈیلٹا کا حال پوچھا تو بیان کرنے لگے۔​
“یہ دریا (سمندر) ہی ہماری کھیتی باڑی ہے اور یہ مچھلیاں ہی ہماری فصلیں ہیں مگر اب حالات وہ نہ رہے جو ہمارے بزرگوں کے تھے۔ اب تو سب کچھ ختم ہورہا ہے، زمین موجوں میں ڈوب رہی ہے، میٹھا پانی بھی نہیں ہے، حالات اچھے نہیں۔ یہ زمین ہمیں دریا بادشاہ نے دی تھی، پر پتا نہیں کہ ہمارے بچوں کے پاس یہ رہتی بھی ہے یا نہیں۔ جیسے جیسے میری سانسیں پوری ہورہی ہیں، لگتا ہے ہماری اس دھرتی کے بھی دن پورے ہورہے ہیں۔​
یہ سب کچھ کہہ کر خاموش ہوئے، تھوڑا توقف کیا، پہلے سمندر پر نظر کی اور پھر آسمان کی طرف دیکھا۔ ‘سائیں کیا کہہ سکتے اور کیا کرسکتے ہیں۔ بس بابا، یہ سب دریا بادشاہ کی مہربانی ہے۔”​
مجھے یہ قربِ مرگ میں محبوب کے فراق کا تذکرہ لگا:
شکوہ سمجھوں، شکایت یا پھر دلرُبا، اِسے ادا کہوں تیری
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا عروج بے مثال تھا، جس کا ڈنکا لاکھوں ایکڑ اراضی پر لہلہاتی فصلوں، خوشحال چہروں کی دمکتی آنکھوں، ساحل پر تاجروں اور جہازیوں کے ہجوم کی صورت مدتوں جہاں بھر میں بجتا رہا.​
بات شاید زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ صدی پرانی ہوگی، جب ڈیلٹا کی ترقی، اس کے لوگوں کی معاشی خوشحالی اور یہاں کی مقبول زرعی پیداوار کے چرچے صحیح معنوں میں سات سمندر پار تک سنے جاتے تھے۔​
اگلی بار جھانکیں گے ڈیلٹا کے عظیم ماضی میں کہ جس کا حال تو قابلِ افسوس ہے لیکن ماضی انتہائی شاندار تھا.​
اس کے باشندوں اور مورخین کے لیے یہ ماضی ‘طُرۂ امتیاز’ سے کم نہیں مگر کسی کو خبر نہیں کہ یہ زمین اور اس کی تہذیب و ثقافت کب تک اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی اور کب تاریخ کے طالبِ علم اسے ‘ماضی کی ڈوب جانے والی تہذیب و ثقافت‘ کے طور پر پڑھنا شروع کردیں گے۔۔۔ خاکمِ بہ دہن، حالات دیکھ کر لگتا ہے شاید اس میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔​
مگر کیوں؟ ۔۔۔ دریا اور سمندر کے ساتھ بہتے رہیے کہ قصہ ابھی تمام نہیں۔
ربط
 
Top