تم جو بنے سراب مری زندگی کا ہو

نور وجدان

لائبریرین
تم جو بنے سراب مری زندگی کا ہو
اب تو لگے عذاب مری زندگی کا ہو۔


جو تم نہیں ،تو کوئ نہیں زندگی میں اب
ایسا لگے کہ خواب مِری زندگی کا ہو


بارش کی رات اور جدائ کا درد تھا
تم بن گئے سُحاب مری زندگی کا ہو


ہر وقت ہو گُمان ترا یادوں میں تری
کیسا بنے حساب مری زندگی کا ہو


رونق گئی فراق میں بچھڑا تو شام تھی
تم تو گیا شباب مری زندگی کا ہو


جو تھا میرا نصیب وہی دور مجھ سے ہے
کیسا بنے نصاب مری زندگی کا ہو


اب نورؔ یاد کے سُروں میں اپنا پن نہیں
تم کھویا سا رباب مری زندگی کا ہو
از نور شیخ​
 

الف عین

لائبریرین
عزیزہ، میں تو بدنام ہوں کہ منہ پھٹ واقع ہوا ہوں۔ مجھے ردیف پسند نہیں آئی۔ عجیب مجہول سی ہے۔ خاص کر آخر میں ‘ہو‘ کی وجہ سے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
۔۔ سچی بات میں بھلا ہوتا ہے اور تنقید اگر اصلاح کے لئے ہو تو بہت اچھی جو نکھارتی ہے ۔۔ آپ راہنمائی کریں ۔۔ میں آپ کی بات کو فالو کروں تاکہ۔۔۔۔!
محترم باباالف عین
 
آخری تدوین:
ماشا اللہ۔ کافی بہتری آگئی ہے۔ وزن کے حوالے سے آپ کی یہ غزل پچھلی نگارشات سے بہتر ہے۔
الفاظ کے استعمال میں بھی پہلے سے بہتری ہے۔
دیکھیں اساتذہ کیا تجویز فرمائیں گے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ماشا اللہ۔ کافی بہتری آگئی ہے۔ وزن کے حوالے سے آپ کی یہ غزل پچھلی نگارشات سے بہتر ہے۔
الفاظ کے استعمال میں بھی پہلے سے بہتری ہے۔
دیکھیں اساتذہ کیا تجویز فرمائیں گے۔
بہت شکریہ ۔۔۔ اور منتظر کہ کیا تجویز کرتے ہیں ۔۔ چلیں پہلے سے تو بہتر ہے
 
رونق گئی فراق میں بچھڑا تو شام تھی
تم تو گیا شباب مری زندگی کا ہو

اس شعر کے علاوہ تمام شعروں کی ردیف میں "کا" بیان کے اعتبار سے غلط ہے۔ "کے" ہونا چاہیے۔ اور اس شعر میں بچھڑا کی جگہ بچھڑے ٹھیک ہے۔ اور اس کے بعد تعقید لفظی کی بات آتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میرا مشورہ ہو گا کہ اسے مفاعلن مفاعلن میں ڈھال کر زمین ’سراب زندگی ہو تم‘ ’عذاب زندگی ہو تم‘ کر دی جائے۔ اس صورت میں بحالت مجبوری ہی قبول کی جا سکتی ہے۔ عزیزم مہدی کی بات بھی درست ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا مشورہ ہو گا کہ اسے مفاعلن مفاعلن میں ڈھال کر زمین ’سراب زندگی ہو تم‘ ’عذاب زندگی ہو تم‘ کر دی جائے۔ اس صورت میں بحالت مجبوری ہی قبول کی جا سکتی ہے۔ عزیزم مہدی کی بات بھی درست ہے۔
میں اسکو دوبارہ لکھ کر آپ کو دکھاؤں گی ۔ آپ دیکھیے گا ۔۔
 

واسطی خٹک

محفلین
رونق گئی فراق میں بچھڑا تو شام تھی
تم تو گیا شباب مری زندگی کا ہو

اس شعر کے علاوہ تمام شعروں کی ردیف میں "کا" بیان کے اعتبار سے غلط ہے۔ "کے" ہونا چاہیے۔ اور اس شعر میں بچھڑا کی جگہ بچھڑے ٹھیک ہے۔ اور اس کے بعد تعقید لفظی کی بات آتی ہے۔
سب سے برا اسی میں لگتا ہے
 
Top