ساحر تنگ آچکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم (انتخاب کلامِ ساحر لدھیانوی)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک منظر

افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا
فضا تن گئی راستے مسکرائے

سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر!
جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے

پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے
پراسرار لَے میں رہٹ گنگنائے

حسیں شبنم آلود پگدنڈیوں سے
لٹنے لگے سبز پیڑوں کےسائے

وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا
تصور میں لاکھوں دیئے جھلملائے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ایک واقعہ

اندھیاری رات کے آنگن میں یہ صبح کے قدموں کی آہٹ
یہ بھیگی بھیگی سرد ہوا یہ ہلکی ہلکی دھندلاہٹ

گاڑی میں ہوں تنہا محو سفر اور نیند نہیں ہے آنکھوں میں
بھولے بسرے ارمانوں کے خوابوں کی زمیں ہے آنکھوں میں

اگلے دن ہاتھ ہلاتے ہیں بچھلی پیتیں یاد آتی ہیں
گم گشتہ خوشیاں آنکھوں میں آنسو بن کر لہراتی ہیں

سینے کے ویراں گوشوں میں ایک ٹھیس سی کروٹ لیتی ہے
ناکام امنگیں روتی ہیں، امید سہارے دیتی ہے

وہ راہیں ذہن میں گھومتی ہیں جن راہوں سے آج آیا ہوں
کتنی امید سے پہنچا تھا، کتنی مایوسی لایا ہوں!
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
یکسوئی

عہدِ گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو؟
ایک آوارۂ منزل کو ستاتی کیوں ہو؟

وہ حسیں عہد جو شرمندۂ ایفا نہ ہوا
اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو

زندگی شعلۂ بے باک بنا لو اپنی!
خود کو خاکسترِ خاموش بناتی کیوں ہو

میں تصوّف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل
میری تصویر پہ تم پھول چڑھاتی کیوں ہو؟

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جان کو اپنی عبث روگ لگاتی کیوں ہو؟

ایک سرکش سے محبت کی تمنّا رکھ کر
خود کو آئین کے پھندوں میں پھنساتی کیوں ہو

میں سمجھتا ہوں تقدّس کو تمدّن کا فریب!
تم رسومات کو ایمان بناتی کیوں ہو؟

جب تمہیں مجھ سے زیادہ ہے زمانے کا خیال
پھر مری یاد میں یوں اشک بہاتی کیوں ہو؟

تم میں ہمّت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دو
ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

انہیں اپنا نہیں سکتا، مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے

بس اب تو دامنِ دل چھوڑ دو بیکار امیدو!
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شاہکار

مصور میں ترا شہکار واپس کرنے آیا ہوں



اب ان رنگین رخساروں میں تھوڑی زردیاں بھردے
حجاب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے

لبوں کی بھیگی بھیگی سلوٹوں کومضمحل کردے
نمایاں رنگِ پیشانی پہ عکس سوزِ دل کر دے

تبسم آفریں چہرے میں کچھ سنجیدہ پن بھر دے
جواں سینے کی مخروطی اٹھانیں سرنگوں کر دے

گھنے بالوں کو کم کردے مگر رخشندگی دے دے
نظر سے تمکنت لے کرمذاقِ عاجزی دے دے

مگر ہاں بنچ کے بدلے اسے صوفے پہ بٹھلا دے
یہاں میری بجائے اک چمکتی کار دکھلا دے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نذرِ کالج

لدھیانہ گورنمنٹ کالج 1943ء

اے سرزمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
باصد خلوص شاعرِ آوارہ کا سلام

اے وادئ جمیل میرے دل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تری بارگاہ میں!

تو آج بھی ہے میرے لیے جنتِ خیال
ہیں تجھ میں دفن میری جوانی کے چار سال

کمھلائے ہیں یہاں پہ مری زندگی کے پھول
ان راستوں میں دفن ہیں میری خوشی کے پھول

تیری نوازشوں کو بھلایا نہ جائے گا
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا

تیری نشاط خیز فضائے جواں کی خیر
گلہائے رنگ و بو کے حسیں کارواں کی خیر

دورِ خزاں میں‌بھی تری کلیاں کھلی رہیں
تا حشر یہ حسین فضائیں بسی رہیں!

