تم خوبصورت ہو

F@rzana

محفلین
گزشتہ دنوں میں نے اپنی ایک طویل نظم کا کچھ حصہ یہاں پر “تنہا مسافر“ کے عنوان سے پوسٹ کیا تھا، اسی نظم کو مکمل پوسٹ کررہی ہوں تاکہ مندرجہ ذیل تبصرہ کرنے والے کا الجھاؤ سلجھ جائے۔ :lol:

“ آپ کی نظم کا مطالعہ کیا، ایک خاموش ندی کی طرح بہتی ہوئی نظم اور شاید جس سحر میں لکھی گئی اس کا بھی اثر یقینا ہوگا کیونکہ اس کا بہاؤ بھی ندی کے پانی کی طرح رواں محسوس ہوتا ہے، نظم نارسائی کے اس کچے رستے سے گزرتی محسوس ہوتی ہے جس پر بارش پڑنے کے بعد مہک آتی ہے،باوجود اس کے کہ نظم کا مجموعی تاثر اچھا ہے اس کی کچھ سطریں نظم کے حسن اور ایک خاص فضا کو کسی وجہ سے گہنا رہی ہیں؟“
 

ظفری

لائبریرین
بہت ہی خوب نیناں جی ! کیا بات ہے ۔۔۔ بہت ہی ملائم مگر مچلتی ہوئی نظم ہے ۔ بہت پسند آئی ۔
ویسے آپس کی بات ہے اس نظم کا عنوان دیکھ کر میں سمجھا کہ آپ نے محب کے کہنے پر مجھ پر کوئی شعر لکھا ہے ۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب، بہت ہی اچھی شاعری ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
اور ظفری بھائی آپ کو کیوں ہری ہری سوجھ رہی ہے۔ میں بھی تو ہو سکتا ہوں۔ :wink:
 

F@rzana

محفلین
بہت ہی خوب نیناں جی ! کیا بات ہے ۔۔۔ بہت ہی ملائم مگر مچلتی ہوئی نظم ہے ۔ بہت پسند آئی ۔
ویسے آپس کی بات ہے اس نظم کا عنوان دیکھ کر میں سمجھا کہ آپ نے محب کے کہنے پر مجھ پر کوئی شعر لکھا ہے ۔ :)

"مچلتی ہوئی نظم"

واہ کیا مچھلی کی یاد دلائی آپ نے۔

ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ
ہم نے جن کے لئے دنیا کو بھلائے رکھا
 

F@rzana

محفلین
بہت خوب، بہت ہی اچھی شاعری ہے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
اور ظفری بھائی آپ کو کیوں ہری ہری سوجھ رہی ہے۔ میں بھی تو ہو سکتا ہوں۔ :wink:


بہت شکریہ شمشاد بھائی، ذرہ نوازی ہے آپ کی۔


جانے کس کو۔۔۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔ شب دیجور میں سوجھی ۔۔۔۔۔اور نجانے کس کو۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی دور کی سوجھی :)

میر ہو غالب ہو یا جالب گیت تمہارے گاتے ہیں
سب کے شعروں میں تم اپنی سندر چھب دکھلاتی ہو
 

جیہ

لائبریرین
جانے کیوں مجھے یہ نظم پڑھ کر وہ نظم یاد آگئی جس کے شاعر کا نام تو معلوم نہیں مگر اسے نیرہ نور گایا تھا اور کیا خوب گائکی تھی.

کبھی ہم خوبصورت تھے
خیالوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
 
فرزانہ تم نے نظم پوسٹ کی ہے کہ لوگوں کی خواہشات کا عکس ڈھال دیا ہے تصویر میں۔ اففففف سمائیلی کہاں ہیں۔

ہر کوئی اس نظم کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور عنوان ایسا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے پڑھنے والے کو ہی کہا گیا ہے ، پڑھنے سے پہلے ہی ذہن آسودہ ہو جاتا ہے یہ پڑھ کر اور پھر غیر شعوری طور پر دہرا کر۔

تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یقین آنے لگتا ہے کہ واقعی خوبصورت ہیں ہم لوگ۔

ظفری اور شمشاد تو اس نظم کو پڑھ کر دبوچنے کے چکروں میں ہیں اور دن رات گنگناتے رہتے ہیں کہ ہم خوبصورت ہیں ، پوچھنے پر تمہاری اس نظم کا حوالہ دیتے ہیں۔

ویسے میں نے یہ نظم نیچے سے پڑھنی شروع کی اور پہلے ہی مصرعہ پر اٹک گیا

تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔ فقط تم خوبصورت ہو

واہ کیا کہنے فقط تم ہی خوبصورت ہو ۔ یوں ہی سہی چلو یوں ہی سہی۔

نظم نیچے سے اوپر تک پڑھی جائے اور پھولوں کی بیل کو چڑھنے کو مدنظر رکھا جائے تو بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے

کیا لچکتی ہوئی نظم ہے !!!!!!!!!!!!!!!!
 
