اقبال عظیم تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی - اقبال عظیم

حجاب

محفلین
تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی
تو یاد رہے ہم سے بھی ویسی ہی سنو گی

یہ ہمسفری مصلحتِ وقت تھی ورنہ
یہ تو ہمیں معلوم تھا تم ساتھ نہ دوگی

یہ تازہ ستم ہم کو گوارہ تو نہیں ہے
ہم یہ بھی سہہ لیتے ہیں کیا یاد کرو گی

ہم شوق میں برباد ہوئے اپنے ہی ہاتھوں
روداد ہماری جو سنو گی تو ہنسو گی

تم آج سمجھتی ہو ہمیں غیر تو سمجھو
اوروں سے ملو گی تو ہمیں یاد کرو گی

منزل بھی ابھی دور ہے اور راہ بھی دشوار
کیا ہوگا اگر اپنے ہی سائے سے ڈرو گی

اپنوں سے خفا ہو کے کہاں جاؤ گی آخر
اقبال کو کب تک نظر انداز کرو گی ( اقبال عظیم )

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

اس بھری محفل میں اپنا مدّعا کیسے کہیں
اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں

اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
اُن کو خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں

وہ خفا ہیں ہم سے شائد بر بِنائے احتیاط
اُن کی مجبوری کو بے سمجھے جفا کیسے کہیں

اہلِ دل لے اُڑیں گے اس ذرا سی بات کو
اُن کے اندازِ حیا پر مرحبا کیسے کہیں

خود ہماری ذات سے کیا فیض پہنچا ہے اُنہیں
دوستوں کی بے رخی کو ناروا کیسے کہیں

جس قدر وہ باخبر ہے ہم سے کوئی بھی نہیں
اپنے دشمن کو بھلا نا آشنا کیسے کہیں

اُن کو جب خود ہی نہ ہو اقبال اپنوں کا خیال
بے حیا بن کر کہو ہم مدّعا کیسے کہیں۔۔۔۔ ( اقبال عظیم )

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی
تو یاد رہے ہم سے بھی ویسی ہی سنو گی

یہ ہمسفری مصلحتِ وقت تھی ورنہ
یہ تو ہمیں معلوم تھا تم ساتھ نہ دوگی

یہ تازہ ستم ہم کو گوارہ تو نہیں ہے
ہم یہ بھی سہہ لیتے ہیں کیا یاد کرو گی

ہم شوق میں برباد ہوئے اپنے ہی ہاتھوں
روداد ہماری جو سنو گی تو ہنسو گی

تم آج سمجھتی ہو ہمیں غیر تو سمجھو
اوروں سے ملو گی تو ہمیں یاد کرو گی

منزل بھی ابھی دور ہے اور راہ بھی دشوار
کیا ہوگا اگر اپنے ہی سائے سے ڈرو گی

اپنوں سے خفا ہو کے کہاں جاؤ گی آخر
اقبال کو کب تک نظر انداز کرو گی ( اقبال عظیم )

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

اس بھری محفل میں اپنا مدّعا کیسے کہیں
اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں

اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
اُن کو خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں

وہ خفا ہیں ہم سے شائد بر بِنائے احتیاط
اُن کی مجبوری کو بے سمجھے جفا کیسے کہیں

اہلِ دل لے اُڑیں گے اس ذرا سی بات کو
اُن کے اندازِ حیا پر مرحبا کیسے کہیں

خود ہماری ذات سے کیا فیض پہنچا ہے اُنہیں
دوستوں کی بے رخی کو ناروا کیسے کہیں

جس قدر وہ باخبر ہے ہم سے کوئی بھی نہیں
اپنے دشمن کو بھلا نا آشنا کیسے کہیں

اُن کو جب خود ہی نہ ہو اقبال اپنوں کا خیال
بے حیا بن کر کہو ہم مدّعا کیسے کہیں۔۔۔۔ ( اقبال عظیم )

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
:واہ::واہ:
 
Top