ہم ایک خار تھے جو چمن سے نکل گئے
ننگِ وطن تھےحدِ وطن سے نکل گئے

گائے ہیں اس فضا میں وفاؤں کے راگ بھی
نغماتِ آتشیں سے بکھیری ہے آگ بھی!

سرکش بنے ہیں گیت بغاوت کے گائے ہیں
برسوں نئے نظام کے نقشے بنائے ہیں

نغمہ نشاطِ روح کا گایا ہے بارہا
گیتوں میں‌آنسوؤں کو چھپایا ہے بارہا

معصومیوں کے جرم میں بدنام ہم ہوئے
تیرے طفیل موردِ الزام بھی ہوئے

اس سرزمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بیزار ہی سہی

لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں‌تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دیکھا تو تھا یوں ‌ہی کسی غفلت شعار نے
دیوانہ کر دیا دلِ بے اختیار نے

اے آرزو کے دھندلے خرابو؟ جواب دو
پھر کس کی یاد آئی تھی مجھ کو پکارنے

تجھ کو خبر نہیں، مگر اک سادہ لوح کو
برباد کردیا ترے دو دن کے پیار نے

میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کر دیا ہے غمِ روزگار نے

اب اے دلِ تباہ ترا کیا خیال ہے
ہم تو چلے تھےکاکلِ گیتی سنوارنے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
معذوری

خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا
تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں

میں‌کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی
جبر بھی خود پر کروں‌تو گنگنا سکتا نہیں

مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں
میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آسکتا نہیں

روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر
اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گاسکتا نہیں

میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں
اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں

دل تمہاری شدتِ احساس سے واقف تو ہے
اپنے احساسات سے دامن چھڑا سکتا نہیں

تم مری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے
میں تمہارا ہو کے بھی تم میں سما سکتا نہیں

گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت
اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں

کس طرح تم کو بنا لوں میں‌شریکِ زندگی
میں‌تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں

یاس کی تاریکیوں میں‌ ڈوب جانے دو مجھے
اب میں‌شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خانہ آبادی

ایک دوست کی شادی پر

ترانے گونج اٹھے ہیں فضا میں شادیانوں کے
ہوا ہے عطر آگیں ذرّہ ذرّہ مسکراتا ہے

مگر دور ایک افسردہ مکاں میں سرد بستر پر
کوئی دل ہے کہ ہر آہٹ پہ یوں ہی چونک جاتا ہے

مری آنکھوں میں آنسو آگئے نادیدہ آنکھوں کے
مرے دل میں کوئی غمگین نغمہ سرسراتا ہے

یہ رسمِ انقطاعِ عہدِ الفت، یہ حیاتِ نو
محبت رو رہی ہے اور تمدن مسکراتا ہے

یہ شادی خانہ آبادی ہو میرے محترم بھائی
مبارک کہہ نہیں سکتا مرا دل کانپ جاتاہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سرزمینِ یاس