بہت ہی خوب نیناں جی ! کیا بات ہے ۔۔۔ بہت ہی ملائم مگر مچلتی ہوئی نظم ہے ۔ بہت پسند آئی ۔
ویسے آپس کی بات ہے اس نظم کا عنوان دیکھ کر میں سمجھا کہ آپ نے محب کے کہنے پر مجھ پر کوئی شعر لکھا ہے ۔ :)

دیکھ لو ظفری مجھے تمہارا کتنا خیال رہتا ہے تم پر دوبارہ شعر لکھنے کی خاص فرمائش کی میں نے فرزانہ سے۔

ویسے تم پر میں نے بھی ایک شعر لکھا تھا پڑھا تھا تم نے ۔
 
جانے کیوں مجھے یہ نظم پڑھ کر وہ نظم یاد آگئی جس کے شاعر کا نام تو معلوم نہیں مگر اسے نیرہ نور گایا تھا اور کیا خوب گائکی تھی.

کبھی ہم خوبصورت تھے
خیالوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی

میرا خیال ہے زہرا نگار نے لکھی ہے یہ نظم۔
 

F@rzana

محفلین
جانے کیوں مجھے یہ نظم پڑھ کر وہ نظم یاد آگئی جس کے شاعر کا نام تو معلوم نہیں مگر اسے نیرہ نور گایا تھا اور کیا خوب گائکی تھی.

کبھی ہم خوبصورت تھے
خیالوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی

حجاب، جس نظم کا تذکرہ کر رہی ہیں وہ نیرہ نور نے بے انتہا خوبصررت کردی ہے اپنی گائیکی سے۔۔۔۔

لیجئے آپ کے نام۔۔۔۔

کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر
نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں
بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی ،تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پھ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں
آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔
 

F@rzana

محفلین
فرزانہ تم نے نظم پوسٹ کی ہے کہ لوگوں کی خواہشات کا عکس ڈھال دیا ہے تصویر میں۔ اففففف سمائیلی کہاں ہیں۔

ہر کوئی اس نظم کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور عنوان ایسا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے پڑھنے والے کو ہی کہا گیا ہے ، پڑھنے سے پہلے ہی ذہن آسودہ ہو جاتا ہے یہ پڑھ کر اور پھر غیر شعوری طور پر دہرا کر۔

تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یقین آنے لگتا ہے کہ واقعی خوبصورت ہیں ہم لوگ۔

ظفری اور شمشاد تو اس نظم کو پڑھ کر دبوچنے کے چکروں میں ہیں اور دن رات گنگناتے رہتے ہیں کہ ہم خوبصورت ہیں ، پوچھنے پر تمہاری اس نظم کا حوالہ دیتے ہیں۔

ویسے میں نے یہ نظم نیچے سے پڑھنی شروع کی اور پہلے ہی مصرعہ پر اٹک گیا

تم خوبصورت ہو ۔۔۔۔۔۔۔ فقط تم خوبصورت ہو

واہ کیا کہنے فقط تم ہی خوبصورت ہو ۔ یوں ہی سہی چلو یوں ہی سہی۔

نظم نیچے سے اوپر تک پڑھی جائے اور پھولوں کی بیل کو چڑھنے کو مدنظر رکھا جائے تو بے اختیار دل کہہ اٹھتا ہے

کیا لچکتی ہوئی نظم ہے !!!!!!!!!!!!!!!!

ھممممممم

لالچ بری بلا ہے۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم کی بیل نے دبوچ لیا تو نکل نہیں پاؤگے، امر بیل سے بچو، پھر نہ کہنا خبر نہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغیر جڑ اور پانی کے بھی سکھا دے گی۔۔۔۔۔کیا سمجھے؟ "دبوچنے والے"

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی اور بکھر جاؤں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محب، اچھا لکھا ہے لیکن تم اس سے کہیں زیادہ لکھ سکتے ہو، میں بھی موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دوں، اب مزید لکھو، منتظر ہوں۔۔۔۔

ہم بھی ہیں کیا عجب کہ کڑی دھوپ کے تلے
صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

ظفری اور شمشاد بھائی گنگنا رہے ہیں کہ بھن بھنا رہے ہیں:shock:
 

جیہ

لائبریرین
حجاب، جس نظم کا تذکرہ کر رہی ہیں وہ نیرہ نور نے بے انتہا خوبصررت کردی ہے اپنی گائیکی سے۔۔۔۔

لیجئے آپ کے نام۔۔۔۔

کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر
نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں
بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے لیکن
ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی ،تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پھ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں
آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ فرزانہ جی نظم کے لیے ۔ مگر میرا نام حجاب نہیں ، جیہ ہے:p
 

زرقا مفتی

محفلین
بہت خوبصورت
فرزانہ جی آپ کی نظم نے دل کو چھو لیا
میری جانب سے داد اور مبارکباد قبول کیجئے
خوش رہئے
زرقامفتی
 
Top