کاشفی

محفلین
تم یاد مجھے آجاتے ہو
(بہزاد لکھنوی)
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب صحنِ چمن میں کلیاں کھل کر پھول کی صورت ہوتی ہیں
اور اپنی مہک سے ہر دل میں ایک تخمِ لطافت بوتی ہیں
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو

جب برکھا کی رُت آتی ہے، جب کالی گھٹائیں اُٹھتی ہیں
جس وقت کہ رندوں کے دل سے ہوحق کی صدائیں اُٹھتی ہیں
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب مینہ کی پھواریں پڑتی ہیں، جب ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں
جب صحنِ چمن سے گھبرا کر پی پی کی صدائیں آتی ہیں
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب چودھویں شب کا چاند نکل کر دہر منوّر کرتا ہے
جب کوئی محبت کا مارا کچھ ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب رات کی ظلمت گھٹتی ہے، جب صبح کا نور اُبھرتا ہے
جب کوئل کوکو کرتی ہے، جب پنچھی پی پی کرتا ہے
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ کر سیر کو باہر جاتا ہے
جب کوئی نگاہِ شوق کے آگے رہ رہ کر گھبراتا ہے
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب چار نگاہیں کرکے کوئی محوِ تبسّم ہوتا ہے
جب کوئی محبت کا مارا اس کیف میں پڑ کر کھوتا ہے
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
افلاک پہ جب یہ لاکھوں تارے جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں
جب تارے گن گن کر دل والے ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہیں
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب رات کا بڑھتا ہے سنّاٹا، چین سے دنیا سوتی ہے
تب آنکھ مری کھل جاتی ہے اور دل کی رگ رگ روتی ہے
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
جب روتا ہے بہزادِ حزیں وہ شاعر وہ دیوانہ سا
وہ دل والا وہ سودائی وہ دنیا سے بیگانہ سا
تم یاد مجھے آجاتے ہو
تم یاد مجھے آجاتے ہو
 
Top