جینے سےدل بیزار ہے
ہر سانس اک آزار ہے

کتنی حزیں‌ ہے زندگی
اندوہ گیں‌ ہے زندگی

وہ بزمِ احبابِ وطن
وہ ہم نوایانِ سخن

آتے ہیں جس دم یاد اب
کرتے ہیں دل ناشاد اب

گزری ہوئی رنگینیاں
کھوئی ہوئی دلچسپیاں

پہروں رلاتی ہیں مجھے
اکثر ستاتی ہیں مجھے

وہ زمزے وہ چہچے
وہ روح افزا قہقہے

جب دل کو موت آتی ہے
یوں‌ بے حسی چھائی نہ تھی

کالج کی رنگیں وادیاں
وہ دلنشیں ‌آبادیاں

وہ نازنینانِ وطن
زہرہ جبینانِ وطن

جن میں‌سے اک رنگیں قبا
آتش نفس، آتش نوا

کرکے محبت آشنا
رنگِ عقیدت آشنا

میرے دلِ‌ ناکام کو
خوں گشتۂ آلام کو

داغِ جدائی دے گئی
ساری خدائی لے گئی

اُن ساعتوں کی یاد میں
اُن راحتوں کی یاد میں

مغموم سا رہتا ہوں میں
غم کی کسک سہتا ہوں ‌میں

سنتا ہوں جب احباب سے
قصّے غمِ ایّام کے

بیتاب ہو جاتا ہوں میں
آہوں میں کھو جاتا ہوں میں

پھر وہ عزیز و اقربا
جو توڑ کر عہدِ وفا

احباب سے منہ موڑ کر
دنیا سے رشتہ جوڑ کر

حدِ افق سے اس طرف
رنگِ شفق سے اُس طرف

اک وادئ خاموش کی
اک عالمِ بے ہوش کی

گہرائیوں میں‌ سو گئے
تاریکیوں میں ‌کھو گئے

ان کا تصور ناگہاں
لیتا ہے دل میں‌ چٹکیاں

اور خوں رلاتا ہے مجھے
بے کل بناتا ہے مجھے

وہ گاؤں کی ہمجولیاں
مفلوک دہقاں‌ زادیاں

جو دستِ فرطِ یاس سے
اور یورشِ‌افلاس سے

عصمت لٹا کر رہ گئیں
خود کو گنوا کر رہ گئیں

غمگیں‌جوانی بن گئیں
رسوا کہانی بن گئیں

اُن سے کبھی گلیوں میں ‌اب
ہوتا ہوں میں‌دو چار جب

نظریں‌ جھکا لیتا ہوں میں
خود کو چھپا لیتا ہوں‌میں

کتنی حزیں ہے زندگی
اندوہ گیں ہے زندگی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے

ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے

ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے

کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے

مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکست

اپنے سینے سے لگائے ہوئے امید کی لاش
مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے

تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار
دل کو ہر طرح سےبرباد کیا ہے میں نے

جب بھی راہوں میں ‌نظر آئے حریری ملبوس
سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے

اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں
ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے

تو دمکتے ہوئے عارض کی شعائیں لے کر
گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے

میری محبوب، یہ ہنگامۂ تجدید وفا
میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں

میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے
ان کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں

ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل وجاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے نہ امید نہ جوش

رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے
میری درماندہ جوانی کی امنگوں کا خروش

ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سایۂ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا

بجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول
اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا

تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو
میری افسردگئ غم کا مداوا تو نہیں

تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید
اک تلافی ہی سہی۔۔۔۔میری تمنا تو نہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم

مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کسی کو اداس دیکھ کر

تمہیں اداس سا پاتا ہوں میں کئی دن سے
نہ جانے کون سے صدمے اٹھا رہی ہوتم
وہ شوخیاں وہ تبسم وہ قہقہے نہ رہے
ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم
چھپا چھپا کے خموشی میں اپنی بے چینی
خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم

میری امید اگر مٹ گئی تو مٹنے دو
امید کیا ہے بس اک پیش و پس ہے کچھ بھی نہیں
میری حیات کی غمگینیوں کاغم نہ کرو
غمِ حیات غم یک نفس ہے کچھ بھی نہیں
تم اپنے حسن کی رعنائیوں پہ رحم کرو
وفا فریب ہے، طول ہوس ہے کچھ بھی نہیں

مجھے تمہارے تغافل سے کیوں شکایت ہو؟
مری فنا مرے احساس کا تقاضا ہے
میں‌ جانتا ہوں کہ دنیا کا خوف ہے تم کو
مجھے خبر ہے یہ دنیا عجیب دنیا ہے
یہاں حیات کے پردے میں موت پلتی ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شکستِ ساز کی آواز روحِ نغمہ ہے

مجھے تمہاری جدائی کا کوئی رنج نہیں
مرے خیال کی دنیا میں‌میرے پاس ہو تم
یہ تم نے ٹھیک کہا ہے تمہیں ملا نہ کروں
مگر مجھے یہ بتا دو کہ کیوں اداس ہو تم
خفا نہ ہونا مری جرأت تخاطب پر؟
تمہیں‌خبر ہے مری زندگی کی آس ہو تم

