کاشفی

محفلین
تم سے شکایت کیا کروں؟
(بہزاد لکھنوی)
ہوتا جو کوئی دوسرا
کرتا گِلہ میں درد کا
تم تو ہو دل کا مدّعا
تم سے شکایت کیا کروں

دیکھو، ہے بلبل نالہ زن
کہتی ہے احوالِ چمن
میں چپ ہوں گو ہوں پُرمحن
تم سے شکایت کیا کروں

مانا کہ میں بےہوش ہوں
پر ہوش ہے پُرجوش ہوں
یہ سوچ کر خاموش ہوں
تم سے شکایت کیا کروں

تم سے تو الفت ہے مجھے
تم سے تو راحت ہے مجھے
تم سے تو محبت ہے مجھے
تم سے شکایت کیا کروں
 
Top