تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا؟ خوبصورت مقطعے

محمد وارث

لائبریرین
غزل کے ہر شعر کا اپنا ایک الگ حُسن ہوتا ہے لیکن کچھ اشعار ایسے ہوتے ہیں جو انفرادی طور پر تو خوبصورت ہوتے ہی ہیں لیکن ساری غزل کو بھی خوبصورت بنا دیتے ہیں بلکہ اس میں چار چاند لگا دیتے ہیں جیسے مطلع اور حسنِ مطلع اور مقطع۔ مطلع میں جہاں شاعر سامعین اور قارئین کی توجہ حاصل کرتا ہے وہیں مقطع میں ایسی ہنر مندی سے اپنا تخلص لاتا ہے کہ پڑھنے اور سننے والے عش عش کر اٹھتے ہیں، مقطع ایک طرح سے شاعر کے دستخط یا مہر ہوتی ہے اور کچھ شعراء نے تو بہت خوبصورتی سے اپنے تخلص کو اپنی شاعری میں اسستعمال کیا ہے جیسے مومن خان مومن و داغ وہلوی وغیرہ۔

اس تھریڈ میں ایسے ہی خوبصورت مقطعے پیش کیے جائیں گے، احباب سے استدعا ہے کہ وہ بھی یہاں مقطعے پوسٹ کریں، ایک بات یہ کہ مقطعوں کے ساتھ شاعر کا نام لکھنے کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن اردو شاعری میں کئی ایک شاعروں کے تخلص ایک جیسے ہیں جیسے انشاءاللہ خان انشاء اور ابنِ انشا، حکیم ناصر اور ناصر کاظمی، مرزا اسد اللہ خان غالب اور اسد ملتانی، سراج الدین ظفر اور بہادر شاہ ظفر، مولانا حسرت موہانی اور چراغ حسن حسرت، جوش ملیح آبادی اور جوش ملسیانی، محسن نقوی اور محسن بھوپالی اور محسن احسان وغیرہ، ایسی صورت میں بہتر ہے کہ شاعر کا مکمل نام بھی ساتھ لکھ دیا جائے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سر نامے میں داغ کی جس غزل کا مصرع ہے اسی کے مقطعے سے ابتدا کرتا ہوں:

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
خودی کا نشّہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

(مطلع میں تخلص استعمال کرنے کی ایک خوبصورت مثال)
 

محمد وارث

لائبریرین
خیالِ زلف دو تا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

(شاہ نصیر، مطلع میں تخلص استعمال کرنے کی ایک اور مثال، بلکہ اس شعر میں تو تخلص بطور قافیہ بھی آیا ہے)
 
Top