مرا تو کچھ بھی نہیں ہے میں رو کے جی لوں گا
مگر خدا کے لیے تم اسیرِ‌غم نہ رہو
ہوا ہی کیا جو زمانے نے تم کو چھین لیا
یہاں پہ کون ہوا ہے کسی کا، سوچو تو
مجھے قسم ہے مری دکھ بھری جوانی کی
میں خوش ہوں میری محبت کے پھول ٹھکرا دو

میں اپنی روح کی ہر اک خوشی مٹا لوں گا
مگر تمہاری مسرت مٹا نہیں سکتا
میں‌ خود کو موت کے ہاتھوں میں‌سونپ سکتاہوں
مگر یہ بارِ مصائب اٹھا نہیں سکتا
تمہارے غم کے سوا اور بھی تو غم ہیں مجھے
نجات جن سے میں اک لحظہ پا نہیں ‌سکتا

یہ اونچے اونچے مکانوں کی ڈیوڑھیوں کے تلے
ہر ایک گام پہ بھوکے بھکاریوں کی صدا
ہر ایک گھر میں ہے افلاس اور بھوک کا شور
ہر ایک سمت یہ انسانیت کی آہ و بکا
یہ کارخانوں میں لوہے کا شوروغل جس میں
ہےدفن لاکھوں غریبوں کی روح کا نغمہ

یہ شاہراہوں پہ رنگین ساڑھیوں کی جھلک
یہ جھونپڑوں میں‌غریبوں کے بے کفن لاشے
یہ مال روڈ پہ کاروں کی ریل پیل کا شور
یہ پٹڑیوں پہ غریبوں کے زرد رو بچے

گلی گلی میں یہ بکتے ہوئے جواں چہرے
حسین آنکھوں میں افسردگی سی چھائی ہوئی
یہ جنگ اور یہ میرے وطن کے شوخ جواں
خریدی جاتی ہے اٹھتی جوانیاں جن کی
یہ بات بات پہ قانون و ضابطے کی گرفت
یہ ذلّتیں، یہ غلامی یہ دورِ مجبوری

یہ غم بہت ہیں مری زندگی مٹانے کو
اداس رہ کے مرے دل کو اور رنج نہ دو
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہوس نصیب نظر کو کہیں قرار نہیں
میں منتظر ہوں مگر تیرا انتظار نہیں

ہمیں سے رنگِ گلستاں ہمیں سے رنگِ بہار
ہمیں کو نظمِ گلستاں پہ اختیار نہیں

ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوشگوار نہیں

تمہارے عہدِ وفا کو میں عہد کیا سمجھوں
مجھے خود اپنی محبت پہ اعتبار نہیں

نہ جانے کتنے گلے اس میں مضطرب ہیں ندیم
وہ ایک دل جو کسی کا گلہ گزار نہیں

گریز کا نہیں‌ قائل حیات سے لیکن
جو سچ کہوں‌کہ مجھے موت ناگوار نہیں

یہ کس مقام پہ پہنچا دیا زمانے نے
کہ اب حیات پہ ترا بھی اختیار نہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اشعار

ہر چند مری قوتِ گفتار ہے محبوس
خاموش مگر طبع خود آرا نہیں ہوتی

معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلیل گوارا نہیں ہوتی

نالاں ہوں میں بیدارئ احساس کے ہاتھوں
دنیا مرے افکار کی دنیا نہیں ہوتی

بیگانہ صفت جادۂ منزل سے گزرجا
ہر چیز سزاوارِ نظارہ نہیں ہوتی

فطرت کی مشیت بھی بڑی چیز ہے لیکن
فطرت کبھی بے بس کا سہارا نہیں ہوتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچتا ہوں

سوچتا ہوں‌کہ محبت سے کنارا کرلوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کرلوں

سوچتا ہوں‌کہ محبت ہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بے ہودہ خیالوں کا ہجوم

ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعئ موہوم

سوچتا ہوں کہ محبت سے سرور و مستی
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی

سوچتا ہوں کہ محبت ہے بشر کی فطرت
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے

سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں

سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی

دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی

سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اک کار زبوں

سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش ازاں وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش

یہی بہتر ہے کہ بیگانۂ الفت ہو کر
اپنے سینے میں‌کروں جذبۂ نفرت کی تلاش

سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانۂ ترغیب و تمنا کر لوں
 
Top