توہین رسالت اور حضرت حمزہ کا اسلام

فرید احمد

محفلین
نبی کریم کی نبوت کا پانچواں سال تھا، ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گذر ابو جہل کے پاس سے ہوا، غیض میں بھرے ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوب برا بھلا کہا ، گالیاں دیں، اور اپنے دل کی بھراس نکالی، یہ ماجرا کسی عورت نے دیکھا، شام کو یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا گذر ہوا، ( یہ ابھی تک مسلمان نہ تھے، بلکہ ابو جہل کے رفیق کار اور دشمن اسلام تھے ) اس عورت نے انہیں جتلایا کہ کیا قریش کی عزت اتنی گر گئی ہے کہ اس کے ایک شریف نوجوان کو سر بازار گالیاں دی جائے ؟ حضرت حمزہ نے واقعہ کی تفصیل معلوم کی تو حمیت جوش مارنے لگی، سیدھے پہنے ابو جہل کے پاس اور ہڈی سے اس کا سر زخمی کر دیا، یار لوگ درمیان میں نہ آتے تو معاملہ آگے اور آگے بڑھتا، خیر ۔۔
اس کے بعد حضرت حمزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے اور مسلمان ہو گئے ۔
مذکورہ واقعہ نقل کرکے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ توہین رسالت پر غصہ آنا جزو ایمان اور تقاضائے ایمان ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ سبب ایمان ہے،
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے سے مسلمان شخص کے لیے یہ زیادتی ایمان کا سبب بنے گا۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ حمزہ رضی اللہ نے غیرت و حمیت میں اپنی طاقت کے بقدر اولا تو اس بو جہل کو مارا پیٹا اور پھر اصل کام یعنی ایمان قبول کر لیا ،
اس سے معلوم ہوا کہ توہین رسالت پر غیرت و حمیت اور حب رسول کا اصل تقاضا ایمان قبول کرنا ہے یا ایمان والے اعمال کی بجا آوری ہے ۔ ہاں طاقت ہو تو توہین کرنے والے کو قرار واقعی سزا بھی دی جاسکتی ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بالکل سچی بات کی ہے۔ یہی ایک مسلمان کا حال ہونا چاہیے۔
محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
 
Top