تو کیا ہم مرنے آ ئے ہیں؟ سدرہ سحر عمران

صائمہ شاہ

محفلین
تو کیا ہم مرنے آ ئے ہیں؟

لہو سے تر یہ چھلنی چادریں جن میں
کھلونے ہیں' نہ کپڑے ہیں' نہ بستے ہیں' نہ کاپی؛ پنسلیں
کا غذ ، کتابیں ہیں' نہ تصویریں
ہم ان میں جسم کے ٹکڑے
اکھٹّے کر کے لا ئے ہیں !

یہ دیکھو ۔ ۔ آ نکھ ہے ' جس نے ابھی کُھل کر نہیں دیکھا
یہ نرماہٹ بھری رُوئی سے گالوں پر
لہو کے بَد نُما چھینٹے
یہ سوکھے پھول سے لب ہیں کسی نے نوچ پھینکے ہیں
اگلتی آگ ہے جن سے
یہ ان ٹینکوں پہ پتّھر پھینکتے بچپن
جواں ہوتے ہیں دہشت میں
اذیّت ناک وحشت میں
یہ بارُودی ہواؤ ں میں پرندے دیکھتے ہیں تو
دہَل کر ماں کے آ نچل میں چھپا لیتے ہیں چہروں کو
’’نہیں ہم نے نہیں کچھ بھی کیِا ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں ۔۔۔کچھ بھی ۔ ۔ ‘‘
بَلند آ واز میں یہ چیخ کر ان کو بتا تے ہیں
مگر سنتا نہیں کوئی

فَضا ئیں گونجتی ہیں تیز آ وازوں سے
سنّا ٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں کونو ں میں 'کُھدروں میں
زباں کو کاٹ کر اپنی
دبا لیتا ہے پیروں میں
اذانیں رات تک ہوتی ہیں' پر سجدے نہیں ہو تے
پگھلتی زندگی برفاب آ نکھوں میں
جما دیتی ہے اشکوں کو
تری نوحہ کناں دنیا
ہمیں بے رنگ پھولوں سی تسلّی بھیج دیتی ہے
ہم ان پھولوں کو رکھ دیتے ہیں قبرو ں پر

بَنی یعقوب جب چاہیں
کھلونے چھین کر ماں سے
پرو لیتے ہیں نیزوں میں
تماشا خوب کر تے ہیں
لہو سے ہا تھ بھرتے ہیں
مگر تُو یہ بتا ہم کو
جگہ تیری زمیں پر تھی نہیں تو کیو ں خدا ! تو نے
اتارا ہم کو دُنیا میں قدم اپنے جمانے کو
گھروں میں ہر نئے دن پر
صفِ ماتم بچھانے کو ؟

بتا مَصرف ہے کیا اپنا ؟
خدایا ! بو ل
کیا شہرِ خموشاں میں چراغا ں کرنے آ ئے ہیں ؟
تو کیا ہم مرنے آ ئے ہیں ؟
 
Top